بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی





مطالعہ قرآن :

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

قرآن پاک کی ہر سورہ سے پہلے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  لکھا اورپڑھا جاتاہے۔(*1 سورہ توبہ کے استثنا کے ساتھ۔)
یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ  کی صفات کا مظاہر ہ ہے۔اللہ تعالیٰ کی لاتعداد، بےشمار صفات ہیں۔ان صفات کا ایک تعارف اللہ تعالیٰ کے اسماء کے ذریعے ہوتاہے۔ اللہ  کی صفات  کتنی ہیں اس کا علم تو اللہ کوہی ہے تاہم اللہ کے معروف صفاتی اسماء کی تعداد ننانوے ہے۔یہ ننانوے اسماء یا تو قرآن پاک کی آیات میں آئے ہیں یا پھر قرآن کی آیات سے اخذ کئے گئے ہیں۔
ہادی عالم، معلم اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہر کام کا آغازاللہ  کے نام کے ساتھ کیا جائے  ۔


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ،قرآن کی ایک آیت کا جزو بھی ہے۔یہ سورہ نمل کی تیسویں آیت  ہے۔
إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  [سورہ نمل(27)آیت30] 
اس متبرک جملےمیں تین اسماء کا ذکر ہے۔ ایک خالق کائنات کا ذاتی نام اللہ  اوردوصفاتی نام رحمٰن اوررحیم
عربی زبان اورادب کے ماہرین نے اسم اللہ کی کئی توجیہات بیان کی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ اسم الہ یعنی معبود  کے ساتھ ال  کے اضافے کے ساتھ بنا ہے ال+الہ=اللہ
قرآن پاک سے یہ آگہی ملتی ہے  کہ اس کائنات کے خالق ومالک .اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی ذات کے لیے خاص طورپر یہی اسم  ارشاد فرمایا ہے۔
اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طورپر تشریف لے گئے تو وہاں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا۔
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي[سورہ طحہٰ (20)آیت14]
ترجمہ: بےشک میں اللہ  ہوں میرے سوا کوئی الٰہ نہیں پس تو میری عبادت کر اور میرےذکر کے لیے صلوٰۃ قائم رکھ۔ 

حضرت محمد رسول اللہﷺ کی بعثت اور نزول قرآن سے پہلے کے ادوار میں بھی یہ اسم یعنی اللہ عرب میں معبود یا الٰہ کے مفہوم میں معروف و مشہور تھا۔
اسم اللہ ہمیشہ  اس ہستی کے لیے ہی بولاگیاجو اس کائنات  کی خالق ومالک ہے۔ اہلعرب میں سے جو لوگ شرک میں  مبتلا تھے اورانہوں نے کئی کئی معبود بنا رکھے تھے وہ بھی اس کائنات کا خالق اور منتظم  اللہ کو ہی مانتے تھے۔اس حقیقت کو قرآن نے کئی مقامات پربیان کیا ہے۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَO
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ 
[سورہ عنکبوت (29)آیت63اور61]
ترجمہ: اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا اور سورج اورچاند کو کس نے مسخر کیا ....تو وہ کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر ان کی عقل کہاں الٹ جاتی ہے۔(آگے ارشاد ہوتاہے)
اوراگرآپ  ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کون برساتا ہے اور اس سے مردہ زمین کو زندگی کون عطا کرتا ہےتو وہ کہیں گے اللہ ....
 قرآن کی تلاوت کے آغاز میں اور دنیا کے دوسرے کاموں کی شروعات میں اللہ کے اسماء رحمٰن  اور رحیم کا واسطہ  لانا نہایت اہم نکتہ ہے۔
رحمٰن اور رحیم، دونوں اسماء کا بنیادی  لفظ (Root Word)  رحم ہے۔بظاہر تو ایسا معلوم  ہوتاہے کہ اس جملےمیں اللہ تعالیٰ کی ایک  ہی صفت یعنی رحمت کو دو مرتبہ بیان کیا گیا ہے۔ زبان کی فصاحت وبلاغت سے بہرہ مند ایک عرب کو یا عربی زبان وادب سے بخوبی واقف کسی شخص کو اس جملے  کامفہوم سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی لیکن عربی نہ جاننے والے افراد کے لیے اس جملے کا ترجمہ کرتے  وقت اس کے مفہوم کی منتقلی کا اہتمام ضروری ہے۔
 اگر اس متبرک جملے  کا سیدھا لفظی ترجمہ کیا جائے تو یہ کچھ اس طرح بنتاہے  ۔
 اللہ کے نام کے ساتھ  جورحم والا ہے اوررحم کرتاہے۔
ہمارے ہاں الرحمٰن الرحیم  کا ترجمہ عام طورپر بڑا مہربان اوربہت رحم فرمانے والا کیا گیا ہے۔اس ترجمہ سے اس مقدس و متبرک کلمے کا وسیع تر مفہوم واضح نہیں ہورہا۔
رحمٰن و رحیم اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا اظہار  ہیں۔ان دونوں اسماء کا بنیادی لفظ ایک ہی ہے۔ رحم ....یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میں آتی ہے کہ صفت رحمت کوایک مرتبہ بہت زیادتی کے ساتھ رحمٰن کہہ دینے کے بعد اب اسی صفت کا بیان رحیم کے لفظ  سے کیوں کیا گیا ہے....؟
 ایک ہی صفت کو دو مختلف انداز سے  ایک  جگہ بیان کے ذریعے قرآن دراصل ایک بہت بڑی حقیقت  سے انسان کو آگاہ کررہاہے۔
انسان کو ملنے والی اس آگہی کا فطری نتیجہ ....ایمان کی پختگی ،معاملات دنیا میں  اللہ تعالیٰ کی رحمت پراورقدرت کی مدد پرمکمل بھروسے ،جہد مسلسل کے لیے عزم  وتوانائی،کامیابیوں اور ناکامیوں پر درست ردعمل کے اظہار ،اللہ تعالیٰ کے  حضورجواب دہی  کے احساس کی شکل میں ظاہرہوتاہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ اس مختصر جملے  میں بندگی اوردنیا داری کے معاملات کس طرح سموئے ہوئے ہیں۔
عربی زبان میں ہر اسم کچھ معنی لیے ہوئے ہوتا ہےاوراس اسم کےطرزبیان سے اس کی کیفیت کو ظاہر کیا جاتا ہے۔
ان کیفیات کا اظہار صیغوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ 
فَعلَانْ اورفَعِیل مبالغے کے  صیغے ہیں۔ عربی زبان  و ادب میں اس مبالغے کا مطلب ہے کسی صفت کا بہت زیادہ ہونا۔
فَعلَانْ کے وزن پر جو اسم ہوگا وہ اپنی صفت میں بہت زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش و خروش کو بھی ظاہر کرے گا....
فَعِیل کےو زن پر جو اسم ہوگا وہ اپنی صفت میں بہت زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ استقلال اور پائیداری  کو بھی ظاہر کرے گا۔
 ان نکات کو ذہن میں رکھتے  ہوئے اب  ہم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 یہ ایک عام انسانی مشاہدہ ہے کہ کسی کام کو شروع کرتے وقت انسان اکثر بہت پُرجوش Enthusiast))ہوا کرتے ہیں۔اسکول ،کالج ،یونیورسٹی  میں تعلیم کی ابتداء ہو ،کیرئیر کی شروعات  ہوں،کسی مقابلے کی تیاری ہو،نئی نئی شادی ہوئی ہو،اولاد کی خوشی ملی ہو یا   زندگی کے دیگر معاملات ....ابتداء  میں جو جوش وخروش ہوتا ہے رفتہ رفتہ  اس میں کمی آتی جاتی ہے۔بعد میں  تو بڑی بڑی باتوں کو بھی انسان عام سی باتیں خیال کرنے لگتاہے۔
یہاں ایک مختصر مگر انتہائی بلیغ جملے کے ذریعے انسان کو بہت کچھ سمجھایا جارہاہے ۔
فعلان کے وزن پر رحمت کے  ذکر کے ذریعے بتایا جارہا ہے کہ الرحمٰن کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے رحمت کی بہت زیادتی کے ساتھ یہ ساری کائنات تخلیق فرمائی  اورپھر فعیل کے وزن پر رحمت کے ذکر کے ذریعے یہ سمجھایا جارہا ہے کہ الرحیم کی بہت زیادہ رحمت تسلسل اور پائیداری کے ساتھ ساری کائنات میں جاری و ساری ہے۔
یعنی یہ نہیں کہ جوش  میں آکر ایک کام کرلیا پھر جیسے کہ انسانوں میں عام طورپر  ہوتاہے اس جوش میں  بتدریج کمی آنے لگی۔
اللہ کے ہاں ایسا نہیں ہے۔
اللہ   رحمٰن  بھی ہے  اور رحِيم  بھی ہے۔
یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ کی بہت زیادہ رحمت میں جو جوش ہے وہ مستقل اور پائیدار ہے۔
ان مفاہیم کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
کا مجموعی مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
  اپنے احد اور حقیقی معبود اللہ کے نام  سے جس کی بہت زیادہ رحمت نے بہت  جوش کے ساتھ تخلیق کیا اور جس کی یہ بہت زیادہ رحمت ازل تاابد ساری کائنات  میں جاری وساری ہے،میں اپنے کام کا آغاز کرتاہوں۔
 ان  مفاہیم کے ساتھ غور کیا جائے تو واضح  ہوتا ہے کہ یہ   چار یاپانچ   لفظی جملہ دراصل اس ساری  کائنات کے خالق ومالک اللہ کی وحدانیت اور خالقیت کا اقرار بھی ہے۔ اس میں اللہ کے اسماء رحمت کو واسطہ بھی بنایا گیا  ہے۔ یہ جملہ  برکتوں اوررحمتوں کے لیے ایک دعا بھی ہے۔
جب ہم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتے ہیں تو
دراصل  اللہ کی بندگی کااقرار کرتے ہوئے اپنے کاموں میں اس کے اسماء  رحمت کا واسطہ لاتے ہیں۔ اس سے حفاظت ،برکت  ، صحت مانگتے ہوئے  ،اپنے کام  یا اپنی کوششوں کے مبنی برخیرنتیجے اورعافیت کی دعا کرتے ہیں۔
آیئے اپنی دعاؤں کا آغاز ،اپنی تعلیم کا آغاز،اپنے کاموں کا آغاز ،اپنے فہم کا آغاز،  اپنے ادراک کا آغاز، اپنے وجدان کا آغاز ،اپنے  آغازکاآغاز ،اپنے  انجام  کا آغاز اللہ تعالیٰ کے سامنے سرجھکا کر اس مسنون دعا سے کریں۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اَللّٰھُمَّ فَارِجَ الْھَمِّ کَاشِفَ الْغَمِّ ، مُجِیْبَ دَعْوَۃِ الْمُضْطَرِّیْنَ ،  رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَ رَحِیْمَھُمَا أَنْتَ تَرْحَمُنِیْ ،
فَارْحَمْنِیْ بِرَحْمَۃٍ تُغْنِیْنِیْ بِھَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَا كَ
ترجمہ: اے اللہ ... دل کے فکر کو دور کردینے والے۔ غم کو کھول دینے والے۔ اے بیقراروں کی پکار سننے والے اور اے دنیا  اورآخرت میں رحمت فرمانے والے (الرحمٰن) اور دونوں جہانوں میں رحم کرنےوالے( الرحیم)۔ مجھ پرتو تُو ہی رحم فرمائے گا۔تو مجھ پر رحم فرما۔ ایسی رحمت فرما  جو تیرے سوا سب سے بےنیاز کردے۔{*2}

حوالہ جات
1*۔   سورہ التوبہ.... کے استثنیٰ کے ساتھ
 *2 ۔الدعا۔ طبرانی، مسندِ ک حاکم، الترغیب ، بہیقی،   مسندفردوس دیلمی



اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے