مراقبہ برائے طالب علم - 1

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

  مراقبہ سب کے لئے

MEDITATION FOR STUDENTS 

 مراقبہ  برائے طالب علم

(حصہ اول)


حصولِ علم میں مصروف ایک نوجوان لڑکے یا لڑکی کی شخصیت کن اعلیٰ اوصاف سے مزیّن ہونی چاہئے ۔ عملی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ان اعلیٰ اوصاف سے کس طرح کام لیا جائے؟ .....
 اپنی شخصیت کو ان اعلیٰ اوصاف سے مزیّن کرنے اور ان سے بہتر طورپر کام لینے کے طریقے سیکھنے میں نوجوان روحانی علوم سے کس طرح رہنمائی اور مدد حاصل کرسکتے ہیں ؟  .....
زندگی میں کامیابی اور اعلیٰ مقام کے خواہشمند نوجوانوں کے لئے ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کی تحریر  .....

=====================================

زندگی کے مختلف ادوار میں نوجوانی کا دور عموماً سب سے سہانا اور سنہرا دور کہلاتا ہے ۔ بچپن کا معصوم اورشاہی دور حال ہی میں رخصت ہوا ہوتا ہے لیکن عملی زندگی کے جھمیلے اور غم روزگار ابھی پوری طرح شروع نہیں ہوتا۔ لڑکا ہو یا لڑکی لڑکپن سے نوجوانی کی حدود میں قدم رکھتے وقت دلوں میں آرزوؤں ، امنگوں ، خواہشات ، ولولوں اور عزائم کا ایک ہجوم ہوتا ہے ۔ والدین ،گھر بار اور ارد گرد کا ماحول بچپن کے تصورات کی نسبت کچھ بدلا بدلا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچپن کی معصومانہ بے خبری کے دور سے گذر کر اپنے ’’ہونے ‘‘ کا کچھ کچھ احساس ذہن پر حاوی ہوتا ہے ۔ یہ احساس جو ابتداء میں ایک ننھی سی کونپل کی حیثیت رکھتا ہے جلد ہی بڑھ کر ایک تناور درخت کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے اور نوجوان پوری طرح اپنی شناخت کی تلاش میں مصروف یا شناخت کے سحر میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اپنے ہونے کا احساس، اپنے بہت کچھ ہونے یا کچھ نہ ہونے کے احساس میں تبدیل ہوتا ہے ۔ یہیں سے نوجوان کی شخصیت میں خود اعتمادی اور خود انحصاری یا احساس کمتری کے اوصاف نمایاں ہوتے ہیں۔ عملی زندگی میں اعلیٰ مقام کے حصول کا دارومدار بہت حد تک اس دورمیں متعین کی گئی ترجیحات پر ہوتا ہے ۔ گو کہ علم حاصل کرنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں لیکن بچپن اور نوجوانی کا دور تحصیل علم کے لئے بہترین خیال کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ تعلیم سے حاصل کردہ بصیرت ودانش سے ہی نئی نسل عملی زندگی کے تجربات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتی ہے ۔ تعلیم ہر فرد اور قوم کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی جگہ انسانوں کو علم کی اہمیت بتائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اور جن کو علم ملا اللہ ان کو بلند درجے عطا کرے گا ‘‘ ۔ (سورۂ مجادلہ ) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے ’’ اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ کیا علم والے اور بے علم دونوں برابر ہوسکتے ہیں‘‘ ۔ ( سورۂ زمر) ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کودعا بتائی ہے ’’ اے میرے رب ! میرے علم میں اضافہ فرما ‘‘ ۔ ( سورۂ طہٰ)
رسول اللہ ﷺ نے حصول علم پر بہت زور دیا ہے۔ اسے اللہ کی رضا اور جنت میں داخلے کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ احادیث میں ہے ’’ نبیوں کی میراث میں درہم ودینار نہیں ہوتے ۔ انبیاء کا ورثہ علم ہوتا ہے ۔ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے حاصل کرلے ۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔
زندگی کے سنہرے دور کی سب سے اہم مصروفیت عموماً علم کا حصول ہے ۔ یہ اسکول کی تعلیم کی تکمیل اور مزید تعلیم کے حصول کا زمانہ ہوتا ہے ۔ زندگی کا یہ دور جس قدرشاندار اور سہانا ہوتا ہے ۔ اسی قدر اہم اور نازک بھی ہے۔ گھر میں اپنے مقام اور اہمیت کا تعین ، مستقبل کے بارے میں ذہن میں اٹھنے والے سوالات ، تعلیمی میدان میں پوری کامیابی حاصل نہ کرسکنے کا خوف ، عملی زندگی میں بہتر مقام حاصل نہ کرپانے کے اندیشے ، اس کے علاوہ جنس کے حوالے سے پیدا ہونے والے تقاضے اور ان تقاضوں میں در آنے والی شدت زندگی کے اس دور کی عام باتیں ہیں۔
کسی بھی قوم کے لئے اس کے نوجوان انتہائی درجہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ معاشرہ اپنے نونہالوں اور نوجوانوں کی جسمانی و ذہنی نشوونما ، دیکھ بھال ، تعلیم و تربیت پر جتنی توجہ اور صلاحیتیں صرف کرتا ہے اسی مناسبت سے اس معاشرہ کو ترقی اوراستحکام ملتا ہے ۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں تعلیمی ، سماجی یا ثقافتی اداروں کا اس سے بڑھ کر اور کوئی مقصد نہیں ہوسکتا کہ وہ فرد کواس کی لامحدود صلاحیتوں کا احساس دلائیں ۔ ماہر ِتعلیم جان اسٹیورٹ کے مطابق تعلیم وہ معاشرتی عمل ہے جس کے ذریعے کوئی نسل اپنے اور آنے والی نسل کو موجودہ ثقافت منتقل کرتی ہے تاکہ وہ نہ صرف حاصل کردہ ترقی کا معیار برقرار رکھ سکے بلکہ ممکن ہو تو اس کو بلند بھی کرسکے ۔
بچپن کا دور گزار لینے کے بعد اور عملی زندگی میں داخل ہونے سے پہلے حصولِ علم میں مصروف ایک نوجوان کی شخصیت کو کن اعلیٰ اوصاف سے مزین ہونا چاہئے؟ کیا یہ اعلیٰ اوصاف (جن تذکرہ آگے آئے گا ) موروثی یا پیدائشی طور پر شخصیت میں موجود ہوتے ہیں یا یہ اعلیٰ اوصاف اپنی شخصیت میں پیدا بھی کئے جاسکتے ہیں ؟ ان اعلیٰ اوصاف سے کس طرح کام لیا جائے کہ ایک نوجوان آنے والے دور میں ایک کامیاب ، مؤثر اور معاشرے کے لئے مفید شخصیت بن سکے ؟ اپنی شخصیت کو ان اعلیٰ اوصاف سے مزین کرنے اور ان سے بہتر طور پر کام لینے کے طریقے سیکھنے میں روحانی علوم سے کیا رہنمائی اور مدد ملتی ہے؟ زیر نظر مضمون میں اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے انہی سوالات کے جواب پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
انسانی شخصیت ظاہری اورباطنی دو رخ پر مشتمل ہے۔ کسی ایک روپ یا رخ پر ضرورت سے زیادہ توجہ دے کر اور دوسرے رخ کو نظر انداز کردینے والا فرد متوازن شخصیت کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اپنی شخصیت کو معاشرہ کے دوسرے افراد کے سامنے زیادہ سے زیادہ قابل قبول اور پر کشش بنانے ، ظاہری اور باطنی صلاحیتوں کو سمجھنے اور ان سے بھرپور کام لینے کے لئے ضروری ہے کہ ظاہری رخ کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ شخصیت کے باطنی رخ کو سنوارنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر ہم نے ’’ مراقبہ برائے طالب علم ‘‘ کے زیر عنوان اس مضمون میں ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ پر بات کرتے ہوئے ان نکات پر بھی گفتگو کی ہے جن کا تعلق شخصیت کے ظاہری رخ سے ہے ۔ چنانچہ شخصیت کے حوالے سے یہ گفتگو تین ذیلی عنوانات کے تحت کی جارہی ہے ۔
  1.  ظاہری وضع قطع
  2.  عام جسمانی صحت اور دماغی صحت
  3.  ذہنی صحت اور رویّہ

 ظاہری وضع قطع

ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے لوگوں میں پذیرائی اور احترام ملے۔ کسی شخص میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہوں لیکن اسے معاشرہ میں قرار واقعی پذیرائی اور مناسب مقام حاصل نہ ہوسکے تو اس کے ذہن پر اس بات کیشدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا شخص اگر ان منفی اثرات کا بخوبی مقابلہ نہ کرسکے تو وہ شدید اضطراب ، مایوسی حتیٰ کہ ڈپریشن تک کا شکار ہوسکتا ہے ۔
لوگوں میں اپنے بارے میں بہتر تاثر بنانے میں شخصیت کے ظاہری رخ کی اپنی اہمیت ہے ۔ لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے آپ اپنی شخصیت کے بارے میں جو اولین تاثر چھوڑتے ہیں وہ آپ کی ظاہری وضع قطع سے ہی مرتب ہوتا ہے۔ اپنی شخصیت کو دوسروں کے لئے زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کے لئے ظاہری وضع قطع کی اہمیت کو ہمیشہ سامنے رکھئے ۔ جسم اورلباس کی صفائی انتہائی درجہ اہمیت کی حامل ہے ۔ صفائی کی اہمیت کا قرآن و حدیث میں صراحت سے تذکرہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اللہ تعالیٰ صفائی رکھنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ‘‘ ۔ (سورۂ توبہ ) رسول اللہ ﷺ نے ذاتی اور ماحول کی صفائی کو اس قدر اہمیت دی کہ اسے نصف ایمان قرار دیا ۔ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’ صفائی نصف ایمان ہے ‘‘ ۔ اس مقصد کے لئے جن باتوں پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

( الف)لباس: 

ہمیشہ صاف لباس زیب تن کیجئے۔ ضروری نہیں کہ آپ جو لباس پہنیں وہ بہت قیمتی ہو لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ جو کچھ بھی آپ پہنیں وہ صاف ستھرا ہو۔ اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ کا لباس پھٹا ہوا نہ ہو۔ پھٹا ہوا کپڑا پہن کر کبھی اسکول ، کالج یا گھر سے باہر مت جائیں۔ اگر کوئی لباس پھٹ جائے تو یہ ضروری نہیں کہ آپ اسے اٹھا کر پھینک دیں ۔ اسے سی لیں یا رفو کرلیں مگر پھٹی ہوئی حالت میں نہ پہنیں۔

 ( ب ) انڈر گارمنٹ:

 انڈر گارمنٹ بھی صاف ستھرے ہونے چاہئیں ۔ آپ کی قمیض تو صاف ستھری اور اجلی ہے لیکن اگر آپ میلا یا پھٹا ہوا بنیان پہننے کے عادی ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صفائی ستھرائی کے مکمل طور پر قائل نہیں ہیں۔ لباس کی صفائی کے بارے میں کسی کے نظریات جانچنا ہوں تو صرف اس کے ظاہری لباس سے نہیں بلکہ انڈر گارمنٹ کی صفائی سے اس کی اصل شخصیت کاپتہ چلتا ہے ۔

(ج) جوتے :

 جوتا کم قیمت کا ہو یا مہنگا ۔ جوتے کی قیمت کی نسبت جوتے کا صاف اور پالش شدہ ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ بہت سے لوگ جوتے یا سینڈل کی صفائی پر توجہ نہیں دیتے ۔ کئی کئی دن تک جوتوں پر پالش نہیں کرتے ۔ ان کے جوتے کے سامنے کے حصے یا اطراف سے چمڑے کی تہہ اتر چکی ہوتی ہے مگر وہ اسے پالش نہیں کرتے ۔ یاد رکھئے ! گرد آلود ، غیر پالش شدہ ، اکھڑے ہوئے چمڑے کے جوتے پہن کر آپ اپنی شخصیت کی منفی تشہیر خود کرتے ہیں ، جوتوں کی صفائی پر ہمیشہ توجہ دیجئے۔

(د) موزے : 

موزے اگر میلے ہوں یا ان سے بدبو آئے تو آپ کی شخصیت کے بارے میں بہت خراب تاثر قائم ہوگا۔ ہمیشہ صاف موزے پہنئے ۔ موزوں کی صفائی کے ساتھ یہ بھی خیال رکھئے کہ موزہ پھٹا ہوا یا ادھڑا ہوا نہ ہو۔

(الف)ذاتی صفائی  :

 ذاتی صفائی میں جسمانی صفائی شامل ہے۔ نہاتے ہوئے کان ، گردن ، کہنی ، ایڑی اور پیر کی انگلیوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دیجئے۔

(ب) تراشے ہوئے ناخن :

 ناخنوں کی صفائی اور تراش پر توجہ دیجئے ۔ رسول اللہ ﷺ بے ترتیب ، بڑھے ہوئے اور میل بھرے ناخن سخت ناپسند فرماتے تھے ۔ ایک بار رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’ تم میں ایک شخص آتا ہے اور آسمانوں کی خبریں دریافت کرتا ہے مگر اس کو اپنے سامنے کی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں یعنی اس کے ناخن پرندوں کے پنجوں کی طرح بڑھے ہوتے ہیں جن میں ہر طرح کا میل کچیل بھرا ہوا ہوتا ہے‘‘ ۔  بہت سے لوگ ہاتھ کے ناخن کی صفائی اور تراش کا خیال تو رکھتے ہیں۔ لیکن پیروں کے ناخنوں کی صفائی سے بالکل لاپرواہ ہوتے ہیں ۔ مناسب وقت پر نہ تراشے جانے کے باعث ان کے پیر کے ناخن سخت اور بد وضع ہوجاتے ہیں۔ ان پر دوسروں کی نظر پڑے تو وہ اس کا اچھا امپریشن نہیں لیتے ۔

( ج)دانتوں کی صفائی : 

صاف و چمکدار دانت نہ صرف بات کرتے ہوئے اور ہنستے ہوئے خوشنما معلوم ہوتے ہیں بلکہ یہ آپ کی صحت کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ منہ اور دانتوں کی صفائی کی رسول اللہ ﷺ نے بہت تاکید فرمائی ہے ۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے ’’ اگر میری امت کے لئے یہ کام مشکل نہ ہوتا تو میں حکم دیتا کہ ہر نماز کے ساتھ مسواک کی جائے ‘‘ ۔ دانتوں اور مسوڑھوں کی صفائی کا پورا خیال رکھئے۔ کسی کے منہ سے بد بو آئے یا دانت میلے نظر آئیں تو دوسرے لوگ اُس کے قریب آتے ہوئے یا اُس سے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔

( د) بالوں کی صفائی : 

بالوں کی صفائی اور مناسب تراش پر مکمل توجہ دیجئے ۔ سر کے بالوں کی صفائی نہ ہو تو بعض اوقات میل یا پسینہ کی وجہ سے سر پر خارش محسوس ہوتی ہے دوسرے لوگوں خصوصاً اپنے اساتذہ یا سینےئر لوگوں کے سامنے سرکھجاتے رہنا اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔

 جسمانی ودماغی صحت

بچپن ہو ، جوانی ہو یا بڑھاپا صحت تو زندگی کے ہر دور کی ضرورت ہے ۔ لیکن نوجوانی کا دور زندگی کا سب سے صحت مند توانا اور مضبوط دور کہلاتا ہے ۔ ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس بات کو پسند فرمایا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے کہ ان کے امتی صحتمند اور طاقتور ہوں ۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’ ایک طاقتور مومن دس کمزور مومنوں سے بہتر ہے ‘‘ ۔ ایک نوجوان کے چہرے پر سرخی و شادابی بشاشت ، تازگی اور توانائی نظر آنی چاہئے۔ ڈھلکے ہوئے کندھے ، کمزور سا بے رونق چہرہ ، پیلی پیلی آنکھیں کسی نوجوان میں عموماً بیماری کی نہیں بلکہ اپنی صحت کی طرف سے غفلت اور لاپروائی برتنے کی علامت ہوا کرتی ہیں ، آپ نوجوان ہیں تو جوانی کی بہار آپ کے چہرے اور جسم سے نظر آنی چاہئے۔ روشن روشن آنکھیں ، چہرے پر جوان خون کی سرخی و شادابی ، اٹھے ہوئے کندھے ، سیدھی کمر ، مضبوط جسم والی شخصیت بننا چاہئے ۔ اس کے لئے

(الف) خوراک پر توجہ دیجئے : 

نوجوانی کے دور میں توانائی کا بھرپور ذخیرہ ہوتا ہے ۔ کم خوراک لے کر بھی آپ گھنٹوں بلا تکان کام کرسکتے ہیں۔ کم غذائیت والی اشیاء سے پیٹ بھر کر بھی کمزوری محسوس کئے بغیر دیر تک بھاگ دوڑ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جسم پر اس کے منفی اثرات نہیں ہوتے ۔ منفی اثرات یقیناً مرتب ہوتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو اس وقت اس کا احساس نہ ہو۔لیکن یہ منفی اثرات چالیس سال کی عمر کے بعد یا خواتین میں دو تین بچوں کی زچگی کے بعد اپنے وجود کا احساس دلائیں گے ۔ تاہم متوازن اور مناسب مقدار میں غذا نہ لینے سے فوری طور پر چہرے پر اس کے اثرات ضرور نظر آجائیں گے۔ نوجوانی کے دور کا کھایا پیا نہ صرف اس دور میں جسم کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ زندگی کے آخری ایام تک کام آتا ہے ۔ ایک پاؤ دودھ اگر نوجوانی کے دور میں پیا جائے تو اس کا فائدہ نہ صرف اس وقت پہنچتاہے بلکہ اس سے جسم کے عضلات کی جو پرورش ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ سے اس کا فائدہ پچاس سال کی عمر میں بھی حاصل ہوتا ہے ۔ جبکہ ایک پاؤدودھ اگر پچاس سال کی عمر میں پیا جائے تو اس کا فائدہ صرف اسی وقت ہوگا اور وہ بھی جزوی طور پر۔ لہٰذا نوجوانی کے دنوں میں کھانے پینے پر بھرپور توجہ دیں اس بات کا خیال رکھیں جو کچھ آپ کھائیں پےءں وہ غذائیت سے بھرپور ہو ۔ میری نو عمری کے ایک دن کا واقعہ ہے ۔ میں قلندر بابا اولیاء ؒ کے گھر واقع حیدری میں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھارہا تھا ۔ آپ نے کھانا ختم کیا تو میں نے بھی ہاتھ روک لیا ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا ’’ تم اور کھانا کھاؤ ‘‘ میں نے کچھ تکلف برتا ۔ آپ نے فرمایا ’’ ارے بھئی اچھی طرح کھانا کھاؤ ، پڑا رہے گا ۔ کام آئے گا ‘‘۔
یاد رکھئے ! نوجوانی کا کھایاپیا ادھیڑ عمری یا بڑھاپے کے لئے ایک طرح سے سرمایہ کاری کی حیثیت رکھتا ہے ۔

(ب ) ورزش : 

انسان کامل حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو آپ کی مبارک زندگی میں ایسے واقعات بھی نظر آتے ہیں جنہیں جسمانی ورزش کہا جائے گا ۔ سّیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سوئمنگ کیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ صحابہ کے ہمراہ سوئمنگ کرتے ہوئے آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ساتھی بنالیا ۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ دوڑ لگائی ۔ ارکان نماز کا جائزہ لیں نماز سے ہلکی پھلکی ورزش بھی ہوجاتی ہے ۔ غذا کی طرح نوجوانی کے دنوں میں کی گئی ورزش بھی دور رس فوائد رکھتی ہے۔ آپ کو فوری طور پر بھی فٹنس حاصل ہوتی ہے جبکہ اس دور میں کی گئی ورزش کی وجہ سے جسم کو جو لچک ، مضبوطی اور توانائی ملتی ہے وہ متوازن طور پر زندگی گزاری جائے تو زندگی کے آخری ایام تک جسم کو فائدہ پہنچاتی رہتی ہے ۔ ورزش کے ضمن میں اس بات کا خیال رکھئے کہ ورزش ایسی ہو جس سے جسم کے ہر حصہ کو حرکت ملے بعض لڑکے شام کو کرکٹ کھیلتے ہیں ان سے پوچھو کہ بھئی تم ایکسر سائز کرتے ہو وہ کہتے ہیں جی ہاں ہم روز کرکٹ کھیلتے ہیں۔ کرکٹ یا اس جیسے دوسرے کھیلوں میں بھاگ دوڑ کی وجہ سے دوران خون تو ضرور تیز ہوجاتا ہے کچھ پٹھوں (مسلز) کو بھی تحریک مل جاتی ہے لیکن اس سے جسم کے تمام حصوں کو مناسب تحریک نہیں ملتی لہٰذا صرف کھیلنے کو ورزش کے متبادل مت سمجھئے کسی ہیلتھ کلب میں داخلہ لے کر ورزش کیجئے یا پھر کسی باغ ، کھلے میدان میں جاگنگ اور ورزش کیجئے ۔ یا گھر پر ہی ہلکی ورزش کیجئے۔ سوئمنگ بھی ایک بہت اچھی ورزش ہے ۔ یہ سنت نبوی بھی ہے ۔

(ج ) معمولات :

 متوازن غذا اور مناسب ورزش کے ساتھ ساتھ نوجوانی کے دنوں میں اپنے روزمرہ معمولات کی تنظیم پر بھی توجہ دیجئے۔ خاص طور پر سونے اور جاگنے کے اوقات مقرر کیجئے اور ان کی حتی الامکان پابندی کیجئے۔ اسکول کالج یا یونیورسٹی سے فارغ ہو کر گھر پر روزانہ پڑھائی کے لئے وقت ضرور مقرر کیجئے ۔ صرف امتحان کے دنوں میں پڑھنا امتحان پاس کرنے کی حد تک تو مفید ہوسکتا ہے لیکن اس سے علم کے ذریعے بصیرت و دانش حاصل کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا ۔ یاد رکھئے دور طالبعلمی میں آپ کی اولین ترجیح صرف اور صرف علم کا حصول ہونا چاہئے۔ دوستوں رشتہ داوں سے ملنا ، غیر نصابی سرگرمیاں ، گھومنا پھرنا ان چیزوں کی ضرورت سے انکار نہیں لیکن ان تمام سرگرمیوں میں پہلی ترجیح یعنی حصول علم سے باقی بچ جانے والے وقت میں مصروف ہونا چاہئے۔ ان سرگرمیوں کے لئے حصول علم کا عمل متاثر نہیں ہونا چاہئے۔

 دماغی صحت

دماغی صحت اور ذہنی صحت کا تذکرہ ہم نے الگ الگ عنوانات کے تحت کیاہے ۔ دماغی صحت کے عنوان کے تحت ہم یادداشت کی صلاحیت کا تذکرہ کریں گے۔ اچھی یادداشت کی اہمیت و ضرورت زندگی کے ہر دور میں مسلمہ ہے لیکن دورِ طالب علمی میں بہتر یادداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ بچپن اور نوجوانی کے دور میں چیزوں کو پڑھ کر یاد کرلینا اور انہیں یاد رکھنا آسان بھی ہوتا ہے ۔ عمر کے اس حصہ میں یاد کی گئی چیزیں عموماً زندگی کے آخری دور تک یاد رہتی ہیں اسی وجہ سے قرآنِ کریم حفظ کرنے کے لئے بھی بچپن یا نوجوانی کا دور ہی بہتر خیال کیا جاتا ہے ۔ بہت سے طلبہ و طالبات کورس کی کتابوں سے اس لئے گھبراتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان میں لکھی ہوئی باتوں کو یاد رکھنا بہت مشکل ہے ۔ جبکہ میری نظر میں اپنے کورس کے مضامین پڑھ کر اس مندرجات یا نفس مضمون یاد کرنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے ۔ میں نے بہت سے طالبعلموں کو یادداشت کی کمزوری کی شکایت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک روز کالج کے ایک طالب علم میرے پاس مطب میں تشریف لائے ۔ وہ اپنی یادداشت کی کمزوری سے اسقدر نالاں تھے کہ ان کا دل پڑھائی سے ہی اچاٹ ہوگیا تھا۔ ان کی دو چار باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی یادداشت اتنی بھی خراب نہیں ہے خرابی ہے تو ان کے پڑھائی کے طریقے میں ہے ۔میں نے ان سے پوچھا آپ نے آج کا اخبار پڑھا ہے ؟ ان کا جواب اثبات میں تھا۔ میں نے ان سے اس روز کے اخبار میں شائع ہونے والی خبروں کے بارے میں معلوم کیا۔ انہوں نے مجھے بالکل ٹھیک ٹھیک بتایا کہ اس روز اخبار کی سرخی کیا تھی۔ دوسری خبریں کس بارے میں تھیں حتیٰ کہ انہوں نے بعض خبروں کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ وہ اخبار کے صفحہ پر کس جگہ شائع ہوئی تھیں میں نے پوچھا پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کس تاریخ کو کیا ؟ 28 مئی کو ۔ اور بھارت نے ؟ 11 مئی کو ۔ کس جگہ ؟ راجسھتان میں ۔ اس سے پہلے بھارت نے کس سال دھماکہ کیا تھا ؟ 1974ء میں کس جگہ ؟ اسی جگہ ۔ آپ نے فلم ’’ شعلے‘‘ دیکھی ہے ؟ جی ہاں۔ کب ؟ کئی سال پہلے ۔ اس فلم کی اسٹوری کیا تھی ؟ جو اب میں انہوں نے فلم شعلے کی کہانی جو انہوں نے کئی سال قبل دیکھی تھی ، بڑی اچھی طرح سنادی۔
کیا واقعی اس نوجوان کی یادداشت کمزور ہے ؟ میرا اپنا جواب تو نفی میں ہے دراصل اسے کورس کی کتاب پڑھنے اور اسے یاد رکھنے کا صحیح طریقہ بتایا ہی نہیں گیا۔ صرف یہ طالب علم قصوروار نہیں ، قصور وار (معذرت کے ساتھ ) اس کے اساتذہ اور والدین بھی ہیں ، جبکہ کافی قصور نظام تعلیم کا بھی ہے ۔ دستیاب حالات میں یادداشت کیسے بہتر بنائی جائے ؟ جس طرح جسمانی صحت کے لئے متوازن غذا اور ورزش کی ضرورت ہے اسی طرح دماغی صحت خصوصاً یادداشت کے لئے بھی ورزش یا ایکسر سائز کی ضرورت ہے ۔ یادداشت بہتر بنانے والی ایک ورزش سادہ بھی ہے اور آسان بھی ۔ اس ورزش یا مشق کے ذریعے آپ تھوڑی سی توجہ اور دلچسپی کے ذریعے پڑھی ہوئی باتوں کو یاد رکھ سکتے ہیں ۔
آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کسی فلم یا ڈرامے کی کہانی ، اخبار میں پڑھی ہوئی خبریں ، رسالے میں چھپا ہوا کوئی افسانہ بغیر رٹے ہوئے یاد ہوجاتے ہیں ۔ جب یہ چیزیں یاد رہ سکتی ہیں تو کورس کی کتابوں میں پڑھی ہوئی چیزیں کیوں یاد نہیں رہ سکتیں ۔ تھوڑی سی کوشش سے ایسا ہوسکتا ہے ۔ اس کے لئے آپ کو اپنے مضمون سے آگہی اور قربت پیدا کرنا ہوگی ۔ یہ آگہی اور قربت اس مضمون کو آپ کے لئے دلچسپ بنادے گی ۔ دوسرا کام یہ کرنا ہوگا کہ آپ ایک نشست میں بہت زیادہ صفحات نہ پڑھیں ، کم پڑھیں ۔ ایک بار پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھیں ۔ اس کے بعد اپنے کسی کلا س فیلو یا گھر میں کسی کے سامنے خواہ وہ عمر یا تعلیم میں کم ہی کیوں نہ ہو ، جو کچھ آپ نے پڑھا ہے اسے بات چیت کے انداز میں دہرائیں اور ان سے پوچھیں کہ آپ نے ان سے کیا کہا ہے ۔ جو کچھ وہ کہیں آپ غور سے سنیں ۔ اس کے بعد جو کچھ آپ نے ان سے کہا تھا اسے لکھ لیں ۔ اب اپنا لکھا ہوا کتاب سے ملاکر دیکھ لیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ شاید چند الفاظ ہی کا ردوبدل ہوا ہوگا ورنہ آپ کی لکھی ہوئی بات اور کتاب میں بیان کی گئی بات تقریباً ایک ہی ہوگی ۔ اس سلسلے میں ایک بات اور یاد رکھیں جو کچھ آپ پڑھتے ہیں اس کے الفاظ یا پیراگراف یاد کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اس کا مقصد ومفہوم سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اسی طرح لکھتے وقت کتاب کے الفاظ نقل کرنے کے بجائے اس سے اخذ کردہ مفہوم اپنے الفاظ میں لکھئے ۔ ایک بار آپ اس طریقہ کار کو ٹھیک طرح سمجھ گئے تو اپنا سبق جلدی یاد کرنا اور دیر تک یاد رکھنا آپ کے لئے بہت آسان ہوجائے گا ۔ یادداشت بہتر بنانے میں روحانی علوم سے کس طرح مدد لی جاسکتی ہے اس کا تذکرہ آگے آئے گا ۔

-3 ذہنی صحت اور رویّہ

آپ کی شخصیت کے باطنی رخ یا باطنی روپ کا انحصار آپ کی ذہنی صحت اور رویّہ پر ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات شخصیت کے صرف باطنی رخ تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ شخصیت کا ظاہری رخ بھی بہت حد تک ذہنی صحت اور رویہ پرمنحصر ہوتا ہے ۔ باطنی رخ کی نمائندگی طرزفکر سے ہوتی ہے ۔ اگر طرز فکر میں مثبت پہلو کے بجائے منفی پہلو زیادہ کارفرما ہوں تو اس کے اثرات ظاہری شخصیت پر بھی لازماً نظرآئیں گے۔
نوجوانی کا دور سیکھنے اور تربیت حاصل کرنے کا دور ہے ۔ آپ چاہیں تو مثبت چیزیں سیکھ کر انہیں اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں چاہیں تو منفی چیزوں کا اثر قبول کرکے انہیں اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں۔ اس دور میں سیکھی ہوئی باتیں اور اختیار کی گئی عادتیں بنیاد کا کام دیتے ہوئے شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ آےئے چند ایسی خصوصیات یا اوصاف پر گفتگو کرتے ہیں جو آپ کی شخصیت اور کردار کی مثبت اور تعمیری تشکیل میں معاون ثابت ہوں گی ۔جن کی بدولت اعلیٰ مقام کا حصول آپ کے لئے آسان ہوجائے گا ۔
متحرک رہنا سیکھئے : آج کے ترقی یافتہ اور مسابقت  (کمپٹیشن)کے دور میں تیز رفتاری ایک اہم صفت ہے ۔ واضح رہے کہ تیزی رفتاری کا مطلب جلدبازی نہیں ۔ تیز رفتاری سے میری مراد متحرک (موبائل) رہنا اور مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے اپنے آپ کو آمادہ اور تیار رکھنا ہے ۔ اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ سستی کاہلی تن آسانی سے اپنے آپ کو بچاےئے ۔ چستی اور پھرتی پیدا کیجئے ۔ چستی پھرتیلے پن کا تعلق صرف جسمانی صحت سے نہیں یہ ایک ذہنی رویہ بھی ہے

وقت کو استعمال کرنا سیکھئے : 

آپ نے کبھی اندازہ لگایا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں کتنا وقت آپ تعمیری سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ آپ کتنا وقت استعمال کرتے ہیں اور کتنا ضائع کردیتے ہیں۔ آےئے جائزہ لیتے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں سے تقریباً آٹھ گھنٹے تو عموماً رات کی نیند میں صرف ہوتے ہیں۔ باقی سولہ گھنٹوں میں اسکول یا کالج میں پانچ یا چھ گھنٹے صرف ہوئے۔ تاہم یہ پانچ یا چھ گھنٹے بھی عموماً مکمل طور پر تعلیمی سرگرمیوں میں صرف نہیں ہوتے۔ کسی دن ایک دو یا تین پیریڈ خالی بھی گزر جاتے ہیں۔ اکثر طلباء خالی پیریڈ کا یہ وقت آپس میں خوش گپیاں کرتے ہوئے یعنی غیر تعلیمی سرگرمیوں میں گزار دیتے ہیں بہت کم طلبہ و طالبات خالی پیریڈ ز میں ملنے والے وقت کو مطالعہ یا تعلیمی گفتگو  (ڈسکشن)میں صرف کرتے ہیں۔ اسکول ، کالج کے بعد گھر آئے کھانا کھایا۔ تھوڑی دیر آرام کیا۔ ٹی وی دیکھا شام کو دوستوں سے میل ملاقات ہوئی یا ٹی وی دیکھا گھر پر یا ٹیوشن سینٹر میں عموماً ایک یاڈیڑھ گھنٹہ پڑھائی پر صرف کیا اور پھر نیند کی وادیوں میں جاپہنچے۔ آپ خود اندازہ لگائیں مجموعی طور پر ہمارا وقت کتنا استعمال ہوتا ہے اور کس قدر ضائع ہوتا ہے ۔ وقت اتنی اہم چیز ہے کہ روزِ آخرت وقت کے استعمال کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا ۔ حدیث شریف میں آتا ہے ’’ ابن آدم سے پانچ چیزوں کے بارے میں دریافت کیا جائے گا 
  1. اس نے اپنی عمر کہاں صرف کی ( یعنی وقت کا استعمال کس طرح کیا ؟ ) 
  2.  اپنی جوانی کس کام میں خرچ کی ( اس میں بھی وقت کا استعمال شامل ہے ) 
  3.  مال کہاں سے کمایا -
  4.  ( یہ مال ) کس کام میں خرچ کیا -
  5.  علم پر کتنا عمل کیا ۔

آئیے اس موقع پررسول اللہ ﷺ کے جانشین خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک دعا کے مطالعہ کی سعادت حاصل کرتے ہوئے خود بھی یہ دعا کریں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ہمیں کہیں بھی اندھیرے میں نہ رہنے دے ۔ ہماری کج فہمیوں پر ہمیں نہ پکڑ اور ہمیں وقت سے بے پروائی برتنے والا نہ بنا۔ ( آمین ) 


ان شمارے اسکین شدہ صفحات ملاحظہ فرمائیں


یہ تحریر روحانی ڈائجسٹ اکتوبر نومبر  1999ء   کے شمارے میں
 مراقبہ برائے طالب علم کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے .....
ان شمارے اسکین شدہ صفحات ملاحظہ فرمائیں










یہ مضمون PDF صورت میں کتابچہ اسرائبڈ پر ملاحظہ کریں



اس مضمون کے متعلق اپنے تاژرات سے آگاہ کریں

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے