بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

   بِسْمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ(1)الْحَمْدُ للّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ(2)الرَّحْمـنِ الرَّحِیْمِ(3)مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ(4)إِیَّاکَ نَعْبُدُ وإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ(5)اہدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ(6)صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ(7)


قرآن پاک کی ہر سورہ سے پہلے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  لکھا اورپڑھا جاتاہے۔
یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ  کی صفات کا مظاہر ہ ہے۔اللہ تعالیٰ کی لاتعداد بے شمار صفات ہیں۔ان صفات کا ایک تعارف اللہ تعالیٰ کے اسماء کے ذریعے ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کی صفات  کتنی ہیں اس کا علم تو اللہ تعالیٰ کوہی ہے تاہم اللہ کے معروف صفاتی اسماء کی تعداد ننانوے ہے۔یہ ننانوے اسماء یا تو قرآن پاک کی آیات میں آئے ہیں یا پھر قرآن کی آیات سے اخذ کئے گئے ہیں۔
ہادی عالم، معلم اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہر کام کا آغازاللہ  کے نام کے ساتھ کیا جائے  ۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ،قرآن کی ایک آیت کا جزو بھی ہے۔یہ سورہ نمل کی تیسویں آیت میںہے۔

إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

اس متبرک جملےمیں تین اسماء کا ذکر ہے۔ ایک خالق کائنات کا ذاتی نام اللہ  اوردوصفاتی نام رحمٰن اوررحیم
عربی زبان اورادب کے ماہرین نے اسم اللہ کی کئی توجہیات بیان کی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ اسم الہ یعنی معبود  کے ساتھ ال  کے اضافے کے ساتھ بنا ہے ال+الہ=اللہ
قرآن پاک کے ذریعے یہ آگہی ملتی ہے کہ اس کائنات کے خالق ومالک وحدہ لاشریک نے اپنی ذات کے لیے خاص طورپر یہی اسم  ارشاد فرمایا ہے۔اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طورپر تشریف لے گئے تو وہاں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا۔

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
(سورہ طٰہٰ۔آیت:14)

ظہور اسلام اورنزول قرآن سے پہلے کے ادوار میں بھی یہ نام یعنی اللہ عرب میں معبود کے مفہوم میں ہی معروف و مشہور تھا۔
اسم اللہ ہمیشہ  اُس  ہستی کے لیے بولاگیاجو اس کائنات  کی خالق ومالک ہے۔ اہل عرب میں سے جو لوگ شرک میں  مبتلا تھے اورانہوں نے کئی کئی معبود بنا رکھے تھے وہ بھی اپنے شرک کے باوجود  اس کائنات کا خالق اور منتظم  اللہ کو ہی مانتے تھے۔اس حقیقت کو قرآن نے کئی مقامات پربیان کیا ہے۔
اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے بنایا آسمانوں کو اور زمین کو اور مسخر کیا سورج اورچاند کو....وہ کہیں گے کہ اللہ نے۔پھر کہاں ان کی عقل الٹ جاتی ہے۔(آگے ارشاد ہوتاہے)
اورآپ ان سے پوچھیں کہ کس نے اتارا بادل سے پانی پھر خشک ہونے کے بعد زمین کو اس سے زندہ کیا ....وہ کہیں گے اللہ نے.... (سورہ عنکبوت:(61-63
 قرآن کی تلاوت کے آغاز میں اوردنیا کے دوسرے کاموں  کی شروعات میں اللہ کے اسماء رحمٰن  اوررحیم کا واسطہ  لانا نہایت اہم نکتہ ہے۔
رحمٰن اوررحیم، دونوں اسماء کا مصدر(بنیادی  لفظ  Root Word ) رحم ہے۔اب بظاہر تو ایسا معلوم  ہوتاہے کہ اس جملےمیں اللہ تعالیٰ کی ایک  ہی صفت یعنی رحمت کو دو مرتبہ بیان کیا گیا ہے۔ زبان کی فصاحت وبلاغت سے بہرہ مند ایک عرب کو یا عربی زبان وادب سے بخوبی واقف کسی شخص کو اس جملے  کےمفہوم کوسمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی لیکن عربی نہ جاننے والے افراد کے لیے اس جملے  کا ترجمہ کرتے  وقت اس کے مفہوم کی منتقلی کا اہتمام ضروری ہے۔
 اگر اس متبرک جملے  کا سیدھا لفظی ترجمہ کیا جائے تو یہ کچھ اس طرح بنتاہے  اللہ کے نام کے ساتھ  جورحم والا ہے اوررحم کرتاہے۔
ہمارے ہاں الرحمٰن الرحیم  کا ترجمہ عام طورپر بڑا مہربان اوربہت رحم فرمانے والا کیا گیا ہے۔اردو دان طبقوں کی اکثریت میں رائج یہ ترجمہ اس مقدس و متبرک کلمے کا وسیع تر مفہوم پیش کرنے سے قاصر ہے۔
رحمٰن ورحیم اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا اظہار  ہیں۔ان دونوں اسماء کا بنیادی لفظ ایک ہی ہے یعنی رحم ....یہاں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ صفت رحمت کے ایک مرتبہ بہت زیادتی کے ساتھ بصورت رحمٰن ذکر کے بعد اب اسی صفت کا بیان رحیم کے لفظ  سے کیوں کیا گیا ہے۔
قرآن ایک صفت کے  ایک  ہی جگہ دو مختلف انداز سے  بیان کے ذریعے دراصل ایک بہت بڑی حقیقت  سے انسان کو آگاہ کررہاہے۔
انسان کو ملنے والی اس آگہی کا فطری نتیجہ ....ایمان کی پختگی ،معاملات دنیا میں  اللہ تعالیٰ کی رحمت پراورقدرت کی مدد پرمکمل بھروسے ،جہد مسلسل کے لیے عزم  وتوانائی،کامیابیوں اور ناکامیوں پر درست ردعمل کے اظہار ،اللہ تعالیٰ کے  حضورجواب دہی  کے احساس کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ اس مختصر جملے  میں بندگی اوردنیا داری کے معاملات کس طرح سموئے ہوئے ہیں۔
عربی زبان میں کسی اسم کا ایک  معنی ہوتاہے اوراس اسم کا طرزبیان دراصل اس کی کیفیت کا اظہار ہوتاہے۔
ان کیفیات کا اظہاراوزان کے ذریعہ ہوتاہے۔
فَعلَانْ اورفعیل دونوں مبالغے کے  صیغے ہیں۔عربی زبان میں اس مبالغے کامطلب ہے کسی صفت کے بہت زیادہ ہونے کا اظہار....
فَعلَانْ کے وزن پر جواسم ہوگا وہ اپنی صفت میں بہت  زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش وخروش کی کیفیت کو بھی ظاہر کرے گا۔فعیل کےو زن پر جو اسم ہوگا وہ اپنی صفت میں بہت زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ استقلال اور پائیداری کی کیفییت کو بھی ظاہر کرے گا۔
 ان نکات کو ذہن میں رکھتے  ہوئے اب  ہم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 انسان اپنی محدود عقل سے اور خود اپنے جذبات واحساسات  کے مشاہدات سے یہ اخذ کرتاہے کہ کسی کام کو شروع کرتے وقت لوگ  اکثر بہت پرجوش Enthusiast)) ہوا کرتے ہیں۔اسکول ،کالج ،یونیورسٹی  میں تعلیم کی ابتداء ہو ،کیرئیر کی شروعات  ہوں،کسی مقابلے کی تیاری ہو،نئی نئی شادی ہوئی ہو،اولاد کی خوشی ملی ہو یا   زندگی کے دیگر معاملات ....  ابتداء  میں جو جوش وخروش ہوتا ہے رفتہ رفتہ  اس میں کمی آتی جاتی ہے ۔بعد میں  توبڑی بڑی باتوں کو بھی انسان عام سی باتیں خیال کرنے لگتاہے۔
 یہاں اس مختصر سے مگر انتہائی بلیغ جملے کے ذریعے انسان کو بہت کچھ سمجھایا جارہاہے  
رحمت کا ذکرفَعلَانْ کے وزن پر کرکے بتایا جارہاہے کہ الرحمٰن   کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے رحمت کی بہت زیادتی کے ساتھ یہ ساری کائنات تخلیق فرمائی  اورپھر رحمت کاذکرفعیل کے وزن پرکرکے  یہ سمجھایا جارہا ہے کہ الرحیم کی بہت زیادہ رحمت  ایک استقلال اورتسلسل کے ساتھ ساری کائنات میں جاری و  ساری ہے۔
یعنی یہ نہیں کہ جوش وخروش میں آکر ایک کام کرلیا پھر جیسے کہ انسانوں میں عام طورپر  ہوتاہے اس جوش وخروش میں بتدریج کمی آنے لگی۔
اللہ کے ہاں ایسا نہیں ہے۔
اللہ   رحمٰن بھی ہے  اور رحیم بھی ہے۔
اللہ کی بہت زیادہ رحمت میں جو جوش وخروش ہے وہ مستقل اور پائیدار ہے
ان مفاہم کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 

کا مجموعی مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 اپنے احد اور حقیقی معبود اللہ کے نام  سے جس کی بہت زیادہ رحمت نے بہت  جوش کے ساتھ تخلیق کیا اور جس کی یہ بہت زیادہ رحمت ازل تاابد ساری کائنات  میں جاری وساری ہے،میں اپنے کام کا آغاز کرتاہوں۔
 ان  مفاہیم کے ساتھ غور کریں تو واضح  ہوتا ہے کہ یہ   چار یاپانچ   لفظی جملہ اس کائنات کے خالق ومالک اللہ کی وحدانیت و خالقیت کا اقرار بھی ہے ۔ اس میں اللہ کے اسماء رحمت کو واسطہ بھی بنایا گیا  ہے۔یہ جملہ  برکتوں اوررحمتوں کے لیے ایک دعا بھی ہے۔
جب ہم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتے ہیں تو 
دراصل  اللہ کی بندگی کااقرار کرتے ہوئے اپنے کاموں میں اس کے اسماء  رحمت کا واسطہ لاتے ہیں ۔اس سے حفاظت ،برکت  ، صحت مانگتے ہوئے  ،اپنے کام  یا اپنی کوششوں کے مبنی برخیرنتیجے اورعافیت کی دعا کرتے ہیں اوریہ سب نکات رحمت کے اجزاء ہی تو ہیں۔
آیئے اپنی دعاؤں کا آغاز ،اپنی تعلیم کا آغاز،اپنے کاموں کا آغاز ،اپنے فہم کا آغاز،اپنے ادراک کا آغاز ،اپنے وجدان کا آغاز ،اپنے  آغازکاآغاز ،اپنے  انجام  کا آغاز اللہ تعالیٰ کے سامنے سرجھکا کر اس مَسنُون دعا سے کریں۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 
اَللّٰھُمَّ فَارِجَ الْھَمِّ کَاشِفَ الْغَمِّ مُجِیْبَ دَعْوَۃِ الْمُضْطَرِّیْنَ رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ
 وَ رَحْیْمَھُمَا اَنْتَ تَرْحَمْنِیْ فَارْ حَمْنِیْ بِرَحْمَۃٍ تُغْنِیْنِیْ بِھَا عَنْ رَحْمَتِہٖ مِنْ سَوَا كَ
[مستدرک حاکم ؛ بیہقی]

ترجمہ: اے اللہ ... دل کے فکر کو دور کردینے والے۔ غم کو کھول دینے والے۔ اے بیقراروں کی پکار سننے والے ۔ اے دنیا  اورآخرت میں رحمت فرمانے والے (رحمٰن )اور دونوں جہانوں میں رحم کرنےوالے(الرحیم)مجھ پرتوتُوہی رحم فرمائے گا۔تو مجھ پر رحم فرما۔ایسی رحمت فرما جو تیرے سوا سب سے بے نیاز کردے۔ آمین یارب العالمین

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے