پُرامن منظم معاشرہ کا قیام
رمضان کا مبارک مہینہ تمام ہوا۔ مسلمانانِ عالم نے ربِ کریم کی عنایات اور رحمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے عیدالفطر کا تہوار پُرشکوہ انداز میں منایا۔ ایک مسلمان کے لئے رمضان کا مہینہ خاص شان اور احترام کا حامل ہوتا ہے۔ یہ مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ رمضان کے روزہ کو اسلام کے بنیادی رکن کی حیثیت حاصل ہے۔ روزہ کی شان یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ کی جزا میں خود ہوں۔ رمضان کے روز و شب میں روزہ،نماز، قرآن کی تلاوت اور سماعت اہلِ اسلام کی روحانی بالیدگی کا سبب بنتے ہیں۔ اہلِ اسلام کے قلوب اﷲ کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ ان متبرک روز و شب میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف بعض بندے تو اﷲتعالیٰ کے ساتھ قرب و تعلق کی خاص کیفیات سے آشنا ہوتے ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں اسلامی معاشرہ کا تعلیمی و تربیتی نظام بھی زیادہ متحرک نظر آتا ہے۔ درسِ قرآن اور درسِ حدیث کے خصوصی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ جن میں مقررین اور واعظ اپنے اپنے انداز میں لوگوں کو قرآن و حدیث کے معانی اور حکمتوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ بہت سے واعظین اپنے وعظ میں اس دنیا کی بے ثباتی اور قربِ قیامت کا ذکر کرتے ہیں۔ کئی لوگوں کا وعظ اﷲتعالیٰ کے غصہ، قبر کے عذاب اور قیامت میں خوفناک سزائوں کے نہایت تفصیلی بیان پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ سب اس لئے بیان کیا جاتا ہے کہ لوگ سیدھے راستے پر چلتے رہیں گویا دین کی تبلیغ اور اس کے احکامات پر عمل کے لئے سزا اور عذاب کے خوف کو بطور محرک استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے واعظ کی اس سوچ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص نماز اس لئے قائم کرے کہ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو اسے سخت سزا اور عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ روزہ اس لئے رکھے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے سخت عذاب ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے واعظین مستحب اور نفلی عبادتوں میں بھی کوتاہی یا ٹھیک طرح سے ان کے ارکان ادا نہ ہونے پر تو سخت سزائوں اور عذاب کا ذکر کرتے ہیں لیکن زندگی کے روزمرہ کے معاملات اور معاشرتی رویوں کی درست انجام دہی پر کچھ زیادہ زور نہیں دیتے۔ ان کے بیان کا سارا زور عبادات میں مصروف رہنے پر ہوتا ہے۔ قرآنی احکامات کی تعمیل میں معاملات کی درستگی، صلہ رحمی، حقوق العباد کی ادائیگی، رزق حلال کے حصول، قرابتداروں، پڑوسیوں کے حقوق، معاشرہ اور مملکت کے حقوق کا تذکرہ یا تو ہوتا ہی نہیں یا محض سرسری طور پر ہوتا ہے۔
اسلام اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ جو شخص دائرہ اسلام میں آگیا سلامتی کی راہ پر آگیا۔ اس راہ پر آگیا جہاں ہرطرف اﷲتعالیٰ کی رحمتیں، برکتیں، نعمتیں پھیلی ہوئی ہیں۔ جہاں اﷲ تعالیٰ کے انعامات اہلِ ایمان کے منتظر ہیں۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ اہلِ ایمان کے بارے میں فرماتے ہیں:
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خوشخبری سنادو کہ ان کے لئے نعمت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ (سورۂ بقرہ)قرآن پاک کی سورتوں کو زمانی لحاظ سے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔۔۔۔۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی راحت ہے اور آخرت میں بھی۔ (سورئہ یونس)
ایک جگہ ارشادِ خداوندی ہے:
جو کوئی نیکی لے کر آئے گا اس کو ایسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا وہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (سورۂ انعام)
-1 مکی سورتیں۔۔۔۔۔ -2مدنی سورتیں۔
مکی سورتوں کے موضوعات میں زیادہ تر قرآن پاک کا تعارف اس کی عظمت و حقانیت اور قرآن کے مختلف اوصاف کا ذکر، توحید باری تعالیٰ، رسالت محمدی، آخرت کے اثبات، قیامت میں پیش آنے والے واقعات کی اطلاع وغیرہ شامل ہیں۔ ان آیات میں بت پرستوں ، مشرکوں کے باطل عقائد کی کھلی نفی کرتے ہوئے تاریخی شہادتوں سے اﷲ اور اﷲ کے پیغمبروں کی مخالفت کرنے والوں، آخرت کو جھٹلانے والوں، زندگی بعدالموت سے انکار کرنے والوں کے اس دنیا میں بُرے انجام اور آخرت میں دردناک عذاب کا بھی تذکرہ ہے۔
ایک خاص بات یہ سامنے آتی ہے کہ اس دنیا میں بھی آخر کار ناکامی، ذلت و رسوائی اور آخرت میں نہایت شدید عذاب کا ذکر مکی سورتوں میں زیادہ ہے اور خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے کیا گیا ہے جو اﷲ اور اس کے رسولوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کفر کیا یا وہ مشرک تھے۔ جو لوگ اﷲ اور اُس کے رسولوں پر اور ان پر نازل ہوئی کتابوں پر ایمان لائے اور جنہوں نے اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی اطاعت کی اُن کے لئے اِس دنیا میں بھی عزت و سربلندی کا اجر ہے اور آخرت میں بھی بیش قیمت انعامات کا وعدہ ہے۔ پیغمبران کرام علیہم السلام نے لوگوں کو اﷲ کی طرف بلاتے ہوئے انہیں خوشخبری سنائی اور اُن سے انعام و اکرام کا وعدہ کیا۔ ایمان لے آنے والوں کے لئے تو بخشش کا وعدہ ہے، جنت کا وعدہ ہے اُس جنت کا جو عارضی نہیں بلکہ مستقل ہوگی۔
رسول اﷲﷺ نے جب اہلِ مکہ کو اسلام کی دعوت دی تو آخرت میں انعامِواکرام کے وعدہ کے ساتھ انہیں دنیا کی امامت حاصل ہونے کی نوید بھی سنائی۔ آپﷺ نے قریش مکہ سے فرمایا کہ میری رسالت پر ایمان لے آئو عنقریب پورا خطۂ عرب تمہارے زیرِ نگیں ہوگا۔ اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ سے قبل آنے والے کئی انبیائؑ اور رسولوں کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس دنیا میں امامت و سرداری عطا کی گئی۔ حضرت ادریس، حضرت یوشع، حضرت شموئیل، حضرت دائود، حضرت سلیمان علیہم السلام بڑی بڑی پُرشکوہ سلطنتوں کے بلاشرکت غیرے حکمران تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جو مصر کے بازار میں ایک غلام کی حیثیت سے فروخت کئے گئے تھے، ایک روز مصر کی حکمرانی عطا کی گئی۔
کیا یہ انعام و اقتدار صرف ان جلیل القدر پیغمبروں کے لئے ہی تھا؟ آیئے قرآن سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اﷲ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا اور ان کے دین کو جسے اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کرے گا اور خوف کے بعدان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ فاسق ہیں۔(سورۂ نور)ایمان لانے والوں اور اچھے عمل کرنے والوں کے لئے اﷲ نے اس دنیا میں اقتدار، امن و سلامتی اور خوشحالی بخشنے اور آخرت میں اپنے دیدار سے سرفراز کرنے اور جنت میں ٹھکانہ عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ کفر کرنے والوں، مشرکوں، ظالموں، مفسدوں کے لئے عذاب کی وعید ہے۔
تو کیا اہلِ ایمان احتساب اور جواب دہی سے مبّرا ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس دنیا میں کچھ غلط کرے تو اس کی کوئی پکڑ نہیں ہے۔ وہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنی غلط روش کا خمیازہ نہیں بھگتے گا۔ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اہلِ ایمان میں سے جو لوگ حقوق اﷲ اور حقوق العباد میں کوتاہی کریں گے ، جو دوسروں کے لئے باعث ِ تکلیف اور ایذا بنیں گے، جو زمین میں فساد پھیلائیں گے، رزقِ حرام سے اپنی اور اپنے زیرِ کفالت لوگوں کی پرورش کریں گے اور دوسرے منکرات کے مرتکب ہوں گے انہیں اﷲ کی ناراضگی کا سامنا کرنا ہوگا۔ وہ لوگ جنہیں اﷲ نے اپنے فضل سے دولت عطا کی ہے لیکن وہ لوگ اس میں سے اﷲ کی راہ میں دوسرے ضرورت مندوں پر خرچ نہیں کرتے اﷲ نے ان کے لئے تو سخت عذاب کی وعید دی ہے ۔
اسلامی نظام جزا اور سزا کے مقاصد میں عقیدہ توحید کے استحکام کے ساتھ ساتھ اِس دنیا میں ایک پُرامن منظم معاشرہ کا قیام بھی شامل ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں مختلف طبقات کے لوگ ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور احترام کریں۔ احتساب اور سزا کی وارننگ معاشرہ کے سرکش، نافرمان اور انحراف کرنے والے لوگوں کے لئے ہے۔ یہ ان لوگوں کو درست طرزِعمل اختیار کئے رکھنے کے لئے ہے جنہیں کس بھی طرح لوگوں پر طاقت اور اختیار حاصل ہے۔ احتساب کا یہ عمل کمزور اور غریب کو طاقتور اور دولتمند کے ناجائز سلوک سے بچانے کے لئے ہے۔
زمین پر اکڑ کر مت چل کہ تو زمین کو پھاڑنہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑوں تک پہنچ جائے گا۔ ان سب عادتوں کی بُرائی تیرے پروردگار کے نزدیک بہت ناپسند ہے۔ (سورۂ بنی اسرائیل)بے شک وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اِس کے بعد انتقام لے تو اُس پر کچھ الزام نہیں الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کو تکلیف دینے والا عذاب ہوگا۔ اﷲ تکبر کرنے والے بڑائی جتانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
لوگوں سے ازراہِ غرور گال نہ پُھلانا اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا اﷲ کسی اِترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال رکھنا اور اپنی آواز دھیمی رکھنا۔(سورۂ لقمان)
اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو ضرورتمندوں پر خرچ کرنے کی ترغیب دی اور اس عمل کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ بتایا۔ اس عمل کو باعثِ برکت اور دولت میں اضافہ کا ذریعہ قرار دیا۔ اﷲ کی راہ میں صدقِ نیت سے خرچ کئے جانے والے ایک کے بدلہ اس دنیا میں دس اور آخرت میں ستر اضافہ کی خوشخبری سنائی گئی۔ دولت مند اگر اپنی دولت کو سمیٹ کر رکھ دے اسے گردش میں نہ لائے اور اسے حقداروں پر خرچ نہ کرے تو معاشرہ کے کئی غریب اور نادار لوگوں کی زندگی مزید دشوار ہوجائے گی۔
ذرا غور کیجئے جو پیسہ لوگ اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں کیا اﷲ کو اس کی ضرورت ہے؟۔۔۔۔۔ وہ پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔ وہ پیسہ انسانوں پر اﷲ کی مخلوق پر خرچ ہوتا ہے۔ اس رقم سے مستحق، ضرورتمندوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ملک میں دولت کی گردش عمل میں آتی ہے۔
اسلامی نظام احتساب یا نظامِ جزا اور سزا کا مقصد دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے کمزور لوگوں کا تحفظ بھی ہے۔ اس تحفظ میں ان کی عزتِ نفس، معاشرتی مقام، معاشی ضروریات ہر طرح کے معاملات شامل ہیں۔ جن لوگوں کو اﷲتعالیٰ نے دولت عطا کی ہے انہیں کسی دنیاوی قانون یا ضابطہ کے تحت دوسروں کے ساتھ اعلیٰ اخلاق اور حسنِ سلوک کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔۔ اسلام نے معاشرہ کے تمام طبقات میں ہم آہنگی، باہمی عزت و احترام اور اُخوت کے فروغ کے لئے نہایت احسن طریقہ سے لوگوں کو راغب کیا ہے۔ ان باتوں پر غور کیجئے اور یہ دیکھئے کہ افراد معاشرہ کو کتنے احسن طریقہ سے خوشگوار باہمی تعلقات، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شرکت اور ایک منظم معاشرہ کے قیام کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ لوگوں سے اچھی طرح مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ ہے۔ دولت کو اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا دولت میں برکت کا سبب ہے۔ پڑوسی کے حقوق کی ادائیگی اﷲ کی خوشنودی کا سبب ہے۔
یہ بات بڑی عجیب محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے کئی واعظ اسلام کا پیغام ڈر، خوف، سزا اور عذاب کے حوالوں کے ساتھ دیتے ہیں، وہ اﷲ کی محبت کا تذکرہ نہیں کرتے جب کہ اﷲ تو اپنی مخلوق سے ستّر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے، اﷲ ہم سے ہماری رگِ جان سے زیادہ قریب ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو آزمائش کے لئے بھیجا ہے لیکن ساتھ میں یہاں انسان کی راحت و آرام اور اچھی زندگی بسر کرنے کے لئے تمام تر لوازمات بھی فراہم کئے ہیں۔
آج ہم سب مل کر اﷲ کی طرف چلیں اُس راستہ پر چلیں جو اس کے محبوب رحمتہ اللعالمین محمد ﷺ کا بتایا ہوا راستہ ہے۔ رحمتہ اللعالمین کی نسبت کے ساتھ اﷲ کی طرف چلیں۔ اﷲ کی محبت سے سرشار ہو کر اس کی رضامندگی کے خوگر ہو کر۔ اﷲ کا عذاب کفر کرنے والوں، تکبر کرنے والوں، ناشکر گزاروں، مفسدوں کے لئے ہے۔ عاجزی اختیار کئے رکھنے والے اپنے فرمانبردار بندوں پر تو اﷲ بہت مہربان ہے۔ اﷲ رحیم ہے، اﷲ کریم ہے، اﷲ ستارالعیوب اور غفار الذنوب ہے۔ اﷲ خود دعوت دے رہا ہے۔
’’اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابرہے اور جو متقی لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے‘‘۔ (سورۂ آلِ عمران)