قرآنی احکامات کے تحت قائم نظامِ معیشت

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


قرآنی احکامات کے تحت قائم نظامِ معیشت 


قوم کی فلاح و بہبود ، معاشی استحکام ، مالی طور پر کمزور افراد کے حقوق کے تحفظ ، طاقتور طبقات کو         مبنی بر انصاف و احسان کا طرزِ عمل اختیار کرنے کے لئے قرآن نے نہایت واضح معاشی اصول عطا کئے ہیں ۔ قرآنی ہدایات پر مبنی اس معاشی نظام کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر قسم کے استحصال کی روک تھام کرتا ہے اور معاشرہ کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کی دست درازی اور حق تلفی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
دورِ جدید کے ماہرینِ معاشیات کئی کٹھن مراحل طے کر کے اس نتیجہ پر پہنچے کہ کسی بھی معیشت کی ترقی کے لئے زر کا زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ اور قومی پیداوار میں اضافہ بنیادی ضرورت ہے۔ قرآنی ہدایات کے تحت اسلامی نظام معیشت روزِ اول سے ہی زر کے زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور پیداوار میں اضافہ کے عمل کو مدد فراہم کرتا ہے۔ مزید خوبی کی بات یہ ہے کہ اس نظام کے تحت یہ عمل اس طرح ہونا چاہئے جس میں تمام شریک افراد باہمی تعاون کے جذبہ سے کام کریں دوسرے کو فائدہ پہنچا کر اپنا فائدہ حاصل کیا جائے ، کسی کی حق تلفی یا استحصال نہ ہو۔
انسانوں کی حق تلفی یا استحصال کی ایک بدترین شکل ربا ہے ۔ ربا  کا ترجمہ ہمارے ہاں سود کیا گیا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کو منصفانہ بنیادوں پر رواں دواں رکھنے کے لئے قرآن ربا یعنی سود پر پابندی عائد کر کے باہمی تجارت کو فروغ دینے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام کے متعین کردہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے جو دولت کمائی جائے وہ رزقِ حلال ہے۔ جہاں حصولِ دولت میں ان اصولوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہو وہ حرام ہے۔
ربا(سود) کی وجہ سے کم دولت والے افراد کے وسائل زیادہ دولت والوں کی طرف منتقل ہونے لگتے ہیں اس طرح ایسے معاشروں میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے معاشرہ میں غربت پھیلتی ہے۔ غربت بجائے خود کئی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ جن میں بھوک، بیماری، جرائم خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ عمل معاشرتی عدم استحکام اور امن و امان کے مسائل کی وجہ سے عوام الناس میں شدید عدم تحفظ کا سبب بنتا ہے۔ یہ صورتحال ریاست اور عوام کے درمیان تعلق کو کمزور کرسکتی ہے۔ ایسے معاشروں میں بہتر روزگار کی خاطر بہت سے لوگ غیر قانونی کام اور بہت سے لوگ ترکِ وطن کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔
روزگار ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے حالات فراہم کرے جن کی وجہ سے ہرفرد عزت و احترام اور امن و سکون کے ساتھ اپنا روزگار حاصل کرسکے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ مجید اور    اسوۂ رسولِ کریمﷺ سے واضح رہنمائی میسر ہونے کے باوجود دنیا بھر میں کئی اسلامی ممالک اپنے عوام کو یہ حق اور ماحول پوری طرح فراہم نہیں کررہے ہیں۔ معاشرہ میں نظم معیشت اور حقوق کی پاسداری کے حوالہ سے قرآن واضح احکامات دیتا ہے۔
’’اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال ناحق آپس میں نہ کھاؤ۔ ہاں اگر باہمی رضا مندی سے تجارت ہو ۔ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو یقین کرو اﷲ تم پر مہربان ہے‘‘۔(سورہ النساء ۔ 29)
’’اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق کھاؤ اور نہ اپنے حکمرانوں کے آگے اس غرض سے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے مل جائے‘‘۔(سورہ البقرہ۔ 188)
’’ اور اﷲ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے‘‘۔(سورہ البقرہ ۔ 275 )
آئیے اپنے معاشرے پر ایک نظر ڈالیں۔ قرآن و سنت کی بالا دستی کے دعوؤں کے باوجود افراد  و  ادارے قرآن کے معاشی احکامات پر کس حد تک کاربند ہیں۔۔۔۔۔؟
ہم دیکھتے ہیں کہ چودہ کروڑ آبادی کے اس ملک میں خوشحال لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ متوسط طبقہ کی تعداد اس سے کچھ زیادہ ہے جب کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی غریب طبقہ پر مشتمل ہے۔ غریب طبقہ کے کروڑوں افراد کو پیٹ بھر روٹی، تن ڈھانپنے کو مناسب کپڑا اور رہنے کے لئے اپنا ذاتی گھر میسر نہیں ہے۔ متوسط طبقہ خاص طور پر شہروں میں رہائش پذیر متوسط طبقہ بمشکل اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہے۔ لیکن یہ طبقہ بھی سنگین مسائل کے شدید دباؤ میں ہے۔ باقی رہا ملک کا دولت مند طبقہ تو خوش اور مطمئن وہ بھی نظر نہیں آتا۔
غریب ہوں، متوسط طبقہ کے افراد ہوں یا امیر سب کو ملک اور اس میں جاری و ساری نظام سے کوئی نہ کوئی شکایت ہے، غریبوں کا شاکی ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن وہ لوگ جنہیں اس ملک نے سب کچھ دیا جنہوں نے اس ملک سے کروڑوں اربوں روپے کما کر اپنی قوم کی خوشحالی پر خرچ کرنے کے بجائے امریکہ اور یورپ میں جمع کرادیئے آخر وہ لوگ بھی ملک اور اس کے نظام کے شاکی کیوں نظر آتے ہیں۔ کیا ان سب کی شکایات جائز ہیں۔ ان کی شکایات کے اسباب کیا ہیں ۔ ان کا ذمہ دار کون ہے۔۔۔۔۔؟
ان حالات اور شکایات کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حکمران ہوں یا عوام سب کسی نہ کسی حد تک قرآن سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ قرآن حکم دیتا ہے کہ ’’ایک دوسرے کا مال ناحق آپس میں نہ کھاؤ‘‘ اس کے معنی اپنے اندر بہت وسعت اور جامعیت لئے ہوئے ہیں ۔ زمیندار، صنعتکار یا کاروبار کا مالک، اپنے کارکن کو اس کی محنت یا خدمات کی کماحقہ اجرت نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر کم اجرت کو اپنے منافع میں اضافہ کا ذریعہ بنائے تو یہ بھی ’’ناحق کمائی‘‘ ہے۔ ملازم پورے اخلاص، دیانتداری اور مکمل محنت سے کام نہ کرے تو اس کی حاصل کردہ اجرت میں بھی ’’ناحق کمائی‘‘ شامل ہوگئی ۔ تاجر مستقبل میں کسی ممکنہ قلت سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنا مال چھپالے اور قلت کے وقت زیادہ منافع کمانے کے لئے بازار میں لائے تو یہ بھی ناحق کمائی کے زُمرے میں آئے گا۔ امانت میں خیانت یا دوسرے کے مال پر ظالمانہ قبضہ بھی کمائی کو حلال کی صف سے نکال دیتا ہے۔ دوسروں کے مال پر ظالمانہ قبضہ کے لئے رشوت لینے والے کی نسبت رشوت دینے والے کو روکا گیا ہے ’’ اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض سے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے‘‘۔
جو لوگ سرکاری حیثیت میں یا عوامی حیثیت میں قوم کی دولت یا دوسرے لوگوں کے مال پر ٹرسٹی بتائے گئے ہیں ان کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور اپنی اس ذمہ داری کے لئے یہ اﷲ کو جوابدہ ہیں ۔
’’اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کرکے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے تو  جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اسے چاہئے کہ امانت ادا کرے اور اپنے رب اﷲ سے ڈرے‘‘۔(سورہ البقرہ۔ 283)
حکمرانی کا منصب قومی امانت اپنے کاندھوں پر اٹھانا ہے چنانچہ ہر حکمران کو خواہ وہ پورے ملک کا حکمران ہو یا صوبہ، شہر یا ضلع کا حکمران ہو یا کسی ادارہ کا سربراہ ہو قرآن حکم دیتا ہے کہ اس امانت کی پاسداری کی جائے۔ ہم مختلف ادوار میں اپنے کئی حکمرانوں کا طرزِ عمل دیکھتے ہیں تو یہ جان کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ اس عظیم امانت کی ٹھیک طرح پاسداری نہیں کی گئی۔ بہر حال اﷲ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے ۔
رزق حلال کے زمرہ میں قرآن ناپ تول صحیح رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کئی چھوٹے اور بڑے تاجر اس واضح قرآنی حکم کی کھلی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں حالانکہ ایسے لوگوں کے لئے تباہی کی کھلی وعید ہے۔
’’تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لئے جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں‘‘۔(سورہ المطففین۔ 5-1)
قرآنی احکامات کے تحت قائم شدہ نظامِ معیشت کی ایک صفت یہ ہے کہ اس میں ذاتی طور پر دولت کمانے کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی آپ کوشش کیجئے اﷲ سے اس کا فضل مانگئے۔ کروڑوں اربوں روپے کمائیے تاہم خاص بات یہ ہے کہ دولت کمانے کے لئے حدود کا تعین کردیا گیا ہے۔ وہ تمام کام جن سے معاشرہ کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ایسے کاموں کے اختیار کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی قرآنی نقطہ نظر سے حلال نہیں ہے۔ رباء ، دوسروں کا مال ناحق طریقہ سے کھانا، امانت میں خیانت خواہ افراد کے مال میں ہو یا حکومتی مال میں، رشوت، دھوکہ دہی، یتیموں کے مال میں ناحق تصرف ، چوری ڈاکہ، ناپ تول میں کمی، فحاشی کے کام ، شراب، جوا، سٹہ وغیرہ سے ہونے والی آمدنی حلال آمدنی نہیں ہے۔ حلال ذرائع سے ایک شخص جس قدر ہوسکے دولت کما سکتا ہے۔ تاہم جو دولت اس نے کمائی ہے وہ اس کا تنہا مالک نہیں ہے بلکہ دولت مند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی دولت میں سے اﷲ کی راہ میں بھی خرچ کرے۔
’’اور جولوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک سزا کی خبر دے دو‘‘۔(سورہ توبہ۔34 )
اﷲ تعالیٰ خرچ میں اعتدال سے کام لینے اور فضول خرچی سے بچنے کی تاکید کرتے ہیں۔
’’ فضول خرچی نہ کرو فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ‘‘ ۔        (سورہ بنی اسرائیل۔ 27)
’’کھاؤ اور پیئو اور اسراف نہ کرو اﷲ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔(سورہ الاعراف۔31 )
ہر دولت مند کے مال میں دوسروں کا حق مقرر کردیا گیا ہے۔
’’ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر اپنے رشتہ داروں پر، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اورجو بھلائی بھی تم کرو گے اﷲ اس سے باخبرہوگا‘‘۔(سورہ البقرہ۔ 315)
’’ صدقات فقراء ، مساکین ، ان اموال کے انتظامات پر مامور لوگوں ، اور جن کی تالیف قلب مطلوب ہو ، غلاموں کو آزاد کرانے ، مقروضوں کی مدد کرنے ، اﷲ کی راہ میں ، مسافروں کی مدد و خبر گیری میں خرچ کئے جانے چاہئیں۔ یہ حقوق اﷲ کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور اﷲ باخبر حکمت والا ہے‘‘۔ (سورہ توبہ ۔ 60)
’’ جو لوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح جس کے عمل کو چاہتا ہو افزونی عطا کرتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ‘‘۔(سورہ البقرہ۔ 261)
جو کچھ اﷲ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے وہ اﷲ کی مخلوق پر ہی خرچ ہوتا ہے اﷲ کو اپنے لئے ہمارے مال و دولت کا کوئی حصہ نہیں چاہئے ۔ انسانوں کے پاس جو د ولت ہے وہ تو اﷲ ہی کا فضل و کرم ہے۔ اﷲ کی رضا کی خاطر قوم کی ضرورت کی تکمیل کے لئے خرچ کرنا اﷲ کو بہت پسند ہے ۔ لوگوں کی مدد کے لئے خرچ ہونے والی رقم کو اﷲ تعالیٰ نے خود اپنے اوپر قرض قرار دیا ہے اور اس میں برکت و اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔
’’ کون ہے جو اﷲ کو قرض دے ۔ اچھا قرض ۔ تاکہ اﷲ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس کردے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔ مردوں اورعورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنہوں نے اﷲ کو قرض حسن دیا ہے ان کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لئے بہترین اجر ہے‘‘۔ (سورہ الحدید۔ 11)
پاکستانی معیشت طویل عرصہ سے انتہائی کمزوری کی حالت میں ہے۔ معیشت کی خرابی سے ملک کا متوسط اور غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ معیشت کی اصلاح کے لئے ہمارے معاشی منتظمین برسوں سے سرمایہ دارانہ نظام کے ماہرین کے تجویز کردہ نسخے استعمال کررہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ مغربی معاشی درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہمارے معاشی منتظمین اقتصادی معاملات کی بہتری کے لئے قرآن اور اسوہ رسول اکرمﷺ سے رہنمائی حاصل کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ درحقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں تو جس نے اﷲ کی راہ میں مال دیا اور اﷲ کی نافرمانی سے پرہیز کیا اور بھلائی کو حق جانا اس کو ہم آسان راستے کے لئے سہولت دیں گے‘‘۔

   وما علینا الا البلاغ


[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، ستمبر 2001ء ]


اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے