قوم کو سمجھنے کے آسان طریقے
قوموں کے مزاج ، رویّوں، ان کی معاشی اورمعاشرتی حالت کو جانچنے کے لئے ماہرین انتہائی پیچیدہ اور مرحلہ وار طریقے اختیار کرتے ہیں۔ قوموں کو سمجھنے کے لئے بعض آسان طریقہ بھی موجود ہیں۔
قوموں کے مزاج ، رویّوں، ان کی معاشی اورمعاشرتی حالت کو جانچنے کے لئے ماہرین انتہائی پیچیدہ اور مرحلہ وار طریقے اختیار کرتے ہیں۔ قوموں کو سمجھنے کے لئے بعض آسان طریقہ بھی موجود ہیں۔
بعض اہلِ دانش نے شخصیت کو پرکھنے کے مختلف انداز اور پیمانے مقرر کر رکھے ہیں۔ لباس انسان کی شخصیت، اس کی طرزِ فکر، اس کے معاشی حالات کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے۔ کسی شخص نے بہت قیمتی لباس نہایت نفاست سے زیب تن کر رکھا ہو تو اس کی ظاہری شخصیت کے بارے میں اچھا تاثر ہی لیا جائے گا لیکن۔۔۔۔۔بعض عقلمند بتاتے ہیں کہ انسان کی اصل شخصیت ظاہری قیمتی اور صاف ستھرے لباس سے نہیں بلکہ اندرونی ملبوسات سے پتہ چلتی ہے۔ مثلاً بنیان۔۔۔ اگر کوئی شخص قمیض شلوار، کوٹ پینٹ وغیرہ پر تو خوب توجہ دیتا ہے لیکن اس کا بنیان میلا اور پھٹا ہوا ہے تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایسا شخص اصل میں صاف ستھری اور نفیس طبیعت کا مالک نہیں ہے۔
جوتے اور موزے بھی شخصیت کا ایک اچھا انڈیکیٹر ہیں۔ بہت سے لوگ لباس تو اچھا پہنتے ہیں لیکن جوتوں کا خیال نہیں رکھتے ۔ ایسے لوگوں میں سے بعض کے جوتے غیر پالش شدہ گرد آلود یا پھر کہیں کہیں سے کھرچے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے جوتے بھی لباس کی مانند صاف ستھرے اور قیمتی ہوتے ہیں لیکن ان کے موزے میلے ، بدبودار یا پھٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ شخصیت کے بعض پہلوؤں کو جاننے کا ایک ذریعہ ہاتھ پاؤں کے ناخن بھی ہیں بہت سے لوگ ہاتھوں کے ناخنوں کی تراش خراش اور صفائی کا تو بہت خیال رکھتے ہیں لیکن ان کے پیروں کے ناخن بڑھے ہوئے اور میل کچیل سے اٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بہت سے لوگ محض نظر آنے والی چیزیں اچھا دکھانے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ جبکہ بنیان ، موزے ، پیروں کے ناخن چونکہ زیادہ تر دوسروں کے سامنے نہیں آتے اس لئے وہ سوچتے ہوں گے کہ ان کی صفائی کے اہتمام میں وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صفائی اور نفاست بہت سے لوگوں کی سوچ اور فکر میں شامل نہیں ہے۔ وہ صفائی اور نفاست کو محض دوسروں کو دکھانے کی حد تک ضروری خیال کرتے ہیں۔
دانشمندوں نے کچھ معیار گھروں کو جانچنے کے لئے بھی مقرر کئے ہیں۔ کسی گھر کی عورتیں درحقیقت کتنی صفائی پسند اور سلیقہ مند ہیں اس کا اندازہ اس گھر کے سجے سجائے ڈرائنگ روم ، آراستہ ٹی وی لاونج ، آرام دہ بیڈ رومز سے نہیں بلکہ اس کا صحیح اندازہ گھر کے کچن اور اس سے بھی زیادہ باتھ روم کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ جن گھروں میں سامان رکھنے کے لئے اسٹور ہوتے ہیں وہاںافراد خانہ کے ذہنی رویوں کا اندازہ اسٹور کی حالت سے بھی ہوسکتا ہے۔ سجے سجائے ڈرائنگ روم والی خاتون خانہ کی سلیقہ مندی کا حقیقی اظہار کچن میں پائی جانے والی ترتیب اور صفائی سے ہوتا ہے ۔ افرادِ خانہ کے نزدیک صاف ستھرے ماحول کی اہمیت کیا ہے اس کا اندازہ باتھ روم کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے۔
قوموں کے مزاج ، رویّوں، ان کی معاشی اورمعاشرتی حالت کو جانچنے کے لئے ماہرین انتہائی پیچیدہ اور مرحلہ وار طریقے اختیار کرتے ہیں۔ قوموں کو سمجھنے کے لئے بعض آسان طریقہ بھی موجود ہیں۔ کسی قوم کی معاشی حالت کیسی ہے ملک میں قانون پر عملدرآمد کی صورتحال کیا ہے اس کے رویئے کیسے ہیں انہیں جانچنے کا سب سے آسان اور فوری طریقہ اس ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ ہے ۔
کسی قوم کی معیشت کا عالمی برادری میں کیا نمبر ہے یہ جاننے کے لئے تو آپ کو اس کی جی ڈی پی کی شرح، ٹیکسوں کی صورتحال ، فی کس آمدنی کی شرح، قومی پیداوار کی مناسبت سے قومی بچت کی شرح وغیرہ کو دیکھنا ہوگا لیکن اگر آپ کو صرف یہ جاننا ہو کہ کوئی ملک امیر ہے یا نہیں تو اس کے لئے اس قدر طویل عمل سے گزرے بغیر صرف اس ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں ، ٹیکسیوں (یا رکشوں) کی حالت دیکھ لیجئے۔ آپ کو فوری طور پر اس ملک کی معاشی صورتحال کا ادراک ہو جائے گا۔ کسی قوم میں قانون پر عملدرآمد کی صورتحال کیا ہے اس کا فوری اندازہ کرنا ہو تو اس ملک میں جرائم کے سالانہ چارٹ کو تلاش کرنے کے بجائے صرف یہ دیکھ لیجئے کہ سڑکوں پر ٹریفک چلنے کا اندازکیسا ہے۔
کسی شہر سے ہوائی جہاز میں پاکستان کے شہر کراچی آنے والے کو ایئرپورٹ کی عمارت کا حسن فوراً ہی اپنے سحر میں لے لیتا ہے۔ کراچی ایئر پورٹ کی پُرشکوہ عمارت ایک غریب اور مقروض قوم نے اربوں روپے خرچ کرکے تعمیر کی ہے۔ لیکن ایئر پورٹ کی عمارت سے باہر آتے ہی کوریڈور میں لاؤڈ اسپیکر پر ٹریفک پولیس کے سماعت خراش اعلانات ، ایئرپورٹ سے کچھ دور شاہراہِ فیصل پر سائلنسر کے بغیر چلنے والے رکشوں، غلیظ سیاہ دھواں اُگلتی تیزرفتار بسوں ، لہراتی بل کھاتی منی بسوں اور ٹوٹی ہوئی ٹیکسیوں کو دیکھ کر ایئر پورٹ کا سحر ٹوٹ جاتا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ کراچی ایئرپورٹ کی پُرشکوہ عمارت کی چمک دمک ہمارے ملک کی معاشی حالت کی حقیقی عکاس نہیں ہے۔ یہ محض دکھاوا اور نمود و نمائش ہے۔ اور یہ دِکھاوا بھی اپنی ذاتی دولت کے بل بوتے پر نہیں ہے بلکہ ادھار قرض کے پیسوں پر ہے۔
یہ تو ہوا قوم کی معاشی حالت کا ایک سادہ سا جائزہ۔ اس ملک میں قانون کے احترام کی صورتحال کیا ہے؟ اس بارے میں بھی سڑکوں کے مناظر ہی بہت کچھ بتا دیتے ہیں۔
بس اسٹاپ پر ٹھیلے کھڑے ہیں۔ بسیں مقرر کردہ جگہ کے بجائے سڑک پر کہیں بھی رک کر مسافروں کو اتار اور سوار کرا رہی ہیں۔ٹریفک پولیس کا سپاہی دور کھڑا ہوا ہے وہ کبھی سیٹی بجا کر، کبھی ہاتھ میں پکڑی چھڑی ہلا کر اور کبھی تیز آواز میں کسی ڈرائیور یا کنڈیکٹر کو کوئی غلیظ سی گالی دے کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ بعض مقامات پر ٹریفک پولیس کا سپاہی ڈرائیوروں سے نقد وصولی کرتا ہوا بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس رقم کے عوض ڈرائیوروں کی تیز رفتاری ، اوور لوڈنگ اوور ٹیکنگ وغیرہ نظر انداز ہوتی ہے۔ یہ مناظر ہمیں سمجھا دیتے ہیں کہ ملک میں قانون کے احترام کی عمومی صورت کیا ہے۔
شہروں کے درمیان ہائی ویز پر چلنے والی ٹریفک کا حال تو نہایت سنگین ہے۔ ان سڑکوں پر اکثر ایسے حادثات کی خبریں آتی ہیں جن میں بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ لیکن ڈرائیور بس کے ہوں یا دوسری گاڑیوں کے خطرناک اور خلاف ضابطہ ڈرائیونگ سے باز نہیں آتے۔ پولیس بھی ان حادثات کی روک تھام میں ناکام نظر آتی ہے۔
موٹروے پر اسلام آباد لاہور کے درمیان سفر کریں یا سپرہائی وے پر کراچی حیدرآباد کے درمیان آنا جانا ہو وہاں بس اور ٹرک کے یہی ڈرائیور اپنی اپنی گاڑیاں ٹریفک قانون کے مطابق پورے ڈسپلن سے چلاتے ہیں۔ چند ماہ قبل تک سپرہائی وے پر کثرت سے ٹریفک کے جان لیوا حادثات ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ان حادثات کی شرح بہت کم ہوگئی ہے۔
کراچی ایئرپورٹ سے باہر آکر ہم سڑکوں پر جو اور بے ہنگم ٹریفک دیکھتے ہیں اسے بھی ہمارے ملک کے لوگ کنٹرول کرتے ہیں ۔ سپرہائی وے اور موٹر وے پر منظم انداز میں رواں دواں ٹریفک کو بھی ہمارے ملک کے لوگ کنٹرول کرتے ہیں۔
تو پھر دونوں مقامات پر صورتحال مختلف کیوں نظر آتی ہے۔
اس کی وجہ صرف اور صرف قانون کو مؤثر طور پر نافذ کروانا ہے۔
شہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار کبھی ویگن والوں ، کبھی بس والوں سے کبھی دوسرے ڈرائیوروں سے ’’نذرانہ‘‘ وصول کررہے ہوتے ہیں۔ اس نذرانہ کے عوض وہ قانون کے نفاذ کی ذمہ داری سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ کبھی یہ سپاہی نذرانہ تو وصول نہیںکرتے لیکن کسی ’’بڑے صاحب‘‘ کے رعب میں آکر خلاف قانون حرکت پر اس کی گرفت نہیں کرتے۔ کبھی کسی جان پہچان والے کے ساتھ مہربانی کرتے ہوئے اپنے فرائض کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو ، جب نفاذ قانون کا ذمہ دار قانون پر عملدرآمد نہیں کروائے گا تو نتیجہ افراتفری انتشار اور بدنظمی کی شکل میں نکلے گااور یہ نتیجہ ہم اپنے شہروں کی سڑکوں پر روز دیکھتے ہیں۔
موٹر وے یا سپرہائی وے پر ٹریفک پولیس کا سپاہی نہ تو ڈرائیوروں سے نذرانہ لیتا ہے نہ کسی ’’بڑے صاحب‘‘ کے رعب میں آتا ہے اور نہ ہی کسی جان پہچان والے سے رعایت کرتا ہے۔
جب سرکاری اہلکار قانون پر بلاامتیاز عملدرآمد کروانے لگتا ہے تو نتیجہ تنظیم، ذہنی سکون اور تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور یہ نتیجہ ہم موٹروے اور سپرہائی وے پر کافی عرصہ سے دیکھ رہے ہیں۔
یہ قانون پر عملدرآمد کے دو مختلف اور متضاد ماڈل ہیں۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ یہ دونوں ماڈل ایک ہی ملک اور ایک ہی معاشرہ کے ہیں۔ اپنے ملک کے تقریباً ہر شعبہ میں پائی جانے والے بدنظمی اور افراتفری پر ہر دردمند پاکستانی فکر مند اور دلگرفتہ رہتا ہے۔ ہماری دلی تمنا ہے کہ ہمارے ملک کے حالات ٹھیک ہوں یہاں کا نظام ٹھیک ہوجائے لیکن بہت سے لوگ بے یقینی کے عالم میں یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا اس ملک کا نظام کبھی ٹھیک بھی ہوسکے گا۔
موٹروے اور سپرہائی وے پرڈسپلن سے رواں دواں ٹریفک سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس ملک کے نظام کو درست کرنا نہ تو ناممکن ہے اور نہ ہی یہ کوئی بہت کٹھن کام ہے۔ صرف عزم مصمم اور درست سمت میں اقدامات کی ضرورت ہے۔
موٹروے کی مثال ہمیں یہ یقین فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنے ملک میں قانون پر مؤثر عملدرآمد کی صلاحیتوں سے محروم نہیں ہیں۔ یہ یقین ہمیں زندگی کے کئی دوسرے شعبوں میں ڈسپلن کے مظاہروں سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
کراچی لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں قائم سول ہسپتالوں میں مریضوں کو اکثر ڈاکٹروں کی جانب سے لاپروائی ، طبی سہولیات کی ناکافی فراہمی اور دیگر بدنظمیوں کی شکایات رہتی ہیں۔ یہ شکایات اتنی پرانی اور اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ اب لوگوںنے ان سول ہسپتالوں میں پائی جانے والی خرابیوں کو ناقابلِ اصلاح سمجھ کر گویا تسلیم کرلیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں ان برائیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے ہی علاج کروانا پڑے گا۔ کراچی میں فوج کا ایک ہسپتال پی این ایس شفاء کے نام سے قائم ہے۔ یہ بھی تو ایک سرکاری ہسپتال ہی ہے۔ لیکن یہاں مریضوں کو ڈاکٹروں کی جانب سے لاپروائی ، عدم توجیہی، بدنظمی وغیرہ کی شکایات نہیں ہوتیں۔ سول ہسپتال بھی سرکاری ہسپتال ہے ۔ پی این ایس شفاء بھی سرکاری ہسپتال ہے۔ دونوں کے حالات میں اتنا نمایاں فرق کیوں ہے ایک جگہ کرپشن ، رشوت ، سفارش نے حالات خراب کررکھے ہیں ۔ دوسری جگہ فرائض کی درست انجام دہی ، جوابدہی کے احساس نے معاملات کو اتنا اچھا رکھا ہوا ہے کہ مریض ہر طرح سے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
یہ دونوں ادارے بھی ہم پاکستانی ہی چلا رہے ہیں۔
موٹروے پر ٹریفک کا ڈسپلن سے چلنا ، پی این ایس شفاء میں مریضوں کا پوری توجہ اور تندہی سے علاج اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ ہم نظام کو ٹھیک طرح چلانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ اشارے ہمارا یقین اس امر پر پختہ ترین کردیتے ہیں کہ ملک کے مختلف شعبوں میں پائے جانے والے شدید بگاڑ کی اصلاح ہوسکتی ہے۔
ایک شخص اگر اپنے بنیان اور موزوں پر بھی پوری توجہ دینے لگے تو اس کی شخصیت میں نہایت مثبت تبدیلیاں ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنے جسدِ ملی کے بعض چھوٹے چھوٹے معاملات پر توجہ دینا شروع کردیں تو ہمارے قومی وجود فوری طور پر مثبت تبدیلیاں آنے لگیں گی۔
ضرورت عزم مصمم اور درست سمت میں جدوجہد اور کوشش کی ہے۔ قدرت بھی کوشش و جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہے ۔
قدرت ان کی مددکرتی ہے۔ جو اپنی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں ان لوگوں کو قدرت ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیتی ہے جو اپنی حالت بہتر بنانے کے لئے عمل اور جدوجہد نہیں کرتے۔
جوتے اور موزے بھی شخصیت کا ایک اچھا انڈیکیٹر ہیں۔ بہت سے لوگ لباس تو اچھا پہنتے ہیں لیکن جوتوں کا خیال نہیں رکھتے ۔ ایسے لوگوں میں سے بعض کے جوتے غیر پالش شدہ گرد آلود یا پھر کہیں کہیں سے کھرچے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے جوتے بھی لباس کی مانند صاف ستھرے اور قیمتی ہوتے ہیں لیکن ان کے موزے میلے ، بدبودار یا پھٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ شخصیت کے بعض پہلوؤں کو جاننے کا ایک ذریعہ ہاتھ پاؤں کے ناخن بھی ہیں بہت سے لوگ ہاتھوں کے ناخنوں کی تراش خراش اور صفائی کا تو بہت خیال رکھتے ہیں لیکن ان کے پیروں کے ناخن بڑھے ہوئے اور میل کچیل سے اٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بہت سے لوگ محض نظر آنے والی چیزیں اچھا دکھانے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ جبکہ بنیان ، موزے ، پیروں کے ناخن چونکہ زیادہ تر دوسروں کے سامنے نہیں آتے اس لئے وہ سوچتے ہوں گے کہ ان کی صفائی کے اہتمام میں وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صفائی اور نفاست بہت سے لوگوں کی سوچ اور فکر میں شامل نہیں ہے۔ وہ صفائی اور نفاست کو محض دوسروں کو دکھانے کی حد تک ضروری خیال کرتے ہیں۔
دانشمندوں نے کچھ معیار گھروں کو جانچنے کے لئے بھی مقرر کئے ہیں۔ کسی گھر کی عورتیں درحقیقت کتنی صفائی پسند اور سلیقہ مند ہیں اس کا اندازہ اس گھر کے سجے سجائے ڈرائنگ روم ، آراستہ ٹی وی لاونج ، آرام دہ بیڈ رومز سے نہیں بلکہ اس کا صحیح اندازہ گھر کے کچن اور اس سے بھی زیادہ باتھ روم کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ جن گھروں میں سامان رکھنے کے لئے اسٹور ہوتے ہیں وہاںافراد خانہ کے ذہنی رویوں کا اندازہ اسٹور کی حالت سے بھی ہوسکتا ہے۔ سجے سجائے ڈرائنگ روم والی خاتون خانہ کی سلیقہ مندی کا حقیقی اظہار کچن میں پائی جانے والی ترتیب اور صفائی سے ہوتا ہے ۔ افرادِ خانہ کے نزدیک صاف ستھرے ماحول کی اہمیت کیا ہے اس کا اندازہ باتھ روم کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے۔
قوموں کے مزاج ، رویّوں، ان کی معاشی اورمعاشرتی حالت کو جانچنے کے لئے ماہرین انتہائی پیچیدہ اور مرحلہ وار طریقے اختیار کرتے ہیں۔ قوموں کو سمجھنے کے لئے بعض آسان طریقہ بھی موجود ہیں۔ کسی قوم کی معاشی حالت کیسی ہے ملک میں قانون پر عملدرآمد کی صورتحال کیا ہے اس کے رویئے کیسے ہیں انہیں جانچنے کا سب سے آسان اور فوری طریقہ اس ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ ہے ۔
کسی قوم کی معیشت کا عالمی برادری میں کیا نمبر ہے یہ جاننے کے لئے تو آپ کو اس کی جی ڈی پی کی شرح، ٹیکسوں کی صورتحال ، فی کس آمدنی کی شرح، قومی پیداوار کی مناسبت سے قومی بچت کی شرح وغیرہ کو دیکھنا ہوگا لیکن اگر آپ کو صرف یہ جاننا ہو کہ کوئی ملک امیر ہے یا نہیں تو اس کے لئے اس قدر طویل عمل سے گزرے بغیر صرف اس ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں ، ٹیکسیوں (یا رکشوں) کی حالت دیکھ لیجئے۔ آپ کو فوری طور پر اس ملک کی معاشی صورتحال کا ادراک ہو جائے گا۔ کسی قوم میں قانون پر عملدرآمد کی صورتحال کیا ہے اس کا فوری اندازہ کرنا ہو تو اس ملک میں جرائم کے سالانہ چارٹ کو تلاش کرنے کے بجائے صرف یہ دیکھ لیجئے کہ سڑکوں پر ٹریفک چلنے کا اندازکیسا ہے۔
کسی شہر سے ہوائی جہاز میں پاکستان کے شہر کراچی آنے والے کو ایئرپورٹ کی عمارت کا حسن فوراً ہی اپنے سحر میں لے لیتا ہے۔ کراچی ایئر پورٹ کی پُرشکوہ عمارت ایک غریب اور مقروض قوم نے اربوں روپے خرچ کرکے تعمیر کی ہے۔ لیکن ایئر پورٹ کی عمارت سے باہر آتے ہی کوریڈور میں لاؤڈ اسپیکر پر ٹریفک پولیس کے سماعت خراش اعلانات ، ایئرپورٹ سے کچھ دور شاہراہِ فیصل پر سائلنسر کے بغیر چلنے والے رکشوں، غلیظ سیاہ دھواں اُگلتی تیزرفتار بسوں ، لہراتی بل کھاتی منی بسوں اور ٹوٹی ہوئی ٹیکسیوں کو دیکھ کر ایئر پورٹ کا سحر ٹوٹ جاتا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ کراچی ایئرپورٹ کی پُرشکوہ عمارت کی چمک دمک ہمارے ملک کی معاشی حالت کی حقیقی عکاس نہیں ہے۔ یہ محض دکھاوا اور نمود و نمائش ہے۔ اور یہ دِکھاوا بھی اپنی ذاتی دولت کے بل بوتے پر نہیں ہے بلکہ ادھار قرض کے پیسوں پر ہے۔
یہ تو ہوا قوم کی معاشی حالت کا ایک سادہ سا جائزہ۔ اس ملک میں قانون کے احترام کی صورتحال کیا ہے؟ اس بارے میں بھی سڑکوں کے مناظر ہی بہت کچھ بتا دیتے ہیں۔
بس اسٹاپ پر ٹھیلے کھڑے ہیں۔ بسیں مقرر کردہ جگہ کے بجائے سڑک پر کہیں بھی رک کر مسافروں کو اتار اور سوار کرا رہی ہیں۔ٹریفک پولیس کا سپاہی دور کھڑا ہوا ہے وہ کبھی سیٹی بجا کر، کبھی ہاتھ میں پکڑی چھڑی ہلا کر اور کبھی تیز آواز میں کسی ڈرائیور یا کنڈیکٹر کو کوئی غلیظ سی گالی دے کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ بعض مقامات پر ٹریفک پولیس کا سپاہی ڈرائیوروں سے نقد وصولی کرتا ہوا بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس رقم کے عوض ڈرائیوروں کی تیز رفتاری ، اوور لوڈنگ اوور ٹیکنگ وغیرہ نظر انداز ہوتی ہے۔ یہ مناظر ہمیں سمجھا دیتے ہیں کہ ملک میں قانون کے احترام کی عمومی صورت کیا ہے۔
شہروں کے درمیان ہائی ویز پر چلنے والی ٹریفک کا حال تو نہایت سنگین ہے۔ ان سڑکوں پر اکثر ایسے حادثات کی خبریں آتی ہیں جن میں بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ لیکن ڈرائیور بس کے ہوں یا دوسری گاڑیوں کے خطرناک اور خلاف ضابطہ ڈرائیونگ سے باز نہیں آتے۔ پولیس بھی ان حادثات کی روک تھام میں ناکام نظر آتی ہے۔
موٹروے پر اسلام آباد لاہور کے درمیان سفر کریں یا سپرہائی وے پر کراچی حیدرآباد کے درمیان آنا جانا ہو وہاں بس اور ٹرک کے یہی ڈرائیور اپنی اپنی گاڑیاں ٹریفک قانون کے مطابق پورے ڈسپلن سے چلاتے ہیں۔ چند ماہ قبل تک سپرہائی وے پر کثرت سے ٹریفک کے جان لیوا حادثات ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ان حادثات کی شرح بہت کم ہوگئی ہے۔
کراچی ایئرپورٹ سے باہر آکر ہم سڑکوں پر جو اور بے ہنگم ٹریفک دیکھتے ہیں اسے بھی ہمارے ملک کے لوگ کنٹرول کرتے ہیں ۔ سپرہائی وے اور موٹر وے پر منظم انداز میں رواں دواں ٹریفک کو بھی ہمارے ملک کے لوگ کنٹرول کرتے ہیں۔
تو پھر دونوں مقامات پر صورتحال مختلف کیوں نظر آتی ہے۔
اس کی وجہ صرف اور صرف قانون کو مؤثر طور پر نافذ کروانا ہے۔
شہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار کبھی ویگن والوں ، کبھی بس والوں سے کبھی دوسرے ڈرائیوروں سے ’’نذرانہ‘‘ وصول کررہے ہوتے ہیں۔ اس نذرانہ کے عوض وہ قانون کے نفاذ کی ذمہ داری سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ کبھی یہ سپاہی نذرانہ تو وصول نہیںکرتے لیکن کسی ’’بڑے صاحب‘‘ کے رعب میں آکر خلاف قانون حرکت پر اس کی گرفت نہیں کرتے۔ کبھی کسی جان پہچان والے کے ساتھ مہربانی کرتے ہوئے اپنے فرائض کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو ، جب نفاذ قانون کا ذمہ دار قانون پر عملدرآمد نہیں کروائے گا تو نتیجہ افراتفری انتشار اور بدنظمی کی شکل میں نکلے گااور یہ نتیجہ ہم اپنے شہروں کی سڑکوں پر روز دیکھتے ہیں۔
موٹر وے یا سپرہائی وے پر ٹریفک پولیس کا سپاہی نہ تو ڈرائیوروں سے نذرانہ لیتا ہے نہ کسی ’’بڑے صاحب‘‘ کے رعب میں آتا ہے اور نہ ہی کسی جان پہچان والے سے رعایت کرتا ہے۔
جب سرکاری اہلکار قانون پر بلاامتیاز عملدرآمد کروانے لگتا ہے تو نتیجہ تنظیم، ذہنی سکون اور تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور یہ نتیجہ ہم موٹروے اور سپرہائی وے پر کافی عرصہ سے دیکھ رہے ہیں۔
یہ قانون پر عملدرآمد کے دو مختلف اور متضاد ماڈل ہیں۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ یہ دونوں ماڈل ایک ہی ملک اور ایک ہی معاشرہ کے ہیں۔ اپنے ملک کے تقریباً ہر شعبہ میں پائی جانے والے بدنظمی اور افراتفری پر ہر دردمند پاکستانی فکر مند اور دلگرفتہ رہتا ہے۔ ہماری دلی تمنا ہے کہ ہمارے ملک کے حالات ٹھیک ہوں یہاں کا نظام ٹھیک ہوجائے لیکن بہت سے لوگ بے یقینی کے عالم میں یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا اس ملک کا نظام کبھی ٹھیک بھی ہوسکے گا۔
موٹروے اور سپرہائی وے پرڈسپلن سے رواں دواں ٹریفک سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس ملک کے نظام کو درست کرنا نہ تو ناممکن ہے اور نہ ہی یہ کوئی بہت کٹھن کام ہے۔ صرف عزم مصمم اور درست سمت میں اقدامات کی ضرورت ہے۔
موٹروے کی مثال ہمیں یہ یقین فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنے ملک میں قانون پر مؤثر عملدرآمد کی صلاحیتوں سے محروم نہیں ہیں۔ یہ یقین ہمیں زندگی کے کئی دوسرے شعبوں میں ڈسپلن کے مظاہروں سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
کراچی لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں قائم سول ہسپتالوں میں مریضوں کو اکثر ڈاکٹروں کی جانب سے لاپروائی ، طبی سہولیات کی ناکافی فراہمی اور دیگر بدنظمیوں کی شکایات رہتی ہیں۔ یہ شکایات اتنی پرانی اور اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ اب لوگوںنے ان سول ہسپتالوں میں پائی جانے والی خرابیوں کو ناقابلِ اصلاح سمجھ کر گویا تسلیم کرلیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں ان برائیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے ہی علاج کروانا پڑے گا۔ کراچی میں فوج کا ایک ہسپتال پی این ایس شفاء کے نام سے قائم ہے۔ یہ بھی تو ایک سرکاری ہسپتال ہی ہے۔ لیکن یہاں مریضوں کو ڈاکٹروں کی جانب سے لاپروائی ، عدم توجیہی، بدنظمی وغیرہ کی شکایات نہیں ہوتیں۔ سول ہسپتال بھی سرکاری ہسپتال ہے ۔ پی این ایس شفاء بھی سرکاری ہسپتال ہے۔ دونوں کے حالات میں اتنا نمایاں فرق کیوں ہے ایک جگہ کرپشن ، رشوت ، سفارش نے حالات خراب کررکھے ہیں ۔ دوسری جگہ فرائض کی درست انجام دہی ، جوابدہی کے احساس نے معاملات کو اتنا اچھا رکھا ہوا ہے کہ مریض ہر طرح سے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
یہ دونوں ادارے بھی ہم پاکستانی ہی چلا رہے ہیں۔
موٹروے پر ٹریفک کا ڈسپلن سے چلنا ، پی این ایس شفاء میں مریضوں کا پوری توجہ اور تندہی سے علاج اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ ہم نظام کو ٹھیک طرح چلانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ اشارے ہمارا یقین اس امر پر پختہ ترین کردیتے ہیں کہ ملک کے مختلف شعبوں میں پائے جانے والے شدید بگاڑ کی اصلاح ہوسکتی ہے۔
ایک شخص اگر اپنے بنیان اور موزوں پر بھی پوری توجہ دینے لگے تو اس کی شخصیت میں نہایت مثبت تبدیلیاں ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنے جسدِ ملی کے بعض چھوٹے چھوٹے معاملات پر توجہ دینا شروع کردیں تو ہمارے قومی وجود فوری طور پر مثبت تبدیلیاں آنے لگیں گی۔
ضرورت عزم مصمم اور درست سمت میں جدوجہد اور کوشش کی ہے۔ قدرت بھی کوشش و جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہے ۔
وان لیس للانسان الا ماسعٰیO
قدرت ان کی مددکرتی ہے۔ جو اپنی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں ان لوگوں کو قدرت ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیتی ہے جو اپنی حالت بہتر بنانے کے لئے عمل اور جدوجہد نہیں کرتے۔
ترجمہ: بے شک اﷲ نہیں بدلتا کسی قوم کے حال کو جب تک کہ وہ خود اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کرلے۔ (سورۂ الرعد۔11)