روٹی ، کپڑا، مکان میسر ہونے کے باوجود
ﷲ کو حرکت و جدوجہد پسند ہے
مالی خوشحالی کے ساتھ تحفظ و سکون کہاں ملے گا؟
کہا جاتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا اور مکان ہیں۔ اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے اور زندگی کے دیگر تقاضوں کی تکمیل کے لئے جسم کو غذا کی ضرورت ہے۔ موسم کے سرد و گرم سے حفاظت اور دیگر بیرونی عوامل کے لئے مناسب لباس لازمی ہے۔ موسمی تغیرات سے محفوظ رہنے اور اس دنیا میں بہتر طور پر زندگی بسر کرنے کے لئے ایک ٹھکانہ بھی ہونا چاہئے جسے مکان کہا جاتا ہے۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو انسان کی بنیادی ضروریات کی یہ فہرست نامکمل ہے۔ انسان کی بنیادی ضروریات صرف روٹی کپڑا اور مکان ہی نہیں ہیں۔ یہ فہرست کم ازکم اس وقت تک نامکمل ہے جب تک اس میں انسان کی دو اہم بنیادی ضروریات تحفظ اور سکون شامل نہ کرلئے جائیں۔
ایک ایسے شخص کے بارے میں سوچیں جس کے پاس کروڑوں روپیہ ہو، ظاہرہے کہ ایسے شخص کے لئے اچھی سے اچھی غذا، پہننے کے لئے نہایت عمدہ کپڑے اور رہنے کے لئے عالیشان مکان بلکہ مکانات کی فراہمی معمولی بات سمجھی جائے گی۔ لیکن ایسا شخص کسی وجہ سے عدم تحفظ میں مبتلا ہو تو تین بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا اور مکان کی بہتر طور پر تکمیل کے باوجود اس کی زندگی اطمینان سے نہیں گزر سکتی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص روٹی ، کپڑا، مکان اور تحفظ کے باوجود بے سکونی میں مبتلا ہے تو بھی اس کی زندگی بہتر قرار نہیں دی جائے گی۔ محض روٹی، کپڑا اور مکان اس دنیاوی زندگی میں تحفظ اور سکون کی فراہمی کی ضمانت نہیں ہیں۔ ان ضروریات کی فراہمی کے بعد بھی انسان کو اپنے تحفظ کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔
انسان کی زیادہ تر سرگرمیوں کا محرک زندگی بسر کرنے کے لئے وسائل کا حصول یا معاش ہوتا ہے۔ عام سی بات ہے کہ دن کام کرنے کے لئے اور رات آرام کے لئے ہے۔ دن بھر کا تھکا ماندہ شخص رات کے وقت نیند لے کر ناصرف اپنی تھکن دور کرتا ہے بلکہ اگلے دن کام کے لئے بھی توانائی کا ذخیرہ حاصل کرتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رات کے ایک پہر کی نیند دن کے کئی پہر کی نیند سے بہتر ہے۔ ہر شخص کی فطری خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کے اوقات کار ایسے ہوں کہ وہ دن میں کام اور رات میں آرام کرسکے۔ لیکن اگر کسی شخص کا روزگار اس نوعیت کا ہو کہ اسے رات میں کام کرنا پڑے تو اس کا اور اس کے گھر کا نظام الاوقات اس کے کام کے اوقات کے مطابق تبدیل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چند مُستثنیات کے علاوہ ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے آبائی علاقہ میں اچھا روزگار بھی مل جائے اور وہ وہاں رہ کر ہی اپنی زندگی گزارے۔۔۔۔۔ لیکن روزگار کی وجہ سے سرسبز اور ٹھنڈے علاقوں کے رہنے والے جسم کو جھلسا دینے والی صحرائی ہوائوں میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ جبکہ گرم یا معتدل علاقوں کے رہنے والے کتنے ہی لوگ یورپ، امریکہ اور کینیڈا کی خون جما دینے والی سرد ہوائوں میں رہ کر روزگار کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ انسان کی رہائش اور اُس کی ذاتی، خاندانی اور سماجی مصروفیات بھی اس کی معاشی سرگرمیوں اور نظام الاوقات کے تابع ہوتی ہیں۔ گویا معاش کا حصول زندگی کا اہم ترین عامل یا فیکٹر ہے۔ لیکن اس اہم ترین فیکٹر کی بجاآوری یا بہتر طور پر تکمیل کے لئے تحفظ کا احساس نہایت ضروری ہے۔ معاشی سرگرمیاں یا روزگار کے مواقع وہاں پھلتے پھولتے ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ افراد اور اداروں کو اور اُن کے سرمایہ اور محنت کو تحفظ حاصل ہو۔ جہاں انتشار، بدامنی اور لاقانونیت ہووہاں سے افراد، سرمایہ اور روزگار کے مواقع رخصت ہونے لگتے ہیں۔ ایسے ماحول میں رہنے والوں کے لئے روٹی، کپڑا اورمکان کا حصول ہی نہایت دشوار ہونے لگتا ہے۔
روٹی ، کپڑا، مکان اور تحفظ کے بعد انسان کی سب سے بڑی ضرورت سکون ہے۔ درحقیقت پہلی چار بنیادی ضروریات کی تکمیل کے پیچھے بھی اصل غایت سکون کا حصول ہی ہے۔ دولت خرچ کرکے انسان اپنے لئے تحفظ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تحفظ کا احساس اسے کسی حد تک سکون بخشتا ہے۔ کسی کے پاس کروڑوں روپیہ ہو، بظاہر تحفظ بھی ہو لیکن اس کے باوجود زندگی میں سکون اور ذہنی آسودگی نہ ہو تو اُسے سب کچھ بے معنی سا لگتا ہے۔
ہر انسان کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کامیاب زندگی کی حقیقی تعریف کیا ہے۔ کیا دولت کماکر ، پُرآسائش زندگی کے وسائل اکٹھے کرلینا کامیابی ہے۔ دولت ہو اور تحفظ اور سکون نہ ہو تو انسان خود ایسی زندگی سے مطمئن نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ لہٰذا اسے کامیاب زندگی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔
اس دنیا میں کامیاب زندگی کی مختصر تعریف یہ ہوگی کہ ان بنیادی ضروریات یعنی روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ تحفظ اور سکون بھی حاصل ہو۔ کامیاب زندگی کیونکر حاصل ہو؟ اور کیسے گزاری جائے؟۔۔۔۔۔ اس سوال کے جواب میں کئی پہلوئوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔
کامیابی کا معیار کیا ہے، اس کے لئے کیا لائحہ عمل یا طریقۂ کار ہونا چاہئے۔ اس لائحہ عمل کے پیچھے کارفرما نیت کیا ہونی چاہئے ۔ اس لئے کہ ہر عمل کے نتیجہ کی بنیاد اس کے بارے میں کی گئی نیت پر ہے۔
اس دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا ایک معروف طریقہ تو وہ ہے جو انسان صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے اپنی فہم و دانش کو استعمال کرکے اختیار کرتا رہا ہے۔ یعنی انسانوں کے وضع کردہ چند قوانین کے تحت لیکن عمومی جوابدہی کے احساس کے بغیر زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کے لئے کوشش اورجدوجہد۔
دوسرا طریقہ وہ ہے جس کی بنیاد الہامی ہدایات اور پیغمبرانہ رہنمائی پر ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے یہ دنیا انسان کے لئے بنائی ہے۔ کرئہ ارض کا ماحول انسان کے طبعی تقاضوں سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔ زمین کے سارے خزانے اور وسائل اﷲ نے انسان کے تصرف میں دے دئیے ہیں۔ ان وسائل کو بہتر طور پراستعما ل کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عقل کی نعمت عطا فرمائی۔۔۔۔۔عقل کی سمت درست رکھنے کے لئے انسان کو الہامی ہدایات عطا کی گئیں۔ پیغمبران کرام علیہم السلام کی مقدس و متبرک ہستیاں ان الہامی ہدایات کا ذریعہ بنتی رہیں۔
پیغمبروں کی تعلیمات میں تفکر سے پتہ چلتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ حرکت اور جدوجہد کو پسند فرماتے ہیں۔ اس دنیا میں اپنے لئے آسائشیں حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر انسان کا حق ہے اور یہ ایک پسندیدہ فعل ہے۔ تاہم اس جدوجہد کے دوران کسی کی حق تلفی ہو، کسی کے ساتھ زیادتی ہو، ظلم ہو، یہ بات اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ وہ تنہا نہیں رہ سکتا۔ مل جل کر رہنا اس کی چوائس نہیں اس کی ضرورت ہے۔ مل جل کر رہنے سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ انسانی معاشرہ کے مختلف عوامل افراد کی انفرادی زندگی پر شدت سے اثرا نداز ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس دنیا میں انسانی معاشروں میں ایسی سوچ اور طرزِعمل رائج ہو جس میں لوگوں کے درمیان باہمی احترام، تعاون، خیر کے جذبات پروان چڑھیں۔ زندگی کی تقاضوں کی تکمیل کے لئے انسان کی کوششیں دوسروں کے استحصال، حق تلفی، ظلم و زیادتی سے ہر طرح سے محفوظ ہوں۔ اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جن کی عادات اور اعمال سے معاشرہ میں خیر کو فروغ حاصل ہو۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے سب سے پہلی شرط یا ضرورت اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور روزِ آخرت جواب دہی کا مکمل یقین ہے۔ اﷲ نیک لوگوں کو پسند کرتا ہے ۔
اور نیکی کیا ہے؟۔۔۔۔ قرآن بتاتا ہے:
’’نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف رُخ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ اﷲ اور یومِ آخرت پر پختہ ایمان ہو۔ اپنا مال انسان جس کی شدید محبت میں مبتلا ہوتا ہے، رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں اور مساکین پر اور مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے لئے خرچ کیا جائے۔ صلوٰۃ اور زکوٰۃ پابندی سے ادا کی جائیں۔ عہد پورا کیا جائے اور سختی اور تکلیف میں ثابت قدم رہا جائے یعنی استقلال کا مظاہرہ کیا جائے‘‘۔ (سورۂ البقرہ)
قرآن ایسے معاشرہ کے قیام کے لئے واضح طور پر رہنمائی عطا کرتا ہے جہاں خیر و تعاون ہو، دوسروں کے ساتھ بھلا کرکے اپنا بھلا سوچا جائے۔جہاں حلال و طیب روزی کے حصول کے مواقع میسر ہوں ، معاشی خوشحالی ہو۔ ان قرآنی ہدایات کے تحت رہتے ہوئے دولت کمانا بھی ایک احسن عمل بن جاتا ہے۔ اس طرح دولت کمانے کے لئے کی جانے والی کوششیں آخرت میں جواب دہی کے یقین کی وجہ سے استحصال، ظلم و زیادتی کے حربوں سے پاک ہوتی ہیں۔ ایسی دولت اپنے منفی اثرات سے بھی محفوظ ہوتی ہے۔ ایسے معاشرہ جہاں قرآنی فکر رائج ہو، خوشحالی عطاکرنے کے ساتھ ساتھ تحفظ اور سکون بھی عطا کرتے ہیںـ۔
سوال یہ ہے کہ ایسے معاشرے کی بنیاد کہاں اور کس طرح رکھی جائے؟۔۔۔۔۔۔ قرآنی فکر کے مطابق اس کا جواب یہ ہے کہ اصلاح کا عمل دوسروں سے شروع کرنے کے بجائے اپنی ذات سے شروع کیا جائے۔ ہمارے حالات کی خرابیوں کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں خرابی ہمیشہ دوسروں میں نظر آتی ہے۔ ہمیں اپنی خرابی یا تو نظر ہی نہیں آتی یا پھر ہم اپنے اندر موجود خرابی سے یہ کہہ کر بری الذّمہ ہونا چاہتے ہیں کہ ہماری خرابی تو دوسروں کی خرابیوں کا ردِّعمل ہے۔ قرآن اور تعلیمات نبوی صلی اﷲ علیہ وآلٖہ وسلم سے حاصل ہونے والی فہم و فراست سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اصلاح کا عمل پہلے خود اپنی ذات سے شروع ہونا چاہئے۔ اپنی ذات کے بعد اپنے گھر کا نمبر آتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق باپ اپنے گھر کا نگران ہے۔۔۔۔۔ اس نگرانی کا مطلب محض گھر کی حفاظت یا اہلِ خانہ کی کفالت ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب اپنے گھر کے لوگوں کی بہترین انداز میں تربیت بھی ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلٖہ وسلم فرماتے ہیں کہ باپ اپنی اولاد کو جو تحفہ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر اولاد کی تربیت ہے۔
بچپن سے ہی اگر ایسے نقوش قلب و ذہن پر مثبت کردئیے جائیں جن کی وجہ سے اﷲ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلٖہ وسلم کی پسندیدہ طرزِفکر شخصیت میں رچ بس جائے تو ایسے لوگوں پر مشتمل معاشرہ بھی انسانوں کے درمیان عدل ، خیر و فلاح کے ثمرات لئے ہوئے ہوگا۔۔۔۔۔ ایسے معاشرہ کے رہنے والے اﷲ کی دوستی کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں گے ۔ ایسے معاشرہ میں لوگوں کو خوشحالی کے ساتھ ساتھ تحفظ و سکون بھی ملے گا۔ اﷲ کا وعدہ ہے۔۔۔۔۔
الا ان اولیاء اﷲ لاخوف علیہم ولاہم یحزنون