مطالعہ قرآن : حصہ سوم
سورۂ فاتحہ
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
سورہ فاتحہ قرآن کی پہلی سورۃ ہے۔ اسے فاتحتہ الکتاب یا دیباچہ قرآن بھی کہا جاتا ہے۔ سورہ فاتحہ دعا بھی ہے۔ معلم اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے پانچ وقت کی صلوٰۃ اور نوافل میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کی تاکید فرمائی ہے۔
اللہ کا کلام قرآن، معانی، مفاہیم اور تفاسیر کا وسیع و عریض سمندر اور اسرار و معارف کا لامحدود خزانہ ہے۔ اس حقیقت کا ادراک قرآن پاک کی پہلی سورۃ یعنی سورہ فاتحہ کی تلاوت سے ہی ہونے لگتا ہے۔ قرآن میں کسی مقام پر کسی لفظ کے استعمال میں علیم و خبیر اللہ کی کیا کیا حکمتیں پنہاں ہیں، یہ نکتہ واضح ہو تو علم و آگہی کے نئے نئے در کھلنے لگتے ہیں۔
آئیے....! ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ ہمیں قرآن کی تلاوت کی، قرآن کے معانی میں غور و فکر کی توفیق ملے، قرآنی آیات کے مفاہیم ہم پر واضح ہوں اور ہمیں شرح صدر عطا ہو۔ آمین
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمینO الرحمن الرحیمO مالک یوم الدینO
سورہ فاتحہ کی پہلی آیت کا اردو ترجمہ عام طور پر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
اس آیت میں اللہ کی حمد، خالق کائنات کی صفت ربوبیت کے ذکر کے ساتھ کی گئی ہے۔
صفت ربوبیت کے حوالے کی وجہ سے یہ آیت حمد بھی ہے اور انسانوں کے لیے دعوت فکر بھی.... اس دعوت فکر پر عمل کرتے ہوئے جستجو، تلاش اور تحقیق کی جائے تو آخر کار ہر سلیم الفطرت انسان خود یہ اعتراف کرلے گاکہ واقعی کوئی سب سے طاقتور، سب سے زیادہ قدرت رکھنے والی، منتظم و سرپرست ہستی اس کائنات کو چلا رہی ہے اور اس کائنات کے ایک ایک رکن کو پال رہی ہے۔
اللہ سب سے بڑا Provider اور سب سے طاقت ور Protector ہے۔
اللہ کی ربوبیت کی وسعت اور جامعیت پر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو پہاڑ جیسی حیرتوں کا سامنا ہوتا ہے....
آج ہماری اس زمین پر صرف انسانوں کی آبادی سات ارب سے زائد ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارہ (U.N.E.P) کی طویل تحقیق کے مطابق اس زمین پر معلوم اور موسوم انواع (Species) کی تعداد تقریباً اٹھارہ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ہماری زمین پر زندگی بسر کرنے والی مختلف انواع کی تعداد ایک کروڑ سے پانچ کروڑ تک ہوسکتی ہے۔2011ء کی ایک رپورٹ کے مطابق انواع کی تخمینی تعداد ستاسی لاکھ ہے۔*3
ہر نوع کے ارکان (نر و مادہ) کی تعداد کو شمار کیا جائے تو ان سب کی تعداد تو کھربوں سنکھوں میں ہوگی۔
یہ اس زمین پر آبادمخلوقات کی انواع اور ان کے ارکان کی اب تک معلوم تعداد کے کچھ اندازے ہیں۔
ایک تازہ دریافت کے مطابق اس کہکشانی نظام میں ہماری زمین سے مشابہ سیاروں کی تعداد 8.8 ارب سے زائد ہے۔*4
یعنی آج اس دنیا میں جتنے انسان بستے ہیں، کہکشانی نظام میں صرف زمین (Earth) سے مشابہ سیاروں کی تعداد ہی نوع انسانی کی موجودہ تعداد (سات ارب)سے زیادہ ہے۔
اب تک کی معلومات کے مطابق ہمارا نظام شمسی آٹھ سیاروں عطارد (Mercury)، زہرہ (Venus)، زمین(Earth) ، مریخ (Mars) ، مشتری (Jupiter)، زحل (Saturn) ، یورینس (Uranus)، نیپچون (Neptune)اور 173 ذیلی سیاروں (Moon) پر مشتمل ہے۔ ہم زمین پر رہتے ہیں ۔ زمین سورج سے چودہ کروڑ چھیانوے لاکھ کلومیٹرفاصلے پر ہے۔ ہماری زمین کا ایک چاند(ذیلی سیارہ) ہے۔
مشتری (Jupiter) کے ذیلی سیاروں یعنی مشتری کے چاند کی تعداد 67 ہے۔ سورج کے گرد گھومنے والے مختلف سیاروں (Planets)کے چاند کی (تا حال معلوم)تعداد اس طرح ہے۔
زمین ایک چاند، مریخ دو چاند، نیپچون 14 چاند، یورینس 27 چاند، زحل 62 چاند، مشتری 67 چاند،
زہرہ اور عطارد کے گرد کوئی چاند نہیں دیکھا گیا۔
ہمارے نظام شمسی میں مندرجہ بالا کے علاوہ پلوٹو (Pluto) ، سیریس (Ceres) ، میکمکے (Makemake)، ایرس (Eris)،ہاؤمیا (Haumea) بھی سیاروں کی طرح سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں البتہ اپنے چھوٹے حجم کی وجہ سے انہیں سیاروں میں شمار نہیں کیا جاتا۔
اس کائنات میں کئی کہکشائیں (Galaxies)موجود ہیں۔ ماہرین فلکیات نے ان کہکشاؤں کو مختلف نام دیے ہوئے ہیں۔ ہمارا نظام شمسی کہکشاں Milky Way Galaxy کا حصہ ہے، اس کہکشاں میں ستاروں کی (صرف ستاروں کی) تعداد 200 ارب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ہماری کہکشاں (Milky Way)سے قریب ترین دوسری کہکشاں کا نام اینڈرو میڈا (Andromeda) ہے۔ ہماری زمین جس نظام شمسی کا حصہ ہے اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی جیٹ طیارے میں 500 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مسلسل سفر کیا جائے تو نظام شمسی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے کے لیے ساڑھے تین ہزار سال سے زیادہ وقت لگےگا۔
عالمین کے انتہائی اختصار کے ساتھ اس ذکر کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ الحمد اللہ رب العالمین میں حمد کا مطلب کیا ہے....
ہم حسین قدرتی مناظر دیکھتے ہیں۔ پہاڑ، دریا، صحرا، سرسبز میدان، جھیلیں، آبشار اور دیگر حسین مناظر دیکھ کر دل و زبان سے بےاختیار خالق کی تعریف بیان ہوتی ہے۔
انسانوں کی بنائی ہوئی چیزوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ ہم کوئی بہت اچھی عمارت دیکھیں، فن مصوری کا کوئی شاہکار دیکھیں، کوئی ادبی شہ پارہ پڑھیں تو بےاختیار اس کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ جس چیز کی آپ تعریف کر رہے ہوں اس کا کوئی فائدہ بھی آپ کو مل رہا ہو۔ آپ نے ایک بہت اچھی تخلیق دیکھی، آپ نے کہا سبحان اللہ.... ماشاء اللہ
ایک صاحب بہت خوش اخلاق مشہور ہیں لیکن آپ کا ان سے کبھی کوئی واسطہ نہیں پڑا۔ آپ تک ان کی اچھی شہرت پہنچی تو آپ نے بھی ان کی تعریف کی۔ کسی ضرورت کے تحت ان صاحب سے واسطہ پڑا تو وہ آپ کے کام آئے۔ اب آپ ان کی تعریف کرنے کے ساتھ ان کا شکریہ بھی ادا کریں گے۔
کسی کی اچھی صفات کو، اعلیٰ اوصاف کو بیان کرنا اس کی تعریف کہلاتا ہے۔ کسی سے فیض پایا جائے تو اس کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔
ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ دیکھیں کہ جب ہم الحمداللہ کہیں گے تو اس کے کیا معنی ہوں گے....؟
اس کا ایک معنی یہ ہوگا کہ اللہ نے اتنی شاندار کائنات بنائی.... سبحان اللہ۔ یہ اللہ کی ہی قدرت ہے۔ اللہ ساری کائنات کا خالق ہے اور مالک ہے۔
لیکن .... جب ہم اللہ کی تعریف اس کی کسی صفت کے ساتھ کرتے ہیں مثلاً الحمد اللہ رب العالمین کہتے ہیں تو دراصل اللہ کے نظام سے اپنے استفادے کا اقرار بھی کر رہے ہوتےہیں۔
رب کا مطلب ہے پالنے والا تو الحمد اللہ رب العالمین کہتے ہوئے دراصل میں اپنے پالنہار، زندگی گزارنے کے تمام وسائل عطا کرنے والی ہستی اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں۔
اس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے ‘‘الحمد اللہ رب العالمین ’’کے معانی تلاش کریں تو یہ کچھ اس طرح سامنے آتے ہیں۔
اللہ کے لیے حمد اور شکر جو سب عالمین کا رب ہے۔
واضح رہے کہ کسی کی عطا پر شکر گزار ہونا محض لفظی شکریہ ادا کرنا نہیں ہوتا بلکہ حقیقی شکر گزاری میں احسان مندی بھی پنہاں ہوتی ہے۔ ہر اچھا شخص کسی کا احسان مند ہوگا تو وہ اس کےسامنے انکساری بھی اختیار کرے گا۔ واضح ہوا کہ کسی سے فیض ملنے پر آدمی اس کا شکر گزار ہوتا ہے۔ شکر گزاری سے احسان مندی اورانکساری بھی منسلک ہیں۔
اللہ نے ہمیں یہ زندگی عطا کی ہے۔ زندگی کو اچھی طرح بسر کرنے کے لیے زمین پر بے انتہا وسائل عطا کیے ہیں۔ ان وسائل کو اچھی طرح برتنے کے لیے عقل عطا فرمائی ہے۔ انسان کو اچھائی برائی میں فرق کی سمجھ ودیعت فرمائی۔
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَاO
]سورۂ والشمس (91) : آیت 8]
زندگی کا سفر صحیح راہوں پر گزرے اس کے لیے اللہ نے انبیاءعلیہم السلام اور کتابوں کے ذریعے رہنمائی عطا فرمائی ہے۔
زندگی کے معاملات، رشتے ناطے، معیشت و معاشرت انسانوں کے لیے آسودگی، خوشی اور سکون کا ذریعہ ہوں اس کے لیے اللہ نے اپنی رحمتیں نازل فرمائی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے احساس اور اعتراف کے ساتھ اللہ کی تعریف بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا بندہ دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار اور احسان مندہے۔
اس انتہائی مختصر بیان سے الحمد اللہ رب العالمین.... کا مفہوم یہ سامنے آیا کہ سب تعریفیں اور بے انتہا شکر اللہ کے لیے ہے، جو کائنات کے ایک ایک رکن کو پال رہا ہے۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے
الرحمن الرحیمO
رب العالمین کی تعریف اور شکر کے ساتھ یہاں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا دو الگ صیغوں الرحمن الرحیم میں ذکر بھی قرآن کے قاری کے لیے ایک بڑی دعوت فکر ہے۔
اس مقام پر صفت رحمت کا ذکر ایک اہم تکوینی رمز کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ یہاں الرحمن الرحیم کے ذکر سے یہ امر واضح ہورہا ہے کہ اللہ کی صفت ربوبیت میں رحمت کا غلبہ ہے۔ یہ عظیم، بابرکت، مقدس سورۃ ہمیں یہ آگہی عطا فرما رہی ہے کہ کائنات کی تخلیق، اس کی تنظیم اور تدبیر میں از ابتداء تا انتہا اللہ کی رحمتیں غالب ہیں۔ اس کائنات کی ہر تخلیق میں اللہ کی صفتِ رحمت کام کر رہی ہے۔(الرحمٰن الرحیم کی کچھ شرح آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں)
اس کے بعد ذکر ہوتا ہے:
مالک یوم الدینO
قرآن پاک میں دین کا لفظ 101 مرتبہ اور یوم 475 مرتبہ بیان ہوا ہے۔ دین کا لفظ قرآن میں کئی معنوں کے لیے استعمال ہواہے۔
سورہ فاتحہ میں مالک یوم الدین کا مطلب ہے قیامت کے دن کا مالک.... وہ دن جب حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس دنیا میں زندگی بسر کرکے موت کا ذائقہ چکھنے والے آخری انسان تک، سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اپنے کاموں کا جواب دینا ہے۔ یہ جو حتمی فیصلوں کا دن ہے اس کا مالک کوئی اور نہیں صرف اور صرف اللہ ہے۔
فیصلے کے اس دن۔
يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ Oفَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُO وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُO
(سورہ الزلزال (99) : آیات: 6-7-8)
ترجمہ: اس دن لوگ گروہ در گروہ آکر اپنے اعمال دیکھیں گےتو ہر ایک اپنی چھوٹی سے چھوٹی نیکی دیکھ لے گا اور ہر ایک اپنی چھوٹی سے چھوٹی برائی دیکھ لے گا۔
اللہ تعالیٰ کے نظام میں کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا جاتا۔ اللہ اپنے بندوں پر کبھی ظلمنہیں کرتا۔
وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِO
ترجمہ: اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
[سورۂ آل عمران (3) :از 182 ]
یوم الدین میں یعنی قیامت کے دن کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَO
ترجمہ: اور ہر نفس کو اس کے اعمال کا بدلہ ملے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
[سورۂ آل عمران (3) :از 25 ]
قدرت کا وضع کردہ جواب دہی کا نظام اس دنیا میں بھی وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ مکافات عمل کی صورت میں ہم اپنے کئی اعمال کا نتیجہ یہیں دیکھ لیتے ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب وہ شخص آخرت میں جواب دہی سے بری الذّمہ ہوگیا۔
‘‘یوم الدین’’ انسان کے اس زمین پر گزارے ہوئے وقت اور اعمال کے احتساب کا، عدل کا اور انصاف کا دن ہے۔ آخرت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
حکمرانی اور عدل و انصاف کے لیے اختیار اور طاقت ضروری ہے۔ اللہ خالق ہے اور اپنی تخلیق کردہ وسیع و عریض کائنات پر بادشاہی کے لیے ہر طرح کی طاقت اور اختیار رکھتا ہے۔ اللہ مالک ارض و سموات ہے۔ اللہ قوی ہے۔ اللہ عزیز ہے۔ اللہ جبّار ہے....
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جو حکومتیں یا ادارے نفاذ قانون اور انصاف کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان میں اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے نافذ کرواسکیں۔ اگر کوئی عدالت اور اس کے پیچھے موجود ریاست اپنے فیصلے نافذ نہیں کرواسکتی تو ایسی عدالت غیر موثر سمجھی جاتی ہے اور ایسے معاشرے تنظیم کے بجائے انتشار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اگر عدلیہ کے پیچھے موجود حکومت طاقتور ہو اور آئین و قانون کی پابند ہو تو بڑی عدالت تو ایک طرف چھوٹی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل کے لیے بھی ساری ریاست کمر بستہ ہوجاتی ہے۔
مالک یوم الدین سے پہلے، اللہ کی رحمت کا ذکر ہورہا ہے۔ اس سے پہلے اللہ کی ربوبیت کا ذکر ہوا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پالنے کے لیے شفقت ضروری ہے۔ مخلوقات کو پالنے کے حوالے سے تو الرحمن الرحیم کا ذکر برمحل معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد ذکر ہورہاہے۔
فیصلے اور انصاف کے دن کا مالک۔
دیکھیے....! انصاف کے لیے تو طاقت اور جبر درکار ہے۔
اپنے اثرات اور نتائج کے اعتبار سے انصاف درحقیقت کیا ہے....؟ یہ سمجھنے کے لیے ہم اپنے ملک اور بعض دوسرے ممالک سے چند مثالیں لیتے ہیں۔
پاکستان میں سڑکوں پر بےہنگم اور غیر منظم ٹریفک کا ہر روز مشاہدہ ہوتا ہے۔ سرخ اشارے پر نہ رکنا ہمارے ہاں عام ہے۔ ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے نتیجے میں ہر سال بڑی تعداد میں لوگوں کا جاں بحق یا زخمی ہوجانا یا دوسرے نقصانات اٹھانا ہمارے ہاں عام سی باتیں تصور کی جاتی ہیں۔ آپ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، فیصل آباد، ملتان وغیرہ سے دو ڈھائی گھنٹے کی فلائٹ کے ذریعے متحدہ عرب امارات چلے جائیں وہاں کوئی ڈرائیور آپ کو سرخ اشارے کی خلاف ورزی کرتا نظر نہیں آئے گا۔ وہاں رات کو تین چار بجے، سنسان راستوں پر بھی کوئی ڈرائیور سرخ اشارے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ یہ مشاہدات کئی عرب ممالک، یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور قانون کی پابندی کروانے والے دوسرے کئی ممالک میں عام ہیں۔
ٹریفک کی تو محض ایک مثال ہے ۔ہم اپنے ملک کے کئی معاملات میں قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی دیکھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کیوں ہے....؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ جن ممالک میں قوانین کی پابندی کی جاتی ہے وہ کیوں کر ہوتیہے....؟
جواباً عرض ہے کہ پاکستان میں قانون کے نفاذ کا معاملہ بہت کمزور ہے۔ اس کمزوری کی ایک بہت بڑی وجہ حکومتی نظام کی کمزوری اور نفاذ قانون کے نظام میں کردئیے جانے والے نقائص ہیں۔ اس طرز عمل کے اسباب میں رشوت، اقربا پروری اور دیگر برائیاں بھی شامل ہیں۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جن ممالک میں قانون کی پابندی ہے وہاں نفاذ قانون کا نظام اپنی پوری طاقت اور جبر کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ قانون کے پابند ممالک میں سڑکوں پر ٹریفک کے معاملات ہوں یا زندگی کے دیگر معاملات، ہر شخص پر واضح ہے کہ اگر قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کی سزا جرمانے، قید، کاروبار کی بندش، ملازمت سے تنزلی، برخواستی، اس ملک سے بےدخلی وغیرہ کی صورت میں بھگتنا ہوگی۔
قوانین کا احترام نہ کرنے اور اپنی من مانی کرتے رہنے کے پاکستان میں ہونے والے اثرات کو ذہن میں رکھیں۔ دوسری طرف قوانین کی پابندی والے ممالک میں عوام کے عمومی حالات کو سامنے رکھیں۔ اب اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ سختی سے قانون کی پابندی کرنے والے ممالک میں لوگوں کو تحفظ کا احساس ہورہا ہے یا نہیں....؟
اس کا جواب یقیناً ہاں میں ہوگا۔
اس سے منسلک سوال یہ ہے کہ قوانین کی پابندی کروانا، لوگوں کی غالب اکثریت کے لیے رحمت ہے یا مصیبت....؟
جن ممالک میں جواب دہی کا نظام سخت ہے وہاں امن و امان کی صورتحال ان ممالک سے کئی گنا بہتر ہے جہاں حکومتوں کی کمزوری کی وجہ سے مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔
نظام انصاف کے موثر ہونے کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال اچھی ہونا رحمت ہے یا مصیبت....؟
عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومتوں کو چوکس رہنا ہوتا ہے۔ کسی شخص یا گروہ کی طرف سے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش لوگوں کو مصیبت میں مبتلا کردینے والا عمل ہے۔ کسی ملک میں بسنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت میں نفاذ قانون کی موثر صلاحیت دراصل اس ملک کے عوام کے لیے رحمت ہے۔
یوم آخرت میں اللہ کے قانون کی پابندی کرنے والے انسانوں کو نوازنا اور انسانوں میں سے سرکش و نافرمان لوگوں کو سزا دینا دراصل اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کا اظہار ہے۔
سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیات کی ترتیب میں غور کرنے سے واضح ہوا کہ اللہ کا نظام انصاف اللہ کی رحمت کا ہی ایک حصہ ہے۔
چشم تصور سے دیکھیں .... ایک طرف تخلیق اور پیدائش سے لے کر اس دنیا میں زندگی گزارنے کے تمام معاملات کو اللہ رب العالمین سنبھالے ہوئے ہے۔ دوسری طرف یوم آخرت میں اللہ کے سامنے حاضری ہے۔ ان دو حقائق کے درمیان یعنی اللہ رب العالمین اور مالک یومالدین کے درمیان اللہ کے اسمائے رحمت الرحمن الرحیم کا ذکر ہے۔
زندگی کا آغاز ہو، زندگی کے مختلف مراحل ہوں یا یوم آخرت کے مراحل، سورہ فاتحہ کی ان تین آیات کے ذریعے بتایا جارہا ہے کہ تخلیق کے پہلے مرحلے سے لے کر ابدالآباد تک اللہ کی رحمت ہر مخلوق پر سایہ فگن ہے۔
سورہ فاتحہ کی ابتدائی تین آیات میں نو الفاظ کے ذریعے انسانوں کو اتنی بڑی حقیقت سے آگاہ کردینا فصاحت و بلاغت کا کتنا بڑا شاہکار ہے۔ یہ معجزاتی بیان، آگاہی اور تعلیم کا یہ انداز صرف اللہ کے کلام کا ہی ہوسکتا ہے۔
ربنا لک الحمد
سورہ فاتحہ میں از ازل تا ابد اللہ رب العالمین کی حمد تعریف بیان کرنے اور شکر ادا کرنے کے بعد ایاک نعبد (ہم تیری ہی عبادت کرتےہیں)کہنا دراصل ایک اقرار ہے۔ واضح رہے کہ اس عبادت میں اطاعت بھی شامل ہے۔
نعبد .... ہم عبادت کرتے ہیں۔
آئیے....! پہلے عبد یا عبادت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عبادت کے لغوی معنی ہیں ایسا کام کرنا جو ابتداء میں تو مشقت و سختیاں لیے ہوئے ہو اور اس کا انجام یا اس کا نتیجہ بہت نفع والا اور پرمسرت ہو۔
تعبید، عربی زبان میں جانوروں کو سدھانے کے ایک عمل کو کہتے ہیں یعنی کسی اونٹ یا گھوڑے کو کسی خاص مقصد کے لیے سدھانا یا ٹریننگ دینا۔ انگریزی میں اس عمل کو (Harnessing) کہا جاتا ہے۔ سدھایا ہوا گھوڑا اپنے مالک کا وفادار اور اطاعت گزار ہوتا ہے۔
لفظ عبد کے کئی معنوں کو یکجا کرکے جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔
آدمی (اللہ کی عطا کردہ)صلاحیتوں کو اللہ کی بندگی و اطاعت میں صرف کرتے ہوئے اپنے اور دوسروں کے لیے خیر اور منفعت کا سبب بنے۔
عبادت کرنے کا مطلب ہے پرستش کرنا، (قوانین کی)اطاعت کرنا اور انسانی صلاحیتوں کو وحی کی روشنی اور انبیاء کی تعلیمات کے مطابق پروان چڑھا کر تعمیری اور مثبت طور پر بروئے کار لانا۔ یہ عمل اپنی ابتداء میں سخت اور پُر مشقت ہوگا اور اس کا نتیجہ بہت زیادہ نفع، خیر اور خوشی کی صورت میں ملے گا۔ یہ عمل خیر کو فروغ دینے کا ذریعہ بھی بنے گا۔
عبادت صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ انسان کا حقیقی معبود اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ اللہ خالق ہے۔ اللہ مالک ہے۔ اللہ الحی القیوم ہے۔
اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی آدم کی اولاد اللہ کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہے۔ خالق کائنات اللہ نےاولاد آدم کے سامنے ایک سوال رکھنے اور اولاد آدم کی طرف سے ۔ اللہ کی ربوبیت کے اقرار کا ذکر قرآن پاک کی سورہ اعراف میں فرمایا ہے۔
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَى ۛ شَهِدْنَا ۛ أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَO أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (سورہ اعراف آیت:[172—173]
ترجمہ:اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشت سے ان کی اولاد نکالی اور ان سے ان کے بارے میں شہادت لی (اللہ نے ان سے پوچھا کہ)کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں....؟ (سب انسانوں نے کہا)کیوں نہیں....؟ ہم (سب انسان)گواہ ہیں (کہ تو ہمارا رب ہے)۔
(اس واقع سے آگہی عطا کرنے یا اس کی یاد دہانی کے بعد قرآن واضح کر رہا ہے کہ)
یہ شہادت اس لیے لی گئی کہ قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس (حقیقت سے )واقف نہ تھے۔ یا (زمین پر بعد میں پیدا ہونے والے) یہ نہ کہیں کہ شرک (کا عقیدہ ) تو ہم سے پہلے ہمارے آبا و اجداد کا تھااور ہم تو ان کے بعد پیدا ہونے والی اولاد ہیں۔(ہمیں تو اپنے باپ دادا سے جو عقیدہ ملا ہم نے اس کی پیروی کی) تو اب ان کی گمراہی کی سزا ہمیں کیوں دی جارہیہے۔
(ان آیات سے واضح ہورہا ہے کہ بنی آدم کا ہر فرد اللہ وحدہ لاشریک کی ربوبیت کا اقرار کر چکا ہے ۔ اس اقرار کے بعد کوئی بھی انسان کسی قسم کی گمراہی کا الزام اپنے آباو اجداد کو نہیں دے سکتا۔موجودہ دور کی اصطلاح میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار ہر انسان کے باطن میں یا جین (Gene)میں موجود ہے۔)
الحمد اللہ رب العالیمنOالرحمٰن الرحیمOمالک یوم الدینO
پڑھتے ہوئے غور کیجیے کہ اللہ نے تخلیق کیا۔ اللہ نے زندگی گزانے کے لیے ہر طرح کے وسائل بخشے اور رہنمائی عطا فرمائی۔ اللہ نافع ہے۔ اللہ ضار ہے۔ اللہ علیم ہے۔ اللہ سمیع و بصیر ہے۔ اللہ عالم الغیب والشھادہ ہے۔ اللہ محی وممیت ہے۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ اللہ موت کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ آخرت میں ہم سب اس کے دربار میں حاضر ہوں گے۔
اس زمین پر زندگی گزارنے کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ انسان کی ایک لازمی ضرورت عقیدہ بھی ہے۔
اس دنیا میں آنے کے بعد شیطان کے بہکاوے میں آکر یا اپنے مفادات کی خاطر انسان نے حقائق کے برخلاف عقیدے بھی گھڑ لیے اور اپنے لیے خود ہی کئی معبود بنا لیے۔ کسی قوم نے سورج، کسی نے آگ، کسی نے درخت یا دیگر مخلوقات کی عبادت شروع کردی۔
جب ہم خالق کائنات کی عبادت کرتے ہیں تو اس عبادت میں اللہ کی بےشمار نعمتوں کا اعتراف و شکر اور اللہ کی اطاعت کا اقرار بھی شامل ہوتاہے۔
اللہ کے سوا جن معبودوں کی عبادت کی جاتی ہے اس میں پالنےکا اور وسائل عطا کرنے کا کوئی شکر شامل نہیں ہے۔ ایسی عبادت دراصل محض ایک رسم(Ritual) ہے۔ ایسی رسموں کے ذریعے عقیدے کے حوالے سے تو بعض لوگوں کی تسکین ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی قوم درخت کی پوجا کرتی ہے اور درخت کی عبادت کرکے کچھ تسکین پاتی ہے لیکن درخت نے کسی انسان کو زندگی تو عطا نہیں کی نا ہی درخت نے انسان کو کبھی کوئی رہنمائی یا ہدایت دی ہے۔ درخت نا کسی مخلوق کا خالق ہے، نا علیم ہے، نا بصیر ہے۔ کوئی قوم آگ کی عبادت کرتی ہے لیکن آگ اپنے عابدوں کو زندگی کے وسائل عطا نہیںکر رہی۔ بعض لوگ سورج کی پوجا کرتے رہےلیکن سورج مخلوقات کے برے یا بھلے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ ایسے انسانی ساختہ (Man Made)معبود نا نافع ہیں، نا ضار ہیں۔ یہ درست ہے کہ سورج کے ذریعے زمین پر زندگی قائم ہے لیکن زمین پر زندگی کے اسباب صرف سورج کے مرہون منت نہیں۔ ایک بات یہ کہ سورج کی روشنی تو اس کے دیگر سیاروں پر بھی پڑ رہی ہے تو پھر وہاں پر زندگی کیوں نہیں پائی جاتی۔ ایسا اس لیے ہے کہ سورج بذات خود کسی نظام کا خالق نہیں ہے۔ سورج مخلوقات کو وسائل فراہم کرنے میں اللہ کے بنائے ہوئے نظام کا ایک رکنہے ۔
جو لوگ سورج، درخت، آگ کی یا کوئی علامت بنا کر ، کسی کا بُت بنا کر اس کی عبادت کرتے ہیں وہ علامتیں یا بُت سورج، آگ، درخت وغیرہ اپنے عبادت گزار کے کسی کام میں کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ آگ کا وصف ہے جلانا وہ جلا دے گی لیکن ہم آگ سے استفادہ کرتے ہوئے کھانا بھی پکا لیتے ہیں۔ آگ لگ جانے سے جنگل کے جنگل تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ اسی آگ کو اگر مناسب طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس سے انرجی حاصل ہوگی۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ آگ تو انسان کے ہاتھوں خود مسخر ہے۔ درخت انسان کے ہاتھوں یا کسی اور مخلوق کے ہاتھوں مسخر ہیں اور وہ معبود ہی کیا جو خود مسخر ہوجائے۔
اللہ نے کائنات تخلیق کی ہے ۔ اللہ اس کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے ۔ تخلیق کرنے کے بعد اللہ نے دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ نہیں دیا بلکہ وہ ہر لمحہ ہر آن سب کی نگہبانی کر رہا ہے، سب کی پرورش کر رہا ہے۔ اللہ ساری کائنات کا، سب مخلوقات کا، میرا، آپ کا سب کا خالق ہے مالکہے۔
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی انسان کوئی چیز بناتا ہے۔ یعنی ایک آدمی کسی چیز کا خالق ہوتا ہے۔ بعد میں وہ شخص اس چیز کو کسی دوسرے کو بیچ دیتا ہے یا کسی اور طرح دوسرے کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس طرح اب وہ اس چیز کا مالک نہیں رہتا۔اس بات سے بتانا یہ مقصود ہے کہ کوئی آدمی کسی چیز کا خالق ہوتا ہے بعد میں مالک نہیں رہتا۔ کوئی کسی چیز کا مالک ہوتا ہے لیکن وہ اس کا خالق نہیں ہوتا۔
اللہ ہمارا خالق بھی ہے، مالک بھی ہے۔ ہمیں زندگی عطا کرنے کے بعد ہمارا مدبر اور منتظم بھی ہے ۔ اللہ نے انسان کو عقل و دانائی عطا فرمائی ہے۔ عقل کو ٹھیک طرح استعمال کرنے کے لیے انسان کی رہنمائی کی ہے۔ عبادت صرف خالق حقیقی، مالک کائنات اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہی ہے۔ اللہ کی عبادت میں اللہ کی اطاعت بھی شامل ہے۔ گمراہ یا ناواقف لوگوں نے اللہ رب العالمین کے سوا جو معبود بنا لیے ، کچھ لوگ ان کی عبادت تو کر رہے ہیں لیکن وہ معبود اپنے عابدوں کے خالق، مالک، مدبر اور منتظم نہیں ہیں۔ وہ معبود کسی کو کوئی فائدہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔وہ معبود اپنے عابدوں کے حی و قیوم نہیں ہیں۔ بعض لوگوں کی جانب سے ان معبودوں کی رسمی طور پر عبادت تو کرلی جاتی ہے لیکن ان کی اطاعت کا تو کوئی سبب ہی نہیںہے۔
اللہ کی عبادت کے اقرار کے بعد بیان ہوتا ہے۔
وایاک نستعین.... اور (اے اللہ) ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔
استعانت....کا بنیادی لفظ عون ہے۔ عون کے معنی مدد اور مددگار ہیں۔ ان کے علاوہ بھی عون کے کئی معنی ہیں۔
استعان کے معنی ہیں اپنے لیے اعتدال چاہنا اور اس اعتدال کے لیے کسی کی مدد طلب کرنا۔
اللہ کی ایک صفت المستعان بھی بیان کی جاتی ہے۔ یعنی وہ ہستی جس سے مدد طلب کی جائے۔
وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَO
ترجمہ: اور اللہ ہی سے مدد مانگتا ہوں اس بات پر جو تم بیان کرتے ہو۔
[سورۂ یوسف (12) :از 18]
عبد و عبادت اور عون و استعانت کے وسیع تر مفہوم کو ذہن میں رکھتے ہوئے آیت کے دوسرے حصے کو پہلے حصے کے ساتھ ملا کر پڑھیے۔
ایاک نعبد و ایاک نستعین....
(اے اللہ) تیری پرستش، تیرے قوانین کی پیروی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو تیری اطاعت میں صرف کرنے کے لیے۔ اے اللہ ہم تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں۔
ابھی ہم نے ذکر کیا کہ عبادت ایک ایسا عمل ہے جس کا نتیجہ بہت خوشگوار اور منفعت بخش ہے۔ اس مفہوم کے ساتھ جب ہم اپنے خالق و مالک اللہ سے مدد مانگ رہے ہیں تو اس میں یہ بات مضمر ہے کہ اللہ کی اطاعت سے انسانی کاموں میں اعتدال، توازن اور حسن پیدا ہوگا۔ انسانوں کا یہ عمل اس دنیا کے نظام کو بھی اعتدال اور حسن عطا کرے گا۔
قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کا درست استعمال کرتے ہوئے اللہ کی عبادت اور اللہ کی اطاعت زندگی کے ہر شعبے میں مددگار ہے۔
اللہ کے سامنے اقرار کیا جارہا ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور اس عبادت اور اطاعت کے لیے ہم تیری مدد چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے
اھدناالصراط المستقیم.... اے اللہ سیدھا راستہ ہم پر واضح اور روشن فرمادے۔
اس دعا کا ایک مطلب یہ سمجھا جائے کہ عقل انسانی اس دنیا کے سفر میں وحی الٰہی کی روشنی میں چلنے کی توفیق مانگ رہی ہے۔
واضح رہے کہ کسی کام یا کسی راستے کے لیے ہدایت یا رہنمائی اسی شخص کو دی جاتی ہے جو اس کی خواہش رکھتا ہو۔ کوئی شخص کوئی کام نہ کرنا چاہے یا کسی راہ پر سفر نہ کرنا چاہے تو اس کے لیے کوئی زبردستی نہیں۔
اللہ کی نشانیاں، فطرت کے قوانین، اللہ کی عبادت اور اطاعت کے نتائج سب پر واضح ہے لیکن ہدایت قبول کرنا یا نہ کرنا ہر آدمی کا انفرادی فعل ہے۔
سورہ فاتحہ کی پانچویں آیت میں بھی یہ حقیقت پنہاں ہے کہ ہدایت قبول کرنا آدمی کی رضامندی پر منحصر ہے۔ اس میں جبر کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ راستہ کے بارے میں اس ہی کو بتایا جاتا ہے جو سفر اختیار کرنا چاہتا ہے اور راستے میں ادھر ادھر بھٹکنے سے محفوظ رہنا چاہتا ہے۔
قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ نُـوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌOيَـهْدِىْ بِهِ اللّـٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَه’ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَـهْدِيْـهِـمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ O
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔ اس کے ذریعے انہیں جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں اللہ سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اور انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور انہیں سیدھے راستے پر چلنے کے لیے رہنمائی عطا کرتا ہے۔
انسان کی تخلیق اور راستے کے بارے میں اختیار کا ذکر سورہ الدہر میں ان الفاظ میں ہوا ہے۔
هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًاO إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاO إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًاO
[سورہ الدہر (76) : آیت 1-3]
ترجمہ: یقیناً انسان پر ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب یہ ناقابل تذکرہ شے تھا۔ بےشک اللہ نے انسان کو (اس دنیا میں) امتحان کے لیے ملے جلے نطفے سے پیدا کیا اور اسے سماعت اور بصارت عطا کی۔
اللہ نے انسان کو (اس دنیا میں سفر کے لیے) راستہ دکھایا دیا اب انسان چاہے (تو راستے پر ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے کامیابی پانے پر ) اللہ کا شکر گزار بنے۔ چاہے تو (ان ہدایات کا) منکر بن جائے۔
ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کیجیے کہ
الصراط المستقیم....
عمومی ترجمہ تو ہوگا .... ہمیں سیدھی راہ دکھا ۔یا ۔سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرما۔
ان الفاظ کا قرآنی مفہوم تلاش کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صراط المستقیم کا مطلب ہے ایسا سیدھا راستہ جو پختہ ہو، متوازن و معتدل ہو، اعتماد کا حامل ہو ، جس راستے کا رخ یقینی طور پر درست منزل کی طرف ہو۔
اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ انسان کو اللہ نے احسن تخلیق قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کی جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، روحانی ضروریات اور تقاضوں کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ انسان کو اس زمین پر تمدن کی ضرورت بھی ہے۔ اسے معاشی معاملات بھی سنبھالنے ہیں۔ اس دنیا میں انصاف، عدل اور احسان کے فرائض بھی سرانجام دینے ہیں۔ آخرت میں اللہ کے حضور پیش ہونے کے لیے تیاری کرنی ہے۔
اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ہر طرح کی ضروریات، تقاضوں ، انسان کے انفرادی اور اجتماعی مسائل اور زمین پر ہر طرح کے حالات سے اللہ تعالیٰ واقف ہے۔
اھدناالصراط المستقیم، سیدھے راستے کی ہدایت کی دعا اس زمین پر انسان کی ہر طرح کی ضروریات، ہر طرح کے سفر میں رہنمائی کا احاطہ کرتی ہے۔
صِرَاطِ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تیری نعمتیں نازل ہوئیں۔
یہ امر نفسیات کا حصہ ہے کہ آدمی اپنے سفر، اپنے عمل اور اپنی کوششوں کے نتائج کے بارے میں اطمینان چاہتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی راستے کے صحیح ہونے پر مطمئن ہو تو وہ اس راستے پر یکسوئی اور مستقل مزاجی کے ساتھ سفر کرے گا۔ کوئی شخص کسی راستے کے بارے میں مطمئن نہ ہو تو اسے وہاں سفر کرتے ہوئے تردد ہوگا۔
سفر ہو یا زندگی کے دیگر مراحل، کامیاب افراد اور لوگوں کی مثالیں دوسروں کے لیے حوصلہ افزائی ، ترغیب اور اطمینان کا سبب بنتی ہیں۔ ناکام افراد اور ناکام قوموں کی مثالیں لوگوں کو غلط راہوں سے بچانے میں معاون ہوتی ہیں۔
انسان کی سب صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہیں۔ فکری اور عملی طور پر ان صلاحیتوں کے درست استعمال کے نتیجے میں آسائش، راحت، آسودگی، حفاظت ملتی ہے ۔ سائنس کی حاصلات بھی اللہ کی تخلیقات میں تفکر اور تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ انسانی صلاحیتوں کو درست طرزوں پر کام میں لانے سے حاصل ہونے والے نتیجے کو نعمت کہا جائے گا۔ ایک آدمی محنت کرکے حلال آمدنی حاصل کرتا ہے۔ اس آمدنی کو، ان وسائل کو نعمت کہا جائے گا۔ اس رقم سے حلال اور طیب کھانا اور پھل وغیرہ خرید لیے گئے۔ یہ کھانا پینا اور ثمرات نعمت ہیں۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان پر اللہ کی طرف سے فضل ہوتا ہے۔ اس پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اسے برکتیں ملتی ہیں۔ مختلف کاموں میں اللہ کی طرف سے مدد آتی ہے۔ یہ سب نعمتیں ہیں۔
مجموعی طور پر نعمت کا مطلب ہوگا۔انسان کو ملنے والے وسائل، آسائشیں، راحتیں، ذہنی سکون ، انسان پر نازل ہونے والی رحمتیں برکتیں اور قدرت کی مدد۔
لغوی اعتبار سے تو نعمت ایک ایسی کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سرور ملتا ہے۔ عربی زبان میں اس لفظ کے مختلف استعمالات کو سامنے رکھا جائے تو نعمت کے مفاہیم میں مُسَرّت، آسودگی، خوش حالی، اجتماعیت، بلندی اور کامیابی بھی شامل ہیں۔ قرآن پاک کی کئی آیات میں مختلف مقامات پر نعمت کے ذکر سے واضح ہوتا ہے کہ مختلف تخلیقات سے انسان کے استفادے کی بات ہو، قدرت کی طرف سے انسان کو عطا کردہ صلاحیتیں ہوں، یہ سب نعمتیں ہیں۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ ان نعمتوں پر اللہ کا احسان مند، شکر گزار اور فرمانبردار بنے۔
جو لوگ سیدھے راستے پر چلتے ہیں ۔ جو اللہ تعالیٰ کےبتائے ہوئے قوانین اور احکامات کو سمجھتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں وہ اس اطاعت کا نتیجہ نعمتوں کی شکل میں پاتے ہیں۔
انسانوں کے لیے صراط مستقیم پر چلنے یا نہ چلنے کے نتائج بتانے کے لیے قرآن نے ایک طرف نعمت پانے والے افراد اور اقوام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دوسری جانب یہ بتایا ہے کہ سیدھی راہ سے انحراف کرنے والوں کو کن نتائج کا سامنا ہوا ۔ سورہ فاتحہ میں کامیاب لوگوں کو صاحبان نعمت اور ناکام و نامراد لوگوں کو ان کے اپنے منفی اعمال کے نتیجے میں غضب میں مبتلا یا گمراہ یعنی راہ سے بھٹکے ہوئے بتایا ہے۔
غَیرِالمَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّآلِّینَ اور اُن لوگوں کا راستہ نہیں جن پر تیرا کوئی غضب نازل ہوا یا جو بھٹک گئے گمراہ ہو گئے۔
انسان اس دنیا میں بھی اپنے عمل کا نتیجہ پاتا ہے ۔یومِ قیامت پر تو آخری نتیجہ ظاہر ہو گا۔ جو لوگ فطرت کے خلاف چلتے ہیں فطرت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں اُن پر آخرکار اللہ کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہوتا ہےاس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کا غضب انسان کے غلط کاموں کا فطری نتیجہ ہے۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ گمراہی کیا ہے۔ ایک شخص وہ ہے جو راستہ بھٹک جاتا ہے اور ایک شخص وہ ہوتا ہے جو غلط راستے پر چل رہا ہوتا ہے لیکن وہ اصرار کر رہا ہوتا ہے کہ میں ٹھیک راستے پر ہوں۔ گمراہ ہوجانے والے کئی لوگ یہ نہیں مانتے کہ وہ گمراہ ہو گئے ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں ہم تو ٹھیک راستے پر چل رہے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کو بھی کہتے ہیں کہ تم ہمارے راستے پر چلو۔
ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًاO اَلَّـذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُـمْ فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَهُـمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّـهُـمْ يُحْسِنُـوْنَ صُنْعًاO
[سورہ کہف(18): آیت 103-104]
ترجمہ:‘‘ کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں۔ وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھو گئی اور وہ کہتے رہے کہ وہ تو بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔’’
گمراہی کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو یہ ہے کہ ایک آدمی راستے سے بھٹک کر راہ کی پیچیدگیوں میں پھنس جائے۔ کسی اجنبی شہر، اجنبی مقام پر جاکر راستہ بھٹک جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اسی لیے اپنے شہر سے کسی دوسرے شہر جاتے ہوئے آدمی کسی کی رہنمائی یا کسی راستہ جاننے والے کسی شخص کا ساتھ چاہتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں راستہ بھٹک جانے کی وجہ سے وقت، وسائل اور صلاحیتوں کا زیاں ہوتا ہے۔ اگر کسی کی صحیح رہنمائی میسر ہو تو آدمی کا سفر ٹھیک طرح ادا ہوتا ہے اور وہ راہ کی کئی تکلیفوں سے بچتا ہوا اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
گمراہی کی ایک قسم فکری گمراہی ہے۔ فکری گمراہی انسان کو صحیح راستے سے بہت دور لے جاتی ہے۔ فکری طور پر گمراہ لوگ نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسرے کئی لوگوں کے لیے بھی تکلیف، پریشانیوں، اذیت اور فساد کا سبب بنتے ہیں۔ فکری گمراہی پھیلانا آج کل بہت عام ہوگیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے کئی ادارے فکری بھی گمراہی کا اہتمام منظم طریقے سے کرتے ہیں۔
فکری گمراہی اختیار کرنے والے ہوں یا فکری گمراہی پھیلانے والے، ایسے سب ہی لوگ ضَالین کے زمرے میں آتے ہیں۔
مغضوب اور ضالین کا ذکر کرکے قرآن انسانوں کو غلط فکر اور برے عمل کے نتائج سے آگاہ کر رہا ہے اور بغض تکبر اور برے عمل کی طرف بلانے والوں سے بچنے کی ترغیب دے رہا ہے۔
==============================================================