امام سلسلہ عظیمیہ

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی



امام سلسلہ عظیمیہ


27 جنوری سلسلہ ٔ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاء رحمتہ اﷲ علیہ کا یومِ وصال ہے۔
اﷲ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفٰے صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ایک سید محمد عظیم برخیاؔ     قلندر بابا اولیائؒ نے بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں سلسلہ عظیمیہ کی بنیاد رکھی ۔ یہ وہ دور ہے جب مادّی علوم کے تیزرفتار پھیلاؤ اور نت نئی سائنسی دریافتوں نے انسانی ذہن ، انسانوں کے رہن سہن اور صدیوں سے چلی آرہی چند  مذہبی اور بعض ٹھوس معاشرتی روایات کو شدید طور پر متاثر کیا۔
علوم کے پھیلاؤ کے سبب عظیم الشان تبدیلیوں کی لہر پہلے پہل ان معاشروں میں اٹھی جو مذہب کے پیروکار تو تھے لیکن وہاں مذہبی پیشواؤں کی مفاد پرستی اور اجارہ داری نے سائنس اور مذہب کے درمیان ایک   ناقابلِ تنسیخ دیوار کھڑی کردی تھی۔ ایک طرف جدید سائنسی نظریات تھے تو دوسری طرف مذہبی پیشواؤں کے بے بنیاد اور غیر فطری نظریات۔ یورپ میں چرچ نے مذہبی اجارہ داری اور حکومت سے ملنے والی سرپرستی کے بل بوتے پر سائنسی نظریات کو رد کردیا۔ سائنسی انکشافات اور نظریات کو کفر کے مترادف قرار دیا۔معاشرہ میں جمود طاری رکھنے کے لئے سائنسدانوں کو ہولناک سزائیں دی گئیں۔ نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والے سائنس دانوں کو اپنی عزت اور جان و مال کے لالے پڑ گئے۔ مذہبی علماء نے ہر مثبت تبدیلی کے خلاف گناہ اور عذاب کاپرچار کرکے خوف و دہشت کی فضا قائم کردی۔ عوام الناس پر علماء کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حکومتوں نے بھی چرچ کا ساتھ دیا۔ اس جبر واستداد کے باوجود یورپ میں علم کے بیج کو جہاں بھی ذرا سا موقع ملا وہاں اس میں سے کونپلیں پھوٹنے لگیں۔
علم کے فروغ سے نئی نئی اشیاء وجود میں آئیں۔ زندگی میں آسانیاں آنے لگیں۔ اب عوام نے چرچ کا اتباع کرنا کم کردیا۔ مذہبی پیشواؤں کو خوش رکھ کر عوام پر ظلم و ستم کا بازار گرم رکھنے والے ظالم بادشاہوں کے خلاف بھی عوام کی نفرت کا تذکرہ سربازار ہونے لگا۔ آخر کار ایک دن ایسا آیاجب مغربی معاشروں میں چرچ اور بادشاہت دونوںادارے محض تاریخ کی یادگار بن کر رہ گئے۔
سائنسی علوم کی مخالفت میں چرچ نے جو منفی کردار ادا کیا تھا اس کے رد عمل میں مغربی معاشروں کے عوام نے فرسودہ نظریات کے حامل مذہبی علماء اور پیشواؤں کو مسترد کردیا۔ اس طرح مغرب میں مذہبی احکامات سے لاتعلق ایک نئے اور مختلف معاشرہ کی بنیاد پڑی۔ حکومت چلانے کے لئے بادشاہت کے بجائے جمہوری نظام متعارف کرایا گیا ۔ اس معاشرہ کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ اس میں مذہب محض نجی معاملہ بن کر رہ گیا تھا۔ حکومت اور اجتماعی معاشرتی معاملات میں اس کا کوئی کردار نہ رکھا گیا۔
یہ مذہب اور سائنس کی کشمکش میں مبتلا مغربی معاشروں کے ایک پہلو کا انتہائی مختصر تذکرہ ہوا۔
دوسری طرف مشرق میں واقع اسلامی معاشرہ یا مسلمانوں کا معاشرہ تھا ۔ یہاں اسلامی تہذیب و تمدن کے زیر سایہ ایک ہزار سال تک علوم کے فروغ کا عمل پوری شدت سے جاری رہنے کے بعد اب علوم کے فروغ کا عمل تعطل اور جمود کاشکار تھا۔ گزشتہ دوڈھائی سو سالوں میں مسلم معاشروں نے اپنے علمی ورثہ کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ترقی دینے کے بجائے  مغرب میں ہونے والی علمی پیش رفت سے بھی بطور ’’طالبعلم یا محقق‘‘ نہیں بلکہ بطور ’’صارف‘‘ استفادہ کیا۔ اس عمل میں بھی مسلم معاشروں کا ایک طبقہ تذبذب، مخاصمت اور رد عمل کی کیفیت میں مبتلا رہا۔ یہ فرسودہ روایات پر سختی سے کاربند رہنے والا اور ہر نئے تبدیلی کی مخالفت کرنے والوں کا طبقہ تھا۔
مغربی معاشروں میں چرچ نے سائنسدانوں کی مخالفت مذہبی فریضہ قرار دے کر کی تو مسلم معاشروںمیں مذہبی دانشوروں کے ایک طبقہ نے سائنس کی مخالفت اس لئے کی کہ جدید سائنسی نظریات مغرب سے درآمد شدہ یا غیر مسلموں کے پیش کردہ تھے۔ عیسائی علماء نے نئی علمی نظریات کو گناہ قرار دیا۔ کئی مسلم علماء نے بھی سائنسی نظریات کی مزاحمت کی اور جدید فکر کو گناہ ہی سمجھا۔ مسلم معاشرہ میں بعض مولویوں اورپیروں نے مذہب کو اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہوئے عوام الناس کی غلط رہنمائی کی۔ یہ طبقہ جدید علوم کے مخالف کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی معاشروں میں بھی مذہب اور سائنس میں دوری اور مخالفت کی فضابننے لگی۔ مسلمان بحیثیت قوم علوم میں بہت پیچھے رہ گئے۔ حالانکہ اسلام نے تو اپنے آغاز کے ابتدائی سالوں میں ہی انسان کو نظامِ کائنات میں تحقیق و جستجو کی دعوت دے کر سائنسی علوم کی شاندار اور بے مثال حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی۔ جدید دور چونکہ علوم کے فروغ کا دورہے اس لئے جو قوم علم اور ریسرچ میں پیچھے رہے گی وہ اپنے سے زیادہ اہلِ علم قوم کی دست نگر ہوجائے گی۔ یہی حال مسلمانوں کا بھی ہوا ۔
لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے !
تصویر کادوسر ا رخ یہ ہے کہ سائنسی ترقی کے اثرات سے بہرہ مند ہونے کے باوجود مغربی معاشرے جو پہلے  مذہبی پیشواؤں اور ظالم بادشاہوں کے شکنجوں میں کسے ہوئے تھے اب مادی علوم کے زیر اثر  فطرت سے متصادم نظام کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ انسان اپنے شرف سے اور انسانیت اپنے احترام سے یورپ کے تاریک دورکی طرح آج اس روشن خیال اور علمی لحاظ سے تابناک دور میں بھی محروم ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ عارف باﷲ قلندر بابا اولیاء رحمتہ اﷲ علیہ کی تعلیمات اس معاملہ میں ہمیں رہنمائی فراہم کرتی ہیں ۔
مادی علوم کے فروغ نے جہاں انسان کو بہت کچھ دیا وہیں دنیا میں ایک بہت بڑا خلاء بھی پیدا کیا ۔ چنانچہ تمامتر ترقی ، سہولتوں اور آسائش کے باوجود یہ دنیا آج بھی امن کی جگہ نہیں بن سکی ہے۔ آج بھی دنیا ناانصافی ، ظلم ، بھوک اور انسانوں کے درمیان جنگ و جدل کا مقام ہے۔ جہاں صرف طاقتور کی بالادستی ہے طاقتور کی مرضی ہی اصول ہے۔ طاقتور کا حکم قانون ہے ۔ ہمیں یہ کہنے میںکوئی جھجک نہیں کہ آج دنیا کے بڑے بڑے دانشور ، فلسفی اور سائنسدان نوعِ انسانی کے مسائل کی صحیح نشاندہی تو کردیتے ہیں لیکن ان مسائل کے صحیح حل تجویز کرنے سے قاصر ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کے پیش کردہ حلوں سے دنیا میں چند اقوام تو خوشحالی اور مستحکم ضرور ہوگئیں لیکن    نوعِ انسانی کو مجموعی طورپر وسائل کی منصفانہ تقسیم کا علم نہیں ہوا نہ ہی اسے تحفظ اور امن و سکون میسر آیا۔
علمی ترقی کے زیر اثر صنعتی انقلاب سے لے کر خلائی تسخیر ، کمپیوٹر اور سیٹلائٹ کے موجودہ ہوشربا دور تک انسان نے اپنے لئے بے شمار سہولتیں اور آسائشیں حاصل کرلی ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ تمامتر ترقی بے شمار سہولتوں اور آسائشوں کے باوجود انسان باطنی طور پر ناآسودہ اور غیر مطمئن ہے۔ زمین پر بسنے والے انسانوں کے درمیان بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے مختلف قوانین تو وضع کرلئے گئے ہیں لیکن انسانوں کے مابین باہمی خیرخواہی اور عدل و احسان پر مبنی تعلق قائم نہیں ہواہے۔ اس تعلق کی عدم موجودگی میں ہر کمزور اپنے سے طاقتور سے خوفزدہ ہے اور ہر طاقتور کمزور پر حکم چلانا اپناحق سمجھتا ہے۔ اس روش کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ زندگی صرف اس دنیا تک محدود ہے ، آخرت پر یقین اور ایک روز اﷲ کے آگے جواب دہی کا احساس الہامی مذاہب کے پیروکاروں میں سے بھی اس طرح اُٹھ گیاہے جس طرح اﷲ کو اپنا رب نہ ماننے والوں میں ہے۔ دنیاوی اعمال میں بظاہر اﷲ کو ماننے والوں اور اﷲ کو نہ ماننے والوں کا ذہن یکساں ہوکر رہ گیا ہے۔
علوم کے فروغ سے انسان میںاﷲ کی وحدانیت عظمت و کبریائی کا احساس شدید ہونا چاہئے۔ جیسے جیسے مظاہر قدرت کے اسرار کھلتے جائیں اﷲ کے آگے انسان کی بندگی اورعاجزی میں زیادہ خشوع و خضوع اور شدت پیدا ہونی چاہئے۔ اس کے بجائے علوم کے فروغ کے عمل سے بعض انسان کم ظرف  ثابت ہوئے اور ان کے کفر اور سرکشی میں اضافہ ہوا۔اس طرح یہ ترقی زمین پر بسنے والے انسانوں کے لئے باعث خیر و فلاح ثابت ہونے کے بجائے چند طاقتوروں کے ہاتھوں کمزور اقوام کے شدید استحصال کا ذریعہ بن گئی۔ یہ فروغ علم اور ترقی کے انتہائی ضرر  رساں منفی اثرات ہیں۔ گذشتہ دو ڈھائی سو سالوں میں ہونے والی سائنسی دریافتیں اور انتہائی تیز رفتار ترقی نوعِ انسانی کا عظیم الشان  اثاثہ ہیں۔ اس علم اور ان حاصلات کی ہر طرح حفاظت کرنا چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی اس ترقی کے منفی اثرات سے نوعِ انسانی کاتحفظ بھی ضروری ہے۔
اس دنیا میں انسان سمیت ہر ذی نفس کا وجود جسم اور روح پر مشتمل ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے دیگر تمام مخلوقات کی نسبت انسان کو بہترین صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں۔ اسے یہ استعداد دی گئی ہے کہ وہ اپنے وجود کے دونوں اجزاء یعنی مادی جزو اور روحانی جزو کو سمجھ سکے مادی تقاضوں اور روحانی تقاضوں سے واقف ہو اور ان کی کماحقہٗ اعتدال و توازن کے ساتھ تکمیل کرسکے۔ صرف یہ نہیں کہ انسان کے اندر یہ صلاحیت ودیعت کردی گئی ہے بلکہ اپنی ذات ، کائنات اور ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت کے لئے سبقاً سبقاً رہنمائی بھی فرما دی گئی۔ اﷲ کی آخری کتاب قرآن پاک میںانسان کی تمام ضروریات اور مظاہرِ کائنات کے تمام گوشوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کردی گئی، اس کتاب میں مادی تعلیمات بھی موجودہیں اور روحانی تعلیمات بھی۔
انسانی ذہن جیسے جیسے بلوغت کے مراحل طے کرتا جائے گا اس کے لئے قرآن کے الفاظ میں پنہاں معانی اور مطالب کا سمجھنا آسان ہوتا جائے گا۔ سائنسی علوم اور روحانی علوم دونوں کی منزل اﷲ تعالیٰ کے ذہن ، اﷲ تعالیٰ کی منشا اور اﷲ تعالیٰ کے ارادے کو سمجھنا اور پہچاننا ہے تاہم روحانی علوم کو مادّی علوم پر اس لحاظ سے سبقت حاصل ہے کہ تمام طبعی قوانین روحانی قوانین کے تابع ہیں۔ روحانی قوانین کا ادراک روحانی علوم کے ذریعے ہوتا ہے۔
آج نوعِ انسانی کو درپیش سنگین اور خوفناک مسائل کا سبب یہ ہے کہ آج کا دانشور صرف مادّی علوم کا حامل ہے اس کا ذہن اور اس کی فکر روحانی علوم سے محروم ہے۔
قلندر بابا اولیاء رحمتہ اﷲ علیہ کی تعلیمات علوم کے فروغ اور شاندار ترقی کے ثمرات دنیا کے ہر خط اور ہر قوم تک پہنچانے ، اس ترقی کو فطرت سے تصادم اور انسانیت کے لئے تباہی و بربادی سے بچانے ، اسے نوعِ انسانی کی خیر و فلاح کے لئے استعمال کرنے اور اس کے منفی اثرات سے انسانوں کو بچانے کے لئے مؤثر اور قابلِ عمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ قلندر بابا اولیاء ؒ کی تعلیمات کے مطابق ترقی کے منفی اثرات سے بچنے اور اس کے حقیقی فوائد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اس ترقی کو اﷲ کی مرضی کے تابع اور فطرت سے ہم آہنگ کیا جائے ۔ نوعِ انسانی کی بقا کے لئے ناگزیر اس کام کے لئے رہنما اصول وحی کے ذریعہ نازل ہونے والے اﷲ کے کلام سے حاصل کئے جائیں۔
دورِ حاضر کے عارف باﷲ ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات سے فیض یافتہ ، فطرت شناس خصوصی بندے حضرت قلندر بابا اولیاء رحمتہ اﷲ علیہ کی زیر سرپرستی سلسلہ عظیمیہ کا مشن یہ ہے کہ پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق نوعِ انسانی کو یہ باورکرایا جائے کہ اس کی بقا اور کامیابی محض توحید کے اقرار اور وحی الہٰی کی پیروی میں اپنے نظام حیات مرتب کرنے میں ہے۔ قلندر بابا اولیاء کتاب لوح و قلم میں فرماتے ہیں:
’’ لوگوں نے بزعمِ خود جتنے طریقے وضع کئے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہوکر رہ گئے ہیں۔ توحید کے علاوہ آج تک جتنے نظام ہائے حکمت بنائے گئے وہ تمام یا تو اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جارہے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً تمام پرانے نظام ہائے فکر یا تو فنا ہوچکے ہیں یا رد و بدل کے ساتھ اور نئے ناموں کا لباس پہن کر فنا کے راستے پر سرگرم سفر ہیں۔ اگرچہ ان کے ماننے والے ہزار کوششیں کررہے ہیں کہ تمام نوعِ انسانی کے لئے روشنی بن سکیں۔ لیکن ان کی ساری کوششیں ناکام ہوتی جارہی ہیں۔
آج کی نسلیں گذشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہوں گی۔نتیجہ میں نوعِ انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطہ ٔ توحید کی طرف لوٹنا پڑگیا تو بجز اس نقطہ کے نوعِ انسانی کسی ایک مرکز پر کبھی جمع نہیں ہوسکے گی۔ موجودہ دور کے مفکر کو چاہئے کہ وہ وحی کی طرزِ فکر کو سمجھے اورنوعِ انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے جسمانی وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نوعِ انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہوسکے۔ اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں۔ جن کا مخرج توحید اور صرف توحید ہے۔ اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کرکے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو دُرست کرسکے تو وہ اقوامِ عالم کو وظیفہ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کرسکتے ہیں اور وہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ اس معاملہ میںتعصبات کو بالائے طاق رکھنا ہی پڑے گا۔ کیوں کہ مستقبل کے خوفناک تصادم ، چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی ، نوعِ انسانی کو مجبور کردیں گے کہ و ہ بڑی سے بڑی قیمت لگاکر اپنی بقا تلاش کرے اوربقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظامِ حکمت سے نہیں مل سکتے‘‘۔



[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، جنوری 2002ء ]

[از : کتاب حق الیقین ، صفحہ 163-168 ]


اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے