تصویر کے دو رخ

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


 تصویر کے دو رخ


اللہ کا شکر ہے آسمان سے خوب پانی برسا، زمین کی پیاس بجھی، دریا رواں ہوئے تو ایک حسین منظر سامنے آیا نہروں سے کھیت و کھلیان سیراب ہوئے اور میدان سرسبز ہوگئے، درختوں پر سے کثافت دھلی، پودوں کی شادابی لوٹ آئی، صاف ہوا نے جسم و جاں کو صحت و توانائی اور قلب و ذہن کو فرحت وانبساط عطا کیا۔ یہ دنیا بھر کی طرح ہماری دھرتی پر بھی ابرِ رحمت کے باعث ملنے والے بے شمار فوائد میں سے چند فوائد ہیں۔ لیکن۔۔۔۔۔ ہمارے ملک کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ تصویر کا ایک رُخ محسوس ہوتا ہے جو زندگی، صحت اور فرحت سے بھر پور ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رُخ تکلیف، بیزاری و مایوسی پر مشتمل ہے۔
تصویر کا پہلا رُخ قدرت کے انعامات کا اظہار ہے۔۔۔۔۔ جب کہ
تصویر کا دوسرا رُخ ہماری نا شکر گزاری، تساہلی و بد عملی کا اظہار ہے۔
تصویر کا یہ دوسرا رُخ کیا ہے ؟
تھوڑی سی بارش برسی تو بجلی کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ روشنیوں سے جگمگاتی بستیاں اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ لوگ گرمی اور حبس سے بے حال ہو گئے۔ چند ملی میٹر بارش سے ہی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔ بجلی کی فراہمی میں تعطل اور نکاسی آب کے نظام میں خرابی کے باعث آمد و رفت کے نظام میں شدید دشواریاں ہوئیں۔ ذرائع مواصلات متاثر ہوئے اور بہت بڑی تعداد میں ٹیلی فونز خراب ہوگئے۔
ہمارا حال بھی عجیب ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہم بارش نہ ہونے سے سخت پریشان تھے۔ بارش نہ ہونے سے ہمارے ہاں زرعی زمینوں پر آب پاشی کے لئے پانی کی شدید قلت ہو گئی تھی، بارش ہوئی تو اور طرح کے کئی مسائل سامنے آگئے ۔۔۔۔۔
بارش نہ ہونے سے زراعت اور دیگر استعمال کے لئے پانی کی قلت کا معاملہ ہو یا بارشیں ہونے سے شہروں اور دیہاتوں میں بجلی، نکاسی آب، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ٹیلی فونز کی خرابی جیسے مسائل ان سب کی وجوہات ہماری اپنی تساہلی اور بد اعمالیوں میں پنہاں ہیں۔ اپنی تساہلی اور بد اعمالیوں کی وجہ سے رونما ہونے والی خرابیوں کی ذمہ داری قدرت پر ہر گز نہیں ڈالی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہم پر بہت مہربان ہیں۔ اللہ نے ہمیں    بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا، ان سے اپنی زندگی کے لئے آسانیاں فراہم کرنا، ان نعمتوں کو انسانوں اور اللہ کی دوسری مخلوق کی زیادہ سے زیادہ فلاح کے لئے استعمال کرنا ہمارا اپنا کام ہے۔ اگر پانی کے لئے ذخیرہ گاہیں تعمیر کرانا ہیں تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے یہ ہمیں خود تعمیر کرنا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے کاموں کے لئے فرشتوں کو نہیں بھیجتے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک نظام تشکیل فرما دیا ہے۔ جو کوئی اس نظام کے مطابق عمل کرے گا اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ وسائل اس کے کام آئیں گے اور جو اس نظام کے خلاف عمل کرے گا اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
’’اورتمارے اوپر جو عذاب نازل ہوتے ہیں وہ تمہاری اپنی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں‘‘( القرآن)
پاکستانی معاشرہ کو درپیش کئی مسائل بھی ہماری اپنی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔۔۔۔۔ کچھ بد اعمالیاں انفرادی ہیں اور کچھ اجتماعی۔ مثال کے طور پر جھوٹ بولنا ایک انفرادی فعل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح رشوت طلب کرنا یا رشوت کی پیش کش کرنا، ملاوٹ کرنا، غیر معیاری مال کو معیاری بتا کر بیچنا، کاروباری وعدوں کی تکمیل نہ کرنا، کم تولنا وغیرہ جیسی بد اعمالیوں کو انفرادی فعل کہا جا سکتا ہے لیکن ان خرابیوں پر آنکھیں بند کر لینا یا انہیں ناگزیر قرار دے کر تسلیم کر لینا کوئی مجبوری نہیں بلکہ اجتماعی بد اعمالی کا مظہر ہے۔ دودھ فروش دودھ میں پانی ملاتا ہے ، کریانہ فروش کم تولتا ہے۔ تاجر بتائی ہوئی چیز کے بجائے اس سے کمتر معیار کامال فراہم کردیتا ہے حالانکہ ناپ تول میں کمی ، ملاوٹ ، وعدہ پورا نہ کرنا اسلامی تعلیمات کے صریحاً خلاف اعمال ہیں۔ قرآن کہتا ہے ۔
جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو۔۔۔۔۔ اور عہد کو پورا کرو 
عہد کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ (سورہ بنی اسرائیل )
بہت زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ معاشرہ میں پائی جانے والی ان خرابیوں کو ہم نے ایک ناگزیرعمل سمجھ کر قبول کرلیاہے۔معاشرتی برائیوں کا انسداد کرنے کے بجائے عوامی سطح پر ہم ایک طرح بے حسی اور لاتعلقی کاشکار ہیں۔ معاشرہ کی خرابیوں پر آنکھیں بند رکھنے والی یہ طرزِ فکر بُرائی کے وجود سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔ہمارے معاشرہ میں رشوت کا چلن عام ہے، اس نے ایک مہلک مرض بن کر جسدِ ملّی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس مرض نے پاکستانی معیشت اور قوم کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو شدید متاثر کیا ہے۔ لوگوں سے بات کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً ہر شخص رشوت کو برا سمجھتا ہے لیکن رشوت کو برا سمجھنے والوں کے رویہ کا گہرائی میں جا کر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ رشوت کے بارے میں ہمارے رویئے یکطرفہ اور محدود طرز فکر کے حامل ہیں یعنی ہم میں سے اکثر لوگ رشوت لینے والوں کو بہت برا سمجھتے ہیں جب کہ رشوت دینے والوں کو برا نہیں سمجھتے بلکہ ان سے ہمدردانہ رویہ رکھتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ رشوت لینے والا زیادتی کر رہا ہے۔ جب کہ رشوت دینے والا مجبور و مظلوم ہے۔ قوم کے مختلف طبقوںکے معاملات اور معمولات کاتجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں مجبوری کے عالم میں رشوت دینے والوں کی شرح بہت کم ہے۔ ہمارے معاشرہ میں ان لوگوں کی شرح زیادہ ہے جو اپنے نا جائز مفادات کے حصول کے لئے رشوت دیتے ہیں۔ایسے افراد کے لئے رشوت کی رقم کاروباری خرچ کی حیثیت رکھتی ہے اس خرچ کے ذریعہ وہ اپنی کئی ذمہ داریاں پوری کئے بغیر ناجائز طور پر زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں۔ 
ایک سادہ سی مثال ٹیکس کی ادائیگی کے معاملات سے لیتے ہیں۔۔۔۔۔ ٹیکس افسر بجا طور پر اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ایک تاجر کے ذمہ ساٹھ ہزار ٹیکس بنتا ہے۔ اس افسر نے ٹیکس دہندہ تاجر کو نوٹس دینے سے پہلے پیشگی طور پر اس امر سے آگاہ کر دیا۔ تاجر نے ٹیکس افسر سے کہا کہ بھئی کچھ کرو۔ اس پر ٹیکس افسر نے دس ہزار روپے رشوت لے کر بیس ہزار روپے ٹیکس عائد کر دیا۔ اصل ٹیکس ساٹھ ہزار روپے بنتا تھا۔ ٹیکس افسر نے دس ہزار روپے رشوت لی۔ سرکاری خزانے میں بیس ہزار روپے جمع ہوئے۔ یہ کل تیس ہزار روپے ہوئے۔ اس طرح تاجر نے دس ہزار رشوت دے کر اپنے تیس ہزار روپے بچا لئے ان دونوں کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو تیس ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
ایک مثال ٹرانسپورٹ کے شعبے سے ۔۔۔۔۔ایک بس کا مالک ٹریفک قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بس میں گنجائش سے کہیں زیادہ مسافروں کو بھرتا ہے،سڑکوں پر لا پروائی اور تیز رفتاری سے بس کو چلواتا ہے بس کے انجن اور باڈی کی ضروری دیکھ بھال سے گریز کرتا ہے، نتیجتاً اس کی بس سے نکلنے والا گاڑھا اور کثیف دھواں فضا میں زہر پھیلاتا ہے۔ جس سے لوگوں کی صحت شدید متاثر ہوتی ہے ان تمام باتوں سے اس کا مقصدمحض اپنے منافع کی شرح میں اضافہ ہے وہ اپنے اس غیر قانونی اور لوگوں کی صحت کے لئے شدید نقصان دہ عمل سے چشم پوشی کے لئے ٹریفک پولیس کے کسی اہلکار یا کسی دوسرے ادارہ کے ملازم کو ہفتہ وار یا ماہانہ کچھ رقم بطور ’’زرِ تعاون‘‘ پیش کرتا ہے۔ اس رقم کے تناسب کا جائزہ لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ رشوت میں دی جانے والی رقم قانون سے انحراف کے ذریعے کمائے جانے والے منافع کی نسبت بہت کم ہے۔ مذکورہ دونوں مثالوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مالی مفادات کے معاملہ میں رشوت دینے والا رشوت لینے والے کی نسبت کہیں زیادہ فائدہ حاصل کرتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں رشوت دینے والے کو برا سمجھنے اور اس برائی کو روکنے کی ضرورت کا کوئی احساس ہمیں نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ معاشرے میں پائے جانے والے بگاڑ کو کیسے روکا جائے اور اُس کے مضر اثرات سے ملک و ملت کو کیسے بچایا جائے ؟ ۔۔۔۔۔
اس بگاڑ کی ذمّہ داری کسی ایک فرد یا طبقے پر عائد نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے ذمہ دار تو معاشرے کے ہر طبقے میں موجود ہیں۔ اصلاح کا عمل اس طرح ممکن نہیں ہوگا کہ محض چند لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر عمومی طور پر اپنے اپنے اعمال کے احتساب سے پہلو تہی کی جائے ۔ بگاڑ کے فروغ کے کئی انداز ہوتے ہیں۔ کبھی بگاڑ ’’قوم اپنے حاکموں کے طریقے پر ہوتی ہے‘‘ کے مصداق اوپر سے نیچے سرائیت کرتا ہے اور کبھی اس کے اثرات نیچے سے اوپر جاتے ہیں ہمارے ملک میں بگاڑ کی دونوں طرزیں موجود ہیں۔ اپنے ملک کے مخصوص حالات کے حوالے سے غور کیا جائے تو ہم کہیں گے کہ اصلاح کا عمل محض حکمران طبقے اور سرکاری اہلکاروں پر الزام تراشی سے ممکن نہیں ۔اصلاح کے لئے معاشرے کے ہر طبقے کے افراد کی طرزِفکر اور طرزِ عمل میں مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ ملک و قوم میں پائی جانے والی کئی خرابیوں کو ناگزیر سمجھ کر اُنہیں تسلیم کرلینے کی روش کو ترک کیا جائے۔ معاشرے کا عام فرد خود کو کمزور اور بے بس سمجھنے اور دوسروں پر توقعات رکھنے کے بجائے اپنی حد تک حتی الامکان برائیوں کو روکنے اور اچھائیوں کے فروغ کی کوشش کرے۔ اس عمل کے آغاز کرنے کا قرآنی طریقہ یہ ہے کہ اصلاح کا کام اپنی ذات سے شروع کیا جائے ۔ 
’’ کیا تم لوگوں کو نصیحت کرتے ہو اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہو ‘‘۔(سورہ ٔ بقرہ)
اسلام کا پیغام خیر خواہی ، امن اور سلامتی کا پیغام ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو تلقین کرتا ہے کہ معاشرے میں اچھائیوں کو پھیلائیں اور برائیوں کا انسداد کریں۔ اسلام کا مطمع نظر یہ ہے کہ معاشرے میں عدل و احسان کا دور دورہ ہو ۔ قرآن کہتا ہے :
’’ تم سب اُمتوں سے بہتر ہو اچھی بات کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو ‘‘۔ (سورہ ٔ آلِ عمران)
رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے ’’ تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے ، اگر یہ بس میں نہ ہو تو زبان سے روکے ، اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو دل میں اُسے بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘‘۔ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا ’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے رہنا اور برائی سے روکتے رہنا ورنہ اس بات کا شبہ ہے کہ اﷲ اپنی طرف سے تم پر ایسا عذاب بھیج دے کہ تم اس کے حضور دعائیں کرو اور وہ تمہاری دعائیں قبول نہ کرے‘‘۔


[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، اگست 2001ء ]

[از : کتاب حق الیقین ، صفحہ157-162 ]


اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے