اقتصادی راہداری، بلوچستان کی معاشی اور سماجی ترقی

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی




وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اسلام آباد میں وزارت منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات کے زیر اہتمام اقتصادی راہداری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبہ صرف گیم چینجز ہی نہیں بلکہ اس سے پورے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس منصوبے سے پاکستان کے سب علاقوں خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں اور گلگت بلتستان کو فوائد حاصل ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس منصوبے سے تین ارب انسانوں کو فائدہ ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست اور ہماری عزت کا محافظ ہے۔ پاکستان میں چین کے سفیر سن وی ڈونگ نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان کو چین کا دوست قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس خطے کی ترقی چین کا دیرینہ خواب ہے۔
چینی رہنما ماؤزے تنگ اور چواین لائی کہا کرتے تھے کہ چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے زیادہ اونچی اور سمندر سے زیادہ گہری ہے۔ ان رہنماؤں کے اس قول کو دنیا اب چین کے صدر ژی جن پنگ کے دور صدارت میں CPEC کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتے دیکھ رہی ہے کیونکہ یہ شاہراہ دنیا کے بلند و بالا پہاڑوں سے ہوتی ہوئی خطے کی ڈیپ سی پورٹ گوادر تک آ رہی ہے۔
چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو زیادہ تر اس کے وسیع و عریض اقتصادی اثرات کی وجہ سے ہی گیم چینجز کہا گیا۔ اس کی وجہ سے ایشیا اور افریقہ میں چین کے اثر و رسوخ میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔ عالمی سیاست اور اقتصادیات میں چین کا قد مزید بلند اور چین کی آواز مزید توانا ہو جائے گی۔ اس اقتصادی راہداری سے پاکستان کو بے انتہا فوائد ملیں گے۔ پاکستان کی معیشت مضبوط ہونے سے عالمی برادری میں پاکستان کی اہمیت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔ CPEC منصوبہ سے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے بھی کئی سہولتیں اور فوائد میسر ہوں گے۔
چین، پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کے لیے CPEC منصوبے کے کثیرالجہتی فوائد امریکا، بھارت اور خطے کے بعض دوسرے ممالک کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔ امریکا کو چین کے بڑھتے ہوئے معاشی و سیاسی اثر و رسوخ پر تشویش ہے۔ بھارت بھی CPEC اور گوادر سی پورٹ پر ناخوش ہے۔
CPEC پر بھارت کی ناخوشی یا ناراضی کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس ناراضی کی وجہ یہ ہے کہ اس سے بھارت کے اقتصادی مفادات متاثر ہوں گے۔ یہ سوال ماہرین اقتصادیات کے سامنے رکھیں تو وہ کہتے ہیں CPEC سے بھارت کو نقصان نہیں بلکہ کئی فائدے ہو سکتے ہیں۔ پھر بھارت CPEC سے کیوں ناخوش ہے؟
1947ء سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد انڈین نیشنل کانگریس اور دیگر انڈین سیاسی و مذہبی جماعتوں کا رویہ پاکستان مخالف رہا ہے۔ بھارتی سیاست دانوں اور پالیسی سازوں کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں غربت اور سیاسی عدم استحکام کو بھارت اپنے مفاد میں سمجھتا ہے۔ CPEC سے بھارتی ناراضی کی اصل وجہ بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس راہداری کی وجہ سے حکومت پاکستان کو غربت میں تیز رفتاری سے کمی لانے میں بہت مدد ملے گی۔  لیکن پاکستان کا یہ فائدہ بھارت کو پسند نہیں۔
بھارت پاکستان میں غربت اور عدم استحکام کیوں چاہتا ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ ایک خوشحال اور مضبوط پاکستان سے بھارت کی روایتی سیاست بہت متاثر ہو گی۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ صنعتی اور تجارتی ترقی کے باوجود بھارت غریبوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ 70 کروڑ سے زیادہ بھارتی عوام کی روزانہ آمدنی تقریباً دو سو انڈین روپے ہے۔
بھارت کے زیادہ تر وسائل پر اور بھارت کے اقتدار پر بھارتی اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ برسر اقتدار بھارتی اشرافیہ کو اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کی کتنی فکر ہے، اس کا کچھ اندازہ بھارتی سماج میں اقلیتوں خصوصاً عیسائیوں، مسلمانوں اور خود ہندوؤں کے ایک طبقے دلتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک سے بخوبی ہو سکتا ہے۔ بھارت کی معاشی اور سماجی صورتحال کے عام سے جائزوں سے بھی بھارت کے اکنامک منیجرز اور پولیٹیکل ایڈوائزرز کی مشکلات اور ترجیحات کا مشاہدہ باآسانی ہو رہا ہے۔
اپنے عوام کے حالات بہتر بنانے کے لیے سنجیدگی سے کوششوں کے بجائے بعض بھارتی پالیسی ساز بھارت میں مذہبی انتہاپسندی اور پاکستان مخالف جذبات پھیلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے CPEC کی مخالفت کو ہمیں اس پس منظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔
پاکستان کو قدرت نے بے انتہا وسائل سے نوازا ہے۔ قدرت کی مہربانیوں کا اظہار پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور پاکستان کے قدرتی ساحلوں کے ذریعے سے بھی ہو رہا ہے۔ چین اور پاکستان انتہائی گہرے اور پرخلوص دوست ہیں۔
اقتصادی راہداری چین اور پاکستان کے عزم اور تعاون سے تعمیر ہو رہی ہے۔ اس راہداری اور گوادر سی پورٹ کی تعمیر پر چین کے ساتھ بھرپور تعاون فراہم کرنے میں پاکستانی قوم متحد اور متفق ہے۔ ہمارے ہاں اس راہداری کے مغربی روٹ کے حوالے سے کچھ عدم اطمینان یقیناً پایا گیا تاہم اتنے بڑے منصوبوں میں اس طرح کی صورتحال پیش آنا غیر متوقع نہیں۔ توقع ہے کہ اس قسم کے حالات قوم کے وسیع تر مفاد میں متعلقہ علاقوں اور عوام کو مطمئن کرتے ہوئے حل ہوں گے۔
پاکستان میں اس اقتصادی راہداری کا نہایت اہم حصہ بلوچستان ہے۔ بلوچستان کے عوام کو کئی محرومیوں کا سامنا رہا ہے۔ یہاں شرح خواندگی بھی بہت کم رہی۔ ملک میں صنعتی ترقی اور تجارتی سرگرمیوں کے مفید اثرات بھی بلوچستان کے عام لوگوں تک پہنچنے نہ دیے گئے۔ اقتصادی راہداری کا پہلا مرحلہ حکومت اور پاک فوج کی مشترکہ کوششوں کی وجہ سے تکمیل کے قریب ہے۔ توقع ہے کہ نومبر 2016ء میں بلوچستان میں سڑک کی تعمیر کا کافی کام مکمل ہو جائے گا۔ جس طرح اس سڑک کی تعمیر کے لیے قوم مرکزی اور صوبائی حکومتیں، فوج، ایف ڈبلیو او اور دیگر ادارے ایک عزم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کی معاشی ترقی اور سماجی بہتری کے لیے سب کو مل کر بھرپور عزم اور تیز رفتاری سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں بنیادی تعلیم کے فروغ پرائمری اسکولوں کی حالت بہتر بنانے، پرائمری اساتذہ کی تعداد میں اضافے کی فوری ضرورت ہے۔ یہ اہتمام ضروری ہے کہ پرائمری اسکول گاؤں میں ہو یا گاؤں سے قریب ہو۔ ہر پرائمری اسکول میں پہلی سے پانچویں تک علیحدہ علیحدہ ٹیچرز ہوں۔ گاؤں کے اکثر اسکولوں میں بالعموم دو یا کہیں کہیں تین ٹیچرز پانچ کلاسوں کو تعلیم دینے کے ذمے دار بنا دیے جاتے ہیں۔ یہ روش اب تبدیل ہونی چاہیے۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں تعلیم پر زیادہ انوسٹمنٹ کی جائے۔
بلوچستان میں صحت کی سہولتوں تک عام آدمی کی رسائی اور ذرایع مواصلات کی ترقی کے لیے تیز رفتاری سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ آنے والے صنعتی دور کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کی کیپیسٹی بلڈنگ کے لیے فوری اور خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اقتصای راہداری اور انڈسٹریل زونز کے قیام سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان سے بہتر استفادے کے لیے بلوچستان کے ہر حصے میں نوجوانوں کے لیے ووکیشنل ٹریننگ کے ادارے فوری طور پر قائم کر دینے چاہئیں۔ ان اداروں میں ٹریننگ لینے والے نوجوانوں سے نا صرف یہ کہ کوئی فیس نہ لی جائے بلکہ انھیں ماہانہ وظیفہ بھی ادا کیا جائے۔
کسی بھی علاقے یا کمیونٹی کی ترقی کے لیے چند نکات بہت اہم ہوتے ہیں۔ یہ ہیں علم و تحقیق، کاروبار، ادب اور فن و ثقافت۔ تعمیری اور صنعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے اور بلوچی و براہوی زبان کی ترقی کے لیے بلوچ اور براہوی ادیبوں، شاعروں، اساتذہ، صحافیوں، فنکاروں اور دیگر متعلقہ افراد کی خدمات سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی ضرورت ہے۔ بلوچی اور براہوی زبان کی ترقی کے لیے تعلیمی، سماجی، ثقافتی اداروں میں صوبائی اور مرکزی سطح پر کوششیں کی جائیں۔ بلوچستان سے شایع ہونے والے اخبارات اور رسائل کے ذریعہ ناصرف اطلاعات کی فراہمی بلکہ خواندگی کے فروغ اور ثقافتی پہلوؤں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔


اقتصادی راہداری، بلوچستان کی معاشی اور سماجی ترقی
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

روزنامہ ایکسپریس ، کراچی 
جمعہ  2 ستمبر 2016

Source Link
  1. Express. pk

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے