قوموں کی کامیابی کا راز

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

قوموں کی کامیابی کا راز 

ہزاروں سال پرانی فہم


 ایک روز چند افراد ہادی برحق حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور راستوں پر لوٹ مار کے واقعات بیان کرتے ہوئے لا اینڈ آرڈر کی ابتر صورتحال کی شکایت کی۔ ان لوگوں کی بات سن کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب تم دیکھو گے کہ زیورات سے لدی ایک عورت تن تنہا کوفہ سے مکہ تک سفر کرے گی اور اسے راستہ میں اﷲ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔ چند لوگوں نے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر غربت و مفلسی کی حالت بیان کرتے ہوئے ضروریات زندگی پورا نہ ہونے کی شکایت کی۔ ان لوگوں کی داد رسی کرکے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس معاشرہ میں عنقریب ایسی خوشحالی ہوگی کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لئے نکلا کریں گے لیکن انہیں زکوٰۃ وصول کرنے والا نہیں ملے گا ۔ یعنی روزگار کے مواقع کثیر تعداد میں دستیاب ہوں گے ۔ خوشحالی معاشرہ کے تمام طبقات تک اس حسن و خوبی کے ساتھ پھیل جائے گی کہ غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اور انفرادی طور پر مستحق زکوٰۃ کوڈھونڈنے کے لئے تلاش کے مراحل سے گزرنا ہوگا۔دنیا نے دیکھا کہ صرف چند سال میں ہی یہ بات پوری ہوگئی اور ایک بڑے رقبہ پر پھیلی ہوئی سلطنت اسلامیہ کے شہری مکمل احساسِ تحفظ کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کرنے لگے۔ حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں بند تھے ان دنوں مصر کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا سات دبلی پتلی گائیں سات موٹی تازی گائیوں کو کھا رہی ہیں اور سات سرسبز خوشے ہیں اور سات خشک خوشے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بتانے کے ساتھ ساتھ آئندہ در پیش آنے والے واقعات سے نمٹنے کی ترکیب بھی بتا دی۔ اس پر بادشاہ نے مشکل حالات سے نمٹنے کے لئے سلطنت کا انتظام و انصرام بھی اس دانا و بینا شخص کے حوالے کردیا جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنا نبی ہونے کا شرف عطا کیا تھا۔حضرت یوسف علیہ السلام نے قحط کے خطرے سے دوچار سلطنت کا انتظام اس خوبی سے چلایا کہ سلطنت کے عوام و خواص سب ہی خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ اﷲ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام نے حکمرانی کا فریضہ سرانجام دیا تو ان کی زیر قیادت قوم جلد ہی قوموں کی برادری میں عزت و سربلندی کے مقام کی حامل بن گئی اور ایک عظیم الشان سلطنت وجود میں آئی۔ اﷲ کے انبیاء اور رسولوں میں سے جن محترم ہستیوں کو ملک و قوم کی حکمرانی کی ذمہ داری دی گئی ان کے دور حکمرانی میں مملکت نے ترقی و خوشحالی کی نئی نئی منازل سر کیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انبیاء یا اﷲ کے دوستوں کے گروہ کا کوئی رکن قوم کی حکمرانی کے فرائض سر انجام دے رہا ہو اور وہ قوم مفلسی ، تنگ دستی ، بے عزتی ، بے وقعتی کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہو۔ پیغمبروں کی یا ان کی حقیقی پیروی کرنے والے افراد کی زیر قیادت اقوام نے دنیا میں ہمیشہ عزت و احترام اور سربلندی کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ جب پیغمبران علیہ السلام کی تعلیمات سے دنیاوی مصلحتوں و مفادات کے تحت انحراف کیا جانے لگا تو ایسی اقوام کو حاصل عزت و سربلندی ان سے چھن گئی۔ پیغمبروں کی زیر قیادت اقوام کو حاصل ہونے والی کامیابیاں کیا محض ان پیغمبروں کی دعاؤں کا نتیجہ تھیں یا یہ کامیابیاں ان پیغمبروں کا معجزہ تھیں؟ انسانی تاریخ اور روحانی علوم دونوں ذرائع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرانہ طرزِ فکر پر عمل پیرا اقوام کی کامیابیاں محض دعاؤں اورمعجزات کا نتیجہ نہیں تھیں۔ ان کامیابیوں کے پسِ پردہ کار فرما عوامل میں اﷲ کی مشیت اور انسا نی فطرت سے آگہی رکھتے ہوئے بہتر اور نتیجہ خیز حکمتِ عملی کی تشکیل ، معاشرہ میں منصفانہ بنیادوں پر وسائل کی تقسیم، مساویانہ بنیادوں پر مواقع کی فراہمی ، انصاف کی فراہمی ، معاشرہ کے کمزور افراد کو طاقتوروں کے استعمار و زیادتیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ٹھوس اقدامات ، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ، عوام کی فلاح و بہبود کے لئے علم و دانش کا بہتر استعمال ، ذرائع پیداوار کی مسلسل سرپرستی و تحفظ ، ارتکاز دولت کی سختی سے حوصلہ شکنی اور زر کے زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ کے اقداما ت جیسے عاملین شامل ہیں۔ نوعِ انسانی کے لئے الہامی ہدایات و رہنمائی کا حتمی مجموعہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل کردہ کتاب قرآن ہے۔ قرآن پاک میں اس دنیا میں انفرادی اور معاشرتی زندگی کے لئے جو قوانین و اصول بیان ہوئے ہیں ان کی تشریح اور وضاحت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ہوئی ہے۔ ہمارے قانون اور اعتقاد کا ایک مسلمہ کلیہ یہ ہے کہ حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کا ہر قول اور فعل امت کے لئے قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور قرآن کی طرح سنتِ نبوی سے بھی واجبات ، مستحبات ، مباہات ، مکروہات ، محرمات وغیرہ قائم ہوتے ہیں۔ خود قرآن پاک میں بکثرت نہایت واضح الفاظ میں سنت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کی قانونی حیثیت بیان کی گئی ہے اور احکامات رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر عمل ضروری قرار دیا گیا ہے۔ رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) تم کو جو دیں وہ لے لو اور جس سے وہ تم کو روکیں تو رک جاؤ۔ (سور ۂ الحشر۔آیت 7 ) رسول کی اطاعت اﷲ کی ہی اطاعت ہے۔ (سورۂ النسائ۔ آیت 80 ) تمہارے لئے رسول اﷲ کی ذات ہی بہترین نمونہ عمل ہے۔ (سورۂ الممتحنہ۔ آیت6 ) ایک ہستی جو اپنے شہر میں دشمنوں کے نرغے میں ہو ، اپنے ایک رفیق کے ساتھ غاروں میں خود کو چھپاتی ہوئی ، نامانوس اور پُرخطر راستوں پر سفر کرتی ہوئی اپنے گھر سے سینکڑوں میل دور دوسرے شہر میں جاکر قیام پذیر ہوئی۔ اس واقعہ کے دس سال بعد جب اس ہستی کاوصال ہوا تو اس کی سلطنت کی حدود دس لاکھ مربع میل سے زیادہ پھیلی ہوئی تھیں۔ اور اس سلطنت کے باسی جو کبھی خونخوار وحشی قبائل کی شکل میں رہتے تھے اس وقت دنیا کی انتہائی عزت و احترام اور رعب و دبدبہ رکھنے والے قوم کی صورت میں موجود تھے۔ یہ ہے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے ایک پہلو کی ہلکی سی جھلک۔اس عظیم ہستی کی اطاعت ہم پر فرض کردی گئی ہے۔ آج امتِ مسلمہ ایک ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ قرآن جیسا نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر نازل ہوا تھا آج بھی ہمارے پاس موجود ہے اور قیامت تک اسی طرح رہے گا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا ایک ایک گوشہ ، ایک ایک پہلو تاریخ میں بہت اچھی طرح محفوظ رہ کر ہم تک منتقل ہوا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقوں پر عمل کرنے والوں کی کامیابیاں اور کامرانیاں بھی ہمارے سامنے ہیں اور ان احکامات سے انحراف کرنے والے کس ذلت و رسوائی سے دو چار ہوئے یہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ موجودہ دور علمی ترقی کا دور ہے۔ علم و حکمت کے فروغ کے اس دور میں بھی صرف مسلم ہی نہیں غیرمسلم مؤرخین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے بڑی کوئی ہستی انسانی تاریخ میں پیدا نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کے اس سب سے بڑے انسان کے امتی ہونے کے دعویدار دنیا میں عزت و احترام کے حامل کیوں نہیں ہیں؟ اس المیہ کی وجوہا ت تلاش کرنے کے لئے کسی گہری بصیرت ، یا بہت زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآنی آیات میں صحیح معنوں میں غور و فکر اور سنت نبوی کی حقیقی تفہیم کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ ہم نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دینِ کا مل کو محض چند مذہبی رسوم و رواج کا مجموعہ سمجھ لیا ہے۔ چند روایات کی پاسداری کو دین پر عمل قرار دے لیا ہے۔ تحقیق و جستجو اور عرق ریزی کی مشقتوں سے بچنے کے لئے ہم نے آج سے ایک ہزار سال کے فقیہانِ کرام کے فہم پر مکمل انحصار کرلیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپنے دور کی ان انتہائی قابل اور فاضل علمی ہستیوں نے نہایت اخلاص اور احتیاط سے کام لیتے ہوئے اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے استفادہ کرتے ہوئے قرآن و حدیث سے مسائل کے حل اخذ کئے تھے۔ ان بزرگوں اور ان کے شاگردانِ رشید کا چھوڑا ہوا علمی اثاثہ آج بھی ہمارے لئے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ان بزرگوں کی عظمتوں کو لاکھوں سلام ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد گزشتہ ڈیڑھ دو سو سالوں میں دنیا بھر کے لوگوں کو اس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جن کی نظیر انسانی تاریخ کے گزشتہ پانچ ہزار سالوں میں نہیں ملتی۔ سیاست ، معیشت ، معاشرت غرض ہر شعبہ زندگی میں انسان کی ضروریات اور بقا اور روزگار کی جدوجہد کے طریقوں میں جوہری تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اس دور کے مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے آج خود کو درپیش حالات میں بہتر لائحہ عمل اور حکمتِ عملی کی تشکیل کے لئے قرآنی آیات اور سنتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے استفادہ کے لئے ایک ہزار سال قبل کے عالموں کی فکر و فہم پر ہی تکیہ نہ کیا جائے۔ آج کی ضرورت یہ ہے کہ موجودہ مسائل کے حل کے لئے قرآن و سنت نبوی سے رہنمائی کے حصول کے لئے جدید ادارے قائم کئے جائیں۔ ان اداروں کی تشکیل اس طرح ہو کہ ان کے ذریعہ ماڈرن ذہن کو اسلامی فکر کے سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ مسلم و غیر مسلم معاشروں میں تعلیم و تبلیغ میں اسلام کو بطور مذہب نہیں بلکہ بطور ایک دین کے پیش کیا جائے۔ قرآن مجید اور سنتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے امورِ مملکت چلانے کے لئے جو دور رس اور اہم اصول و نظائر ہمیں ملتے ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ آگہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ زندہ قومیں اپنے قومی وسائل اور صلاحیتیں اجتماعی مفاد اور پوری قوم کی سربلندی اور عزت کے لئے استعمال کرتی ہیں تو مردہ قومیں مملکت کے مفاد کے مقابلہ میں انفرادی مفادات کی تکمیل کو اہمیت دے دیتی ہیں۔ ایک طرزِ عمل اجتماعی کامیابی و کامرانی کی طرف جاتا ہے تو دوسرا طرزِ عمل قوموں کی شکست و ذلت کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کے قیام کو چون سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ برصغیر کی مسلمان قوم نے اپنے لئے ایک خطہ زمین حاصل کرنے کے لئے ایک طویل جدوجہد تو ضرور کی لیکن بہرحال یہ قوم اس مقصد کے لئے کسی بڑی تباہی یا بربادی سے دو چار نہیں ہوئی تھی۔ یہاں ہم اس دور کی چند دوسری قوموں کے حالات پر ایک ہلکی سی نظر ڈالتے ہیں۔ پاکستان کے قیام سے دو سال قبل جاپان پر امریکہ نے ایٹمی حملہ کیا اور اس مضبوط و مستحکم مملکت کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کردیا۔ اسی طرح یورپ میں اتحادیوں نے جرمنی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور اس ملک کے دو ٹکڑے کردیئے گئے ۔ پاکستان کے قیام کے وقت چین باہمی خانہ جنگیوں سے چور چور تھا۔ قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد چین نے اپنا خود مختار سفر شروع کیا۔ 45ء میں تباہ و برباد جاپان کی حالت یہ ہے کہ آج وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ جاپان پاکستان کو سب سے زیادہ امداد (خیرات کا مہذبانہ نام) دینے والا ملک ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کے ہاتھوں برباد ہوجانے والا ملک جرمنی آج نہ صرف یہ کہ دوبارہ متحد ہوچکا ہے بلکہ آج یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بھی بن چکا ہے۔ اور چین ۔۔۔۔۔ چین آج دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی ، سیاسی و فوجی طاقت امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ ان مثالوں کے برعکس ہم ہیں۔ زبان سے اﷲ اور اس کے رسول کا نام لینے والے ۔ ہم گزشتہ چون سالوں میں صرف اڑتیس ارب ڈالر کے مقروض بن کر عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ملکوں کے آگے عزتِ نفس گنوا چکے ہیں۔ مختلف قوموں کی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو اڑتیس ارب ڈالر کوئی زیادہ بڑی رقم نہیں ہے۔ لیکن محض اتنی سی رقم کے مقروض ملک پر عالمی مالیاتی ادارے اس لئے حکم چلاتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ قرضہ واپس کرنے کے وسائل بھی نہیں ہیں۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اپنی معیشت کو کیسے بہتر بنایا جائے اور اپنا قومی وقار کیسے بحال کیا جائے ؟ ہمارے لئے یہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہونا چاہئے۔ سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرکے ہم اس قابل ہوسکتے ہیں کہ آنے والے چندسالوں میں نہ صرف یہ کہ تمام غیر ملکی قرضہ اتار دیں بلکہ اپنے پیروں پر خود کھڑے ہوکر دوسروں کو قرضہ دینے والے ممالک میں شامل ہوسکیں۔ اس کام کے لئے ہمیں جہاں اﷲ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ ، قناعت اور توکل کی ضرورت ہے وہاں اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقِ سیاست اور معاشرہ اور معیشت کی اصلاح کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طرزِ عمل سے اپنے لئے راستے تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سنت محض مخصوص وضع قطع اختیار کرلینے کا نام نہیں ہے۔ سنت دراصل محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی طرزِ فکر کو اپنانے کا نام ہے۔ اس کام کی بہترین نظیریں ہمیں دورِ صدیق ، دورِ فاروقی ، دورِ عثمانی اور دورِ علی میں جابجا ملتی ہیں۔ ہم پاکستانیوں کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ ہم اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ ساری دنیا ہمارے خلاف ہے اور دوسری تمام اقوام ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ ہم اپنی اصلاح کرنے کے بجائے کچھ حقیقی اور کچھ مفروضہ دشمنوں کو کوستے رہتے ہیں۔ ہم جس رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی ہیں ان کا طرزِ عمل اپنے دشمنوں کو کوستے رہنا ، اپنی مظلومیت کا ذکر کرتے رہنا نہیں تھا۔ اس کے بجائے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے کثیر جہتی حکمتِ عملی اور مؤثر منصوبہ بندی کی ۔قوم کو ایک وحدت میں پرویا ۔ علم کو فروغ دیا ۔ ایک منصفانہ معاشرہ قائم کیا ۔ ایک شاندار اور جاندار تمدن کی بنیاد رکھی۔ اپنے بے مثال طرزِ عمل سے قوم کو ایک شاندار نظام عطا کرکے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دشمنوں کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیا۔ تاریخ کا سبق ہمارے سامنے موجود ہے۔ امکانات کے در بھی ہمارے سامنے ہیں اور خدشات کی تاریک وادیاں بھی ہمارے سامنے ہیں ۔ ایک راستہ کامیابی کا راستہ ہے ایک راستہ ناکامی اور ذلت و رسوائی کا راستہ ہے۔ ہم کس راستہ پر چلنا چاہتے ہیں فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ 


[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، مارچ 2002ء ]

[کتاب حق الیقین ، صفحہ 35--40 ]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے