مراقبہ برائے طالب علم - 2

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

  مراقبہ سب کے لئے

MEDITATION FOR STUDENTS 

  مراقبہ  برائے طالب علم

(حصہ دوم)




آپ نے کبھی اندازہ لگایا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں کتنا وقت آپ تعمیری سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ آپ کتنا وقت استعمال کرتے ہیں اور کتنا ضائع کردیتے ہیں۔ وقت اتنی اہم چیز ہے کہ روزِ آخرت وقت کے استعمال کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا ۔ رسول اللہ ﷺ کے جانشین خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے :
’’ اے اللہ ! ہمیں کہیں بھی اندھیرے میں نہ رہنے دے ۔ ہماری کج فہمیوں پر ہمیں نہ پکڑ اور ہمیں وقت سے بے پروائی برتنے والا نہ بنا۔ ( آمین )
وقت کے استعمال کے سلسلے میں آپ اپنا جائزہ لیجئے۔ زندگی میں کامیابی اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے وقت کا بہترین اور زیادہ سے زیادہ استعمال سیکھئے ۔

اچھی گفتگو کرنا سیکھئے

ہر انسان اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات سے دوسروں کو گفتگو کے ذریعے ہی آگاہ کرتا ہے ۔ قوت گویائی دوسرے حیوانوں پر انسان کا خصوصی امتیاز ہے ۔ قوت گویائی کی وجہ سے ہی بولیاں اور زبانیں وجود میں آئیں ۔ اس کی وجہ سے گفتگو کا فن وجود میں آیا ۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے رشتہ داروں ،دوستوں اور دیگر حلقوں میں اس کی موجودگی کا احساس کیا جائے ، اسے اہمیت دی جائے اور اس کی غیرحاضری میں اس کی کمی محسوس کی جائے ۔ اس مقصد کے حصول کا آسان راستہ گفتگو کے فن پر عبور حاصل کرنا ہے ۔ شیریں کلامی اور اخلاق پر ہماری مذہبی تعلیمات میں بھی بڑا زور دیا گیا ۔ قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل آیت ۵۳ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہی بات کرریں جو بہترین ہو ‘‘ ۔ سورہ بقرہ کی آیت ۸۳ میں ارشاد ہوتا ہے ’’ اور لوگوں سے اچھی بات ہی بولو ‘‘ ۔
ایک مرتبہ مشہور فلسفی ارسطو کے پاس ایک شخص آیا اور بہت دیر تک خاموش بیٹھا رہا ۔ ارسطو نے اس سے کہا ’’اے شخص میرے ساتھ کچھ گفتگو کر تاکہ میں تجھے پرکھوں ۔ کیونکہ کسی شخص کی گفتار ہی اس کی شناختِ کردار اور اس کے حسن اخلاق کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘‘۔ اچھی طرح گفتگو کیجئے ۔ اپنی گفتگو میں اچھے الفاظ استعمال کیجئے ۔ اپنی گفتگو کو مختلف واقعات کے حوالوں ، اشعار ، لطائف اور شگفتہ باتوں سے سجانے کی کوشش کیجئے ۔

اچھا سامع بنئیے

لوگوں میں مقبولیت اور ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لئے فن گفتگو کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ۔ ہر انسان اپنے خیالات وجذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن جیسے اچھی طرح بات کرنے کی اہمیت ہے ایسے ہی دوسروں کی بات توجہ اور تحمل سے سننا بھی ایک بڑا وصف ہے ۔ اگر اعداد وشمار اکٹھے کئے جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اچھی طرح گفتگو کرنے والوں کی تعداد تو زیادہ ہے لیکن اچھا سامع ہونے کی صفت والے لوگ کم ہیں ۔ گفتگو ہمیشہ دو یا دو سے زائد اشخاص کے درمیان ہوتی ہے ۔ دوران گفتگو دوسرے شریک گفتگو کو بھی بولنے کا پورا پورا موقع دیجئے اور اس کی بات پوری توجہ سے سنئے ۔ جو شخص دوسروں کی بات یا ان کے مسائل توجہ وتحمل ، ہمدردی سے سنتا ہے لوگ اسے پسند کرتے ہیں ، عزت واحترام دیتے ہیں ۔ دوران گفتگو دوسروں کو بولنے کا بھرپور موقع دیجئے انہیں توجہ سے سنئے ۔ اگر آپ اپنی بات میں کوئی ایسا نکتہ بیان کرنا چاہتے ہیں جو اس موقع پر کسی اور نے بھی بیان کیا ہے تو اس بات کو اپنی بات کہنے کے بجائے اس طرح کہیں کہ جیسا کہ فلاں صاحب نے بھی کہا ہے کہ .....

مثبت رویّہ اور طرزِفکر اپنائیے

زندگی کے مختلف میدانوں میں مختلف معاملات کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔ گھر ، خاندان ، محلہ ، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی یا عملی زندگی کا کوئی شعبہ ہو حالات و واقعات آپ کی مرضی کے مطابق وقوع پذیر نہیں ہوتے ، ہر فرد خود کو سب سے زیادہ مطمئن اور باسہولت اپنے گھر میں محسوس کرتا ہے لیکن گھر میں بھی جہاں بہت سے کام آپ اپنی مرضی سے کرتے ہیں ہر کام آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا ۔ آپ کے اردگرد رہنے والے سب لوگ آپ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہیں رکھتے ۔ رشتہ داروں ، اہل محلہ یا تعلیمی ادارے کے ساتھیوں میں سے بعض کے ساتھ آپ مسابقت (کمپٹیشن)کی حالت میں بھی ہوتے ہیں ۔ اس مسابقت میں کسی کو آپ پیچھے چھوڑتے ہیں کوئی آپ کو پیچھے چھوڑتا ہے ۔ اپنے حریفوں سے بدگمانی اختیار نہ کیجئے ۔ ان سے مقابلہ کیجئے ، ان کی ذاتی مخالفت نہ کیجئے ۔ اپنے   کمپٹیٹرکو طنز ، تضحیک اور ملامت کا نشانہ مت بنائیے ۔ زندگی کے کسی شعبہ میں مسابقت کو ذاتی مخالفت میں تبدیل نہ کیجئے ۔ دوسروں کی اچھائیوں اور خوبیوں کو دیکھئے ۔ ان کی خامیوں اور برائیوں پر نظر نہ رکھئے ۔ ساتھی طالبعلموں کی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کیجئے خواہ اس نے آپ کو ہی ہرایا ہو ۔ رشتہ داروں ، دوستوں، ساتھیوں کی غیبت مت کیجئے ان پر شک مت کیجئے ۔ ان کے پیٹھ پیچھے اور ان کے سامنے ان کی تعریف کیجئے اور ان کی حوصلہ افزائی کیجئے ۔ زندگی میں مختلف طرح کی صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے ۔ بعض صورتحال ناخوشگوار ، ناپسندیدہ اور غیرمطلوب ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں ہر معاملہ کے روشن پہلو پر نظر رکھنے کی صلاحیت کو ابھارےئے ۔ کسی معاملہ کو محض منفی پہلو سے دیکھنے والے اداسی اور یاسیت میں مبتلا رہتے ہیں جبکہ روشن پہلو پر نظر رکھنے والے خوش ، مسرور اور شاداب رہتے ہیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت بھی اچھی رہتی ہے ۔

پُرامید رہئے

زندگی واقعات اور حادثات سے عبارت ہے ۔ واقعات آپ کے لئے خوشگوار بھی ہوسکتے ہیں ناخوشگوار بھی۔ زندگی میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ حادثات اور سانحات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ میں نے کئی لوگ ایسے بھی دیکھے ہیں جنہیں ڈھیروں خوشیاں ملیں پھر بھی وہ بہت مسرور وشاداں ، خوشیوں سے کھیلتے ہوئے نظر نہ آئے مگر کسی ہلکے سے غم نے انہیں بہت اداس ، افسردہ وبیزار کردیا ۔ یاد رکھئے خوشی باہر سے نہیں ملتی ، یہ آپ کے اپنے اندر سے پھوٹتی ہے جیسے کوئی چشمہ زمین سے پھوٹتا ہے ۔ خوشی ایک صفت ایک صلاحیت کے طورپر آپ کے وجود میں موجود ہے ۔ آپ کا کام اسے متحرک کرنا ہے ۔ اگر اداسی اور یاسیت کے جذبات آپ کی ذات پر غلبہ حاصل کرلیں تو خوش رہنے کی صلاحیت دب کر رہ جائے گی ۔ پھر پرندوں کی مہکار ، پھولوں کا کھلنا ، بچوں کی معصوم وشریر مسکراہٹ ، بہار کی آمد اور آپ کے اردگرد جابجا پھیلا ہوا قدرت کا حسن بھی آپ کو خوش نہ کرسکے گا ۔
نہ کلی ہے وجہ نظر کشی نہ کنول کے پھول میں تازگی
فقط اک دل کی شگفتگی سبب نشاط بہار ہے
جو لوگ پرامید رہنا سیکھ لیتے ہیں وہ خوش رہنے کا گُر جان لیتے ہیں۔ حالات کیسے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں ہمیشہ پرامید رہنے کی کوشش کیجئے ۔ مایوس نہ ہوں، مایوسی انسانی شخصیت کو اس طرح کھوکھلا اور ناتواں کردیتی ہے جیسے دیمک لکڑی کو ۔ پرامید رہنا خوشی ہے مایوسی غم ہے ۔
جو لوگ مثبت طرزفکر اختیار کرلیتے ہیں وہ ہمیشہ پرامید رہتے ہیں۔ ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زندگی میں کسی حادثہ ، نقصان یاجذباتی صدمہ پر انہیں دکھ اور افسوس نہیں ہوتا ۔ ایسا نہیں ہے مثبت طرزفکر کے حامل لوگ ایسے تمام واقعات پر عام لوگوں کی طرح دکھ وغم محسوس کرتے ہیں مگر یہ دکھ ، رنج وغم ان کی شخصیت پر منفی اثرات نہیں ڈالتے ۔ ان میں مایوسی پیدا نہیں ہوتی ۔

ناکامیوں سے کامیابی کشید کیجئے

زندگی میں ہر کام کا نتیجہ آپ کی مرضی کے مطابق برآمد نہیں ہوتا ۔ نہ ہی تمام خواہشات پوری ہوتی ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد گرامی ہے ’’ میں نے اللہ کو اپنے ارادہ کی ناکامی سے پہچانا ‘‘ ۔ دور طالبعلمی یا نوعمری میں زیادہ تر لڑکوں کو تعلیمی میدان میں کامیابی اور پسندیدہ کیرےئر کے حصول میں مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ جبکہ لڑکیوں کو ان مسائل کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ کے مسائل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے ۔ فرض کریں کہ ایک طالبعلم کی سب سے بڑی تمنا میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرنا ہے لیکن انٹرمیڈیٹ میں وہ اتنے نمبر نہیں لاسکا کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کرسکے اور اس طرح ڈاکٹر بننے کا اس کا خواب ادھورا ہے ۔ زندگی کے اس مرحلہ پر اس طالبعلم کو ایک بڑی ناکامی کا سامنا ہے ۔ میٹرک یا انٹر میں بظاہر محنت کے باوجود اگر کم نمبرملیں تو بہت سے طالبعلموں کو شدید ذہنی دھچکہ پہنچتا ہے ۔ اسی طرح اور میدانوں میں حسب توقع نتائج نہ ملنے کا معاملہ ہے لیکن زندگی کا یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے آپ نے اپنے لئے ان راہوں کا انتخاب کرنا ہے جو آپ کو کامیابی دلاتی چلی جائیں۔
ناکامیوں سے مایوس ہوکر ہمت ہارکر نہ بیٹھ جائیں ۔ ناکامیوں سے بھی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ کرنے والے توبڑی بڑی خرابیوں سے بھی کسی نہ کسی طرح خیر کی صورت پیدا کرلیتے ہیں۔ یہ صلاحیت آپ کے اندر بھی موجود ہے بس اسے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
مشکل پسند بنئے چیلنج قبول کیجئے
انسان کی کامیابیوں اور کامرانیوں میں قسمت کا جتنا بھی دخل ہو انسانی جدوجہد اور کوشش کی بہرحال اپنی اہمیت ہے ۔ خود قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے :

وان لیس للانسان الاماسعی

زندگی میں اعلیٰ مقام ان لوگوں کے حصے میں آتا ہے جو اس کے لئے محنت اور کوشش کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیلف میڈ انسانوں کے کتنے ہی واقعات اخبارات ورسائل اور کتابوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات امریکہ ، کینیڈا ، یورپ اوردیگر مستحکم معاشروں میں ہی نہیں ہوتے ہمارے ملک میں بھی ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ کتنے ہی افراد ہیں جنہوں نے بالکل زیرو یا بالکل نچلی سطح سے عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن مسلسل سخت لگن ، ہمت ، مشکل پسندی ، چیلنج قبول کرنے کی صلاحیت کے بل پر کامیابی وکامرانی حاصل کرتے چلے گئے ۔ ان کا شمار ملک وقوم کے ممتاز اشخاص میں ہونے لگا ۔
زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے نوجوانوں کو ایک صفت ضرور اختیار کرنی چاہئے اوروہ ہے مشکل پسندی اور چیلنج قبول کرنے کی صفت ۔ تن آسانی ، سستی ، کاہلی سے بچئے ۔ اگر سانپ سیڑھی کے کھیل سے مثال دی جائے تو مشکل پسندی اورچیلنج قبول کرنا سیڑھی ہے جبکہ تن آسانی سستی ، کاہلی سانپ ہیں جو بڑھتی ہوئی گوٹ کو بہت نیچے گرادیتے ہیں۔

کامیاب زندگی اور معاشرہ میں اعلیٰ مقام کا عزم کیجئے

آپ آج طالبعلم ہیں ۔ آپ کا تعلق متوسط طبقہ سے بھی ہوسکتا ہے ، امیر طبقہ سے بھی اور غریب طبقہ سے بھی ہوسکتا ہے ۔ آپ کا موجودہ خاندانی پس منظر یا معاشی اسٹیٹس جو بھی ہو آپ اپنے لئے ایک کامیاب زندگی اور معاشروں میں اعلیٰ مقام کا عزم کیجئے ۔
میرے اسکول کا ایک ساتھی تھا ، اس کے والد سائٹ میں ایک مل میں مزدوری کیا کرتے تھے ۔ ان کی رہائش کراچی میں پاک کالونی کے قریب ایک کچی آبادی میں تھی ۔ انتہائی غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والا یہ لڑکا اسکول کے زمانے میں اپنے مستقبل کے بارے میں پرعزم تھا ۔ اس نے انتہائی دشوار حالات میں سخت محنت کرکے تعلیم حاصل کی ۔ اسے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ ملا ۔ تعلیم کے حصول کے بعد مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آج وہ حکومت سندھ میں ایک بڑے عہدہ پر فائز ہے ۔ میرے سامنے ایسی ایک دو نہیں کئی مثالیں ہیں ۔ مہنگی مہنگی فیسوں والے بڑے نام والے اسکول ، والدین کے بے جا ناز نخرے زندگی میں کامیابی کی ضمانت فراہم نہیں کرتے ۔ کامیابی عزم کرنے والے اور محنت کرنے والے کو ملتی ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق ؒ فرماتے ہیں’’ جو شخص اپنے کام سے محبت کے ذریعے قدم آگے اٹھاتا ہے تو جس چیز کی توقع رکھتا ہے وہ اسے مل جاتی ہے ‘‘ ۔
لہٰذا اپنے لئے ایک نمایاں مقام کے حصول کا عزم کیجئے ۔ خوشحالی کی خواہش کیجئے اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے اندر صلاحیتیں اور خوبیاں پیدا کیجئے ۔ دولت کا حصول آپ کا حق ہے ۔ دولتمندی بذات خودکوئی بری چیز نہیں ہے ۔ دولت پاکر غرور وتکبر اور دوسروں کو کمتر سمجھنا برا ہے ۔ یہ ایسی برائی ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے ۔ دولت کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’دولت پرہیزگاری میں اچھی معاون ہے ‘‘ ۔ دولت کے حصول کی خواہش اور اس کے لئے جدوجہد کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی عہد کیجئے کہ آپ اپنی دولت کورسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اپنی ، اپنے اہل خانہ اور معاشرے کی بھلائیوں کے لئے استعمال کریں گے ۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ تکبر وغرور سے محفوظ رکھیں اور آپ کو عاجزی انکساری ، مروت اور دوسروں کے لئے محبت کرنے والا دل عطا فرمائیں۔

غصہ نہ کیجئے اشتعال میں نہ آئیے

انسانی نفس کی بڑی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری غصہ ہے ۔ زندگی میں مختلف ناموافق اور مخالف حالات پیش آتے ہیں ۔ آپ غور کیجئے کہ ہم غصہ کب اور کس پر کرتے ہیں۔ زیادہ تر ہم غصہ ان لوگوں پرکرتے ہیں جن پر ہمارا بس چلتا ہے ۔ عموماً ہم غصہ ان لوگوں پر کرتے ہیں جو ہمارے بس میں ہوتے ہیں یا جنہیں ہم اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ سڑک پر موٹر سائیکل چلاتے وقت اگر ٹریفک پولیس کا سپاہی ہمیں روک لے تو خواہ اس نے ہمیں غلط ہی کیوں نہ روکا ہو ، ہم اس پر غصہ کا اظہار نہیں کرتے ۔ اس وقت ہم اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں لیکن ایسے کسی شخص سے جو ہمارے بس میں ہو ، معمولی سی غلطی بھی سرزد ہوجائے تو بعض اوقات ہم اس پر غصہ سے پھٹ پڑتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناموافق یا مرضی کے خلاف واقعات پر اپنا ردعمل ہمارے اختیار میں ہوتا ہے لیکن سامنے والا کمزور ہو تو ہم بے قابو ہوجاتے ہیں۔ اگر سامنے والا طاقتور ہو تو ہم ضبط کرتے ہیں ۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ ہم ضبط کرسکتے ہیں ۔ پھر کیوں نہ ان لوگوں کے سامنے بھی ہم اشتعال میں نہ آئیں اور ضبط وتحمل سے کام لیں جن پر ہمارا اختیار چلتا ہے جو ہمارے بس میں ہیں یا ہم سے کمزور ہیں۔

تعمیر شخصیت میں ’’ مراقبہ ‘‘ ہماری مدد کس طرح کرتا ہے

ایک بہتر ، مثبت اور پُرکشش شخصیت کی تشکیل میں بہت سے عناصر اور عوامل اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی عناصر وعوامل ایسے ہیں جن پرمراقبہ سے حاصل ہونے والی توانائیوں کے نمایاں اثرات ہوتے ہیں۔ وجود انسانی پر مراقبہ کے مثبت اور تعمیری اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی خانوں میں تقسیم یا درجہ بندی اس طرح کی جاسکتی ہے :
  1. جسمانی صحت پر مراقبہ کے اثرات
  2. دماغی صحت پر مراقبہ کے اثرات
  3. ذہنی صحت اور رویّہ پر مراقبہ کے اثرات

جسمانی صحت

جسمانی طورپر صحتمند رہنے کے لئے متوازن غذا ، ورزش ، نیند وبیداری کا مناسب دورانیہ اورچند دیگر معمولات میں باقاعدگی کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کے اعصاب پُرسکون رہیں، دوران خون ٹھیک کام کرتا رہے اور جسم کے ایک ایک خلیہ تک آکسیجن کی فراہمی اس کی ضرورت کے مطابق ہو ۔ مراقبہ اور سانس کی مشقوں کے ذریعے یہ مقصد آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

دماغی صحت

اپنی بہتر کارکردگی کے لئے دماغ کی اولین ضرورت بڑی مقدار میں آکسیجن کی فراہمی ہے ۔ جسم کے ہر نظام اور ہر عضو اور ہر خلیہ کی کارکردگی دماغ کے تابع ہے ۔ ماں کے پیٹ میں جان پڑنے سے زندگی کی آخری سانس تک دماغ متواتر اور مسلسل جسم کے ایک ایک حصے اور ایک ایک نظام کو ان کے مقررہ افعال کی انجام دہی کے لئے احکامات صادر کرتا رہتا ہے ۔ انسان کے سانس لینے ، بھوک لگنے ، پیاس لگنے بیداری ، نیند پرورش و نشونما غرضیکہ ہر عمل کا تعلق براہِ راست دماغ سے ہے ۔
مراقبہ کا عمل دماغ پر براہ راست اپنے مثبت اثرات مرتب کرتا ہے ۔ مراقبہ دماغ کو اس کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ دماغ کی بہتر کارکردگی جسمانی اعضاء ، جسمانی نظام کے لئے بہتری کا سبب بنتی ہے اس طرح سانس کی مشقوں اور مراقبہ سے ایک طرف تو جسم کو براہِ راست فائدہ ہوتا ہے دوسری طرف مراقبہ کے ذریعے دماغ کی کارکردگی میں مدد ملنے کی وجہ سے بھی دماغ کے ساتھ ساتھ جسمانی نظام بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ سب کس طرح ہوتا ہے اس کا طریقہ کار یا میکنزم کیا ہے ؟ ان سوالوں کے جواب انشاء اﷲ ہم اس سلسلہ مضامین میں آئندہ کسی شمارے میں پیش کریں گے۔ 

ذہنی صحت اور رویّہ

جسمانی صحت ووضع قطع سے ہٹ کر آپ کی شخصیت کا اظہار آپ کی رویّہ اور طرزعمل سے ہوتا ہے ۔ آپ کاطرزعمل آپ کی طرزفکر سے منسلک ہے ۔ آپ کیا ہیں،آپ درحقیقت وہ ہیں جو آپ سوچتے ہیں۔ جو کچھ آپ سوچتے ہیں اگر وہ مثبت اور تعمیری ہے تو آپ کی شخصیت کا مجموعی تاثر مثبت اور تعمیری ہوتا ہے ۔ اگر وہ منفی اور تخریبی ہے تو یہ سوچ بھی آپ کے طرزعمل سیجھلکے گی اور آپ کی شخصیت کا حوالہ اور پہچان بن جائے گی ۔
مراقبہ کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ مراقبہ کے ذریعے شخصیت کے مثبت عوامل میں زیادہ سے زیادہ اضافہ اور منفی عوامل میں بہت کمی کی جاسکتی ہے ۔ شخصیت کے مثبت عوامل میں محبت ، خیرخواہی ، تعمیر ، ایثار وقربانی ، مثبت طرزفکر ، روشن خیالی ، امید ، عزم وحوصلہ ، بہتر یادداشت ، فہم ودانش ، بصیرت وحکمت شامل ہیں۔
شخصیت کے منفی عوامل میں شک ، مایوسی ، طمع ، منفی اندازفکر ، نفرت ، بدخواہی ، تخریب ، ناامیدی ، شکستہ دلی وپست ہمتی وغیرہ شامل ہیں۔
تعلیمی میدان میں کامیابی ، علم سے بصیرت ودانش حاصل کرنے ، معاشرہ کا ایک مفید ومؤثر رکن بننے ، کامیاب وپُرمسرت زندگی بسر کرنے کے لئے اپنی شخصیت کو درکار اعلیٰ اوصاف سے مزیّن کرنے کے لئے آپ مراقبہ سے بہت زیادہ مدد حاصل کرسکتے ہیں ۔
علم کا حصول زندگی کے لئے بہت ضروری ہے لیکن کامیاب افراد اور کامیاب معاشروں کے لئے صرف علم کا حصول ہی مطلوب ومقصود نہیں ہے ۔ بذات خود علم ایک بے کار یا کم مؤثر چیز بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔ علم کا حصول اس وقت تک اپنا مقصد پورا نہیں کرتا جب تک اس کے ساتھ دانش وبصیرت حاصل نہ ہو ۔ جس علم سے دانش وبصیرت حاصل نہ ہو اس کا کیا فائدہ ۔ محض یہ جان لینا کافی نہیں کہ یہ الف ہے یہ ب ہے ، یہ Aہے یہ Bہے ۔ علم کی اصل افادیت اس وقت ہے کہ جب علم کا استعمال ہو ۔ علم کا استعمال دانش وبصیرت کے بغیر ادھورا ہے ۔ طالبعلم کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ اسے علم کے ساتھ ساتھ دانش وبصیرت بھی حاصل ہو ۔
ایک طالبعلم کو دانش وبصیرت کے حصول میں مراقبہ مدد دے سکتا ہے ۔ علم کتابوں ، استاد اور مدرسہ سے حاصل کیجئے ۔ دانش وبصیرت دیگر ذرائع اور طریقوں کے ساتھ ساتھ مراقبہ سے بھی حاصل کرنے کی کوشش کیجئے ۔
مضبوط ومؤثر بنیادوں پر شخصیت کی تعمیر وکردار سازی کے لئے شخصیت میں مختلف مثبت خصوصیات کی افزائش کے لئے مختلف مشقیں اور مراقبہ تجویز کئے جاتے ہیں ۔ یہاں طالبعلموں کے لئے ذہنی صلاحیتوں اور یادداشت میں اضافہ ، پڑھائی میں دل لگنے اور خوداعتمادی میں اضافہ کے لئے ایک مشق تجویز کی جارہی ہے ۔ اس تمام عمل کے لئے چوبیس گھنٹوں میں سے محض چند منٹ درکار ہیں۔ ان مشقوں سے توقع ہے کہ طالبعلم نہ صرف اپنے مختلف اسباق یاد کرنے اور ذہن میں محفوظ رکھنے میں سہولت محسوس کریں گے بلکہ علم کے حصول اور اردگرد کے ماحول سے حاصل ہونے والی اطلاعات سے دانش وبصیرت کے حصول کی صلاحیت بھی جلاء پائے گی ۔
اس عمل میں قرآنی آیت ، اسمائے الہٰیہ کا ورد ، درود شریف کا ورد اور مراقبہ شامل ہے ۔

قرآنی آیت :

رب زدنی علما

درود خضری : 

صلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہ محمد وسلم

اسمائے الہٰیہ : 

یااللہ یاعلیم یاشہید یاہادی یارشید

صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد یا پھر رات عشاء کی نماز قائم کرنے کے بعد سونے سے پہلے ایسی جگہ جہاں اندھیرا ہو ، اندھیرا کرنے کے لئے کمرہ بالکل بند نہ کریں ،اس طرح کمرے میں گھٹن ہوجائے گی ۔ اگر تھوڑی بہت روشنی کی کرنیں آرہی ہوں تو بھی مراقبہ کیا جاسکتا ہے ۔ فرش یا لکڑی کے تخت پر مصلّے بچھاکر ایسی انداز نشست میں بیٹھئے جس میں آپ آرام محسوس کرتے ہوں ۔ کچھ دیر پُرسکون حالت میں یونہی بیٹھے رہئے اور گہرے گہرے سانس لیجئے ۔ پھر ناک کے ذریعے پھیپھڑوں کو ہوا سے خوب بھرلیجئے ۔ چند سیکنڈ سانس روکے رکھیں پھر منہ کے ذریعے پھیپھڑوں کی جمع شدہ ہوا کو باہر خارج کردیں ۔ اس طرح کہ ہونٹوں کو گولائی میں لاکر آہستہ آہستہ سانس باہر نکال دیں۔ جب سانس اچھی طرح باہر نکل جائے تو چند لمحے رک کر پھر دوبارہ منہ بند کرکے ناک کے ذریعے سانس لیں اور اچھی طرح ہوا سے پھیپھڑوں کوبھرلیں یعنی یہ عمل دوبارہ دہرائیں۔ ابتداء میں سانس کا یہ چکر پانچ مرتبہ کیا جاسکتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس تعداد کو بڑھاتے بڑھاتے اکیس تک کردیں۔ سانس کی مشق مکمل کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ کے اسماء یااللہ یاعلیم یاشہید یا ہادی یارشید کا ایک سو ایک بار ورد کریں ۔ اسماء الٰہیہ کے ورد کے بعد 100  بار درودِ خضری صلی اﷲ تعالیٰ علیٰ حبیبہ محمد وسلم کا ورد کریں۔اب مراقبہ شروع کریں ۔ آنکھیں بند کرکے یہ تصور کریں کہ آسمان سے نیلے رنگ کی روشنیوں کی بارش ہورہی ہے ۔ اس تصور میں مشکل ہو تو یوں محسوس کریں کہ آپ کے اردگرد کا ماحول نیلا ہے بالکل ایسا جیسے کہ اگر کمرے میں رات کے وقت صرف نیلے رنگ کا بلب روشن کیا جائے تو کمرے کی ہرشئے نیلے رنگ کی روشنی سے رنگ جاتی ہے ۔
صبح مراقبے کے بعد ہلکی ورزش بھی کریں ۔ رات کو مراقبہ کرنے والے طالب علم رات کا کھانا مراقبہ سے تقریباً ڈھائی گھنٹہ قبل کھالیں ۔قرآن کی آیت ربّ زدنی علمًا اکیس بار پڑھ کر شہد پر دم کرکے پئیں۔


حصہ اول پڑھنے کے لیے کلک کریں


ان شمارے اسکین شدہ صفحات ملاحظہ فرمائیں


یہ تحریر روحانی ڈائجسٹ اکتوبر نومبر  1999ء   کے شمارے میں
 مراقبہ برائے طالب علم کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے .....
ان شمارے اسکین شدہ صفحات ملاحظہ فرمائیں












یہ مضمون PDF صورت میں کتابچہ اسرائبڈ پر ملاحظہ کریں



اس مضمون کے متعلق اپنے تاثرات سے آگاہ کریں

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے