محمد مصطفٰے ﷺ کے نقشِ قدم پر

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


محمد مصطفٰے ﷺ کے نقشِ قدم پر


اہلِ پاکستان کو عیدِ میلاد النبی ﷺ مبارک ہو ۔ 
پاکستان میں عیدِ میلاد النبیﷺ کے مقدس دن کو ایک تہوار کی حیثیت حاصل ہے۔ اس دن پاکستانی قوم اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہے۔ اﷲ کے حبیب محمد رسول اﷲﷺ کے ساتھ اپنی قلبی اور روحانی وابستگی کا اظہار بہت عقیدت و احترام کے ساتھ کرتی ہے۔ پاکستان میں یہ دن دوسرے مسلمان ممالک کی نسبت زیادہ پُرجوش انداز میں منایا جاتا ہے۔ میلاد النبی کے مبارک لمحوں کی یاد کو ہم ایک جشن کی صورت میں مناتے ہیں۔  
مملکت خداداد۔۔۔۔۔ پاکستان ۔۔۔۔کے حصول کے لئے برصغیر کی مسلم قوم نے اﷲ تعالیٰ سے ایک وعدہ کیا تھا۔ اﷲتعالیٰ نے اس قوم کی تمنا پوری کردی اور دنیاکا ایک بہترین خطہ جو ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اس قوم کو عطا فرما دیا۔ اﷲ تعالیٰ نے برصغیر کی مسلم قوم کی اس تمنا، خواہش اور مطالبہ کی تکمیل جس وقت فرمائی اس میں بھی اہلِ نظر کے لئے غورو فکر کا بہت ساماں موجود ہے۔ 

انا انزلنہ فی لیلۃ القدر

پاکستان بھی اس مبارک شب میں معرض وجود میں آیا ۔
قیام پاکستان کے 54 سال بعد آج اس مملکت میں حالات کیا ہیں۔
مسلم قومیت کے احساس کا (جو قیام پاکستان کی بنیاد تھی) فقدان نظر آتا ہے اس کے بجائے بہت سے لوگ پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ اور مہاجر قومیت پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں ۔ مسلم وحدت فکر کے بجائے  بہت سے لوگ دیو بندی، بریلوی، اہلحدیث، سنی، شیعہ کا تشخص زیادہ نمایاں کرتے ہیں ۔ قومی یکجہتی کی صورتحال یہ ہے کہ صوبوں کے درمیان  غلط فہمیاں اور شکوے شکایات ہیں ۔ کئی مرتبہ صوبے مرکز سے امتیازی سلوک کے شاکی نظر آتے ہیں۔ معاشی صورتحال کی خرابی تو بہت زیادہ ظاہر و عیاں ہے کیونکہ قومی معیشت کی بہتری یا ابتری سے ملک کا ہر شخص خاص طور پر متوسط اور غریب طبقہ فوری متاثر ہوتا ہے۔ سونا اگلنے والی زمین پر بسنے والی قوم کے مالی کرتا دھرتا لوگوں نے قومی معیشت کا اس طرح ستیا ناس کیا ہے کہ جس قوم کو خطہ کی امیر ترین قوم ہونا چاہیے تھا وہ آج غیر ملکی مہاجنوں کے قرض میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے ۔ اب تو اس کا حال یہ ہوگیا ہے کہ اسے سود کی ادائیگی کے لئے بھی غیر مسلموں خصوصاً یہودیوں اور عیسائیوں کے سامنے مزید قرض کے لئے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔ 
سماجی لحاظ سے صورتحال یہ ہے کہ دودھ فروش اپنا منافع بڑھانے کے لئے دودھ میں خوب پانی ملاتا ہے۔ غذائی اشیاء اور دواؤں میں ملاوٹ کی جاتی ہے ۔گوشت سبزی، کریانہ فروش کم تولتے ہیں۔ رکشہ ٹیکسی والے مقرر کردہ نرخ پر میٹر کے مطابق چلنے کے بجائے یا تو منہ مانگا کرایہ وصول کرتے ہیں یا پھر میٹر بہت تیز رکھتے ہیں۔ لوگ بھی اس صورتحال کو تسلیم کر کے صبر شکر سے بیٹھ گئے ہیں۔تاجر جو سیمپل دکھاتا ہے اس کے مطابق مال فراہم نہیں کرتا۔ وعدہ پورا نہیں کیا جاتا ۔ صنعتکار اپنا منافع بڑھانے کے لئے مزدوروں کی اجرت کم سے کم رکھنا چاہتے ہیں دوسری  طرف مزدور کارخانوں میں دل لگا کر کام نہیں کرتے۔ سرکاری دفتروں میں اہلکار پیسہ لے کر ناجائز کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ جائز کام کرنے کے لئے بھی رقم طلب کرتے ہیں۔ محلہ کی حالت یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ باہر سڑک پر پھینک دیتے ہیں پڑوسیوں کی تکلیف کا احساس نہیں کرتے۔ سڑک پر کوئی شخص زخمی حالت میں پڑا ہوا ہو تو قریب سے گزرنے والا شخص اُسے اٹھا کر ہسپتال لے جانے سے ہچکچاتا ہے ۔ ۔۔۔۔اور تعلیم کا شعبہ ۔۔۔۔۔
تعلیم قوموں کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ قیام پاکستان کے 54 سال بعد بھی ہماری شرح خواندگی 30 فیصد سے کم ہے۔ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت ہم شرح خواندگی میں اضافہ صرف ایک فیصد سالانہ بھی رکھتے تو اس وقت ہماری  شرح خواندگی 54 فیصد ہوتی۔ 30 فیصد شرح خواندگی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہماری شرح جہالت 70 فیصد ہے۔ کیا پاکستان کے قیام کے مقاصد کی تکمیل اس صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ  آزادی کے 54 سال بعد بھی قوم میں جہالت کے اندھیروں کا راج ہو۔
ہم ۔۔۔اﷲ کے آخری رسول محمد مصطفیٰﷺ کے امتی ہیں ۔ اپنی اس نسبت پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ لیکن کیا اس نسبت پر صرف زبانی طور پر فخر کرکے ہم اﷲ کی مرضی کی تکمیل اور  رسول اﷲﷺ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں۔ رسول اﷲ کے امتی ہونے کا حق تو اس طرح ادا ہوگا کہ آپﷺ کی تعلیمات آپﷺ کی طرزِ فکر اور طرزِ عمل کی زندگی کے ہر شعبہ میں پیروی کی جائے۔
پاکستان کو کئی طرح کے مسائل و مشکلات کاسامنا ہے۔ ان کی وجہ سے ہمارے حالات بہت خراب ہیں۔ ان مشکلات سے نکلنے اور حالات بہتر بنانے کے لئے گذشتہ پچاس سالوں میں ہم نے کئی طرح کے نسخے آزما کر دیکھ لئے۔ لیکن ہمیں کامیابی نہیں ہوئی ۔ حالات سدھرنے کے بجائے روز بروز مزید بگڑتے چلے گئے۔ 
پاکستانی قوم کا ایک خاص مزاج ہے۔ اس قوم کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل اور جسدِ ملی کو لاحق بیماریوں کے علاج کے لئے قوم کے مزاج کو بہرحال مدنظر رکھنا ہوگا۔انسانِ کامل ، طبیبِ اعظم ، قلوب کے حکمران محمد مصطفٰے ﷺ نے قوموں اور حکومتوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے جو شافی نسخے اور حل تجویز فرمائے ہیں۔ پاکستانی قوم کا مزاج اُن سے مکمل موافقت رکھتا ہے۔ 
رسول اﷲﷺ نے مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے دنیا کی پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔
رسول اﷲ ﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد مکہ اور دیگر علاقوں سے مہاجرین بہت بڑی تعداد میں مدینہ آئے ۔ اس مشکل اور بے سرو سامانی کے وقت میں رسول اﷲﷺ نے بڑی عمدگی سے مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ حل فرمادیا۔ مدینہ کی ڈیمو گرافک صورتحال میں  اچانک بہت بڑی تبدیلی کے باوجود نہ تو مدینہ میں آبسنے والے مہاجرین کسی احساس محرومی یا مقامی لوگوں کی طرف سے کسی امتیازی سلو ک کا شکار ہوئے نہ ہی مقامی لوگوں کو مہاجرین کے آجانے سے کسی قسم کی مغلوبیت کا احساس ہوا۔ یہ سب کچھ رسول اﷲﷺ کے حسنِ تدبر کا نتیجہ تھا۔ ریاست مدینہ میں مختلف طبقات موجود تھے جن میں مسلمان، یہودی، مشرک اور قبائلی لحاظ سے کئی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دشمن قبائل شامل تھے۔ اس ماحول میں رسول اﷲﷺ نے ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن کی بدولت مخالف و متضاد سوچ و عزائم رکھنے والے طبقات و قبائل اپنا مذہب اور قبائلی شناخت چھوڑے بغیر ایک مرکز ی حکومت کے ماتحت امن و امان کے ساتھ رہنے پر تیار ہوگئے۔ 
جس وقت رسول اﷲﷺ ریاست مدینہ کی بنیادیں رکھ رہے تھے اس وقت دنیا کے سامنے کسی شورائی نظام کی کوئی مثال و نظیر تھی نہ ہی عرب قبائل میں مرکزی حکومت کا کوئی تصور موجود تھا۔ اس دور کے کسی معاشرہ میں ملکی و قومی سطح پر انصاف و مساوات کی فراہمی کے لئے نظامِ قانون کا کوئی تصور موجود نہ تھا ۔ اس دور کے حالات آج کے حالات کی نسبت بہت زیادہ خراب تھے۔ ریاست مدینہ کو بیرونی جارحیت کے شدید خطرات لاحق تھے لیکن ان کے پاس اپنے دفاع کے لئے وسائل و قوت نہ ہونے کے برابر تھی۔ مدینہ میں بسنے والے یہود، منافقین اور مدینہ کے بعض قبائل کی سازشوں کی وجہ سے ریاست کے اندر بھی  شدید خطرات موجود تھے ۔ نظامِ مملکت و حکومت چلانے کے لئے ریاست مدینہ کے پاس مالی وسائل کی شدید قلت تھی ۔ 
رسول اﷲﷺ نے مدینہ تشریف لا کر قوم کی علمی سطح بلند کرنے کی تدابیر فرمائیں شرح خواندگی میں تیز رفتار اضافے کے لئے موثر اقدامات کئے ۔ریاست مدینہ کو مالی طور پر مستحکم اور خود مختار ریاست بنانے کی طرف بھرپور توجہ دی۔ ریاست ِ مدینہ کے شہریوں کو حقوق کے تحفظ کے لئے ریاست کی پوری قوت فراہم کی۔ریاست کے اندر امن و امان بہتر بنا کر شہریوں کو تحفظ عطا کیا ۔ بیرونی جارحیت سے بچاؤ کے لئے دفاع کومضبوط بنایا۔ مدینے کے قریب اور دوردراز علاقوں میں بسنے والے غیر مسلم قبائل کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرکے تجارتی سہولتوں میں اضافہ کیا ۔ بیرونِ ریاست عام آدمی کے سفر کو محفوظ بنایا۔ اس طرح معیشت کی مضبوطی کے اسباب فراہم کئے اور جارحیت کے امکانات کا سدّ ِ باب فرمایا۔
سماج میں پائی جانے والی بے شمار خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ دی ۔ دنیاکے عظیم ترین سماجی مصلح  کی حیثیت سے اصلاح و ترقی کا عمل جاری فرمایا ۔آپ ﷺ کی تعلیمات اور اقدامات سے رشوت، ملاوٹ، کم تولنا، حقوق غصب کرنا جیسی برائیاں معاشرہ میں کمترین سطح پر آگئیں۔ اعلیٰ انسانی اقدار مثلاً والدین کی عزت و تکریم، عورت کا احترام ، اولاد کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق پڑوسیوں کے حقوق ، خیر خواہی و بھائی چارہ۔ میدانِ جنگ میں اخلاقی قدروں کی بالا دستی، قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور دیگر بہت سے اقدامات کی تلقین و نفوذ کے ذریعے معاشرہ میں اچھائیاں  زیادہ سے زیادہ سطح پر آگئیں۔ 
باالفاظ دیگر ایک ایسے معاشرے اور ماحول میں جو عام طور پر تعلیم سے نابلد ہو ، اخلاق وتہذیب سے عاری ہو جسے سوشیالوجی، اکانومکس، پولیٹیکل سائنس ، قانون جیسے علوم سے قطعاً کوئی واقفیت ہی نہ ہو ۔ رسو ل اﷲﷺ نے وحی کی روشنی میں علم و حکمت سے کام لے کر انقلابی تبدیلیاں رائج فرما دیں۔ 
ہر دردمند اور محبِ وطن پاکستانی آج اپنے پیارے وطن کے حالات پر فکر مند ہے۔ اُس کی خواہش ہے کہ ہمارے حالات جلد از جلد اچھے ہوجائیں ۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجائے ، مملکت کا نظام بہتر ہوجائے ، سماج میں پائی جانے والی خرابیاں دور ہوجائیں۔ 
ایک عام پاکستانی اپنے ہر آنے والے حکمران سے یہی توقع باندھ لیتا ہے کہ شاید یہ ’’بندہ ‘‘ ہمارے لئے نجات دہندہ ثابت ہوگا۔ لیکن ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ عوام اپنی مشکلات بتاتے ہیں تو حکمران اپنی مشکلات گنوانے لگتے ہیں۔ اس طرح مسائل جوں کے توں رہتے ہیں بلکہ اُن میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ 

آخر پاکستانی قوم کو اپنی منزل کس طرح ملے گی ۔ 
ہمارا  اِس امر پر پختہ یقین ہے کہ پاکستانی قوم کو اپنی منزل اس طرح ملے گی کہ وہ محمد مصطفٰے ﷺ کے  نقشِ قدم پر چلے اور اُس کا ہر سفر دامنِ مصطفٰےﷺ کے سائے میں ہو۔ عافیت اور فلاح اس میں ہے کہ اِس قوم کے حکمران یہ بات جلد سمجھ جائیں اور قوم کو لے کر اس راہ پر گامزن ہوجائیں ۔ 
اس سال عیدِ میلاد النبیﷺ کا جشن مناتے ہوئے آیئے عہد کریں کہ ہم اپنی ذات میں ، اپنے گھر میں ، اپنے شہر میں اور اپنے ملک پاکستان میں محمدی فکر کو فروغ دیں گے ۔ معاملہ ہماری ذات کا ہو یا ملک کا ، داخلی صورتحال ہو یا خارجہ تعلقات ، معیشت یا اقتصادیات کا مسئلہ ہو یا سماجی نا ہمواریوں کا ، ہم زندگی کے ہر معاملے کو تعلیماتِ نبویﷺ کے مطابق طے کریں گے۔ اﷲ کے حبیب محمد رسول اﷲ ﷺ کی پیروی ہمارے لئے ہر طرح کی کامیابی ، خوشحالی ، عزت و احترام و سربلندی کا ذریعہ ہے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَاوَمَوْلاَنَا مُحَمَّدٍ مَّعْدِنِ الْجُوْدِ وَالْکَرَمِ وَاٰلِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْO

اے اﷲ ! ہمارے سردار ، ہمارے آقا ، محمد پر جوبخشش و کرم کا خزانہ ہیں اور ان کی آل پر صلوٰۃ ، برکتیں اور سلامتی ہو

[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، جون 2001ء ]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے