عورتیں خود اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہیں

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


عورتیں خود اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہیں

’’قوامون‘‘ کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے؟

عورت کے حق کی وکالت


سلسلۂ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاء رحمۃ اﷲ علیہ اب سے پچاس برس پہلے فرماتے تھے کہ اگلی صدی (اکیسویں صدی) میں خواتین کی بالادستی ہوگی۔ آج ہر گزرتا  دن اس قول کی سچائی کی گواہی دے رہا ہے۔ دنیا بھر میں سماجی، معاشی، سیاسی امور میں خواتین کی شمولیت میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امورِ خانہ داری، بچوں کی پرورش و تربیت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں، دفتروں، کھیتوں، فیکٹریوں میں خواتین مؤثر کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ سپہ گری خالصتاً مردانہ شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن اب فوج کے مختلف شعبوں میں بھی خواتین کی تعداد نمایاں ہوتی جارہی ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان میں زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی شمولیت کا تناسب روزبروز بڑھ رہا ہے۔ تعلیم، معاشی سرگرمیوں اور مملکت کے انتظام میں خواتین کی شمولیت کے حوالہ سے معاشرہ کا ایک طبقہ شدید تحفظات کا بھی شکار ہے۔ ہمارے معاشرہ میں بعض لوگ عورتوں کے بارے میں نہایت شدت پسندانہ نظریات کے حامل ہیں۔ ستم کی بات یہ ہے کہ کئی لوگ عورتوں کے بارے میں اپنے منفی نظریات کو اسلام کے لبادے میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اعمال کے اجر کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کسی تخصیص کا پتہ نہیں چلتا بلکہ ہر ایک کے لئے اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ہے۔
سورئہ آل عمران میں ہے:’’اﷲ نے ان کی دعا قبول کرلی اور فرمایا کہ میں کسی عمل کرنے والے کے وہ مرد ہو یا عورت عمل کوضائع نہیں کرتا‘‘۔
سورئہ النساء میں ارشاد ہوتا ہے:’’اور جو اچھے کام کرے گا وہ مرد ہو یا عورت اور وہ صاحبِ ایمان بھی ہو تو ایسے لوگ (یعنی ایسے مرد اور عورتیں) بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی تِل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی‘‘۔
سورئہ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے:
تحقیق مسلمان مرد اورمسلمان عورتیں۔ اور ایمان دار مرد اور عورتیں۔ اور بندگی کرنے والے مرد اور عورتیں۔ اور سچے مرد اور سچی عورتیں۔ اور اﷲ کے آگے جھکنے والے مرد اور عورتیں۔ صابر مرد اور صابر عورتیں۔ اور خیرات کرنے والے مرد اور عورتیں۔ اور روزہ رکھنے والے مرد اور عورتیں۔ اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں۔ اﷲ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور عورتیں۔ اﷲ نے اُن کے واسطے مغفرت اور بڑا درجہ رکھا ہے۔
عورت کے بارے میں قدیم یونان اور اس وقت کے دیگر معاشروں میں شدید تنگ نظری پائی جاتی تھی۔ ایامِ جاہلیت کے عرب معاشروں میں بھی عورت کو نہایت کمتر مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ بعض عرب قبائل میں تو باپ اپنے ہاں بیٹی کی ولادت پر اس قدر شرمسار ہوتا تھا کہ اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے زندہ زمین میں دفن کردیا کرتا تھا۔ اسلام نے عورت کو بھرپور عزت و توقیر اور تحفظ عطافرمایا۔ قرآن اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلٖہ وسلم کی جانب سے عورتوں کو عطا کردہ حقوق عورتوں کی کسی جدوجہد یا مطالبات کے جواب میں نہیں تھے بلکہ یہ عورت کو انسانی وجود کا برابر کا حصہ قرار دے کر عطا کئے گئے تھے۔ اسلام نے عورت کو کمتر یا حقیر قرار نہیں دیا بلکہ ہمیشہ عورت کی عزت و تکریم کا اہتمام کیا۔ لیکن بدقسمتی سے آج کے مسلمان معاشروں میں بھی بعض لوگ عورت کو ایک عضؤ معطل اور مرد کا مکمل طور پر محتاج بنائے رکھنے کے حامی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بہت سی عورتیں بھی قرآن اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلٖہ وسلم کی جانب سے عطا ہونے والے حقوق کا صحیح فہم نہیں رکھتیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت سی عورتیں خود اپنے اسلامی حقوق سے آگاہ نہیں ہیں۔
قرآن نے کسی بھی جگہ یہ نہیں کہا کہ عورتیں مردوں سے کمتر ہیں۔ صنفی لحاظ سے مرد و عورت کی تقسیم نسلِ انسانی کی بقاء اور تہذیب کے ارتقاء کے لئے ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت دار وہ ہے جو زیادہ متقی ہے‘‘۔ (سورئہ الحجرات۔ 13)
عورتیں مردوں سے کمتر نہیں ہیں ہاں بعض معاملات میں عورتیں مردوں سے مختلف ضرور ہیں۔ لیکن یہی کیوں کہا جائے کہ عورتیں مردوں سے مختلف ہیں۔ یہ بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ مرد عورتوں سے مختلف ہیں۔ زندگی کے بے شمار عوامل میں یہ اختلاف بہت محدود قسم کا ہے۔ تخلیقی نظام میں اپنے اپنے کام کی انجام دہی کے لئے جسمانی فرق کے علاوہ عورت کی جلد مرد کی نسبت نرم ونازک ہوتی ہے۔ عورت کا اوسط قد اور وزن مرد کے اوسط قد اور وزن سے کم ہوتا ہے اس کے علاوہ دونوں کی تخلیق اور جسمانی نظام میں کیا فرق ہے؟۔۔۔۔۔ مذہبی دانشوروں کا ایک طبقہ کہتا ہے مردوں کو عورتوں پر حاکم بناکر انہیں فضیلت دی گئی ہے ۔ ایسے لوگ اپنے اس نظریہ کی تائید میں قرآن کی ایک آیت سے استدلال لاتے ہیں۔
الرجال قوامون علی النساء بمافضل اﷲ بعضہم علی بعض وبما انفقو من اموالہمO
سورئہ النساء کی ان آیات کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا جاتا ہے:
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ اس لئے کہ اﷲ نے بعض کو بعض پر افضل بنایا ہے اور اس لئے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
اس آیت کے تین حصے کئے جاسکتے ہیں: (الف) الرجال قوامون علی النسائ۔ (ب) بما فضل اﷲ بعضہم  علی بعض۔ (ج) وبما انفقو من اموالہم۔
عربی زبان کے لفظ قوامون کا اردو زبان میں ترجمہ حاکم کیا گیا ہے۔ اس آیت میں جہاں ایک کو دوسرے پر فضیلت کا ذکر ہے وہاں صرف یہ مطلب نکالا گیا ہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے۔ حالانکہ زندگی میں بے شمار مقامات ایسے آتے ہیں جہاں پر اسلام نے عورت کا رتبہ اس قدر بڑھا دیا ہے کہ مرد اس تک پہنچ ہی نہیں سکتا ۔ خاص طور پر جب عورت کا کردار بحیثیت ماں کے زیرِ بحث آتا ہے۔ عورت کی بحیثیت ماں اس قدر فضیلت بیان ہوئی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ اس آیت میں فضیلت کا ذکر اگر مرد کے لئے سمجھا جائے گا تو یہ مطلق فضیلت نہیں ہے بلکہ مرد کے کسی کردار سے منسلک اور مشروط ہے۔ بصورتِ دیگر اس کا اطلاق مختلف اوقات میں مختلف انسانوں یعنی کبھی مرد اور کبھی عورت پر ہوسکتا ہے۔
اس آیت میں آگے وہ سبب بھی بیان ہو رہا ہے جسے مرد کی فضیلت سے منسلک قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
مال خرچ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مال پاس ہو۔ مال پاس ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مال کمایا جائے، مال کمانے کے لئے گھر سے باہر نکل کر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ مرد گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے محنت و مشقت کرکے مال کماکر لاتا ہے۔ اس طرح اس کا یہ حق بنتا ہے کہ گھر کے معاملات اس کی رائے یا اس کی مرضی کے مطابق چلائے جائیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی مرد گھر کی کفالت کے لئے اپنی معاشی ذمہ داریاں پوری نہیں کرنا چاہتا اور  مجبوراً اس کی بیوی، بیٹی یا بہن کو معاش کے حصول کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔۔۔۔۔ تو پھر بھی اس کی فضیلت گھر میں قائم رہے گی؟۔۔۔۔۔بعض گھروں میں ایسی صورت حال پیش آسکتی ہے کہ گھر کے کفیل مرد کا انتقال ہوجائے یا وہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر کہیں چلا جائے اور بچوں کی پرورش کی تمام تر ذمّہ داری ماں پر آ پڑے۔۔۔۔۔ اس ماں کے پندرہ سولہ سال کے لڑکے ہوں جو تعلیم حاصل کر رہے ہوں کیا ایسے گھر میں سرپرست ماں ہوگی یا مرد ہونے کی وجہ سے اس ماں کے لڑکے گھر کے سرپرست قرار پائیں گے؟۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ گھریلو معاملات ، بچوں کے رشتہ ناطوں کا فیصلہ وہ لڑکے نہیں بلکہ ان کی ماں ہی کرے گی۔
اس آیت میں لفظ ’’قوامون‘‘ کا مطلب حاکم سمجھ لیا گیا ہے جبکہ عربی زبان کی لغات میں قوامون کے معنی ہیں دوسرے کی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کا ذمہ دار۔ عربی زبان کی لغت المنجد میں قوام کے یہ معنی بتائے گئے ہیں ’’خوبصورت قد والا، معاملہ کا ذمہ دار وکفیل، معاملہ کی ذمہ داری کو پورا کرنے پر قادر‘‘۔ قواّم کی جمع قوّامون ہے۔ ان معانی کو سامنے رکھتے ہوئے اس آیت میں غور کیا جائے تو ایک بالکل ہی مختلف صورتحال سامنے آتی ہے۔ بجائے اس کے مرد کو عورت پر حاکم قرار دے کر عورت کے درجہ کو مرد سے کم سمجھا جائے یہاں تو عورت کی سہولت کے لئے اس کے حق کی وکالت کی جارہی ہے۔ گھریلو زندگی کے حوالہ سے اس بات کی بہت اہمیت ہے۔ گھر کا نظام چلانا مرد اور عورت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بچوں کی پرورش و نشوونما اور گھر کی دیکھ بھال عورت کے ذمہ ہو تو اخراجات کی فراہمی سے بری الذّمہ رہنا اس کے لئے بہتر ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں اپنی بیوی اور بچوں کے لئے اور گھر کے دوسرے زیرِ کفیل افراد کے لئے معاش کے حصول کے لئے دوڈ دھوپ اور وسائل کی فراہمی مرد کے ذمہ قرار دی گئی ہے۔
الرجال قوامون علی النسائ۔
مرد عورتوں کے لئے ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔۔۔۔۔ 
اور ایسا کرکے مرد عورت پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ عورت گھر کے اندر کی ذمہ داریاں ادا کرکے اپنا کردار اداکرتی ہے۔۔۔۔ اور مرد گھر کے باہر کی ذمہ داریاں ادا کرکے اپنا کردار  ادا کرتا ہے۔
اب ان آیات کی ترجمانی اس طرح ہوسکتی ہے کہ عورتوں کے لئے وسائل مہیا کرنے اور ان کے امور کی دیکھ بھال مردوں کی ذمہ داری ہے، کیونکہ اﷲ نے ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے۔ (اور فضیلت کیوں ہے؟) اس لئے کہ وہ (یعنی مرد) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گھر کے باہر کام کاج یا مال کمانا صرف مرد کا حق نہیں قرار دیا گیا عورت اگر چاہے تو وہ بھی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے کر مال کماسکتی ہے۔ لیکن ایسی صورتِ حال میں اسلام نے عورت کو مرد پر فضیلت دی ہے۔ وہ اس طرح کہ گھر کے اخراجات کی فراہمی مرد کے ذمہ لگائی گئی ہے لیکن عورت کے لئے ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ عورت اگر اپنی کمائی میں سے مرد کو ایک پیسہ بھی نہ دے تو مرد کا اس پر کوئی دعویٰ نہیں ہے۔
سورئہ النساء میں ہے:
’’مرد جو کچھ کمائیں ان کا حصہ ہے۔ اور عورتیں جو کچھ کمائیں وہ ان کا حصہ ہے‘‘۔
سورئہ النساء میں فضیلت کے اس مشروط اعلان کے علاوہ کہیں بھی عورت پر مرد کی مطلق حاکمیت کا کوئی فرمان قرآن میں نہیں ملتا۔
آئیے ہم سب مل کر اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں۔
ربنا لا تو اخذنا ان نسینا او اخطانا O
اے ہمارے رب ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائے ان پر ہماری گرفت نہ کر۔آمین!



[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، ستمبر 2003ء ]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے