حق الیقین

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی
کتاب حق الیقین اصلاح معاشرہ اور بیداریٔ شعور کے ضمن میں ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شایع ہونے والے آپ کے کالم کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے خیالی تجریدی یا فلسفیانہ فضا سے ہٹ کر زمانہ ٔ حال کی روز مرہ زندگی اور مسائل کو سامنے رکھا ہے۔ مسلم معاشرے میں مغرب سے مرعوبیت یا مغلوبیت کے اسباب۔ انفرادی اور اجتماعی فکر کی اصلاح۔ ردّ عمل کے بجائے عمل کی نفسیات پر توجہ۔ معاشرے کی تبدیلی کے لئے اجتماعی جدوجہد کی ضرورت۔ دعاؤں کی قبولیت اور عدم قبولیت۔ ہمارے معاشرتی روّیے اور اُن کے سُدھار کے طریقے۔ خواتین کے حقوق۔ عمل اور نیت۔ اولاد کی صحیح پرورش اور تربیت، مذہب اور سائنس ۔ یہ وہ چند موضوعات ہیں جن پر ''حق الیقین'' میں زور دیا گیا ہے۔ طرزِ تحریر شگفتہ، زبان سادہ اور دل نشین، استدلال روز مرہ کی زندگی اور حالیہ تاریخ سے بھی پیش کئے گئے ہیں۔


==مکمل کتاب پڑھیں==


فہرست

----

مضامین

خواجہ شمس الدین عظیمی

شیش محل

پروفیسر سحر انصاری

چند تاثرات

وقار یوسف عظیمی

پیش لفظ

-----

-----

-اپریل 2004ء-

مرعوب و مغلوب قوم

-فروری 2002ء-

فروغ اسلام کی بنیاد

-اگست 2002ء-

تضادات کا اجتماع

-مارچ 2002ء-

قوموں کی کامیابی کا راز

-مئی 2003ء-

ایک عظیم نعمت

-جنوری 2003ء-

خانۂ کعبہ کے سامنے

-فروری 2004ء-

دین الگ دنیا الگ

-دسمبر 2004ء-

پاکستان میں جہالت و مفلسی کیوں ہے

-جون 2002ء-

قوموں کے لئے قدرت کے اصول

-نومبر 2002ء-

علم کیا ہے۔ قلم کا کیا مطلب ہے

-جولائی 2002ء-

قوم کو سمجھنے کے آسان طریقے

-اگست 2004ء-

پاکستانیوں کی صفات

-ستمبر 2003ء-

عورتیں خود اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہیں

-اکتوبر 2003ء-

عورت کی گواہی آدھی ہوتی ہے؟

-جون 2004ء-

سورۂ احزاب میں بیان کردہ دس صفات

-ستمبر 2002ء-

تقویٰ کیا ہے

-اکتوبر 2004ء-

انسان کی سوچ اس کی اصل شخصیت ہے

-اکتوبر 2001ء-

حالات کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی

-مئی 2004ء-

ذہنی ارتقاء کے چار درجات

-نومبر 2001ء-

دشمن کا کام کیا ہوتا ہے؟

-جولائی 2001ء-

غربت و محرومی قسمت میں لکھی ہوئی ہے؟

-اگست 2003ء-

روٹی ، کپڑا، مکان میسر ہونے کے باوجود

-اکتوبر 2002ء-

اپنی ذات کے تسلسل کا احساس

-اگست 2001ء-

تصویر کے دو رُخ

-جنوری 2002ء-

امام سلسلہ عظیمیہ

-جنوری2004ء-

دربارِ رسولﷺ میں حاضری کے آداب

==============================================================

شیش محل

خواجہ شمس الدین عظیمی

بتایا جاتاہے کہ اس وقت دنیا میں چھ ارب آدمی بستے ہیں۔ یہ چھ ارب آدمی دنیا کے مختلف خطوں میں کنبوں ، برادری اور قوموں میں تقسیم ہیں۔ زمین کے مختلف خطوں میں مختلف موسموں کی تبدیلی کی وجہ سے قوموں کے مزاج بھی الگ الگ ہیں۔ قوموں کا شعور یا تومحدودہوتا ہے یا ہمہ گیر ہوتا لیکن بحیثیت آدم زاد ایک شعور سب میں یکساں ہے۔ مثلاً سننا ، بولنا، چھونا، دیکھنااورسونگھنا۔ یہ پانچ حواس پیدائش کے بعد بتدریج ارتقاء کرتے ہیں۔ چھ ارب آدمیوں میں ایک فردِ واحد بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ پیدائش کے فوراً بعد پہلے دن کے بچے میں یہ پانچوں حواس متحرک نہیں ہوتے، جب کہ حواس کے ذرائع موجود ہوتے ہیں۔
ایک دن کے بچے میں سماعت کے لئے کان، بصارت کے لئے آنکھیں ، سونگھنے کے لئے ناک ، چکھنے کے لئے زبان او ر چھونے کے لئے ہاتھ ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اُسی مناسبت سے یہ ذرائع Activeہوجاتے ہیں۔
ایک دن کے بچے کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ مسلم کے گھرانے میں پیدا ہوا ہے یا ہندو کے گھرانے میں، عیسائی یا یہودی خاندان میں۔ بچہ جس قسم کے ماحول میں رہتا ہے ماحول کے تاثرات اس کے ذہن پر نقش ہوتے رہتے ہیں۔ اگر اسے اچھا ماحول فراہم ہو گیا تو وہ اچھا آدمی بن جاتا ہے اور اُس نے بُرے ماحول میں پرورش پائی تو اس کے اعمال و افعال بُرے بن جاتے ہیں۔
ہم اس امر کی عقدہ کشائی کرنا چاہتے ہیں کہ عالمِ نادیدہ سے عالمِ دیدہ میں آنے والا بچہ شعور کے ذرائع تو رکھتا ہے لیکن شعور ی واردات و کیفیات سے واقف نہیں ہوتا۔ اس بات کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ بچہ جس ماحول میں پروان چڑھتا ہے ، بچپن، لڑکپن گزار کرجوان ہوتا ہے ۔ پچاس سے زیادہ فی صد بچے کے زندگی میںماحول کااثر مرتب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگ اس طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ بچوں کی تربیت کے لئے والدین کی اصلاح و تربیت اور ماحول کو برائیوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ 
جب ہم دنیا کی بساط پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ ساری دنیا دراصل گروہی تقسیم ہے اور اس گروہی تقسیم کی بنیاد پر ہی انسانی معاشرہ قائم ہے۔ اگر دنیا میں گروہی تقسیم نہ ہو تو کاروبار ِ حیات نہیں چلے گا۔گروہی تقسیم کے افراد کی کاوشوں ، جدوجہد اور فکری معاونت سے دنیا کا نظام جاری و ساری ہے۔ خاندان اور قبیلوں کے تعارف میں بھی یہی عمل کار فرما ہے۔
گروہ ایک ہو یا پچاس ہوں، خاندان سینکڑوں ہوں یا ہزارہوں ، قومیں کتنی بھی ہوں، ہر خاندان ہر قبیلہ ہر قوم اپنی شناخت رکھتی ہے اور یہ شناخت اسے ماحول سیء منتقل ہوتی ہے۔ جب ہم پیدا ہوتے ہیں اور ہماری عمر بارہ گھنٹے یا ایک دن ہوتی ہے اُس وقت زمین پر ہمارے لئے ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ مثلاً سونے کے لئے زمین، استراحت کے لئے ماں کی گود ، غذا کے لئے ماں کا سینہ اور بھرا ہوا دودھ ،زندہ رہنے کے لئے ہوا میں آکسیجن ، سورج کی تمازت، فضا میں شامل تمازت کی وجہ سے حرارت ، بولنے ، سننے اور افہام و تفہیم کے لئے افراد ، تنہائی دور کرنے کے لئے والدین ،بہن ، بھائی، قریبی رشتے دار، سب اپنا اپنا کردار پورا کرتے ہیں۔
ہر مذہب میں یہ طریقہ مسلسل رائج ہے کہ پیدائش کے بعد بچے کے کان میں آذان دی جاتی ہے، سنکھ پھونکا جاتا ہے، گھنٹی بجائی جاتی ہے، بپتسمہ (Baptize)دیا جاتا ہے یا کوئی دعا پڑھی جاتی ہے ۔ یہ عمل بچے کے ذہن پر پہلا نقش ہوتا ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بچے کے شعور میں پہلا نقش یہ بنایا جاتا ہے کہ بچہ با عمل اور باکردار ہو۔ برائیوں سے اسے بچا جائے۔ فساد اور خرابیوں کی کوئی تحریر اس کے ذہن پر مرتسم نہ ہو لیکن تجربہ اس کے برعکس ہے۔وہ بچہ جس کے ذہن میں پہلا نقش نیکی کا بنا وہ بچہ ماحول کے زیر اثربرائیوں کو زیادہ قبول کرلیتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ بھی ہے ، بچہ کے ذہن میں جس شخصیت کا پہلا نقش بنتا ہے وہ خود با عمل اور باکردار نہ ہو۔اگر ایک ایسا شخص بچے کے کان میں آذان دے اور وہ خود آذان کے حکمت اور تفہیم سے واقف نہ ہو تو اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بھی بے روح اور بے جان ہوتے ہیں۔
حضور پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے ماں باپ اُسے ہندو اور مسلمان بنادیتے ہیں۔‘‘ یہ بھی ارشاد ہے کہ بچوں کے نام نیک اور صالح بزرگوں سے رکھوانے چاہئے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ نام رکھنے والے کی نیک عادات اور صالح طرز فکر نام کے ساتھ بچے کے اندر دور کرتی رہتی ہیں۔
حکیم وقار یوسف عظیمی ایڈیٹر روحانی ڈائجسٹ حـق الیقین کے عنوان سے روحانیِڈائجسٹ میں ہر ماہ مضمون لکھتے ہیں۔
اس کتاب میں حق الیقین کے عنوان کے تحت لکھے گئے 26مضامین شامل ہیں۔ وقار یوسف عظیمی کی تحریر میں جو Approachہے اس کے پس منظر میں بھی گروہی تقسیم کا عکس نمایاں ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں اس کو پیدائش کے بعد ہسپتال سے گھر لایا تو گھر میں حضور قلندربابا اولیائؒ کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔قلندر بابا اولیائؒ نے گود میں لے کر اس بچے کو سینے سے لگایا۔ سینے سے لگانے میں اتنی محبت تھی کہ وقاریوسف محبت کی اس شدت کو برداشت نہیں کر سکا اور مغلوب ہو کر گہری نیند میں سو گیا۔ میں نے دیکھا کہ حضور قلندربابااولیائؒ کے چہرے پر تشویش پھیل گئی اور انھوں نے فرمایا’’ احتیاط کرنی چاہئے تھی۔‘‘ پھر وہ اسے گود میں لے کر بیٹھ گئے اور دو تین منٹ تک دم کرتے رہے۔
مجھے یقین ہے وقار یوسف کے شعور پر پہلی چھاپ قلندر بابا اولیائؒ کی ہے جو کتابحقالیقین کے صفحات میں جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ وقار یوسف نام بھی حضورقلندربابااولیائؒ نے رکھا ہے۔ وقار یوسف کے بہن بھائیوں کو بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ سب کے نام حضور قلندر بابا اولیائؒ نے رکھے ہیں۔ حضور پاک کے ارشاد کے مطابق نام رکھنے والے کی صفات اس بچے میں منتقل ہوتی رہتی ہیں جس کا نام رکھا گیاہے۔ ان صفات کا کتاب حق الیقین میںجگہ جگہ مظاہرہ ہوا ہے۔
9 9 9
ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟
اس بارے میں وقار یوسف لکھتے ہیں ’’ کیا ایسا ممکن ہے کہ میڈیکل کا طالب علم خاص اوقات میں دعا کرے اور اسے Anatomyکی کتابیں ازبر ہوجائیں۔ کیا ایسا ہوجانا اﷲ کے قبضہ قدرت سے باہر ہے؟نہیں ہر گز نہیں...........مگر اﷲکے بنائے ہوئے نظام کے تحت ایسا نہیں ہوتا۔ اس لئے کسی علم کی تفہیم کے لئے اس کے تمام متعلقہ مضامین کو پڑھنا پڑتا ہے۔ محنت کرنا پڑتی ہے۔‘‘
قوموں کے عروج و زوال کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’مملکت خداداد پاکستان وہ خطہ ارضی ہے جسے اﷲ کے دوستوں اولیائے کرام وصوفیائے عظام کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنا مسکن بنایا ہے۔ پاکستان کے لوگوں نے زندگی کے جس میدان میں بھی قدم رکھا دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرایا۔ لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود قومی زندگی میں ہماری کامیابی کی شرح ہمارے بعد آزاد ہونے والے کئی ملکوں اور کئی اقوام سے بہت کم ہے۔ بچپن سال گزرجانے کے باوجود بھی کئی معاملات میں آزاد نہیں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہماری حکمت عملی ، ہماری ترجیحات ، ہمارے اعلیٰ و ارفع مقصد سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہ اتنی بڑی غلطی تھی جس کی بدولت ایک قوم جسے امت وسط کا شرف حاصل ہونے والاتھا ایک کمزور اور مقروض قوم بن گئی۔‘‘
قانون کی بالادستی کے ضمن میں لکھتے ہیں۔
’’ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنے چاہئے کہ محض کسی قانون کا نفاظ معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ نہیں بنتا۔ قانون پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔کفار مکہ نے ایک مرتبہ رسول اﷲﷺ کو پیشکش کی کہ ہم آپﷺ کو اپنا حکمران تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں اگر محمدﷺ یہ پیشکش قبول فرمالیتے تو آپﷺ معاشرے میں اسلامی قوانین نافذ کرواسکتے تھے۔ لیکن آپﷺ نے یہ پیشکش قبول نہیں فرمائی۔ اصلاح کے لئے نفوذ کی اعلیٰ ترین صلاحیت حاصل ہوئے بغیر کسی قانون کے نفاذ سے کسی قانون کے نفاذ سے کسی معاشرے کے اعتقادات و حالات میں تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے قومی مسائل کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر محض زبان سے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا نام لیتے ہیں لیکن ہم نے اپنی عملی زندگی میں قرآنی احکامات کے عملی نفاذسے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔‘‘
الحمد ﷲ کتاب حق الیقین موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے ایسی دستاویز ہے جس میں تاریخ ، ماحولیات، اقتصادیات، ایجادات واختر اعات اور اخلاق حسنہ اور زندگی کی اعلیٰ اور اسفل صلاحیتوں کا ریکارڈ ہے۔
میں نے بچپن میں ایک شیش محل دیکھا تھا۔ جب میں شیش محل کے ایک کمرے میں داخل ہوا تو میرے اوپر حیرت طاری ہوگئی۔ میں نے دیکھا کہ نیچے بھی میری تصوریں ہیں، دائیں بھی میں ہوں، بائیں بھی میں ہوں،اوراوپر بھی میںہوں۔ یہ کمرہ اوپر نیچے دائیں بائیں آگے پیچھے آئینوں سے مرصع تھا ۔ ہر طرف ایک ہی تصویر نظر آتی تھی۔
انسان بھی ایک شیش محل ہے۔ انسان کے بارہ ، اوپر ، نیچے ، دائیں ، بائیں کچھ نہیں، سب آئینے کے اندر نظر آتا ہے۔ جب انسان کے اندر یہ آئینہ صقیل ہوتا ہے تو سب کچھ دکھائی دیتا ہے ۔جب یہ آئینہ انسان کے اندر نہیں رہتا تو وہ کوئی چیز دیکھتا ہے ،نہ سنتا ہے اور نہ ہی کسی شے کو چھو سکتا ہے۔
وقار یوسف عظیمی نے جو کچھ لکھا اپنے آئینے میں دیکھ کر لکھا ۔ اچھا لکھا اورخوب لکھا۔

اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ

دعا گو 
خواجہ شمس الدین عظیمی


========================================================================

چند تاثرات


پروفیسر سحر انصاری
سابق صدر شعبہ اُردو
جامعہ کراچی

وقار یوسف عظیمی ہمہ جہت خوبیوں کے مالک ہیں۔ وہ ایک مخلص، خوش اخلاق، ذہین اور جدید فکر کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صحافی، ایک مدیر، ایک روحانی راہ نما، ایک طبیب اور ایک ادیب بھی ہیں۔ مجھے ان کی ذاتی اور علمی زندگی کا جس قدر بھی علم ہے۔ اس کی روشنی میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اس دور میں ہمارے معاشرے کو وقار یوسف عظیمی جیسے افراد اور شخصیات کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس ایک شخص میں اتنی صفات یک جا ہوگئی ہیں ان کا سر چشمہ تو دستِ قدرت ہی ہے لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ وقار یوسف عظیمی محترم خواجہ شمس الدین عظیمی کے فرزندِارجمند ہیں اور ان کی تربیت ہی سے اس ہیرے کی موجودہ تراش خراش اور چمک دمک ممکن ہوئی ہے۔
وقار یوسف عظیمی کی تحریریں روزنامہ ’’جنگ‘‘، روحانی ڈائجسٹ اور بعض دینی اور مذہبی کتابوں کے ذریعے نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مذہب، روحانیت اور دین داری کے ساتھ ساتھ اُن کی نگاہ انسانی تاریخ کے ماضی، حال اور مستقبل پر بھی رہتی ہے۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے وہ جدید ذہن کے ساتھ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ اور تجزیہ پیشِ نظر رکھتے ہیں اور ایسے نتائج اخذ کرتے ہیں جو دوسرے ذہنوں کو بھی سوچنے سمجھنے پر مائل کرتے ہیں اور موجودہ زمانے کے مطابق سعی و عمل کی طرف راغب کرتے ہیں۔ کسی کی تحریر میں یہ وصف ہو تو اور کیا چاہیے۔
میرے ذہن میں وقار یوسف عظیمی کا یہ پس منظر موجود تھا کہ مجھے اُن کی کتاب ’’حقالیقین‘‘ کا مسودہ مطالعے اور اظہارِ رائے کے لئے ملا۔ اس کتاب میں شامل تمام تحریریں مختلف اوقات میں لکھی اور شائع کی گئی ہیں۔ تاہم ان میں ایک مرکزی نقطہ نظر یہی کار فرما ہے کہ ’’حق القین‘‘ کے بغیر ہمارے انفرادی اور اجتماعی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
مصنف نے خیالی تجریدی یا فلسفیانہ فضا سے ہٹ کر زمانۂ حال کی روز مرہ زندگی اور مسائل کو سامنے رکھا ہے۔ مسلم معاشرے میں مغرب سے مرعوبیت یا مغلوبیت کے اسباب۔ انفرادی اور اجتماعی فکر کی اصلاح۔ ردّ عمل کے بجائے عمل کی نفسیات پر توجہ۔ معاشرے کی تبدیلی کے لئے اجتماعی جدوجہد کی ضرورت۔ دعاؤں کی قبولیت اور عدم قبولیت۔ ہمارے معاشرتی روّیے اور اُن کے سُدھار کے طریقے۔ خواتین کے حقوق۔ عمل اور نیت۔ اولاد کی صحیح پرورش اور تربیت، مذہب اور سائنس ۔ یہ وہ چند موضوعات ہیں جن پر ’’حق الیقین‘‘ میں زور دیا گیا ہے۔ طرزِ تحریر شگفتہ، زبان سادہ اور دل نشین، استدلال روز مرہ کی زندگی اور حالیہ تاریخ سے بھی پیش کئے گئے ہیں۔ مثالیں وہی ہیں جو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا حصہ ہیں لیکن ان پر ہم غور نہیں کرتے۔ وقار یوسف عظیمی نے ہر مثال کا ’’کلوزاپ‘‘ اس طرح پیش کیا ہے کہ ہمیں مقامی اور عالمی تناظر سے بیک وقت آگاہی ہوجاتی ہے۔
’’حق الیقین‘‘ کی سب سے بڑی خوبی اور انفرادیت یہ ہے کہ ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے ہر رُخ کا تجزیہ قرآنی آیات کی روشنی میں کیا گیا ہے اور متعدد مسائل کا حال بھی قرآنیآیات کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔ اس طرح ہر باب ہر قسم کی جذباتیت سے پاک ہے۔ ہر بات مدلّل اور قرآنی تعلیمات کی وساطت سے کہی اور ثابت کی گئی ہے۔ یہ ایسا پیرائے بیان ہے کہ مصنف سے اختلاف کا پہلو نہیں نکلتا۔
میں وقار یوسف عظیمی کو ’’حق الیقین‘‘ جیسی کتاب موجودہ معاشرے کی نذر کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ اس کتاب کے قارئین اس کا ہر زاویہ اپنے لئے مفید پائیں گے۔


========================================================================

پیش لفظ

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

روحانی ڈائجسٹ کے قارئین کے سامنے اپنی فکر، خیالات و احساسات پیش کرنے کے لئے میں نے ایک راستہ ’’حق الیقین‘‘ کے زیرِ عنوان اختیار کیا ہے۔ ہر ماہ حق الیقین کی اشاعت پر اہلِنظر باذوق قارئینِروحانیِڈائجسٹ کی ایک بڑی تعداد اپنی تجاویز، مشوروں اور تحسین کے ذریعہ میری بھرپور حوصلہافزائی بھی کرتی ہے۔زیرِنظر کتاب حق الیقین کے زیرِعنوان شائع ہونے والے مختلف مضاین کا ایک مجموعہ ہے۔
میری اپنی بھی خواہش تھی کہ ماہ بہ ماہ شائع ہونے والے میرے یہ مضامین کتابی صورت میں یکجا ہوں تاہم اس مجموعہ مضامین کی اشاعت میں میری خواہش کے ساتھ ساتھ روحانیِڈائجسٹ کے ساتھ اخلاص و محبت کا تعلق رکھنے والے بہت سے قارئین کی فرمائشوں کا بھی بڑا حصّہ ہے۔ 
ہر لکھنے والے کا اپنے قاری کے ساتھ ایک تعلق ہوتا ہے۔ کہیں یہ تعلق ذہنی ہوتا ہے کہیں ذہنی و قلبی۔
روحانی ڈائجسٹ کے مدیرِ اعلیٰ محترم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے دل میں روحانیِڈائجسٹ اور قارئین روحانیِڈائجسٹ کے لئے محبت اور خیر خواہی کے جو جذبات ہیں، اُن سے تعلق رکھنے والے سب لوگ ان سے خوب واقف ہیں۔ 
روحانی ڈائجسٹ کو یہ امتیاز و شرف حاصل ہے کہ اس کے اکثر لکھنے والوں کا اپنے قارئین کے ساتھ ذہنی و قلبی کے ساتھ ساتھ ایک روحانی تعلق بھی ہے۔ یہ لکھنے والے اپنے دل میں قارئینِ روحانی ڈائجسٹ کے لئے بہت اخلاص اور احترام کے جذبات رکھتے ہیں۔ قارئین اس اخلاص و احترام کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے قدردان ہیں۔
روحانی ڈائجسٹ میں دینی، روحانی، معاشرتی اور دیگر موضوعات پر شائع ہونے والے مختلف فاضل قلمکاروں کے بہت سے مضامین کتابی صورت میں یکجا ہوکر علم دوست خواتین و حضرات کے بُک شیلف میں نمایاں مقام پاسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محققین اور طالبعلموں کے لئے نہایت معتبر ریفرنس کا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ 
ہمارا  ارادہ ہے کہ روحانی ڈائجسٹ میں مختلف موضوعات پر شائع ہونے والے بعض مضامین کو علیحدہ علیحدہ کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ محترم قلمکاروں میں سے چند کے شائع شدہ مضامین کی ترتیب و تدوین شروع کردی گئی ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ ہماری ان کوششوں کی کامیابی کے لئے اﷲ رب العزت کے حضور دعا فرمائیں۔ 
ہمارا یقین ہے کہ انسان کا کام کوشش کرنا ہے، کامیابی اﷲتعالیٰ عطا فرماتے ہیں۔

وقار یوسف عظیمی

اپریل2005ء




Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے