غربت اور محرومی قسمت میں لکھی ہوئی ہے؟؟
خوبصورت بنگلے اور کوٹھیاں ، چمکتی دمکتی قیمتی کاریں ، قیمتی غیر ملکی مصنوعات سے بھرے ہوئے عالیشان شاپنگ سینٹر ، سونے کے زیورات کی دکانوں پر خریداروں کا ہجوم ، برگر یعنی بن کباب ، فرائی مرغی ، پیزا فروخت کرنے والے غیر ملکی ریستوران پر گاہکوں کا رش ۔
پچھلے پچیس سالوں کے جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سال بہ سال ملک میں جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ، سڑکوں پر رواں دواں قیمتی کاروں کی تعداد بڑھی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے مالی دارالخلافہ کراچی میں گذشتہ پانچ سال میں موٹرسائیکلوں کی نسبت کاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ صرافہ بازار اور الیکٹرانکس مارکیٹ کو بہت وسعت ملی ہے۔ تین عشرے پہلے کراچی ، لاہور، راولپنڈی ، فیصل آباد ، حیدرآباد ، پشاور ، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں میں سونے کے زیورات کی گنی چنی دکانیں ہوا کرتی تھیں ۔ آج ہر شہر میں ماشاء اﷲ کئی کئی صرافہ بازار اور اُن میں ہزاروں دکانیں ہیں ۔ جنہیں لاکھوں ر وپے خرچ کرکے آراستہ کیا گیا ہے۔ تیس سال پہلے چھت کے پنکھے لگے ہوئے عام سے دفاتر کی جگہ آج لوگ کثیر المنزلہ عالیشان بلڈنگوں میں سینٹرل ایئرکنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں ۔الحمدﷲ لوگوں کی آمدنی اور معیارِ زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ گھروں میں قیمتی فرنیچر اور محض شوق کی خاطر خریدے گئے قیمتی الیکٹرانکس سامان کی بھر مار ہے۔ مہمانوں کی خاطر مدارات کے لئے دعوتوں ، ضیافتوں میں پندرہ بیس کھانوں سے سجے ہوئے دسترخوان ہیں اس کے علاوہ بے جا اسراف اور نمود و نمائش کے ہزار ہا طریقے ہیں۔
یہ ہے آج کے پاکستانی معاشرہ کے ایک پہلو کا ہلکا سا خاکہ
اس کے پہلو بہ پہلو اسی معاشرہ میں اپنی ماں کے سامنے بھوک سے بلکتا ہوا ایک بچہ ہے ۔ اس معصوم بچہ کا باپ غربت کے باعث اپنی اولاد کے لئے روزانہ تھوڑا سا دودھ خریدنے سے بھی قاصر ہے۔
پاکستان کو مملکتِ خدا داد کہا جاتا ہے۔ برصغیر کی مسلمان قوم نے پاکستان کامطالبہ اس لئے کیا تھا کہ اس خطۂ زمین پر بسنے والوں کے لئے اﷲ کی مرضی کے مطابق نظام مرتب کیا جائے گا۔ آج ہمارے ملک میں خوشحالی و آسودگی کے ساتھ ساتھ غربت و افلاس ، پسماندگی و محرومی کے تکلیف دہ مناظر سامنے آئے ہیں۔ کیا انہیں قسمت کا لکھا سمجھا جائے ؟۔۔۔۔۔ ہمارے ملک میں غریب و محروم شخص اس لئے غریب ہے کہ اس کی قسمت میں ہی ایسا لکھا ہوا ہے؟۔۔۔۔۔
ہمارا یقین ہے کہ اس ملک میں غربت و محرومی کا ذمہ دار ۔۔۔۔۔ دست قدرت نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری حکومتوں اور قوم کے خوشحال طبقات کے بعض افرادپر عائد ہوتی ہے۔
حکومتوں کی ذمہ داری اس لئے کہ انہوں نے پچاس سال میں ایسا نظام مرتب ونافذ نہیں کیا جو دولت کے ارتکاز کو روک کر خوشحالی کو عوام کی نچلی سطح تک لے جاسکتا ۔ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنا کر ملک کے د ولت مند ، متوسط اورغریب طبقوں کے درمیان ہمدردی ، ایثار ، اخوت وبھائی چارہ کا تعلق قائم کرسکتا ۔
موجودہ تکلیف دہ صورتحال کے دوسرے ذمہ دار ، خوشحال طبقے کے وہ لوگ بھی ہیںجو اس ملک سے دولت تو کماتے ہیں لیکن اسے غریبوں اور ضرورت مندوں کے مالی استحکام کے لئے خرچ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ اپنی دولت کو محض اپنی ذات کے لئے سینت سینت کر رکھتے ہیں اور اس میں سے معاشرہ کے محروم طبقات کا حق ادا نہیں کرتے۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اپنے رسول محمدﷺ کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے نوعِ انسانی کوزندگی کے ہر شعبہ میں مکمل رہنمائی عطا فرما دی ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں افراد اور قوموں کے لئے منصفانہ بنیادوں پر اور ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشی نظام کے لئے ہر دور میں قابلِ عمل اصول عطا فرمائے ہیں۔ ان قرآنی اصولوں کی تفہیم رسول اﷲﷺ کے ارشاداتِ مبارکہ سے بآسانی ہوسکتی ہے۔ آج ہمارے معاشرہ میں جو عدم توازن ، اونچ نیچ اور طبقاتی کشمکش نظر آتی ہے اس کی بنیادی وجہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے عطا کردہ اصولوں سے یکسر انحراف ہے۔
آیئے معاشرہ میں تقسیم دولت کے حوالہ سے اﷲ تعالیٰ کی مرضی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور جو لوگ سونایا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس میں سے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذابِ الیم کی خبر دے دو ۔ (التوبہ۔ 34)
یہاں خرچ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے یعنی دولت کا ارتکاز سے منع کیا جارہا ہے۔
اب یہ رقم کہاں خرچ کی جائے اس بارے میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور ان کے مالوں میںسائل اور نادار کا حق ہے۔ (الذاریت۔ 19 )
ایک جگہ ارشاد باری ہے :
اور نیک سلوک کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ ، اپنے رشتہ داروں ، نادار ، مسکینوں ، قرابت دار پڑوسیوں، اجنبی پڑوسیوں ، پاس بیٹھنے والے ساتھیوں ، مسافروں اور اپنے محکوموں کے ساتھ۔ (النسائ۔ 36)
جو شخص اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں پر پیسہ خرچ کرتا ہے اس کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ کہیں میری دولت کم نہ ہوجائے اس انسانی سوچ کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اور تم نیک کاموں میں جو کچھ خرچ کرو گے وہ تم کو پورا پوراواپس ملے گا۔ (البقرہ۔272)
یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنی دولت میں اضافہ چاہتا ہے خاص طور پر سرمایہ کاری کرتے وقت اس ذہن میں منافع کے ساتھ رقم کی واپسی کی امید ہوتی ہے۔ اب جو مال معاشرہ کے محروم طبقات پر خرچ کیا جائے بظاہر اس کی با منافع واپسی کی کوئی شکل سامنے نہیں لیکن یہاں اﷲ تعالیٰ ایسے خرچ کرنے والے کو اضافہ کی خوشخبری دے رہے ہیں۔
اور جن لوگوں نے ہمارے بخشے ہوئے رزق میں سے کھلے اور چھپے طریقہ سے خرچ کیا وہ ایک ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں گھاٹا ہرگز نہیں ہے۔ اﷲ اس کے بدلے ان کو پورا پورا اجر دے گا بلکہ اپنے فضل سے کچھ زیادہ ہی دے گا۔ (الفاطر۔29)
اسلام دولت کمانے کا مخالف نہیں بلکہ درحقیقت دولت کمانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ رہنے کو اچھا گھر ، پہننے کو عمدہ کپڑے ، سواری کے لئے اچھی گاڑی ، اپنی ضروریات کے خرچ کے لئے ہاتھ میں پیسہ ۔ یہ سب اﷲ تعالیٰ کے فضل میں شامل ہیں۔
اسلام دراصل ارتکاز دولت کا مخالف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام جیسا کہ سطور بالا میں آیاتِ ربانی سے واضح ہوتا ہے اسلام کسی بھی دولت مند کو اس کی دولت کا واحد مالک قرار نہیں دیتا۔اس دولت میں معاشرے کے کمزور اور محروم طبقات کا بھی حصہ ہے جو اسے ادا کرنا ہے۔
یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں ماشاء اﷲ خوشحالی میں اضافہ ہورہا ہے۔ شہروں کے پھیلاؤ اور لوگوں کے طرزِ زندگی میں نمایاں تبدیلی اس کی مثالیں ہیں۔
لیکن ساتھ ہی غربت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ غربت میں اضافہ کی شرح خوشحال لوگوں میں اضافہ کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی ذمہ داری کہیں موسمی صورتحال پر ڈالی جاتی ہے۔ کہیں آبی ذخائر کی عدم تعمیر پر ، کہیں حکومتی پالیسیوں کی خرابی یا عدم تسلسل پر ۔۔۔۔۔ لیکن اس وقت ہمارے پیشِ نظر قوم کے خوشحال طبقات کا طرزِ عمل ہے۔
ہمارا ایک طرزِ عمل یہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قوم و ملک پر میرے کتنے حقوق ہیں ۔ اپنے حقوق کے بارے میں سوچنے میں ہم اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ اس بات کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں کہ دوسروں کے ہم پر کیا حقوق ہیں۔
اپنی قوم ، اپنے ملک کے لئے ، اﷲ کی خوشنودی کے لئے ، اﷲ کے رسولﷺ کی امت کی خدمت کے جذبہ کے تحت آیئے اپنے حقوق طلب کرنے سے پہلے اپنے اوپر دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا بیڑا اُٹھائیں۔
ہماری قوم میں کم از کم ایک لاکھ افراد یقینا ایسے ہوں گے ۔ جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے خوشحالی عطا فرمائی۔ اگر یہ ایک لاکھ افراد قرآن کے حکم کی تعمیل میں اپنے خاندان میں ہی کم از کم دو ایسے گھرانوں کا انتخاب کرلیں جو محرومی کا شکار ہیں۔ کیا ایک یا دو سال تک ان دو گھرانوں کی مالی سرپرستی سے وہ باعزت طور پر بہتر روزگار حاصل کرنے کے لئے قابل نہیں ہوجائیں گے اور اس طرزِ عمل نتیجہ کا کیا ہوگا؟
ہمارا یقین ہے کہ اس طرزِ عمل کی برکت سے تھوڑے ہی عرصے میں ملک کے دو لاکھ گھرانے غربت کی دلدل سے نکل کر زکوٰۃ ادا کرنے والے لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔ یہ طرزِ عمل اختیار کرنے کے لئے صرف قرآنی تعلیمات پر عمل کا عزم درکار ہے۔ اس کے لئے کسی بجٹ ، کسی حکومتی آرڈر، کسی ایس آر او کی ضرورت نہیں۔