کتاب خواں ہے مگر....؟؟
رمضان کا محترم و مقدس مہینہ امت مسلمہ پر سایہ فگن ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے اس نے اس مختصر سی زندگی میں ایک بار پھر ہمیں رمضان کی ساعتیں عطا فرمائیں۔ رمضان وہ مقدس و متبرک مہینہ ہے جس میں اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰے ﷺ پر غارِ حرا میں قرآن نازل ہوا۔ اﷲ کی آخری کتاب قرآن جو پوری نوعِ انسانی کے لئے قیامت تک ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہے ۔ قرآن وہ کتاب ہے جو افراد و اقوام کو اس دنیا میں عزت و سربلندیوں اور آخرت میں کامیابی کے رازوں سے آگاہ کرتی ہے۔
یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری تخلیق کس طرح ہوئی جس دنیا میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں وہ کیسے بنی ۔ زمین ،آسمان ، سورج ، چاند ، ستارے اور دیگر تمام مخلوقات کس طرح تخلیق کی گئیں۔
’’ ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی ، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا ، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اﷲ ، سب کاریگروں سے اچھا ‘‘۔ (سورہ المومنون)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ آسمان بہت سارے ہیں جن میں بے شمار سورج اور چاند ہیں۔
وہ اﷲ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔(سورہ الانبیائ)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ سمندر اور زمین پر پیدا ہونے والی ہر نباتات اور ہوا اور بارش اﷲ کی نشانیاں ہے۔ ان سب نشانیوں کو دیکھنے اور ان پر غور فکر کرنے کے لئے انسان کو بصارت اور بصیرت درکار ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ
وہ اﷲ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیئے۔ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ (سورہ المومنون )
زمین پر رات اور دن بھی اﷲ کی رحمت کا حصہ ہیں۔
اے نبی ؐ ان سے کہو کبھی تم لوگوں نے غور کیا کہ اگر اﷲ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لئے رات طاری کردے تو اﷲ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لادے؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ ان سے پوچھو کبھی تم نے سوچا کہ اگر اﷲ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لئے دن طاری کردے تو اﷲ کے سوا وہ کون سا معبودہے جو تمہیں رات لا دے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو؟ کیا تم کو سوجھتا نہیں ؟ یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے رات اور دن بنائے تاکہ تم ( رات میں) سکون حاصل کرو اور (دن کو) اپنے رب کا فضل تلاش کرو ، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔ (سورہ القصص آیت 71-73)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ پہاڑ زمین کو توازن اور استحکام دینے کے لئے بنائے گئے ہیں۔
اس نے زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔(سورہ لقمان آیت 10)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ ’’ اور اس کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی پیدائش ، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کااختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ دانش مند لوگوں کے لئے‘‘۔ (سورہ الروم آیت 22)
یہ کتاب انسان کو متوجہ کرتی ہے کہ ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اﷲ نے زمین اور آسمان کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں‘‘۔ (سورہ لقمان آیت 20)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ ’’یہ مثالیں لوگوں کی فہمائش کے لئے ہیں۔ مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔ اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ درحقیقت اس میں ایک نشانی ہے اہلِ ایمان کے لئے‘‘۔ (سورہ العنکبوت)
یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اس دنیا میں زندگی کس طرح بسر کریں۔
کہو میری نماز میری تمام عبادتیں میرا جینا میرا مرنا سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ (سورہ الانعام آیت 162)
میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ (سورہ الذاریات آیت 56)
اﷲ تعالیٰ نے نوعِ انسانی کی رہنمائی کے لئے اپنے آخری رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر اپنی آخری کتاب نازل فرمائی۔ نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کتاب پر عمل کرکے محض تیئس سال کے مختصر ترین عرصہ میں نوعِ انسانی کو ایک فقید المثال اور شاندار تہذیب و تمدن عطا فرمایا۔
قرآن اور اسوۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحیح معنوں میں پیروی کرنے والے مسلمان دنیا کے حکمران قرار پائے۔ تھوڑے بہت وقفوں کے ساتھ تقریباً ایک ہزار سال تک اسلامی ریاست اس زمین پر ایک سپرپاور کی حیثیت سے موجود رہی۔
جب قرآن اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حقیقی معنوں میں پیروی کی جاتی رہی تو اسلامی مملکت میں ہر طرف امن و امان رہا۔ اسلامی ریاست اور عام مسلمان اور ریاست کے دوسرے شہری بھی معاشی طور پر خوشحال رہے۔ علوم و فنون کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ میڈیکل سائنس ، فزکس ، کیمسٹری ، جغرافیہ ، سیاسیات ، عمرانیات ، تاریخ ، شعر و ادب ، اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں مسلمان دانشوروں ، اساتذہ اور حکمرانوں نے علوم و فنون کے فروغ میں اپنا شاندار کردار ادا کیا۔
اسلامی مملکتوں میں عام آدمی کا طرزِ زندگی اور معیارِ زندگی اتنا اچھا تھا اور معاشرہ میں قانون کی حکمرانی اس قدر تھی کہ ہر شخص خواہ امیر ہو یا غریب ، طاقتور ہو یا کمزور ، عورت ہو یا مرد ، آجر ہو یا اجیر ، زمیندار ہو یا کاشتکار ، تاجر ہو یاسرکاری ملازم سب اپنے حقوق محفوظ سمجھتے تھے۔ حکمران ہوں یا عوام سب اپنے اپنے حقوق و فرائض سے پورے طور پر آگاہ تھے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات محض وعظ و تلقین تک محدود نہ تھیں اور ان کا ذکر محض ثواب اور گھر یا کاروبار میں خیر و برکت کے لئے منعقد کی گئی محفلوں تک محدود نہ تھا۔ انسانی فطرت کے مطابق دینِ اسلام کے اصولوں اور ضابطوں کے نفاذ کافائدہ یہ تھا کہ اسلامی مملکت کا ایک عام شخص بھی دنیا میں سر اٹھا کر اور عزت و سربلندی کے ساتھ جیتا تھا۔
آج ایک مرتبہ پھر رمضان کا مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ ماشاء اﷲ ایک ارب مسلمانوں میں سے کروڑوں مسلمان پابندی سے روزہ رکھ رہے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کررہے ہیں۔ کروڑوںمسلمان ہر رات تراویح میں قرآن سننے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر رقوم کے لئے زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات کی میزیں لگائی جارہی ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق اسلامی مملکتوں میں سے صرف پاکستان میں ماشاء اﷲ ہر سال اربوں روپے کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔
موجودہ دور میں مسلمان قوم کا جائزہ لیں تو دینِ اسلام سے عبادات کی حد تک اس کی وابستگی کسی شک و شبہ کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ آج مسلمان قوم دنیا میں عزت و سر بلندی کے اعلیٰ مقام کی حامل نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنا نظام حکومت تشکیل دینے میں ، اپنی معیشت چلانے میں ، اپنے عوام کو حقوق دینے میں، حتیٰ کہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے معاملہ میں بھی ہم غیر اقوام کی پیروی کرتے ہیں۔
پچاس ممالک پر مشتمل عالم اسلام کی آبادی ایک ارب سے زائد ہے۔ آیئے ہم ان میں سے چودہ کروڑ کے اپنے ملک پاکستان کے کچھ حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم خود کو اﷲ کی پسندیدہ قوم سمجھتے ہیں لیکن اپنی زندگی کے معاملات میں اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان سے روگردانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے علم حاصل کرنا فرض ہے۔ ہماری قوم کی شرح خواندگی 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ عورتوں کی شرح خواندگی اس سے بھی کہیں کم ہے۔
قرآن عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔
اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو اﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بے شک اﷲ دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے۔ (سورہ نسائ)
ہمارے معاشرہ میں سب سے زیادہ قابل رحم حالت خود انصاف کی ہے۔ قرآن کے صریح حکم کے برخلاف یہاں ناانصافی اور ظلم کا دور دورہ ہے۔ قرآن معاشرہ کے ہر فرد کے حقوق کی تاکید کرتا ہے ۔ خواہ وہ دولتمندہو غریب۔ ہمارے معاشرے میں صورتحال یہ ہے کہ غریب ہونا ایک جرم بن کر رہ گیا ہے۔ یہاں غریب کی کوئی عزت نہیں خواہ وہ کتنا ہی باصلاحیت ، نیک اور متقی کیوں نہ ہو۔
دینِ اسلام حکمرانوں کوحکم دیتاہے کہ ریاست اور عوام کے معاملات پر بھرپور توجہ دیں اور عوام کا پورا پورا خیال رکھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاںسڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں ، گٹر کا گندہ اور مضر صحت پانی سڑکوں پر جمع ہے ، پینے کا قیمتی پانی سڑکوںپر پھیل رہا ہے۔ آمدورفت کے لئے لوگوں کو سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔ بسوں ، ویگنوں ، ریلوں میں انسان بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسے جارہے ہیں۔
بجلی چلی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ وقت مقررہ پر بھی پانی نہ آئے تو کوئی سرکاری عامل رسمی طور پر بھی شرمندگی کا اظہار تک نہیں کرتا۔ حق دار اپنے حق سے محروم ہے۔ سفارش اقرباء پروری اور رشوت کا دور دورہ ہے۔ حلال کمائی اور حرام کمائی میںخط امتیاز واضح نہیں رہا۔ طاقتور کمزور کا استحصال کررہا ہے اور کمزور اپنے سے کمزور کو دبا رہا ہے۔
ہمارے ملک کے بہت سے لوگ بہتر معیارِ زندگی کے لئے امریکہ ،برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں جابسنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہاں رہنے والے بتاتے ہیں کہ ان ملکوں میں بجلی یا فون کا کنکشن حاصل کرنے ، ریل کا ٹکٹ خریدنے ، محکمہ ٹیکس میں ریٹرن جمع کروانے ، محکمہ پولیس میں رپورٹ درج کروانے ، عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے ، حکومتی محکموں سے اپنے حقوق کے حصول کے لئے نہ تو کسی کو رشوت دینا پڑتی ہے نہ ہی کسی سفارش یاجان پہچان کے آدمی کی ضرورت پڑتی ہے۔ غریب ہوں یا امیر سب کے ساتھ ایک ہی طرح کا برتاؤ ہوتا ہے۔
جب ہم یہ سب باتیں سنتے ہیں تو ہمارا ایک رد عمل یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف کی حکومتوں نے تو انصاف و مساوات کی اس سے بھی شاندار مثالیں تاریخ میں چھوڑی ہیں۔ یقینا تاریخی حوالے سے یہ بات بالکل صحیح ہے لیکن اس تاریخی حوالہ پر مبنی ہماری سوچ ، تاریخ کی یہی گواہی ہماری آج کی خرابیوںکی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ ہم اپنے خراب حالات کو خود بدلنا نہیں چاہتے ، ہم گمشدہ عظمتوں کے سحر میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں۔
نوع انسانی کے لئے اﷲ کے منتخب کئے ہوئے ضابطہ حیات ، پسندیدہ ترین دین اسلام کو ہم نے محض چند رسم و رواج پر مبنی مذہب سمجھ لیا ہے۔ریاست ، حکومت ، عدالت ، معیشت و تجارت ، باہمی تعلقات ، میاں بیوی کے حقوق ، اولاد کی تربیت و تعلیم اور زندگی کے کئی دوسرے معاملات میں ہمارا طرزِ عمل قرآن کی مطابقت میں نہیں ہوتا۔ ہم اجتماعی خیر و فلاح سے ہٹ کر خود غرضی اور نفسانفسی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ہماری خود غرضی کی ایک جھلک یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے بچے کو قرآن کا حافظ محض اس خیال سے بنانا چاہتے ہیں کہ اس طرح یہ بچہ انہیں آخرت میں کامیابی دلوادے گا۔
دنیا میں جو قوم بھی فطرت کے اصولوں کے مطابق چلے گی قدرت کانظام اس کی مدد کرے گا۔ عظمت وسربلندی حاصل کرنے کے لئے صرف مسلمان ہونے کے زبانی دعوے کافی نہیں ہیں۔ قرآن پاک کی صرف تلاوت کرلینے سے جو ثواب ملتا ہے وہ تو ضرور ملے گا لیکن اﷲ تعالیٰ نے یہ کتاب عمل کرنے کے لئے نازل فرمائی ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھتے تو ہیں لیکن عملی زندگی میں ہماری حیثیت تارک قرآن کی ہوکر رہ گئی ہے۔ اﷲ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری تخلیق کس طرح ہوئی جس دنیا میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں وہ کیسے بنی ۔ زمین ،آسمان ، سورج ، چاند ، ستارے اور دیگر تمام مخلوقات کس طرح تخلیق کی گئیں۔
’’ ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی ، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا ، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اﷲ ، سب کاریگروں سے اچھا ‘‘۔ (سورہ المومنون)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ آسمان بہت سارے ہیں جن میں بے شمار سورج اور چاند ہیں۔
وہ اﷲ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔(سورہ الانبیائ)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ سمندر اور زمین پر پیدا ہونے والی ہر نباتات اور ہوا اور بارش اﷲ کی نشانیاں ہے۔ ان سب نشانیوں کو دیکھنے اور ان پر غور فکر کرنے کے لئے انسان کو بصارت اور بصیرت درکار ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ
وہ اﷲ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیئے۔ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ (سورہ المومنون )
زمین پر رات اور دن بھی اﷲ کی رحمت کا حصہ ہیں۔
اے نبی ؐ ان سے کہو کبھی تم لوگوں نے غور کیا کہ اگر اﷲ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لئے رات طاری کردے تو اﷲ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لادے؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ ان سے پوچھو کبھی تم نے سوچا کہ اگر اﷲ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لئے دن طاری کردے تو اﷲ کے سوا وہ کون سا معبودہے جو تمہیں رات لا دے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو؟ کیا تم کو سوجھتا نہیں ؟ یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے رات اور دن بنائے تاکہ تم ( رات میں) سکون حاصل کرو اور (دن کو) اپنے رب کا فضل تلاش کرو ، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔ (سورہ القصص آیت 71-73)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ پہاڑ زمین کو توازن اور استحکام دینے کے لئے بنائے گئے ہیں۔
اس نے زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔(سورہ لقمان آیت 10)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ ’’ اور اس کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی پیدائش ، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کااختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ دانش مند لوگوں کے لئے‘‘۔ (سورہ الروم آیت 22)
یہ کتاب انسان کو متوجہ کرتی ہے کہ ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اﷲ نے زمین اور آسمان کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں‘‘۔ (سورہ لقمان آیت 20)
یہ کتاب بتاتی ہے کہ ’’یہ مثالیں لوگوں کی فہمائش کے لئے ہیں۔ مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔ اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ درحقیقت اس میں ایک نشانی ہے اہلِ ایمان کے لئے‘‘۔ (سورہ العنکبوت)
یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اس دنیا میں زندگی کس طرح بسر کریں۔
کہو میری نماز میری تمام عبادتیں میرا جینا میرا مرنا سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ (سورہ الانعام آیت 162)
میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ (سورہ الذاریات آیت 56)
اﷲ تعالیٰ نے نوعِ انسانی کی رہنمائی کے لئے اپنے آخری رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر اپنی آخری کتاب نازل فرمائی۔ نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کتاب پر عمل کرکے محض تیئس سال کے مختصر ترین عرصہ میں نوعِ انسانی کو ایک فقید المثال اور شاندار تہذیب و تمدن عطا فرمایا۔
قرآن اور اسوۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحیح معنوں میں پیروی کرنے والے مسلمان دنیا کے حکمران قرار پائے۔ تھوڑے بہت وقفوں کے ساتھ تقریباً ایک ہزار سال تک اسلامی ریاست اس زمین پر ایک سپرپاور کی حیثیت سے موجود رہی۔
جب قرآن اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حقیقی معنوں میں پیروی کی جاتی رہی تو اسلامی مملکت میں ہر طرف امن و امان رہا۔ اسلامی ریاست اور عام مسلمان اور ریاست کے دوسرے شہری بھی معاشی طور پر خوشحال رہے۔ علوم و فنون کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ میڈیکل سائنس ، فزکس ، کیمسٹری ، جغرافیہ ، سیاسیات ، عمرانیات ، تاریخ ، شعر و ادب ، اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں مسلمان دانشوروں ، اساتذہ اور حکمرانوں نے علوم و فنون کے فروغ میں اپنا شاندار کردار ادا کیا۔
اسلامی مملکتوں میں عام آدمی کا طرزِ زندگی اور معیارِ زندگی اتنا اچھا تھا اور معاشرہ میں قانون کی حکمرانی اس قدر تھی کہ ہر شخص خواہ امیر ہو یا غریب ، طاقتور ہو یا کمزور ، عورت ہو یا مرد ، آجر ہو یا اجیر ، زمیندار ہو یا کاشتکار ، تاجر ہو یاسرکاری ملازم سب اپنے حقوق محفوظ سمجھتے تھے۔ حکمران ہوں یا عوام سب اپنے اپنے حقوق و فرائض سے پورے طور پر آگاہ تھے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات محض وعظ و تلقین تک محدود نہ تھیں اور ان کا ذکر محض ثواب اور گھر یا کاروبار میں خیر و برکت کے لئے منعقد کی گئی محفلوں تک محدود نہ تھا۔ انسانی فطرت کے مطابق دینِ اسلام کے اصولوں اور ضابطوں کے نفاذ کافائدہ یہ تھا کہ اسلامی مملکت کا ایک عام شخص بھی دنیا میں سر اٹھا کر اور عزت و سربلندی کے ساتھ جیتا تھا۔
آج ایک مرتبہ پھر رمضان کا مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ ماشاء اﷲ ایک ارب مسلمانوں میں سے کروڑوں مسلمان پابندی سے روزہ رکھ رہے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کررہے ہیں۔ کروڑوںمسلمان ہر رات تراویح میں قرآن سننے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر رقوم کے لئے زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات کی میزیں لگائی جارہی ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق اسلامی مملکتوں میں سے صرف پاکستان میں ماشاء اﷲ ہر سال اربوں روپے کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔
موجودہ دور میں مسلمان قوم کا جائزہ لیں تو دینِ اسلام سے عبادات کی حد تک اس کی وابستگی کسی شک و شبہ کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ آج مسلمان قوم دنیا میں عزت و سر بلندی کے اعلیٰ مقام کی حامل نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنا نظام حکومت تشکیل دینے میں ، اپنی معیشت چلانے میں ، اپنے عوام کو حقوق دینے میں، حتیٰ کہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے معاملہ میں بھی ہم غیر اقوام کی پیروی کرتے ہیں۔
پچاس ممالک پر مشتمل عالم اسلام کی آبادی ایک ارب سے زائد ہے۔ آیئے ہم ان میں سے چودہ کروڑ کے اپنے ملک پاکستان کے کچھ حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم خود کو اﷲ کی پسندیدہ قوم سمجھتے ہیں لیکن اپنی زندگی کے معاملات میں اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان سے روگردانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے علم حاصل کرنا فرض ہے۔ ہماری قوم کی شرح خواندگی 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ عورتوں کی شرح خواندگی اس سے بھی کہیں کم ہے۔
قرآن عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔
اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو اﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بے شک اﷲ دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے۔ (سورہ نسائ)
ہمارے معاشرہ میں سب سے زیادہ قابل رحم حالت خود انصاف کی ہے۔ قرآن کے صریح حکم کے برخلاف یہاں ناانصافی اور ظلم کا دور دورہ ہے۔ قرآن معاشرہ کے ہر فرد کے حقوق کی تاکید کرتا ہے ۔ خواہ وہ دولتمندہو غریب۔ ہمارے معاشرے میں صورتحال یہ ہے کہ غریب ہونا ایک جرم بن کر رہ گیا ہے۔ یہاں غریب کی کوئی عزت نہیں خواہ وہ کتنا ہی باصلاحیت ، نیک اور متقی کیوں نہ ہو۔
دینِ اسلام حکمرانوں کوحکم دیتاہے کہ ریاست اور عوام کے معاملات پر بھرپور توجہ دیں اور عوام کا پورا پورا خیال رکھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاںسڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں ، گٹر کا گندہ اور مضر صحت پانی سڑکوں پر جمع ہے ، پینے کا قیمتی پانی سڑکوںپر پھیل رہا ہے۔ آمدورفت کے لئے لوگوں کو سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔ بسوں ، ویگنوں ، ریلوں میں انسان بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسے جارہے ہیں۔
بجلی چلی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ وقت مقررہ پر بھی پانی نہ آئے تو کوئی سرکاری عامل رسمی طور پر بھی شرمندگی کا اظہار تک نہیں کرتا۔ حق دار اپنے حق سے محروم ہے۔ سفارش اقرباء پروری اور رشوت کا دور دورہ ہے۔ حلال کمائی اور حرام کمائی میںخط امتیاز واضح نہیں رہا۔ طاقتور کمزور کا استحصال کررہا ہے اور کمزور اپنے سے کمزور کو دبا رہا ہے۔
ہمارے ملک کے بہت سے لوگ بہتر معیارِ زندگی کے لئے امریکہ ،برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں جابسنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہاں رہنے والے بتاتے ہیں کہ ان ملکوں میں بجلی یا فون کا کنکشن حاصل کرنے ، ریل کا ٹکٹ خریدنے ، محکمہ ٹیکس میں ریٹرن جمع کروانے ، محکمہ پولیس میں رپورٹ درج کروانے ، عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے ، حکومتی محکموں سے اپنے حقوق کے حصول کے لئے نہ تو کسی کو رشوت دینا پڑتی ہے نہ ہی کسی سفارش یاجان پہچان کے آدمی کی ضرورت پڑتی ہے۔ غریب ہوں یا امیر سب کے ساتھ ایک ہی طرح کا برتاؤ ہوتا ہے۔
جب ہم یہ سب باتیں سنتے ہیں تو ہمارا ایک رد عمل یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف کی حکومتوں نے تو انصاف و مساوات کی اس سے بھی شاندار مثالیں تاریخ میں چھوڑی ہیں۔ یقینا تاریخی حوالے سے یہ بات بالکل صحیح ہے لیکن اس تاریخی حوالہ پر مبنی ہماری سوچ ، تاریخ کی یہی گواہی ہماری آج کی خرابیوںکی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ ہم اپنے خراب حالات کو خود بدلنا نہیں چاہتے ، ہم گمشدہ عظمتوں کے سحر میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں۔
نوع انسانی کے لئے اﷲ کے منتخب کئے ہوئے ضابطہ حیات ، پسندیدہ ترین دین اسلام کو ہم نے محض چند رسم و رواج پر مبنی مذہب سمجھ لیا ہے۔ریاست ، حکومت ، عدالت ، معیشت و تجارت ، باہمی تعلقات ، میاں بیوی کے حقوق ، اولاد کی تربیت و تعلیم اور زندگی کے کئی دوسرے معاملات میں ہمارا طرزِ عمل قرآن کی مطابقت میں نہیں ہوتا۔ ہم اجتماعی خیر و فلاح سے ہٹ کر خود غرضی اور نفسانفسی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ہماری خود غرضی کی ایک جھلک یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے بچے کو قرآن کا حافظ محض اس خیال سے بنانا چاہتے ہیں کہ اس طرح یہ بچہ انہیں آخرت میں کامیابی دلوادے گا۔
دنیا میں جو قوم بھی فطرت کے اصولوں کے مطابق چلے گی قدرت کانظام اس کی مدد کرے گا۔ عظمت وسربلندی حاصل کرنے کے لئے صرف مسلمان ہونے کے زبانی دعوے کافی نہیں ہیں۔ قرآن پاک کی صرف تلاوت کرلینے سے جو ثواب ملتا ہے وہ تو ضرور ملے گا لیکن اﷲ تعالیٰ نے یہ کتاب عمل کرنے کے لئے نازل فرمائی ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھتے تو ہیں لیکن عملی زندگی میں ہماری حیثیت تارک قرآن کی ہوکر رہ گئی ہے۔ اﷲ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔