اولاد کی تربیت میں والد کے بڑے فرائض کیا ہیں؟

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

اولاد کی تربیت میں والد کے بڑے فرائض کیا ہیں؟

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی 


 لاہور سے محترم جہاں زیب نے لکھا کہ شادی کے چار سال بعد اللہ تعالی نے ہمیں  دو جڑواں بیٹوں سے نوازا۔ ایک ساتھ دو بیٹوں کی ولادت پر میں ، میری اہلیہ اور دونوں کے خاندان بہتخوش  ہیں....
محترم ڈاکٹر وقار عظیمی صاحب .....!  میں اور  میری اہلیہ دونوں ہی روحانی ڈائجسٹ کے  خصوصا آپ کی تحریروں کے برسوں پرانے قاری ہیں ۔ کسی موضوع پر آپ کا کوئی مضمون ہو یا لیکچر یا روحانی ڈاک میں بعض مسائل پر  آپ کی طرف سے دیئے جانے والے جوابات،  ان میں مردوں اور عورتوں کے لیے ، شوہر اور بیوی کے لیے والدین اور اولادکے لیے غرض کہ قارئین کے ہر طبقے کے لیے  سمجھنے اور سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتاہے۔ 
آج ہم بہت ایڈوانس دور میں رہ رہے ہیں ۔ میں دیکھتا ہوں کہ  دو ڈھائی سال کی عمر کے بچے موبائل فون اور دیگر گیجٹس  سے کھیل رہے ہیں ۔  میرا اور میری اہلیہ کا خیال ہے کہ اس دور میں نئی نسل کی تربیت گزشتہ ادوار  سے کہیں زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ 
محترم وقار عظیمی صاحب....!  آپ کی تحریروں سے کہیں والدین کو رہنمائی مل رہی ہوتی ہے تو کہیں نوجوانوں کو اور کہیں بچوں کو ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ عمر کے مختلف ادوار کے افراد کے احساسات اور ان کی ضروریات سمجھ کر انہیں  مسائل کا حل تجویز کرتے ہیں۔ 
میری آپ سے درخواست ہے کہ  دو  شیرخوار بیٹوں کے والد کی رہنمائی فرمائیں....  
ہمیں بتائیں کہ :  ایک والد کے کیا فرائض، کیا ذمہ داریاں ہیں ....؟  
موجودہ تیزرفتار اور مقابلہ آرائی  کے دور میں مجھے اپنے بچوں کے لئے کیا کرنا چاہیے....؟

***

 آپ کو اور آپ کی اہلیہ کو  طویل انتظار کے بعد بیٹوں کی پیدائش پر بہت مبارک باد۔ اللہ کا کرم ہوا۔ آپ کے ہاں جڑواں بیٹوں کی ولادت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی اولاد صحت مند، خوش نصیب ، صالح ہو ، آپ کو اولاد کی طرف سے بہت خوشیاں، بہت سکھ ملیں۔ آمین۔ 
اولاد کی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیجئے اور شکر ادا کرتے رہیے۔
ایک سوال یہ ہے کہ اس نعمت پر اللہ کا شکر کس طرح ادا کیا جائے....؟ 
دیکھیے.....! شکر ادا کرنا ایک کثیر پہلوی عمل ہے۔ شکر ادا کرنے کا ایک انداز یہ ہے کہ زبانی شکر ادا کیا جائے۔ شکر کا ایک طریقہ عملی طور پر شکر ادا کرنا ہے۔ 
اللہ کی ہر نعمت پر شکر واجب ہے۔ ماں یا باپ بننا دراصل اللہ کی ایک بڑی نعمت کا وصول کنندہ بننا ہے۔ اس نعمت کے عملی شکر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اولاد کی بہت اچھی تربیت کی جائے۔ 


والد کے بڑے فرائض کیا ہیں:

اولاد کے حوالے سے والد کے بڑے فرائض ‘‘تین’’ ہیں ۔ایک مرد کو باپ بن جانے کے بعد سے نہیں بلکہ شادی کے فوراً  بعد  ہی ان ‘‘تین بڑے فرائض ’’کی اچھی طرح ادائی کے لئے تیاری شروع کردینی چاہیے۔
بحیثیت باپ یہ فرائض ٹھیک طرح انجام دینے کے لیے ایک مرد کو اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ اگر اس میں ایک یا زائد خراب عادتیں ہوں یا رویوں کی خرابی ہو  تو  خراب عادتوں کو ترک اور بعض غیر مناسب (indecent) رویوں کو تبدیل کرنے کا عزم  کرنا چاہیے۔ 
ایک باپ کے ان تین فرائض کو میں تین حروف ‘‘ص’’ ‘‘ا’’  اور  ‘‘ت’’ کے تحت بیان کرتا ہوں۔ انہیں ‘‘صات ’’کا مخفف بھی دیا جاسکتا ہے۔
ص سے صحت، ا   .سے اخلاق ، ت  سے تعلیم ۔


صحت:

ایک مرد کا فرض ہے کہ وہ اپنی سب اولاد کی ، اپنی بیٹیوں کی،  اپنے بیٹوں کی صحت کے لیے  بہت زیادہ اہتمام  وانتظام کرتا رہے۔
یاد رکھئے .....!  ایک مرد کے لئے اپنے بچے کی صحت کا خیال اس وقت سے رکھنا ضروری ہے جب وہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہو ۔  شوہر کو  مسلسل خیال رکھنا چاہیے کہ دوران حمل اس کی اہلیہ  کی بڑھتی ہوئی غذائی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔  حاملہ میں ہیموگلوبین اور کیلشیم کی کمی نہ ہونے پائے ، حاملہ کو ذہنی دباؤ اور اسٹریس نہ ہو ،  اس کا بلڈپریشر نارمل رہے ۔ کسی ماہر ڈاکٹر سے حاملہ کی صحت اور رحم مادر  میں بچے کی بڑھوتری مسلسل مانیٹر کروائی جانی چاہیے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ جو بچے دوران حمل غذائی قلت کا زیادہ سامنا کرتے ہیں  ایسے بچوں میں  پیدائش کے بعد  اپنے  بچپن، نوجوانی یا ادھیڑ  عمری میں ذہنی یا جسمانی کئی امراض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان میں ذیابیطس اور دل کے امراض بھی شامل ہیں۔دنیا میں نئے آنے  والے بچے کی صحت اس کی زندگی کے ہر مرحلے میں اچھی رہے، اس کے لیے دوران حمل ماں کو اچھی غذا، ذہنی سکون اور اچھا ماحول فراہم کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ 
بیٹی ہو یا بیٹا ، بچے کی ولادت کے بعد اس کی صحت کی حفاظت کے لیے دو امور زیادہ اہم ہیں۔ ان امور کا خیال رکھنا والد کی بڑی ذمہداریوں میں شامل ہے۔
 1 _ بچے کو درکار غذائی اجزاء ٹھیک طور پر ملتے رہیں ۔
2_ بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ویکسی نیشن اور دیگر احتیاطی تدابیر کا بہت زیادہ خیال رکھا جائے۔ 


غذائی ضروریات:

شیرخوار  یعنی دودھ پیتے  بچوں اور چھوٹے بچوں کی پرورش زیادہ تر ماں ہی کرتی ہے ۔  اس مرحلے میں شوہر کی دلچسپی اور تعاون عورت کے لئے خوشی اور حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے ۔  بچوں کو اپنا دودھ پلانے والی عورتوں کو شوہر کی طرف سے ملنے والی توجہ اور پیار انہیں  مزید خوشی اور زیادہ اعتماد دیتا ہے۔  یہ اچھے احساسات ماں کے دودھ کے ذریعے بچے میں منتقل ہوتے ہیں ۔ اس سے  بچے کی صحت مندی اور بڑھوتری میں مدد ملتی ہے۔ 
گزشتہ کئی برسوں میں میں نے ایک دو نہیں ، سینکڑوں مردوں سے یہ کہا کہ دوران رضاعت وہ اپنی بیوی سے زیادہ محبت اور اپنائیت سے پیش آئیں ۔  والد کے محبت بھرے اس طرز عمل سے گھر کا ماحول بہت خوش گوار ہوا، دودھ پیتے کئی بچوں کی صحت الحمدللہ بہت اچھی ہوئی ۔
بچے کی بڑھوتری (Growth) ٹھیک طرح نہ ہو رہی ہو تو ناخواندہ یا  کم تعلیم یافتہ ہی نہیں کئی اعلی تعلیم یافتہ والدین بھی اس کے اثرات سے ناواقف جبکہ  بعض لاپرواہ ہوتے ہیں۔ وہ توجہ صرف اس وقت دیتے ہیں جب بچہ بیمار پڑجاتا ہے ۔  بچے کا بیمار پڑ جانا  والدین کو شدید پریشانی اور بے چینی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ علاج کے اخراجات سے  اکثر والدین پر  مالی دباؤ الگ پڑتا ہے۔
بچے کی صحت اچھی رہے اس کے لیے والد کو بھی یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ان کے بیٹے یا بیٹی کا قد اور وزن عمر کے مطابق بڑھ رہا ہے.... ؟اگر نہیں تو فورا اصلاحی تدابیر اختیار کرنا چاہیے ۔ بچوں کے قد یا وزن میں  کمی رہ جانے کی ایک بڑی وجہ انہیں کیلشیم، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس  اور بعض دیگر اجزاء کی مطلوبہ مقدار نہ ملنا ہے۔ 


ویکسی نیشن اور بیماریوں سے بچوؤ کے لیے دیگر تدابیر:

بچے کی صحت اچھی رہے  اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بیماریوں کے خلاف بچے کی قوت مدافعت مستحکم ہو۔ قوت مدافعت میں اضافے کے دو طریقے ہیں۔
1_ قدرتی اور   2_ اکتسابی 
قدرتی طریقوں میں سرفہرست یہ ہے کہ بچے کو ماں کا دودھ ڈیڑھ دو سال کی عمر تک پلایا جائے ۔دوسرا یہ کہ بچے کی غذائی ضروریات کی تکمیل کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے ۔ بچے کو موسمی اثرات سے بچایا جائے۔  اسے خوب کھیلنے کودنے دیا جائے۔  آنکھوں اور دماغ کو کم زوری سے بچانے کے لئے ننھے بچوں کو موبائل فون اور دیگر الیکٹرانک گیجٹس نہ دیئے جائے ۔ننھے بچوں کو ٹیلی ویژن کے قریب نہ بٹھایا جائے۔   
جس گھر میں بچے ہوں اس گھر میں خصوصاً بچے کے کمرے میں سگریٹ نوشی ہرگز نہیں ہونیچاہیئے۔
جن گھرانوں میں ذیابیطس ، ہائیبلڈپریشر، امراض قلب اور بعض دیگر امراض ہوں وہاں پیدا ہونے والے بچوں اور نوجوانوں کی صحت کا زیادہ خیال رکھنا ضروری ہے۔ والد اور والدہ اپنی صحت کا ٹھیک طرح خیال رکھ کر اور لائف اسٹائل کو بہتر بناکر اپنی اولاد کو ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر  اور امراض قلب وغیرہ سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ 


قوت مدافعت کے اکتسابی طریقے:


ہر بچے کو چند بیماریوں سے حفاظت کے لئے ویکسی نیشن لازماً کروائی جائے۔   کسی مرض کی ویکسی نیشن کروادینے سے بچوں اور بڑوں میں اس مرض کے خلاف اینٹی باڈیز متحرک ہوجاتی ہیں۔ اس عمل سے ویکسین شدہ فرد میں ان بیماریوں   کے خلاف مزاحمت بڑھ جاتی ہے۔ 
بچے کی بروقت ویکسی نیشن  کا اہتمام والد کو اپنے فرائض میں شامل کرناچاہیے۔

کب عمر ویکسین بیماری
پہلی بار پیدائش کے وقت بی سی جی اوپی وی –0 ہیپ بی بچوں کی ٹی بی، پولیو
دوسری بار چھ ہفتے بعد اوپی وی1- روٹاوائرس1- نیوموکل1- پینٹا ویلنٹ1- خناق، تشنج، کھالی کھانسیکالا یرقان،گردن توڑ بخار
تیسری بار دس ہفتے بعد اوپی وی2- روٹاوائرس21- نیوموکل2- پینٹا ویلنٹ2- خناق، تشنج، کھالی کھانسیکالا یرقان،گردن توڑ بخار
چوتھی بار چودہ ہفتے بعد اوپی وی3- آئی پی وی- نیوموکل3- پینٹا ویلنٹ3- خناق، تشنج، کھالی کھانسیکالا یرقان،گردن توڑ بخار
پانچویں بار نو ماہ بعد میزلز1- خسرہ
چھٹی بار پندرہ ماہ بعد میزلز2- خسرہ













بچے کی صحت کا خیال رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی و نفسیاتی صحت کا بھی پورا پورا خیال رکھا جائے۔ 
بچوں کو ذہنی دباؤ سے بچانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں گھر کے ملازموں، ڈرائیور یا محلے پڑوس کے  نوجوان لڑکوں  یا زیادہ بڑی عمر کے افراد کے پاس اکیلے نہ رہنے دیا جائے۔
  گھر میں یا گھر سے باہر کمسن بچوں کے ساتھ، لڑکوں یا لڑکیوں کے ساتھ ہوجانے والی جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا  کسی وجہ سے شدیددباؤ انہیں سخت صدمے، خوف اور ذہنی پس ماندگی میں مبتلاکرسکتا ہے۔ 




***




<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 

اخلاق:

والد کی دوسری اہم ترین ذمہ داری ہے  اولاد کو اعلی اخلاق سکھانا ۔
کئی والدین سمجھتے ہیں کہ  کسی اچھے اسکول میں پڑھانا ہی کافی ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہمارے ملک میں  زیادہ تر اسکول بچوں کو اچھی تربیت، ان کی اعلیٰ کردار سازی  اور تعمیر شخصیت میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کررہے۔ بچوں اور نوجوانوں کی اچھی تربیت کا زیادہ اہتمام خود والدین ، خاص طور پر والد کو کرنا ہے۔ 
اعلیٰ اخلاق اچھی تربیت کے ذریعے سکھائے جاتے ہیں۔ اولاد کی اچھی تربیت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والد اچھی عادتیں اپنائیں اور برائیوں سے  خود کو حتی الامکان دور رکھیں۔ 
مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والے اچھے مرد اور اچھی عورت کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ کئی معاملات میں خود کو ذمہ دار (Responsible) اور جواب دہ سمجھتے ہیں۔ ہر مرد کو اپنی اولاد کے لیے خود کو ایک ذمہ دار باپ بنانے کی کوشش کرنی  چاہیے۔  اس ذمہ داری کے تحت بچوں کی ضروریات کو سمجھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہر عمر کے بچوں  کی ضروریات اور ذہنی  و جسمانی تقاضوں کو سمجھنے سے بچوں کی پرورش اور اچھی تربیت  بخوبی ہوسکتی ہے۔   
بچوں کی جسمانی صحت کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ والد کے لیے ضروری ہے کہ اولاد کی اچھی کردار سازی کرنا سیکھیں، اس کام کے لیے خود کو بدلنے اور ایثار کرنے کے لیے  بھی تیار رہیں۔ ایک مرد کو یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔
فرض   اور نفلی عبادتوں  یعنی صلوٰۃ(نماز)، صوم (روزہ)، زکوٰۃ ، حج  اور دیگر  عبادات کے بارے میں اولاد کو آگہی فراہم کرنا  دینی مدرسے  یا اسکول کے اساتذہ پر  چھوڑنے کے بجائے والدین کو اپنے ذمے لینا چاہیے۔



والد کو کچھ ایسا اہتمام کرنا چاہیے کہ اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کے لیے  بار بار کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے بلکہ والدین کو صلوٰۃ قائم کرتے ہوئے دیکھ کر بچے خود ہی  بخوشی قیام الصلوٰۃ (نماز) کی طرف راغب ہوجائیں۔ہر مسلمان والد کو چاہیے کہ قرآن کی ابتدائی تعلیم وہ اپنے بچوں کو خود دیں، والد اپنے بیٹوں کو، بیٹیوں کو قرآن پاک کی سورتیں ، درود شریف ، التحیات اور قرآنیدعائیں خود یاد کروائیں۔ 
والدین خصوصاً والد اپنے نوجوان بچوں کو اچھے اخلاق سکھاتے ہوئے،  ان کی اچھی تربیت کرتے ہوئے یہ مقصد (Goal) سامنے رکھیں کہ ان کا بیٹا، ان کی بیٹی گھر اور معاشرہ کا ایک ذمہدار فرد بنے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے کاموں پر خود کو جواب دہ سمجھنا چاہیے۔ یہ جواب دہی اپنے والدین کے سامنے ہے۔ اہل خانہ کے سامنے ہے۔ ہر شخص معاشرے اور قانون کو بھی جواب دہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر انسان اس دنیا میں اور آخرت میں اپنے خالق ، اپنے مالک اللہ کے سامنےجواب دہ ہے۔
اولاد کی تربیت کرتے ہوئے اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس دل میں جما دینا چاہیے۔
ایک مشاہدہ یہ ہے کہ صرف موجودہ دور میں ہی نہیں بلکہ گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں سے اولاد کی اچھی کردار سازی اور انہیں اچھے اخلاق سکھانے میں کئی باپ اپنا فرض ٹھیک طرح ادا نہیں کر رہے۔ اولاد کی تربیت میں اس عدم توجہی، لاپروائی یا اس ذمہ داری سے واقف ہی نہ ہونے کے اثرات ہمارے معاشرے میں منشیات کے پھیلاؤ، کئی نوجوانوں میں اخلاق کے بگاڑ، مایوسی ، حلال  حرام کی تمیز اُٹھ جانے، اساتذہ کے احترام میں شدید کمی، اولاد اور والدین میں دوریوں کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔ 
ہمیں ایک بات یاد رکھنا چاہئے۔  بچے ہوں یا بڑی عمر کے افراد۔ اکثر افراد کسی بھی دور میں تن آسانی اور لذت اندوزی کی طرف جلد راغب ہوسکتے ہیں۔ یہ رغبت کئی لوگوں کو اپنی ذمہداریوں سے فرار پر اکساتی ہے۔ اس نکتے کے تحت اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ کوئی بچہ یا نوجوان بری باتیں تیزی سے اور جلد سیکھ لے ۔ بعد میں والدین کو اچھی عادات کو اس کی شخصیت کا حصہ بنانے کے لئے سخت محنت کرنا پڑے۔ اپنی اولاد کو برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے بچپن  سے ہی انہیں برے کاموں کے خراب نتائج سے آگاہ رکھنا چاہیے۔ 
کئی مرد اپنی اولاد سے توقعات تو بہت باندھ لیتے ہیں لیکن ان توقعات کی تکمیل کیلئے  اولاد کی ذہن سازی نہیں کرتے ۔ اس طرز عمل  کی دو بڑی  وجوہات ہوسکتی ہیں ۔  

1۔ اکثر مرد واقف ہی نہیں ہیں کہ اپنی اولاد کی ذہن سازی کیسے کی جائے ....یا پھر
 2_ اپنی اولاد کی کردار سازی  کے لیے کئی مرد خود کو ذہنی مشقت اور"رد" و "بدل" کے عمل سے گزارنا نہیں چاہتے۔

چار سال سے بڑے اور پندرہ سال سے کم عمر کے  اکثر لڑکوں کی نظر میں ان کے والد دنیا کے سب سے بڑے ، سب سے طاقت ور، سب سے زیادہ قابل فرد ہوتے ہیں۔بچہ اپنے والد کو پرووائیڈر اور پروٹیکٹر کے روپ میں دیکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کے والد جیسا دنیا میں کوئی اور نہیں  ہے۔
بچپن اور لڑکپن میں والد سے توقعات بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اس عمر میں بچہ اپنے والد کے رویوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ان سے حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی پارہا ہوتا ہے۔ اس عمر میں والد کی اپنے بچوں پر توجہ دینے، بچوں کی خوبیوں کی ستائش کرنے ، ان کی تعلیمی کارکردگی پر شاباش دینے ، ان کی کسی صلاحیت پر خوشی کا اظہار کرنے سے  بچے کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔
بچے کی کسی کامیابی پر لاپروائی برتنا یا اس سے طنزیہ لہجے میں بات کرنا، بچوں کو زیادہ تر ڈانٹتے ڈپٹتے رہنا، ان کے تعلیمی اور دیگر  معاملات میں دلچسپی نہ لینا  ایسے کام ہیں جن سے بچے  کی ذہنی صلاحیتوں کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں باپ کا مقام  بھی متاثر ہوسکتا ہے۔  
آپ غور کیجیے....! اکثر لڑکے  بارہ پندرہ سال کی عمر تک اپنے والد کو   Idealize کرتے ہیں۔ وہی لڑکے اٹھارہ بیس سال کی عمر کے بعد اپنے والد سے دور ہونے لگتے ہیں بلکہ بعض نوجوانوں کو تو اپنے والد سے شکایتیں ہونے لگتی ہیں۔  
ایسا کیوں ہوتا ہے....؟  اپنے والد کو اپنا سب کچھ سمجھنے والا بیٹا جوانی کے ابتدائی دور میں ہی باپ سے دور کیوں ہونے لگتا ہے....؟
میرا جواب یہ ہے کہ اس صورت حال کا زیادہ ذمہ دار نوجوان نہیں بلکہ اکثر اس کےوالدہوتے ہیں۔ 
یاد رکھیے....! اولاد کے دل میں قدر پیدا کرنا۔ اس قدر کو قائم رکھنا  بلکہ اس میں اضافہ کا اہتمام کرتے رہنا  والدین کی خصوصاً والد کی ذمہ داری ہے۔ 
والد کی طرف سے اولاد کو اچھا اخلاق سکھانے کے کئی مرحلے اور کئی طریقے ہیں۔ 
بچے کئی باتیں گھر کے ماحول سے سیکھتے ہیں۔  ایک خاص بات یہ ہے کہ بتائی ہوئی باتوں کی نسبت سنی ہوئی باتوں اور دیکھے ہوئے اندازواطوار کو بچے زیادہ اپناتے ہیں۔  
سگریٹ پینے والے کوئی صاحب اپنے بیٹے  سے کہیں کہ بیٹا....! سگریٹ پینا صحت کے لئے بہت برا ہے۔  دیکھو....!  میں تو اس لت میں پھنس چکا ہوں لیکن تم سگریٹ کبھی نہ پینا....بیٹا اپنے سگریٹ نوش والد کی یہ بات سن تو لے گا لیکن قبول بھی کر لے اس کا امکان کم ہے۔
کوئی صاحب اپنے گھر والوں سے یا اپنے دوستوں سے جھوٹ بولتے ہوں یا وعدہ خلافی کرتے ہوں۔   وہ اپنے بیٹے سے کہیں کہ بیٹا....! تم ہمیشہ سچ بولنا۔ بیٹا یہ بات سن تو لے گا لیکن ہو سکتا ہے کہ اس بات سے بیٹے کے دل میں والد  کی عزت و قدر کم ہو جائے۔


گھر کا اچھا ماحول:

اپنی اولاد کو اچھا اخلاق سکھانے کے خواہش مند  والد پر لازم ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ بہت عزت و احترام سے پیش آئیں۔بیوی کے ساتھ شوہر کا اچھا،  محبت بھرا ، باعزت رویہ اولاد کے دل میں والد کی قدر میں اضافہ کرتا ہے۔ اس قدر کی وجہ سے بچے والد کی باتوں کو خوش دلی سے قبول کرنے والے بنتے ہیں۔ اس کے برعکس ہو یعنی کسی گھر میں شوہر اپنی بیوی کی بےعزتی کرتے ہوں، انہیں طعنے دیتے ہوں ، مارتے پیٹتے ہوں تو ایسے شخص کے بچے خاص طور پر بیٹے اپنے والد  سے بہت زیادہ بد ظن  ہوجاتے ہیں۔ بیٹیاں نروس اور کنفیوز ہو جاتی ہیں۔ والد کے ہاتھوں اپنی ماں کو پٹتا ہوا دیکھتے رہنے والی کئی بیٹیاں خود اپنی شادی سے بھی خوف زدہ رہنے لگتی ہیں۔


میاں بیوی کے ‘‘قربت کے لمحات ’’.....

 میاں بیوی میں  ازدواجی تعلقات  کا قیام ایک فطری عمل ہے۔ بچوں والے گھر میں اس فطری عمل میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ بچوں  کی نفسیاتی صحت  متاثر کرنے والے کئی عوامل میں سے ایک میاں بیوی کے  ‘‘قربت کے لمحات ’’ بھی بن سکتے ہیں۔     بعض  میاں بیوی   ازدواجی تعلقات قائم کرتے ہوئے یہ خیال نہیں رکھتے  کہ اب وہ ایک یا ایک سے زائد بچوں کے ماںباپبھی ہیں۔ 
تین  چار سال سے زیادہ عمر  کے بچوں   کے والدین کو ازدواجی تعلقات  کے قیام میں  پرائیویسی کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔  ایسے مواقع پر والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے ساتھ سوئے ہوئے بچے کی نیند ڈسٹرب ہو، اس کی آنکھ کھل جائے  اور وہ خاموشی سے  سب کچھ دیکھتا رہے تو اس مشاہدے کے بچے  کے ذہن پر کئی منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔  یہ منفی اثرات   بعض بچوں کو اپنے  والدین سے   ذہنی طور پر دور کرسکتے ہیں۔  
بعض  ماہرین  بتاتے ہیں کہ جن گھروں  میں میاں بیوی آپس میں لڑتے رہتے ہوں، شوہر بیوی پر ہاتھ اُٹھاتے ہوں وہاں  والدین کو ازدواجی تعلقات میں  پرجوش انداز میں  مصروف دیکھ لینے سے بچہ  سمجھتا ہے   کہ اس کی ماں پر ظلم  ہورہا ہے۔  ایسے میں کم سن  بچہ اپنی ماں کو مظلوم اور باپ کو ظالم  سمجھنے لگتا ہے۔ 
ایسا مشاہدہ کرنے والے  بعض بچے    کسی کو ظالم یا مظلوم تو نہیں سمجھتے لیکن وہ اس فطری اور جائز عمل کو   بے شرمی اور بےحیائی  سمجھتے ہیں۔     ایسے میں  اُن کے دل میں ماں کے لیے احترام کا جذبہ متاثر ہوسکتا ہے۔ 


ازدواجی تعلقات کے  مشاہدوں کے  جسمانی ، نفسیاتی ،سماجی  و اخلاقی منفی اثرات :

والدین کے درمیان ازدواجی تعلقات کے مشاہدوں کی وجہ سے بعض بچے  شدید ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔    ایسے بچوں میں ہونے والا ہیجان  قبل از وقت بلوغت کا سبب    بن سکتا ہے۔ اس قبل از  وقت بلوغت  کی وجہ سے لڑکے یا لڑکی کا قد چھوٹا رہ  سکتا ہےیاصحت کے دیگر مسائل پیداہوسکتے ہیں۔ 
ایسے بعض بچے احساس کمتری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ بعض بچے  نشے کی لت میں آسانی سے پڑسکتے ہیں۔بعض بچے والد یا والدہ یا دونوں کو بُرا سمجھ سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال کا بار بار مشاہدہ کرنے والے  کئی لڑکے  کم عمری میں  جنسی تعلقات کے قیام کے لیے پیش قدمی کرسکتے ہیں۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ  والدین کے ازدواجی تعلقات کا مشاہدہ کرنے والے بچوں میں دو متضاد رویے سامنے آسکتے ہیں ۔   ایسے بعض بچے سہم جاتے ہیں   جبکہ بعض بچے شدید جارحانہ رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔ بچوں کی ذہنی و جسمانی اچھی صحت اور ان کی شخصیت کی تعمیر کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کی موجودگی میں ازدواجی تعلقات قائم نہ کریں یا بہت زیادہ محتاط رہیں۔ 

تقابل یا موازنہ نقصان پہنچاسکتا ہے....

بچوں میں آگے بڑھنے کے لیے مسابقت کا جذبہ اُبھارنا ایک مثبت عمل ہے لیکن یہ کام بہت احتیاط سے ہونا چاہیے۔ ایک گھر میں کوئی بچہ پڑھائی میں تیز اور کوئی کم زور ہوسکتا ہے۔ خاندان میں کوئی بچہ پڑھائی میں تیز ہوسکتا ہے۔ 
اپنے بچے کو پڑھائی  کی تلقین کرتے وقت یہ کبھی نہ کہیں کہ دیکھو تمہارا بھائی یا بہن تو پڑھائی میں بہت آگے ہے ،  تم کیوں پیچھے ہو....؟ یا یہ کبھی نہ کہیں  کہ فلاں رشتے دار یا محلے دار کے بچے پڑھائی میں یا دوسرے کسی اچھے کام میں بہت آگے  ہیں ، تم تو بالکل نکمے ہو۔ 
اس طرح  تقابل یا موازنہ  بعض بچوں کو مزید سست اور منتقم مزاج بناسکتاہے۔ 
نوجوانوں کی اچھی تربیت کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان میں اچھائی برائی کا شعور اجاگر کیا جائے۔ برائیوں سے بچنے کے لیے ان میں قوت ارادی کو مستحکم کیا جائے۔ اچھائیوں کو اپنانے کے لیے ان میں جذبہ اور امنگ بیدار کیاجائے۔ دوسرے بچوں سے موازنہ بچوں میں  جذبوں اور امنگوں کی بیداری میں رُکاوٹ بن سکتا ہے۔ 


تعلیم : 


تعلیم اولاد کا حق ہے۔ اولاد کو تعلیم دلوانا والدین خصوصاً والدکا فرض ہے۔ ماضی کی نسبت اب پاکستان میں تعلیم زیادہ عام ہو رہی ہے۔  بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ قصبات اور گاؤں میں بھی  اکثر والدین تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہو کر اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے زیادہ محنت کر رہے ہیں۔ تاہم اس معاملے میں ہمارے ہاں تعلیم کے مقاصد سے ناواقفیت اور مذہبی و دنیاوی تعلیم کے بارے میں تصورات (Concepts) میں کئی ابہام بھی  پائے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اچھی تعلیم کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اسکول یا کالج کا طالب علم انگلش اچھی طرح بولنے لگے۔ میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ اس محدود یا غلط  سوچ نے ہمارے ملک میں طبقاتی نظام کو فروغ دیا ہے۔ آپ غور کیجیے...!صرف اچھی انگلش تو چند ماہ یا ایک سال کے کسی لینگویج پروگرام کے ذریعے بھی آسکتی ہے۔ اس کے لیے بارہ تیرہ سال کثیر اخراجات اور سخت محنت کی کیاضرورت ہے....؟
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ملک  میں  کئی گھرانے خصوصاً کئی ہنر مند یا تجارت پیشہ گھرانے اپنے بچوں کو زیادہ تعلیم دلانا فضول کام سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کارخانے میں ہنر سکھانے یا دکان پر کاروباری گُر سکھانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ اپنے اس عمل کا ایک جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں نے کون  سی نوکری کرنی ہے۔ اس جواز کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ پڑھ لکھ کر نوکری کرنے والے سارا دن محنت کرکے کتنا کما لیتے ہیں....؟ وہ کہتے ہیں کہ  ہمارا لڑکا تو بغیر پڑھے لکھے ہی دکان یا کارخانے جا کر  روزانہ ایک بڑی رقم کما لیتا ہے۔
دیکھیے....! کاروباری گھرانے ہوں، زمین دار گھرانے ہوں، ہنر مند افراد ہوں یا متوسط طبقے کے افراد، سب کو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا چاہیے۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے اچھی تعلیم کا اہتمام کرنا والد کی ذمہ داری ہے۔ اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم اور ماڈرن ایجوکیشن دونوں اقسام کی تعلیم دلوانا ضروری ہے۔
مذہبی تعلیم خصوصاً نماز سکھانے اور قرآن پاک پڑھانے کے لیے سب سے اچھے استاد والدین خود ہیں۔ والد اپنے بچوں کو نماز سکھائیں اور قرآن پڑھائیں تو اس سے بچوں کے دل میں والدین کے احترام  اور قدر میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
والد کو اپنے بچوں کے لیے وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق تعلیم کا اہتمام کرناچاہیے۔
نوجوانوں کے لیے پروفیشنل تعلیم کا اہتمام ہر طالب علم کے اپنے ذوق اور رجحان کے مطابق ہونا چاہیے۔ 
کسی پروفیشن سے وابستہ کئی مرد  چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ان کا پروفیشن اختیار کریں۔  بعض والدین اپنے پروفیشن سے وابستگی پر اصرار تو نہیں کرتے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر یا انجینئر بنے۔ کئی نوجوان اپنے والدین کی ایسی خواہشات کی تکمیل کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے۔ میٹرک یا انٹر یا اولیول اور اے لیول کے طالب علموں کو ان کے رجحان اور ذوق کے مطابق حصول تعلیم میں سہولتیں فراہم کرنا چاہئیں۔ 
ایک باپ کو یہ نکتہ ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ خود اور ان کی اولاد ‘‘علمنافع’’حاصل کریں۔
علم نافع کی ایک تشریح یہ ہے کہ علم کے ذریعے ملنے والی آگہی اور ذہنی کشادگی سے انسان اس کائنات کے خالق اور مالک اللہ  وحدہ لاشریک کی صفات کو سمجھنے والا اور اللہ کی قدرت کا اعتراف کرنے والا بنے۔




حصول تعلیم کے لیے مضامین کے انتخاب میں جاب مارکیٹ میں طلب کی اپنی اہمیت ہے۔  حصول معاش میں مددگار ہونے کےساتھ ساتھ تعلیم کو ایک فرد کے لیے کئی دوسری خوبیوں کو اپنانے کا ذریعہ بھی بننا چاہیے۔ تعلیم سے اس انداز میں استفادے کے لیے گھر میں والد اور تعلیمی اداروں میں کوئی ایک استاد یا چند اساتذہ نوجوانوں کے لیے اچھے رہنما  اور محرک (Motivator)بن سکتے ہیں۔


اچھی تربیت اور اچھی تعلیم کے امتزاج   سے متوقع نتائج:

گھر میں والدین خصوصاً والد  کی جانب سے ملنے والی اچھی تربیت اور تعلیمی اداروں سے ملنے والی اچھی اور معیاری تعلیم سے نوجوان اعلیٰ قابلیت (Qualification)کے ساتھ ساتھ مستحکم، مثبت اور تعمیری طرز فکر رکھنے والی شخصیت کے حامل بن سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں، والدین کی مثبت کوششوں، اچھی تربیت اور اچھی تعلیم کی وجہ سے اعلیٰ قابلیت اور تعمیری طرز فکر رکھنے والی ایسی اولاد والدین کے لیے خوشی  و  بہت فخر کا،  اور انسانوں  و دیگر مخلوقات کے لیے خیر و فلاح کا سبب بنے گی۔
ایسی اچھی اولاد  کی مثال اس درخت کی طرح ہے جو سایہ دار بھی ہو اور پھل دار بھی۔  والدین کویہ سایہ اور پھل اس دنیا میں اولاد کی طرف سے ملنے والے ادب و احترام اور خدمت کی صورت میں اور آخرت میں اجر اور درجات میں بلندی کی صورت میں ملے گا۔ 

ان شاء اللہ بطفیل  محمد رسول اللہﷺ۔ 
مع السلام 
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی




اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے