فروغ اسلام کی بنیاد
تبلیغ اور تعلیم یافتہ مسلمان
ہماری زمین پر اس وقت انسانوں کی آبادی 6 ارب سے زائد ہے۔ عقیدہ کی بنیاد پر انسانی آبادی کا شمار کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عیسائی ایک ارب نوے کروڑ، مسلمان ایک ارب سے زائد ، ہندو 75 کروڑ ، لادین 85 کروڑ ، بودھ 25 کروڑ ، سکھ ایک کروڑ سے کم ، یہودی 50 لاکھ سے بھی کم تعداد میں ہیں۔ جی ہاں دنیا کی چھ ارب سے زائد آبادی میں یہودیوں کی تعداد 50 لاکھ سے بھی کم بتائی جاتی ہے۔ دنیا میں بڑی آبادی والے مذاہب میں عیسائیت ، اسلام اور ہندو مذہب شامل ہیں۔ جبکہ اسلام کے علاوہ معروف اہلِ کتاب مذاہب میں عیسائیت اور یہودیت شامل ہیں۔ ان تمام مذاہب میں اسلام سب سے جدید مذہب ہے۔
قدیمی اور الہامی مذاہب میں سب سے کم عمر ہونے کے باوجود اسلام دنیا میں جس تیزی سے پھیلا ، مذاہبِ عالم کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ۔ فروغِ اسلام کی بنیاد قرآن کی حقانیت ، اسلام کے اصول و ضوابط کی انسانی فطرت سے ہم آہنگی و مطابقت ، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا دل نشین اندازِ دعوت اور پُراثر طریقہ کار ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک میں اﷲ کی مخلوق کے لئے رحمت و فلاح کے جذبات ، دنیاوی امور میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بصیرت ، تدبر ، معاملہ فہمی ، وقت کے تقاضوں سے بھرپور آگہی اور ان کے مطابق بروقت مبنی برحق تدابیر ، نوعِ انسانی کی فلاح ، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے فرد اور ریاست کے حقوق و فرائض کا تعین ۔ عورتوں کو حقوق کی فراہمی اور معاشرتی امور میں ان کے ساتھ یکساں سلوک، ریاستی معاملات چلانے میں شورائی نظام کا آغاز ، ریاست کے تمام شہریوں کے لئے بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے حکومت کو ذمہ دار قرار دینا جیسے امور پر ہے۔
اسلام محض ایک نظریہ ، محض ایک عقیدہ نہیں ہے، یہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے ۔ ایسا نظامِ حیات جو انسان کی تمام مادّی اور روحانی ضروریات بخوبی سمجھتا ہے۔ انسان کی مادّی اور روحانی ضرورت کی اعتدال و توازن کے ساتھ تکمیل کے لئے قابلِ عمل اصول و رہنمائی عطا کرتا ہے۔
فرد اور معاشرہ ، ریاست اور حکومت کے لئے قرآن و سنتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے عطا کردہ اصول و ضوابط ماہ و سال و صدیاں گزر جانے پر فرسودہ اور ناقابلِ عمل نہیں ہوگئے۔ ان شاندار اصول و ضوابط کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ ہر دور میں قابلِ عمل اور انسانی معاشروں کی فلاح و کامیابی کی ضمانت ہیں۔ یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ایک مکمل نظامِ حیات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں انسانوں کے معاملات و مسائل کے لئے اصول و فارمولے عطا فرما دیئے گئے ہیں ۔ اس کا مطلب کسی مخصوص رسوم و رواج یا وضع قطع کی لازمی پابندی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جس دور میں مبعوث ہوئے اس دور کا ایک مخصوص رہن سہن اور طرزِ معاشرت تھا جیسا کہ ہر دور کا اپنا ایک مخصوص رہن سہن ہوا کرتا ہے۔ اس دور میں لوگ مخصوص انداز کے کپڑے پہنتے تھے، کھانے پینے ، پڑھنے لکھنے کے لئے میز کرسی کے بجائے فرشی نشست کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ مرد داڑھی رکھا کرتے تھے ۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے مسلمانوں نے متعارف کرایا ہو بلکہ مکہ کے مسلم غیرمسلم سب ہی ایک ہی طرز بود و باش رکھتے تھے۔ جو لوگ ایمان لائے انہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پرانے کپڑے پھینک دینے، پرانے گھروں میں رہائش ترک کر دینے یا اسلام سے پہلے کے طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے کو کہا ہو ایسی کوئی بات تاریخ میں نہیں ملتی الا ماشاء اﷲ بعض ایسی صورتوں کے جبکہ معاشرہ کی کوئی رسم براہِ راست عقیدہ توحید سے متصادم ہو یا اسلام کی کمزوری یا مرعوبیت کے اظہار کا سبب بنے۔ حضرت ابو بکر ؓ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت حمزہؓ ، حضرت جعفر طیارؓ اور دیگر صحابہ کے قبل از اسلام اور بعد از اسلام لباس، وضع قطع ، رہن سہن یکساں تھے۔ ایک روز نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مشرک رئیسوں کے متکبرانہ لباس پر اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹخنے سے نیچے زمین پر گھسٹنے والے پائنچے نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ اطلاع حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو ملی آپ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے پائنچے ٹخنے سے نیچے ہوجاتے ہیں، یہ سن کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکر تم ان لوگوں میںسے نہیں ہو۔
اسلام کسی مخصوص علاقائی یا قومی ثقافت کواختیار کرنے پر ہرگز زور نہیں دیتا۔ کوئی خاص لباس، اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہے جو لباس مردوں اور عورتوں کے لئے ستر پوشی کے اسلامی احکامات کے مطابق ہے وہ درست ہے جو اس کے خلاف ہے وہ غلط ہے خواہ وہ پینٹ شرٹ ہو ، کرتا شلوار ، پاجامہ ہو ، عورتوں کی میکسی ہو، ساڑھی ہو ، لہنگا ہو یا کوئی اور لباس ہو۔ بہت سے لوگ پینٹ شرٹ میں نماز کی ادائیگی کو بُرا سمجھتے ہیں ۔ شلوار قمیض ، شیروانی یا واسکٹ کے ساتھ نماز ادا کرنا درست خیال کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر لباس کا تعلق مذہب سے جوڑا جائے تو شلوار ، شیروانی ، واسکٹ تاریخی طور پر ہندوؤں سے وابستہ لباس ہے۔ جب مسلمان ایسے لباس میں جس کا رواج ہندو معاشرہ میں ہوا ہو نماز ادا کرسکتے ہیں تو ایسے لباس میں جو مغرب سے آیا ہو نماز ادا کرنے میں اعتراض کی کیا بات ہے؟
لباس، داڑھی کا سائز ، فرشی نشست یہ سب روایات ہیں۔ ان کا تعلق دین کی بنیادی تعلیمات اور بنیادی اصولوں سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ دینِ اسلام محض چند روایات یا رسوم و رواج کا نام نہیںہے۔ یہ ایک انتہائی مؤثر ، طاقتور ، ہر دور اور دنیا کے ہر خطے کے لئے قابلِ عمل اصول و ضوابط پر مشتمل نظامِ حیات ہے۔ اس نظام کے اَبدی اصولوں اور احکامات کے تحت تمام انسانوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں ۔ حقوق کے لحاظ سے عورت مرد کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ دن میں پانچ وقت نماز ، رمضان کے روزے ، زکوٰۃ ، حج غرض تمام ارکان کی ادائیگی مرد عورت پر یکساں طور پر فرض ہے۔ تعلیم حاصل کرنا مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں طور پر ضروری ہے۔ اسلام عقیدۂ توحید و رسالت پر کار بند رہنے کے بعد معاملات کی درستگی اور حقوق العباد کی ادائیگی پر بہت زور دیتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے ساتھ کئی مقامات پر زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔
اسلام کے تیزی کے ساتھ پھیلنے کے اسباب پر مسلسل غور کرنے کی ضرورت ہے۔
آج اگر کسی پاکستانی کو انڈونیشیا ، سری لنکا ، قطر یا امریکہ میں یکساں پُرکشش شرائط پر ملازمت اور ساتھ میں نیشنلٹی کی پیشکش بھی کی جائے تو غالب امکان کے تحت اس کا جواب کیا ہوگا۔گذشتہ دنوں میں نے یہ سوال کئی لوگوں کے سامنے رکھا۔ جواب ملا ۔ امریکہ!۔۔۔۔۔
حالانکہ مندرجہ بالا میں سے دو مسلمان ملک ہیں۔ شرائط ملازمت بھی یکساں ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی چوائس امریکہ ہوگی؟ جواب ملا امریکہ معاشی و سیاسی لحاظ سے دنیا کا سب سے مضبوط ملک ہے۔ وہاں کا نظام بہت اچھا ہے ۔گڈ گورنینس کے تحت معاشی و معاشرتی تحفظ کی وجہ سے لوگ امریکہ میں جابسنے کو ترجیح دیں گے۔
ایسی ہی صورتحال بلکہ اس سے کئی زائد اعلیٰ خصوصیات کی حامل اسلامی ریاست تھی۔ آغازِ اسلام میں دنیا بھر کے لوگ جب اسلامی ریاست میں جان و مال کے تحفظ معاشی خوشحالی ، حکمرانوں اور عوام کے درمیان پُراعتماد تعلق، حکمرانوں تک عوام کی رسائی اور احتساب و جواب طلبی کے واقعات ، معاشرہ کے کمزور طبقات کو مکمل تحفظ ، تعلیم کے فروغ ، علوم و فنون کی ترقی اور دوسری مثبت انقلابی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہ ہوتے تھے تو ان کے ذہن و قلب اسلامی نظام اور اسلامی ریاست کے معترف و معتقد ہوجایا کرتے تھے۔ اس دور کی مضبوط رومی اور فارسی سلطنتوں کے عوام اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے جیسے آج تیسری دنیا کے جاگیردارانہ تسلط کے معاشرے کے لوگ زندگی گزارتے ہیں ۔ اسلامی ریاست کے باسی ایسی شان سے رہا کرتے تھے جس شان اور احترام کا آج امریکن شہری حامل ہے بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شاندار تعلیمات نے انسان کو اﷲ وحدہٗ لا شریک کے آگے سجدہ ریز کیا اس کے ساتھ ساتھ آپ نے انسانوں کے مابین مبنیٔ برحق و انصاف تعلقات ، معاملات کی درستگی ، عدل و احسان ، ایفائے عہد ،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون ، باہم اخوت و محبت کے جذبات کو فروغ دیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے حکمرانوں کو سکھایا کہ حکومت کے اصل فرائض کیا ہیں اور انہیں کیسے ادا کیا جائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات سے دنیا نے جانا کہ حکومت کا اصل کام ریاست کے عوام کو امن و امان اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ہے ۔ اس کے ساتھ اسلامی ریاست کا کام تمام شہریوں کو روزگار کے مساوی مواقع کی فراہمی ہے۔
آج جب اسلام کی تبلیغ کا ذکر ہوتا ہے تو سارا زور عبادت کے فرائض و نوافل کی ادائیگی پر ، داڑھی رکھ لینے پر اور مغربی لباس ترک کرکے مخصوص وضع قطع کا لباس اختیار کرلینے پر ہوتا ہے۔ حقوق العباد ، معاملات ، تعلیم و تحقیق ، متحرک سیاسی حکمت عملی ، انصاف و مساوات پر مبنی معاشی پالیسیوں جیسے امور پر اسلام کے احکامات کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے انحراف کرکے روایات و فروعات کو اسلامی معاشرہ پر مسلط ہونے دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ارب سے زائد اسلامی اُمّہ بنی اسرائیل کے چند لاکھ لوگوں کی شرارتوں اور سازشوں کے سامنے عاجز اور بے بس ہوکر رہ گئی۔
مسلمانوں نے بھی تبلیغ اسلام کی ذمہ داری مذہب کا ایک مخصوص و محدود فہم رکھنے والے طبقہ پر ڈال کر فرض کفایہ کی طرح خود کو بری الذمہ سمجھ لیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مخصوص مذہبی فہم رکھنے والے طبقہ سے خود تمام مسلمان بھی متفق نہیں ہیں۔ اس کے باوجود تبلیغ کا مقدس کام محض ایک طبقہ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
دینِ اسلام کی تبلیغ وہ مقدس و محترم عمل ہے، جو بعثت کے فوراً بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انجام دیا۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد اس مقدس کام میں آپ کے ساتھ خاتونِ جنت حضرت خدیجۃ الکبریٰ ، حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت علی ، حضرت جعفر طیار رضی اﷲ علیہم اجمعین جیسی محترم و سعید ہستیاں شامل ہوئیں۔ یہ سب اس معاشرہ کے عام لوگ نہیں تھے۔ یہ اپنے دور کے ممتاز لوگ تھے ۔ ان کا شمار معاشرہ کے معززین و اکابرین میں ہوتا تھا۔ حضرت عمر ؓ رسول اﷲ کے شدید مخالفوں میں سے تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو قتل کر دینا چاہتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا کی کہ عمر سے اسلام کو تقویت حاصل ہو۔ حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے اور پھر آپ بھی تبلیغ کے کام میں شریک ہوگئے۔ آج بھی اس سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا طریقہ کیا ہو؟۔ اس کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ ہر ممتاز و معتبر مسلمان تبلیغ سے خود کو جوڑ لے ۔ محض ظاہری رسوم و رواج پر زور دینے کے بجائے اسلام کی حقیقی انقلابی تعلیمات سے دنیا کو روشناس کرایا جائے۔ یہ کام چند مولویوں پر چھوڑ دینے کے بجائے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سر انجام دیں۔ حکمران اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سمجھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ دین کا درست فہم حاصل کرنے کے لئے جتنا زیادہ ہوسکے توجہ صرف کریں۔ حکمرانوں کا فرض ملکی معاملات نمٹانے ، ملکی سالمیت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ دین و عقیدہ کا تحفظ بھی ہے۔ یہ امر اشد ضروری ہے کہ اسلامی ریاست دین کے صحیح فہم کو مناسب طور پر اُجاگر کرنے میں اپنا کردار پوری تندہی کے ساتھ سرانجام دے ۔ اس بات کا خیال رکھنا مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام دونوں کی ذمہ داری ہے کہ دینِ اسلام کسی تنگ نظر متعصب روایت پرست طبقہ کے ہاتھوں یرغمال ہوکر نہ رہ جائے۔
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے ۔ اسلام نوعِ انسانی کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و کامیابی کی ضمانت ہونے کی وجہ سے دنیا میں پھیلا۔ اسلام کا فروغ اس کے اعلیٰ و ارفع اصولوں اور اہلِ ایمان کے مثبت طرزِ عمل کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اسلام کے فروغ میں جارحیت یا تشدد کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ تلوار کے زور پر علاقے تو فتح کئے جاسکتے ہیں لیکن کوئی نظریہ یا عقیدہ تلوار کے زور پر فروغ نہیں پاسکتا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کی حقیقی تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تبلیغ کا انداز ایسا ہونا چاہئے کہ غیر مسلم معاشرہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ، ممتاز سرکردہ افراد اس کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ اگر آج ڈاکٹر عبدالقدیر یا ڈاکٹر عطاء الرحمن جیسے کسی مسلم عالم کی کوششوں سے کارل ساگان ، اسٹیفن ہاکنگ یا نوم چومسکی جیسا کوئی شخص اسلام قبول کرلے تو کیا اس سے غیر مسلم معاشرہ پر اسلام کا بہت مثبت اثر نہیں ہوگا؟ اگر آج غیر مسلم قوم سے تعلق رکھنے والا کوئی بڑا سائنسدان ، کوئی حکمران یا کوئی بڑا سیاست دان یا کوئی اور ممتاز شخص اسلام قبول کرلے تو یقینا یہ عمل موجودہ دور میں اسلام کو تقویت اوراس کے پیغام کے فروغ میں سہولت کا سبب بنے گا۔
اسلام دشمن ذہن بڑی چالاکی سے دنیا کو اسلام سے خوفزدہ کرنے میں مصروف ہے۔ آج مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ دنیا کو باور کرائیں کہ اسلام سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اس کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے۔ ایک بار یہ عمل چل پڑے تو انشاء اﷲ قرآن کی حقانیت خود ہی دلوں میں گھر کر لے گی۔