مراقبہ برائے اساتذہ ۔ تلخیص و ترمیم

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

مراقبہ برائے اساتذہ

بطور استاد اپنی شخصیت کی تعمیر اور شاگردوں کے لیے ایک مثالی فرد بننے کے لیے   مراقبہ سے استفادہ کیسے کیا جائے....؟


      MEDITATION FOR TEACHERS
مراقبہ  برائے اساتذہ

کیا آپ کی یہ خواہش ہے کہ لوگ آپ کی شخصیت سے متاثر ہوں  ۔ آپ سے مشورہ طلب کریں  ۔ آپ کی رائے پر چلیں  ۔ آپ کے انداز کی تقلید کریں  ۔
بہت سے لوگ زندگی میں  آئیڈیل کے قائل ہیں  ۔ کیا آپ کی خواہش ہے کہ دوسرے لوگ آپ کی ذات کو اپنا آئیڈیل قرار دیں ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات اس وقت آپ کو ناممکن معلوم ہورہی ہو لیکن یہ کوئی ناممکن بات نہیں  ہے ۔ ایسا ہوسکتا ہے اور خاص طورپر ان لوگوں  کے لئے یہ مقام حاصل کرنا اور بھی آسان ہے جو اسکول ، کالج ، یونیورسٹی میں  استاد کے منصب پر فائز ہیں  ۔ گو کہ استاد صرف تعلیمی اداروں  میں  ہی نہیں  ہوتے ، زندگی کے مختلف شعبوں  میں  مختلف لوگ استاد یا معلم کا درجہ حاصل کرتے ہیں  ۔ ٹیچر کا کام صرف تدریس ہو تو یہ محض ایک پیشہ ہے جیسے انجینئر ، اکاؤنٹنٹ وغیرہ ۔ تاہم اگر کتاب اللہ کے ارشادات اور  رسول اللہ ﷺکے طرز عمل کی پیروی میں  معلم کے فرائض انجام دیئے جائیں  تو معلمی ایک عظیم اورقابل صد افتخار منصب اور مرتبہ ہے ۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو معلم کا کام اپنے شاگردوں  کوصرف علوم کی منتقلی نہیں  بلکہ ان کے اخلاق کی درستی اور ان کے کردار کی تشکیل بھی ہے ۔ انفرادی طورپر شخصیت کی تعمیر یا کردار سازی کامعاملہ ہو یا معاشرہ کو منظم بنانے اور ان کی اصلاح کے کام ہوں  ، ان کاموں  کی ذمہ داری تنہا کسی فرد یا محض کسی ایک طبقہ کی نہیں  ہوتی ۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے معاشرے کے مختلف عناصر باہم مل کر نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ اپنی صلاحیتیں  بروئے کار لاتے ہیں  ۔ ان میں  سے ہر ایک کی اپنی اپنی اہمیت ہے ۔ ایک فرد پر والدین، اساتذہ اور معاشرہ زیادہ اثرانداز ہوتا ہے ۔ شخصیت پراثر ڈالنے والے عوامل کا جائزہ لینے پر یہ بات مشاہدے میں  آتی ہے کہ ان میں سب سے مؤثر کردار ’’ استاد ‘‘ کی ذات ہے ۔
استاد کے کردار کو نظرانداز کرکے یا اس سے درست سمت میں  بھرپور فائدہ نہ اٹھاکر بے شمار  کامیابیوں  سے محرومی کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ استاد یا معلم کے مقام ومرتبہ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کامل اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے خود اپنے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ :
’’ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ‘‘ ۔
انسان کامل ﷺ کسی ایک قوم یا خطہ کے لئے نہیں  بلکہ پوری  بنی نوع انسانی کے معلم تھے ۔
  معلم انسانیت ﷺ کے طریقہ تدریس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺ نے ایثار وقربانی ، جذبہ اخوت وبھائی چارے پر مبنی ایک منصفانہ منظم، متوازن اور مستحکم معاشرے کے قیام  کے لئے فرد کی شخصیت کی تعمیر اورکردار سازی کے لئے کتاب کی تعلیم دینے اور حکمت عطا فرمانے سے قبل انسانوں  کے تزکیہ کا اہتمام فرمایا ۔
موجود ہ دور میں  معاشرے کی مختلف خرابیوں  اور ان کے سدباب کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے ماہرین قوم میں  تعلیم کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں  ۔ مسائل کے حل کے لئے اور معاشرے کو منظم خطوط پر چلانے کے لئے تعلیم کے فروغ پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں ۔ تعلیم کے فروغ کے مطالبہ سے ہم بھی متفق ہیں  لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یقین ہے کہ صرف تعلیم کا فروغ پاکستانی معاشرے کو درپیش مسائل کا حل نہیں  ہے ۔ پاکستان میں  کراچی ، لاہور ، راولپنڈی ، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں  میں  آبادی کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ لوگوں  پر مشتمل ہے اس کے باوجود معاشرتی انتشار ، بے ہنگم پن اور کئی دوسری طرح کی خرابیاں  ہمیں  ان شہروں  میں  بھی واضح طورپر دکھائی دیتی ہیں  ۔ سوال یہ ہے کہ ان شہروں  میں  تعلیم کی فراوانی کے باوجود یہاں  بہت سے مسائل اور معاشرتی بگاڑ کیوں  موجود ہیں....  ؟میری نظر میں  ان معاشرتی خرابیوں  کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ اور تعلیمی ادارے علم توفراہم کررہے ہیں  لیکن یہاں  تزکیہ یعنی کردار سازی کی طرف کماحقہ توجہ نہیں  دی جارہی ۔ اگر ہمارے معاشرے کا نظامِ تعلیم قرآنی تعلیمات اور احکامات کے زیراثر ترتیب دیا جائے توپھر جو نسل ہمارے تعلیمی اداروں  سے تیار ہوکر نکلے گی وہ اعلیٰ تربیت یافتہ اور منظم ہوگی ۔
علوم کی کسی بھی شاخ یا زندگی کے کسی بھی شعبہ سے وابستہ کوئی فرد اگر کامیاب استاد یا معلم بننا چاہتا ہے تو اس کے لئے اللہ کی کتاب قرآن اور اللہ کے رسول محمد ﷺ کی حیات طیبہ میں  ہدایت ورہنمائی موجود ہے۔ مونٹیسوری یا پرائمری ٹیچرہوں  یا سیکنڈری کلاسز کے اساتذہ ، کالج یا یونیورسٹی کے لیکچرار ہوں  یا پروفیسر عموماً یہ سب اپنے شاگردوں  کو علوم کی بہتر طورپر منتقلی کے خواہاں  ہوتے ہیں  ۔ اس مقصد کے لئے ایک استاد کا اپنے متعلقہ سبجیکٹ  پر زیادہ سے زیادہ عبور اور اس سبجیکٹ  کے حوالے سے تازہ ترین پیشرفت سے آگاہ UPDATE رہنا ، اپنی بات سمجھانے کے لئے عام فہم ، پرکشش اور دلنشین طرزتعلیم ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کلاس روم کے تمام طلبہ وطالبات کے مختلف ذہنی معیار MENTAL LEVELکے باعث وجود میں آنے والے مجموعی ماحول کوسمجھنا اور اس مجموعی ماحول کے ساتھ ساتھ کلاس روم میں موجود تمام نہیں  تو بیشتر طلبہ وطالبات کے انفرادی مزاج وافتاد طبع کو ذہن میں  رکھنا بھی ضروری ہے ۔
موجودہ دور میں  بہت سے تعلیمی اداروں  میں  جن میں  پرائمری ، سیکنڈری ، ہائر سیکنڈری اور یونیورسٹی کی سطح کے تعلیمی ادارے شامل ہیں  فی کلاس طالبعلموں  کی محدود تعداد کا کوئی خاص خیال نہیں  رکھا جارہا ۔ چنانچہ ایسے اداروں  میں  فی کلاس روم طالبعلموں  کی تعداد کہیں  چالیس ، کہیں  پچاس اور کہیں  اس سے بھی تجاوز کررہی ہے ۔ ایسی صورتحال میں  ہرطالبعلم پر انفرادی توجہ دینے کے معاملے میں  اساتذہ کو وقت کی کمی اور کام کی زیادتی کے باعث شدید دباؤ اور مشکلات کا سامنا ہے۔
مجھے اپنے مطب میں  کئی ایسے اساتذہ سے ملاقات کا موقع ملا جو معلمی کے فرائض انجام دینے کے باعث شدید جسمانی وذہنی تکان محسوس کرتے تھے ۔ ان میں  سے کئی لو یا ہائی بلڈپریشر کے مریض بھی ہوگئے تھے ۔ میرے محدود مشاہدے کے مطابق ذہنی دباؤ یا لو بلڈپریشر کی شکایات خواتین اساتذہ میں  عام ہیں  ۔ ان شکایات کے عمومی اسباب بھی زیادہ تر کلاس روم کے ماحول ، حالات کار اور کام کے شدید دباؤ سے وابستہ ہیں  ۔

ایک خاتون نے جنہیں  ٹیچنگ کے شعبے سے اپنی وابستگی پر توفخر تھا لیکن وہ کلاس روم میں  طالبعلموں  کی کثیر تعداد کے باعث انہیں  انفرادی توجہ نہ دینے پر عدم اطمینان اور ذہنی خلش محسوس کرتی تھیں  ، مطب میں  تشریف لاکر مجھے اپنی صحت کی خرابی سے آگاہ کیا اور کوئی مفید نسخہ اور مشورہ طلب کیا ۔ میں  نے انہیں  چند مقوی اعصاب ادویہ کے ساتھ ساتھ کلرتھراپی کے اصولوں  پر نیلی شعاعوں  میں  تیارکردہ پانی کی خوراکیں  ، چند اسمائے الہٰیہ کا ورد ، چند قرآنی آیات کی تلاوت اور اس کے ساتھ ساتھ رات سونے سے قبل ایک مخصوص مراقبہ تجویز کیا ۔ ان کی کلاس میں  طالبعلموں  کی تعداد 54تھی اور وہ ان تمام طالبعلموں  کو انفرادی توجہ نہ دینے کے باعث اپنی کارکردگی سے مطمئن نہ تھیں  ۔ میں  نے ان کی خدمت میں  عرض کیا کہ وہ اپنی کلاس روم کے تمام طالبعلموں  کو پانچ یا چھ  گروپوں  میں  تقسیم کردیں  ۔ ہر گروپ میں  اعلیٰ ذہانت ، اوسط ذہانت اور کم ذہانت والے طالبعلموں  کو ایک ساتھ شامل کریں  ۔ چونکہ وقت کی کمی کے باعث اتنی بڑی کلاس میں  ہر طالبعلم پر انفرادی توجہ دینا ممکن نہیں  چنانچہ اس کا ازالہ اس طرح کریں  کہ انفرادی طورپر ہر طالبعلم کے بجائے ہر گروپ پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کردیں  ۔
محترم خاتون نے اس طریقہ کار پر عمل کرنے پر آمادگی ظاہر کی ۔ وہ ہر آٹھویں  دن مطب تشریف لاتیں  اور اپنی صحت اور کارکردگی کے بارے میں  بتاتیں  ۔ نیلی شعاعوں  میں  تیار کردہ پانی ، قرآنی آیات اور اسمائے الہٰیہ کے ورد اور مراقبہ کی برکت سے انہوں  نے نہ صرف خوداعتمادی میں  کئی گنا اضافہ محسوس کیا بلکہ ان کی ذہنی وجسمانی تکان ختم ہوکر ان کی معلمانہ صلاحیتوں  میں  بھی اضافہ ہوا ۔ اس کے ساتھ کلاس روم میں  چھوٹے چھوٹے گروپ بنادینے سے زیادہ سے زیادہ طالبعلموں  کو ان کی توجہ بھی ملنا شروع ہوگئی ۔  ان کے بقول ایک اور خاص بات یہ ہوئی کہ ہرگروپ کے ذہین طلبہ نے کم ذہین طلبہ کی مدد شروع کردی ۔ اس طرح وہ بھی سبق کو پہلے کے مقابلے میں  بہتر طورپر سمجھنے کے قابل ہوگئے ۔

میں  نے مختلف اوقات میں  ایسے ایک نہیں  کئی تجربات کئے ہیں  ۔ زندگی کا وسیع وعریض میدان خود بھی ایک لیبارٹری یا تجربہ گاہ ہے ۔ انسانی ذہن ، ارادہ اور رویے اس لیبارٹری میں  کام آنے والے مختلف عناصر ہیں  ۔ ان عناصر کے مختلف انداز اور مقداروں  کے ملنے سے جنم لینے والے ردعمل ان تجربات کے نتائج ہیں  ۔
ان محترم خاتون کے مسائل تو بڑی حد تک حل ہوگئے ۔ ان کے زیادہ سے زیادہ شاگردوں  کے لئے سبق کی تفہیم بھی آسان ہوگئی ۔ تاہم یہاں  ایک اہم سوال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں  میں  استاد کا کام شاگردوں  کو محض سبق پڑھادینا یا صرف علوم کی منتقلی یا کسی خاص مضمون سے متعلقہ معلومات فراہم کردینا ہے ....؟
ان لوگوں  کے نزدیک جو ٹیچنگ کو دوسرے عمومی پیشوں  کی طرح محض ایک پیشہ سمجھتے ہیں  اس سوال کا جواب شاید ہاں  میں  ہو لیکن جو لوگ ٹیچنگ کو ایک عظیم اور قابل صدافتخار منصب سمجھتے ہیں  ان کے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں  ہوگا ۔ کیونکہ صرف کتابی سبق پڑھادینے یا کتابی علم کی منتقلی کے ذریعے اخلاق کی درستی ، شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی کے تقاضے پورے نہیں  ہوتے ۔
امت محمدیہ کے نونہالوں  اور نوجوانوں  کے کردار کی تشکیل میں  اساتذہ کا بہت اہم اور مؤثر رول ہے ۔ اس رول کی اہمیت کے پیش نظر اساتذہ سے قوم کی توقعات بہت زیادہ ہیں ۔ اس رول کی بحسن وخوبی ادائی اور قوم کی توقعات کی تکمیل کے لئے ‘‘استاد’’ کو ہمہ وقت ذاتی تربیت ، مزید علم کے حصول ، خوداحتسابی کے مراحل سے گزرتے رہنا ضروری ہے ۔ معلمی کے عظیم کام کو سنت رسول ﷺ کے پیروی کے طورپر قبول کیا جائے تو معلم کی شخصیت اور طرزعمل کو نورالہیٰ اور نور نبوت ﷺ کی روشن کرنوں  سے منور وتابناک نظر آناچاہئے ۔
بطور معلم حضور ﷺ کا طرزعمل مختلف اوصاف اور جہتوں  کا حامل ہے ۔ اس بات کی وضاحت کے لئے یہاں  میں  آپ کو سورۂ آل عمران (3)آیت 64 اور سوۂ جمعہ (62) آیت 2 کی طرف  متوجہ کروں  گا ۔
ان آیات میں معلمی کی بیان کردہ تربیت کے مطابق۔
1۔ آیات کی تلاوت : اللہ کا پیغام انسانوں  تک پہنچانا۔
2۔ لوگوں  کا تزکیہ : عوام وخواص کی اصلاح ، ان کے اخلاق کی درستگی ، کردار سازی ۔
3۔ کتاب کی تعلیم : قرآن پاک میں  بیان کردہ علوم کی تعلیم اور دنیاوی علوم کے حصول کی ترغیب ۔
4۔ حکمت : لوگوں  کو اللہ کا پیغام پہنچاکر ان کی اصلاح کرکے اور انہیں  زیورتعلیم سے آراستہ کرنے  کے بعد ان میں  بصیرت ودانش مندی کے اوصاف پیدا کرنا ۔
نبوی طریقہ تعلیم و تدریس ہے:
آج کے دور کا وہ استاد یا معلم جو دنیا کے سب سے بڑے انسان اور معلم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے معلمی کے فرائض انجام دینا چاہے ، اسے اپنی شخصیت میں  مندرجہ بالا چار صفات پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کرنی چاہئیں۔
مبلغ               مصلح                   معلم                    دانش وبصیرت عطا کرنے والا
ان خصوصیات کے حامل استاد کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں  اور فرائض کی انجام دہی کے لئے اپنی ذات کو تمام ضروری اوصاف سے مزین کرتے رہیں ۔ چنانچہ
بطور مبلغ:انہیں نوع انسانی کے شعوری ارتقاء اور موجودہ  ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کی تعلیم پر توجہ دینی ہوگی ۔ ایک مسلمان معلم کاقرآن کے ساتھ مسلسل تعلق استوار رکھنا ضروری ہے ۔
بطور مصلح : ماحول کی تبدیلی کے زیراثر اپنے شاگردوں  کے  ذہنی رویوں  ، مختلف معاملات پر ان کی سوچ اور ردعمل سے آگاہ رہنا چاہئے ۔
بطور معلم: ایک معلم کے لئے نسلی فاصلہ GENERATION GAP  بالکل بے معنی چیز ہونی چاہئے ۔ اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں  کہ اساتذہ  اپنی عمر کے فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والی لازمی اور فطری  ذہنی تبدیلیوں  کا راستہ روک دے ۔ یہ تو خود ایک خلاف فطرت بات ہوگی ۔ جنریشن گیپ پیدا نہ ہونے دینے سے مراد یہ ہے کہ پختہ عمر کا استاد بچوں  اور نوجوانوں  کی  ذہنی اپروچ کوسمجھنے کی کوشش کرتا رہے اور اس کی طرف سے ان کے فطری تقاضوں  اور  ذہنی رویوں  کی بلاوجہ مخالفت اور مزاحمت نہ ہو ۔ عمر کے مطابق شاگردوں کے مسائل ، ترجیحات ، پسند وناپسند کو سمجھتے ہوئے اور دین کے ساتھ لگاؤ اور محبت ، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ تعلق ، ملت ومعاشرہ کے ساتھ تعلق ،عملی جدوجہد ، تعمیر وترقی ، نظم وضبط اور وقت کی پابندی کے اوصاف پیدا کرنے کی کوششیں ، بہت محبت اپنائیت اور نرم روی کے ساتھ کی جائیں  ۔ استاد کی یہ تمام کوششیں  شاگرد کی اصلاح اور ان کے اخلاق کی درستگی کے ضمن میں  آئیں  گی ۔بطور معلم ، شاگرد کی اصلاح کے بعد یا اس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسے علم کی منتقلی کا مرحلہ ہے ۔ اس کے بارے میں  یہاں  تفصیلی اظہار خیال کی ضرورت نہیں  کیونکہ ہمارے ہاں  عموماً علم کی منتقلی پر ہی زیادہ زور دیا جاتا رہا ہے ۔ اس کی اہمیت پہلے ہی واضح کی جاتی رہی ہے ۔

مراقبہ سے استفادہ کیسے کیا جائے....؟


صبح فجر کی نماز کے بعد یا رات کو سونے سے پہلے ایسے کمرہ میں  جہاں  اندھیرا  ہو یا بہت کم روشنی ہو تخت پر یا فرش پر روئی کا گدا  اور چادر بچھاکر بیٹھ جائیں  ۔ کسی خاص انداز نشست کی کوئی پابندی نہیں  ہے ۔ دو زانو ہوکر ، آلتی پالتی مارکر دونوں  ہاتھ کی کلائیاں   گھٹنوں  پر رکھ کرجس طرح بھی آپ آرام دہ اور بہتر محسوس کریں  بیٹھ جائیں  ۔ دو تین منٹ تک گہرے گہرے سانس لیں  ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ناک سے ایک لمبا سانس لیں  اور پھیپھڑوں  کو زیادہ سے زیادہ ہوا سے بھرلیں  ۔ چند سیکنڈ تک سانس روکے رکھیں  پھر دونوں  ہونٹوں  کو گولائی میں  لاکر اس طرح جیسے سیٹی بجاتے ہیں  ، آہستہ آہستہ سانس باہر نکال دیں  ۔ جب پھیپھڑے ہوا سے کافی حد تک خالی ہوجائیں  تو ایک دوسیکنڈ تک توقف کریں  اور دوبارہ ناک سے سانس اندر لیں  اور پہلے کی طرح سارے عمل کو دہرائیں  ۔ اس طرح شروع کے چند دنوں  میں  تین سے پانچ بار کریں  پھر آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھاتے رہیں  اور چند دنوں  میں  زیادہ سے زیادہ تعداد  اکیس تک لے جائیں  ۔ سانس کی مشق کے بعد قرآنی آیت 

ولقد یسرناالقرآن للذکر فھل من مدکر 

اکتالیس مرتبہ پڑھیں  ۔ 
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اسماء   یا علیم ُ یافتّاح ُ یاخبیر  ایک سو ایک مرتبہ پڑھیں ۔ اس کے بعد اکیس مرتبہ دورد خضری 

صلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہِ محمد وآلہٖ وسلم

 کا ورد کریں  ۔ درود شریف کے بعد نیلی روشنی کا مراقبہ شروع کریں  ۔
اندازاً  دس منٹ تک مراقبہ کریں  ۔ مراقبہ کے بعد چند منٹ تک گدے پر بیٹھے رہیں  اور پھر اٹھ جائیں  ۔ رات کا وقت ہو تو مراقبہ کے بعد سونے کے لئے بستر پر جاسکتے ہیں  ۔ سونے سے قبل بات چیت کرنے ، مطالعہ کرنے یا کوئی اور کام کرنے پر کوئی پابندی نہیں  ہے ۔ صبح کا وقت ہو تو مراقبہ کے بعد ہلکی جسمانی ورزش بھی کی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد دیگر کام کاج میں  مشغول ہوجائیں  ۔ اگر صبح کے وقت مراقبہ کریں  تو مراقبہ کے بعد سونے سے گریز  کریں  ۔ صبح مراقبہ ناشتہ سے قبل کریں  اور رات کو کھانا کھانے کے ڈھائی گھنٹے بعد مراقبہ کریں  ۔ مراقبہ میں  آنکھیں بند کرکے یہ تصور کریں  کہ آپ نیلے رنگ کے ماحول میں  بیٹھے ہوئے ہیں  جیسا کہ کمرے میں نیلے رنگ کا بلب یا نیلے رنگ کی ٹیوب لائٹ سے کمرے کے ماحول میں  نیلا رنگ غالب آجاتا ہے ۔
صبح شام اکیس مرتبہ اسمائے الہٰی یا علیمُ یا فتّاحُ یا خبیر پڑھ کر ایک ٹیبل اسٹون شہد پر دم کرکے پئیں  ۔

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے