عورت کی گواہی آدھی ہوتی ہے؟
ایک بے مثال حق جو عورت کو دیا گیا
سماجی اور روحانی معاملات میں عورت کی شمولیت
انسانوں کاہر معاشرہ اپنے چند مخصوص اوصاف کا حامل ہوتا ہے۔ یہ اوصاف اسے دوسرے معاشروں سے مختلف یا ممتاز بناتے ہیں۔ معاشرتی اقدار کی تعمیر و تشکیل میں مرد اور عورت دونوں کا حصہ اور اثر ہوا کرتا ہے۔ انسانی معاشروں کے کئی معاملات عورتوں کے ہاتھ میں ہیں لیکن معاشرہ پر چھاپ یا بالادستی مرد کی نظر آتی ہے۔ مردکا جسمانی طور پر عورت سے طاقتور ہونا یا معاشی جدوجہد میں نمایاں کردار، ایسے اہم عوامل ہیں جو اس کی بالادستی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اگر عورت کسی طرح اپنی اور خاندان کی معاش کا بندوبست خود کرنے لگے تو جسمانی لحاظ سے مضبوط ہونے کے باوجود مرد کی حیثیت میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔
مردانہ تسلط بعض نظریات کی طرح محض ایک نظریہ نہیں۔ بلکہ کئی نفسانی خواہشات کی طرح ایک شدید خواہش ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مرد نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے کبھی اپنی طاقت، کبھی معاشرتی قوانین اور کبھی مذہبی عقائد کا بے دریغ سہارا لیا۔ قبل مسیح کے معاشروں میں مصر، یونان، بابل، ایران اور ہندوستان میں پروہتوں کی خواہشات کی تکمیل یا ہندو معاشرہ میں شوہر کے مرنے پر اس کی بیوہ کو بھی چتا میں جلا ڈالنا اس کی چند مثالیں ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خطوں میں قائم معاشروں میں عورت کے بارے میں تقریباً یکساں تصورات ملتے ہیں۔ جن میں بالعموم عورت کو ناپاک، برائیوں کی طرف راغب کرنے والی، کمتر اور حقیر مخلوق قرار دیا جاتا رہا۔
ان منفی نظریات کے علی الرغم تمام الہامی مذاہب نے عورت کو انسانی وجود کا ایک حصہ قرار دے کر اس کی عزت و توقیر کا اعلان اور اس کے احترام کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں خاص طور پر دین ابراہیمی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ، ؑحضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات میں کہیں بھی عورت کے درجہ اور رتبہ میں کمی کا ذکر نہیں۔ لیکن ان پیغمبران علیہم السلام کے بعض پیروکاروں نے ان پر نازل ہونے والے الہامی پیغامات تک میں تحریف کر ڈالی۔ ایسے لوگ عورت کے بارے میں پیغمبروں کی تعلیمات، ہدایات اور احکامات کو کیا خاطر میں لاتے۔ چنانچہ عورت کی بے حرمتی اور بے توقیری کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ چلتا رہا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا۔ آغازِ اسلام تک یہ سلسلہ پوری شدت سے جاری رہا۔
خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بعثت ساری نوعِ انسانی پر اﷲتعالیٰ کا عظیم ترین احسان ہے۔ اﷲتعالیٰ نے آپﷺ کو اپنا محبوب بنایا، آپﷺ کو ساری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا۔ یہ رحمت طبقہ ٔ نسواں پر بھی سایہ فگن ہوئی۔ اسلام نے مردوں کو یہ باور کروایا کہ عورت اور مرد دونوں آدم کی اولاد ہیں۔ اﷲتعالیٰ کے نزدیک بہتری کا معیار مرد یا عورت ہونا نہیں ہے بلکہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک بہتر وہ ہے جو زیادہ متقی، زیادہ پرہیز گار ہے۔ اسلام میں عورت کا احترام محض تذکرۃً نہیں ہے بلکہ اسلام کی تبلیغ اور ریاست کے معاملات میں عورت کی عملی شمولیت نوعِ انسانی کے لئے واضح سبق ہے۔ بڑی حیرت ہوتی ہے جب عورت کو جسے اسلام نے عزت اور احترام کی رفعتیں عطا فرمائیں بعض لوگ یا بعض طبقات مرد کے مقابلہ میں نصف قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی گواہی کو ہر مقام پر نصف قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں یہ بات اسلامی تعلیمات کی روح اور احکامات سے کسی طرح بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن پاک میں کہیں بھی یہ حکم نہیں ہے کہ ایک عورت کی گواہی آدھی سمجھی جائے گی۔ آپ قرآن کی ایک ایک آیت کو نہایت غور سے پڑھئے آپ کو اس ہدایت پر مبنی کوئی آیت پورے قرآن پاک میں کہیں نہیں ملے گی۔
تو پھر عورت کی آدھی گواہی کی بات کہاں سے آئی ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیت 282 میں اﷲتعالیٰ نے قرض کے معاملہ میں احکامات عطا فرمائے ہیں۔ سورۂ بقرہ کی یہ آیت قرآن پاک کی سب سے طویل آیت ہے۔ اس آیت میں کئی احکام بیان ہوئے ہیں۔ ایک حکم تو یہ ہے کہ جب اُدھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ ایک حکم یہ ہے کہ لکھنے والا پوری ذمہ داری کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ تحریر کرے۔ ایک حکم یہ ہے کہ اس معاملہ پر یعنی اس تحریری معاہدہ کے دو گواہ بنائے جائیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دو مردوں کو گواہ بنایا جائے اور اگر (اس موقع پر) دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ کرلو۔ ان لوگوں میں سے جن پر تم راضی ہو۔ آگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ (ایسا اس لئے ہے کہ ) اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اُسے یاد دلادے۔
یہ ہے وہ آیتِ قرآنی جسے عورت کی گواہی کو نصف قرار دینے والے لوگ اپنے لئے بطور دلیل بیان کرتے ہیں۔
دنیا بھر کے نظامِ قوانین کو سامنے رکھئے۔ دنیا بھر کے قوانینِ شہادت کو سامنے رکھئے۔ پاکستان میں رائج رہنے والے ایویڈینس ایکٹ 1872 ء یا مروجہ قانونِ شہادت آرڈی نینس مروجہ 1984ء کو سامنے رکھئے۔ ایک بات دنیا کے ہر قانونی نظام کے قانونِشہادت میں یکساں ملے گی کہ کسی واقعہ یا کسی معاملہ کا گواہ عدالت میں پیش ہوکر اپنی گواہی جن الفاظ میں قلمبند کروا تا ہے وہ اس کی اصل گواہی کے طور پر لکھ لی جاتی ہے۔جج کے سامنے اپنی زبان سے ایک مرتبہ الفاظ ادا کرلینے کے بعد گواہ کے پاس خواہ وہ مرد ہو یا عورت اپنا بیان تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ہاں گواہی دینے کے دوران گواہ اپنی گزشتہ بات میں کوئی تبدیلی کروانا چاہے تو اسے رضاکارانہ طور پر تبدیلی کے زمرہ کے تحت علیحدہ سے لکھا جائے گا لیکن اس بات سے اس کی گواہی کی وقعت کم ہوجائے گی۔
دوسری طرف قرآن کے عطا کردہ قانونی نظام میں صرف مالی معاملات میں شہادت دیتے وقت عورت کو ایک بے مثال حق دیا گیا ہے۔وہ حق یہ ہے کہ اگر عورت چاہے تو اپنے بیان کے مندرجات تبدیل کرواسکتی ہے۔ یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ یہ حق مرد کو حاصل نہیں ہے۔
’’اور بنا لیا کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے اور اگر نہ ہوں دو مرد تو ان لوگوں میں سے جن پر تم راضی ہو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنا لو تا کہ اگر ایک کوئی بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے‘‘۔قرآن پاک کی اس آیت کے مطابق مالی معاملات میں دو عورتیںبطور گواہ جج کے سامنے گواہی دیں گی۔ اگر ایک عورت کوئی بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے گی۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ دوسری گواہ جج کے سامنے اپنی گواہی ریکارڈ کروائے گی بلکہ یہ واضح ہے کہ دوسری عورت پہلی عورت کو ہی مخاطب کرے گی اور اسے یاد دلائے گی کہ مالی معاملہ اس طرح نہیں اس طرح ہوا تھا۔ اس آیت کی رو سے حاصل ہونے والے حق کے تحت یاد دلائے جانے پر پہلی عورت جج کے سامنے اپنا ترمیم شدہ بیان دے گی۔ لیکن یہ ترمیم شدہ بیان پہلے بیان کے Addendum کے تحت نہیں بلکہ اصل بیان کے طور پر ہی ریکارڈ ہوگا۔
دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ حق نہ مرد کو حاصل ہے نہ عورت کو کہ وہ گواہی کے وقت اپنا بیان تبدیل کرسکے۔ لیکن اِسلام نے مالی معاملات میں گواہی دیتے وقت عورت کو یہ بے مثال حق دیا ہے۔ اُسے بھول چوک کی رعایت دی گئی ہے۔
اس ایک آیت کے علاوہ جو صرف مالی معاملات پر گواہی کے بارے میں چند شرائط بیان کرتی ہے۔ دیگر کسی جگہ بھی گواہی کے لئے مرد اور عورت کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ہے۔ سورۂ النساء کی آیت 135 میں ہے۔
’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اﷲکے لئے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارے والدین اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو‘‘۔یہاں گواہی کے لئے اہلِ ایمان کو کہا جارہا ہے۔ اہلِ ایمان میں مرد اور عورت دونوں شامل نہیں ہیں؟۔۔۔۔۔
سورۂ مائدہ کی آیت 106 میں گواہی کے لئے دو معتبر لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں یہ پابندی نہیں بتائی گئی کہ ایک معتبر مرد اور دو معتبر عورتیں۔ اب یہ دو معتبر لوگ دو مرد یا ایک مرد اور ایک عورت یا دو عورتیں نہیں ہوسکتے؟۔۔۔۔۔
صحابی رسول حضرت عقبہ بن حارث رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے ایک خاتون غنیہ سے نکاح کیا۔ ایک عورت نے ان سے کہا کہ میں نے تمہیں اور تمہاری منکوحہ دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے نہ تم نے پہلے کبھی مجھ سے یہ بات کہی۔ پھر انہوں نے اپنی بیوی کے رشتہ داروں سے معلوم کروایا انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اس عورت نے عقبہ کو دودھ پلایا ہے۔ آخر کار حضرت عقبہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ رسول اﷲﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے اور سارا احوال بیان کیا۔ دودھ پلانے والی عورت تن تنہا یہ واقعہ بیان کررہی تھی دوسرا کوئی اس کی گواہی نہیں دے رہا تھا۔ نبی کریمﷺ نے رضاعت کے بارے میں اس عورت کا کہا تسلیم فرمایا۔ غنیہ کو عقبہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی رضاعی بہن قرار دیا۔ عقبہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے غنیہکو چھوڑ دیا اور دوسری جگہ نکاح کیا۔
نبی کریمﷺ کے فیصلوں سے کہیں بھی اس بات کا اظہار نہیں ہوتا کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عورت کو آدھا وجود سمجھا ہو، آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عورت کو بھرپور عزت و احترام عطا فرمایا اور انہیں وہ حقوق عطا فرمائے جو آج سے سو سال قبل تک بھی غیراسلامی معاشروں میں عورت کو حاصل نہ تھے۔
دورِ نبویﷺ ہو یا دورِ خلافتِ راشدہ۔ اسلام کی تبلیغ، اسلامی مملکت کے دفاع اور استحکام، ریاستی معاملات مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور معاشرہ کے مختلف شعبوں میں عظیم مسلم خواتین نے نہایت گرانقدر خدمات انجام دیں۔
یہ شرف ایک عورت کو۔۔۔۔۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو حاصل ہوا کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت محمدﷺ کی رسالت کی گواہی دی۔
کیا اس گواہی کی حقانیت اور اس کے مکمل ہونے میں کسی کو کوئی شک ہوسکتا ہے۔
اسلامی قانون کے بنیادی ماخذ دو ہیں ایک قرآنِ پاک اور دوسرا سنتِ رسولﷺ۔ سنتِ رسولﷺ سے آگاہی کا ذریعہ احادیثِ نبویﷺ ہیں احادیثِ نبویﷺ کا بہت بڑا علم امت مسلمہ کو اپنی عظیم ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کے ذریعے حاصل ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں قرآن پاک کو تحریری شکل میں یکجا کر کے ایک نسخہ تیار کیا گیا۔ یہ مکمل قرآنی آیات کا پہلا نسخہ تھا۔ اسلامی ریاست کی جانب سے قرآن پاک کے اس پہلے تحریری نسخہ کو بطورِ امانت رکھوانے کے لئے کس ہستی کا انتخاب کیا گیا۔
ایک عورت کا!۔۔۔۔۔
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کے پاس یہ نسخہ بطور امانت رکھوایا گیا۔
وہ کون سی ہستی ہے کہ جب لوگ مایوس ہونے لگتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ ان کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں کہ اب ان کی دعا ضرور قبول ہوگی۔ یہ خاتونِ جنت حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا ہیں۔
اسلام کے تبلیغی، ریاستی، تعلیمی اور روحانی معاملوں میں خواتین کی بھرپور شمولیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ قرآن اور اسلام کی نظر میں انسان کا مطلب صرف مرد نہیں بلکہ مرد اور عورت ہیں، اسلام عورت کو کمتر یا نصف قرار نہیں دیتا بلکہ عورت کے بارے میں مختلف منفی نظریات اور تصورات کی تردید کرتے ہوئے عورت کو مکمل احترام، اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال اور سماج کے مختلف شعبوں اور روحانی شعبوں میں بھرپور شمولیت کے مواقع مکمل احترام اور تحفظ کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔