معجزاتِ محمد
تحریر از : ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
حضرت محمدﷺ کے اقدامات اور آپﷺ کی تربیت کے باعث اللہ کی آخری کتاب قرآن ، اللہ کا پسندیدہ دین اسلام رسول اللہ ﷺ کے دور سے لے کر آج ڈیڑھ ہزار سال بعد تک بالکل محفوظ ہے اور بفضلِ تعالیٰ قیامت تک محفوظ رہے گا۔کتاب اللہ اور دینِ اسلام کو محفوظ رکھنے کے لئے اللہ کے رسولﷺ نے جو اقدامات فرمائے ان کا مختصر جائزہ ۔۔۔۔۔
اس زمین پر انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اﷲتعالیٰ نے انبیاء کا سلسلہ قائم فرمایا۔ انبیاء کرام علیہمِالسلام کے ذریعہ نوعِ انسانی نے علم سیکھا۔ انسانی تہذیب و تمدن کے اوّلین معمار بھی انبیائے کرام علیہمِالسلام ہی ہیں۔ روایت ہے کہ اﷲتعالیٰ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور رسول ا س دنیا میں بھیجے۔ جن میں تین سو سے زائد صاحبِ کتاب تھے۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام کے پیروکاروں یعنی ان کے اُمتیوں نے اپنے اپنے نبی سے وابستگی اور ان کی تعلیمات پر عملدرآمد کے لئے مختلف انداز اختیار کئے۔ کہیں اطاعت نظر آئی تو کہیں حیلے بازیاں اور انحراف بھی دیکھنے میں آیا۔ حضرت موسیٰ ؑ کی اُمت یعنی بنی اسرائیل نے جو حضرت موسیٰ ؑ کی وجہ سے ہی فرعون کے جبر و استبداد سے آزاد ہوئے تھے اپنے نبی کی۔زندگی میں ہی توحید سے انحراف شروع کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام چند روز کے لئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے۔ اس دوران ان کے اُمتیوں نے سونے کا بچھڑا بناکر اس کی پرستش شروع کردی تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اﷲ نے اپنی کتاب توریت ، حضرت دائود علیہ السلام پر زبور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی۔ ان پیغمبران کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی اُمتوں کو اﷲتعالیٰ کے احکامات پہنچائے لیکن ان اُمتوں نے اﷲ کے کلام کی حفاظت نہ کی۔
اﷲتعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ انسانوں کو اپنی عبادت کا طریقہ سکھایا اور زمین پر زندگی بسر کرنے کے لئے قوانین و ضابطے عطا فرمائے۔ حضرت محمد مصطفیﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء بھی صلوٰۃ قائم کرنے، روزہ رکھنے، زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیتے تھے۔
انبیائے سابقین علیہم السلام میں سے حضرت ابراہیمؑؑ، حضرت لوط ؑ، حضرت اسحق ؑ، حضرت یعقوب ؑ اور مزید کا ذکر فرماتے ہوئے قرآن بتاتا ہے:
وجعلنٰہم ائمۃ یھدون بامرنا واوحینا الیھم فعل الخیرٰت واقام الصلوٰۃ وایتآء الزکوٰۃ وکانو لنا عٰبدینO
ترجمہ: اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کریں اور انہیں اچھے کام کرنے، صلوٰۃ قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تلقین کی۔(سورۂ الانبیاء۔ آیت نمبر 73)
سورۂ مریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
واذکر فی الکتب اسمٰعیل انہ کان صادق الوعد وکان رسولا نبیاO وکان یامر اھلہ بالصلوٰۃ والزکوٰۃ وکان عند ربہ مرضیاO
ترجمہ : اور کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدہ کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے اور اپنے اہل و عیال کو صلوٰۃ و زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے۔(سورۂ مریم۔ آیت 55-54)
سورۂ مریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قال انی عبداﷲ اتنی الکتب وجعلنی نبیاO وجعلنی مبرکاً این ماکنت واوصٰنی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ مادمت حیّاO
ترجمہ: (عیسیٰ علیہ السلام نے) کہا کہ میں اﷲ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے اپنا نبی بنایا اور جہاں کہیں بھی میں رہوں مجھے برکت والا بنایا اور مجھے صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک بھی میں زندہ رہوں۔(سورۂ مریم۔آیت 31-30)
سورۂ مائدہ میں بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
ولقد اخذ اﷲ میثاق بنی اسرائیل وبعثنا منہم اثنی عشر نقیبا ط وقال اﷲ انی معکم ط لئن اقمتم الصلوٰۃ واتیتم الزکوٰۃ واٰمنتم برسلی وعزرتموہم
ترجمہ: اور اﷲ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کیے۔ پھر اﷲ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم صلوٰۃ قائم کرتے رہو، زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے پیغمبروں پر ایمان لائو اور ان کی مدد کرو۔(سورۂ مائدہ۔ آیت 12)
قرآن پاک کی آیات سے انبیائے سابقین کی اُمتوں پر صلوٰۃ و صوم و زکوٰۃ کی فرضیت کا علم ہوتا ہے۔ ان انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنے اُمتیوں کو صلوٰۃ قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور روزہ رکھنے کے طریقے بھی بتائے ہوں گے۔ ان کی اُمتوں نے کم ازکم نبی کی موجودگی میں تو اﷲ کی عبادت کے ان طریقوں پر عمل بھی کیا ہوگا۔
لیکن بعد میں کیا ہوا؟۔۔۔۔۔
ان نبیوں کی اُمتیں نہ تو اﷲ کے نازل کردہ احکامات کی حفاظت کرسکیں نہ ہی انبیائے کرام کے عطاکردہ طریقہ عبادت پر قائم رہ سکیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے آئیے اب اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کی جانب سے قرآن کی حفاظت اور عبادات کے طریقوں کو اس دنیامیں ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے کئے گئے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس جائزہ کے دوران قدم قدم پر آپ کو محسوس ہوگا کہ حضرت محمد مصطفیﷺ کے یہ اقدامات بجائے خود معجزات کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انسان کو اﷲتعالیٰ سے ملادینے والی کائنات کی اس عظیم ترین ہستیﷺ پر کروڑوں کروڑوں صلوٰۃ و سلام۔ یہ محض عقیدت نہیں ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک پوری انسانی تاریخ میں حضرت محمد مصطفیﷺ جیسی کوئی دوسری ہستی موجود نہیں ہے اور نہ ہی آئندہ ہوسکتی ہے۔ اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ نے ناصرف یہ کہ اﷲ کا کلام بلا کم و کاست لوگوں تک پہنچادیا بلکہ اس کی حفاظت کا بھی نہایت مستحکم بندوبست فرمایا۔ آپﷺ نے لوگوں کو اﷲ کی عبادت کے طریقے خود عمل فرماکر بتائے۔ ساتھ ساتھ یہ اہتمام بھی فرمایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ ان طریقوں کو بھولتے نہ جائیں۔ اﷲ کی عبادت کے یہ طریقے جن میں صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ، حج وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں آج اُمتِ مسلمہ کے پاس بعینہ اس طرح موجود ہیں جس طرح حضرت محمدمصطفیﷺ نے ان کی تعلیم دی تھی۔ عبادت کے ان طریقوں کا ہمیشہ قائم رہنا کیا حضرت محمدﷺ کے معجزات میں شمار نہ کیا جائے۔۔۔۔۔؟
حضرت محمدﷺ کے اقدامات اور آپﷺ کی تربیت کے باعث اﷲ کی آخری کتاب قرآن ، اﷲ کا پسندیدہ دین اسلام رسول اﷲﷺ کے دور سے لے کر آج ڈیڑھ ہزار سال بعد تک بالکل محفوظ ہے اور بفضلِ تعالیٰ قیامت تک محفوظ رہے گا۔
کتاب اﷲ اور دینِ اسلام کو محفوظ رکھنے کے لئے اﷲ کے رسول ﷺ نے جو اقدامات فرمائے ان کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔
قرآن:
حضرت محمدمصطفیﷺ کا زندہ معجزہ تو خود قرآن پاک ہی ہے۔ قرآن معجزہ ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ تاقیامت اس کی حفاظت کا اہتمام عام انسانی ذہن یا عام انسانی صلاحیتوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج چودہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی قرآن پاک میں کسی جملہ یا لفظ کی تبدیلی تو ایک طرف کسی زیر زبر پیش تک کا فرق نہیں آیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمّہ خود اﷲتعالیٰ نے لیا ہے۔ اﷲتعالیٰ کی اس منشاء کو پورا کرنے والی ہستی حضرت محمدﷺ کی ہے۔
قرآن پاک کو محفوظ رکھنے کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابتداء سے ہی کئی اقدامات کئے۔ رسول اﷲﷺ نے اپنے صحابہ کو قرآنی آیات یاد کرلینے کی ترغیب دی۔ اس کے ساتھ جستہ جستہ نازل شدہ آیات کو قلمبند کروایا۔ تدوین قرآن اور حفاظت قرآن کے بارے میں ممتاز مؤرخ ڈاکٹر حمید اﷲ کے مندرجہ ذیل الفاظ اس موضوع کے کئی پہلوئوں کا بخوبی احاطہ کرتے ہیں....
’’قرآن مجید کو لکھنے اور اسے حفظ کرنے کا حکم رسول اﷲﷺ نے دیا تھا۔ اس سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ہمیں نظر نہیں آتی۔ اس سے بڑھ کر ایک اور کام بھی ہوا۔ وہ یہ کہ، فرض کیجئے میرے پاس ایک تحریری نسخہ موجود ہے جس میں کسی نہ کسی وجہ سے کتابت کی کچھ غلطیاں موجود ہیں۔ اس غلط نسخہ کو میں حفظ کرلیتا ہوں۔ اس طرح میرا حفظ بھی غلط ہوگا۔ اس کی اصلاح کس طرح کی جائے؟ رسول اﷲﷺ نے اس طرف بھی توجہ فرمائی اور حکم دیا کہ ہر مسلمان کو کسی مستند استاد ہی سے قرآن مجید پڑھنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ رسول اﷲﷺ کی ذات سے بڑھ کر قرآن مجید سے کون واقف ہوسکتا ہے؟ اس لئے ہر مسلمان کو رسول اﷲﷺ سے قرآن سیکھنا اور پڑھنا چاہئے۔ اگر اس کے پاس تحریری نسخہ موجود ہے تو اسے رسول اﷲﷺ کے سامنے تلاوت کرنا چاہئے۔ رسول اﷲﷺ اگر فرمائیں کہ ہاں یہ نسخہ ٹھیک ہے تب اسے حفظ کیا جائے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو ظاہر ہے کہ ایک آدمی سارے لوگوں کو تعلیم و تربیت نہیں دے سکتا تھا۔ اس لئے رسولِکریمﷺ نے چند ایسے صحابہ کو، جن کی قرآن دانی کے متعلق آپﷺ کو پورا اعتماد تھا، یہ حکم دیا کہ اب تم بھی پڑھایا کرو۔ یہ وہ مستند استاد تھے جن کو خود رسول اﷲﷺ سند دیتے تھے کہ تم پڑھانے کے قابل ہو اور اس کا سلسلہ آج بھی دنیا میں قائم ہے۔ اگر کوئی شخص کسی استاد سے قرآ ن مجید پڑھتا ہے تو قرأت کی تکمیل کے بعد استاد کی طرف سے اسے جو سند ملتی ہے، اس میں وہ استاد لکھتا ہے کہ ’’میں نے اپنے شاگرد فلاں کو قرآن مجید کے الفاظ، قرآن مجید کے قرأت کے اصولوں کو ملحوظِ رکھ کر یہ تعلیم دی ہے۔ یہ بالکل وہی ہے جو میرے استاد نے مجھ تک پہنچائی تھی اور اس نے مجھے اطمینان دلایا تھا کہ اس کو اس کے اپنے استاد نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ اس کا سلسلہ رسول اﷲﷺ تک پہنچتا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے‘‘۔
اسلامی روایات Traditions کے سوا دنیا کی کسی قوم نے اپنی مذہبی کتاب کو محفوظ کرنے کے لئے یہ اصول کبھی اختیار نہیں کیے تھے۔ یہ چیزیں قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں عہد نبویؐ میں ہی پیش آئیں۔
رسول اﷲﷺ کے حکم سے قرآن کسی مستند استاد سے پڑھنا پہلی خصوصیت تھی۔ دوسری خصوصیت تحریری صورت میں محفوظ رکھنا، تاکہ اگر کہیں بُھول ہوجائے تو تحریر دیکھ کر اپنے حافظے کو تازہ کرلیا جائے اور تیسری خصوصیت اسے حفظ کرنا تھا۔ ان تین باتوں کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس میں ایک پیچیدگی اس طرح پیدا ہوگئی تھی کہ قرآن مجید کامل حالت میں بہ یک وقت نازل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ جستہ جستہ 23 سال کے عرصہ میں نازل ہوا اور رسول کریمﷺ نے اس کو میکانیکی طور پر مدوّن نہیں کیا کہ پہلی آیت شروع میں ہو اور بعد میں نازل شدہ دوسرے نمبر پر رہے بلکہ اس کی تدوین الہام اور حکمت نبوی کے تحت ایک اور طرح سے کی گئی۔ قرآن مجید کی اوّلین نازل شدہ آیتیں سورۂ اقراء کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں۔ یہ آیتیں سورۂ نمبر 96 میں ہیں جبکہ قرآن مجید کی کُل سورتیں 114 ہیں۔ ان میں 96 نمبر پر ابتدائی سورۃ ہے۔ قرآن مجید میں اب جو بالکل ابتدائی سورتیں ملتی ہیں مثلاً سورۂ بقرہ وغیرہ وہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن مجید زمانی ترتیب کے لحاظ سے مدوّن نہیں ہوا بلکہ ایک دوسری صورت میں مرتب ہوا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو دُشواریاں پیش آسکتی تھیں، یعنی آج ایک سورہ نازل ہوئی، رسول اﷲﷺ ہدایت دیتے ہیں کہ اس کو فلاں مقام پر لکھو۔ پھر کل ایک آیت نازل ہوئی، رسول اﷲﷺ کہتے ہیں کہ اس کو فلاں آیت سے قبل لکھو یا فلاں آیت کے بعد لکھو یا فلاں سورہ میں لکھو۔ اس لئے ضرورت تھی کہ وقتاً فوقتاً نظرثانی ہوتی رہے۔ لوگوں کے ذاتی نسخوں کی اصلاح اور نظرثانی کا ذکر بھی ہجرت کے بعد سے ملتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ رمضان شریف کے مہینے میں دن کے وقت قرآن مجید کو، جتنا اس سال تک نازل ہوا تھا، بآوازبلند دُہرایا کرتے تھے اور ایسے صحابہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا، وہ اپنا ذاتی نسخہ ساتھ لاتے اور رسول اﷲﷺ کی تلاوت پر اس کا مقابلہ کرتے، تاکہ اگر ان سے کسی لفظ کے لکھنے میں یا سورتوں کو صحیح مقام پر درج کرنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اس کی اصلاح کرلیں۔ یہ چیز ’’عرضہ‘‘ یا پیشکش کہلاتی تھی۔ مؤرخین مثلاً امام بخاری نے صراحت کی ہے کہ آخری سال وفات سے چند ماہ پہلے، جب رمضان کا مہینہ آیا تو آپﷺ نے پورے کا پورا قرآن مجید لوگوں کو دو مرتبہ سنایا اور یہ بھی کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب آگئی ہے کیونکہ قرآن حکیم کے متعلق جبرئیل علیہ السلام نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں دو مرتبہ پڑھ کر سنائوں تاکہ اگر کسی سے غلطیاں ہوئی ہوں تو وہ باقی نہ رہیں۔ یہ تھی تدبیر، جو آخری نبیﷺ نے آخری پیغام ربانی کی حفاظت کے لئے اختیار فرمائی۔ اس طرح قرآن مجید کے ہم تک قابلِ اعتماد حالت میں پہنچنے کا اہتمام ہوا۔
حضرت محمد رسول اﷲﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد آپ کے اُمتّیوں نے اس عظیم اثاثہ کی حفاظت کا پورا اہتمام کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تربیت یافتہ صحابہ کرام بالخصوص حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم نے حفاظت قرآن کے لئے چند مزید اقدامات کئے۔
حفاظت قرآن کے لئے رسول اﷲﷺ کے ان اقدامات کا ہی معجزاتی اثر ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال میں کوئی سال، کوئی مہینہ، کوئی دن، حتیٰ کہ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب دنیا حفاظ قرآن سے اور قرآن کی تلاوت کرنے والوں سے خالی رہی ہو۔
آئیے اب دیگر امور کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اﷲتعالیٰ کی جانب سے اس زمین پر بھیجے جانے والے تمام انبیاء اور رسولوں کی بعثت کا بنیادی مقصد لوگوں میں توحیدِ باری تعالیٰ کا اقرار پیدا کرنا اور لوگوں کو اﷲ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کی ہدایت کرنا تھا۔ بے شک تمام انبیاء نے اپنے فرائض انجام دینے کی حتی المقدور کوششیں کیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی اُمتوں نے ان کی تعلیمات اور ان کی جانب سے ملنے والے طریقہ ہائے عبادات پر مستقل طور سے عمل نہیں کیا اور انہیں محفوظ بھی نہ رکھا۔
اس صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب اسلام کے عطاکردہ عبادات کے طریقوں کا جائزہ لیں۔۔۔۔۔ ہم اﷲتعالیٰ کا قلب و روح کے ساتھ شکر ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفیﷺ نے عبادات کا جو نظام اپنی اُمت کو دیا وہ آج بھی بعینہ اسی طرح موجود ہے۔
اسلامی نظامِ عبادت کی بقاء اور صدیوں سے اس کے تسلسل کو کیا پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ کا معجزہ نہیں کہیں گے۔۔۔۔۔؟
صلوٰۃ (نماز):
قرآن ہمیں خبر دیتا ہے کہ انبیاء کرام ؑ صلوٰۃ قائم کرتے تھے اور اُنہوں نے لوگوں کو صلوٰۃ کے اہتمام کی ہدایت کی۔ یقینا ان انبیائے کرام ؑ نے اپنے اُمتیوں کو صلوٰۃ کے قیام کا طریقہ بھی بتایا ہوگا۔ مگر یہ ایک افسوسناک تاریخی حقیقت ہے کہ بعد کے لوگوں نے ان طریقوں کو باقی نہیں رکھا۔ آج ہم نہیں جانتے کہ اﷲ کی عبادت کے لئے، صلوٰۃ کے قیام کے لئے حضرت موسیٰ ؑیا حضرت عیسیٰ ؑ یا دیگر پیغمبروں نے لوگوں کو کیا طریقے سکھائے تھے۔ یہ ہمارے لئے اﷲ کی بیش بہا نعمت نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے ہادی، ہمارے آقا، معلم اعظم حضرت محمد مصطفیﷺ نے اپنی اُمت کو اﷲ کی عبادات کے جو طریقے بتائے ان کی رہتی دنیا تک حفاظت کا بھی پورا اہتمام فرمادیا۔ اﷲتعالیٰ نے اُمت محمدیﷺ پر پانچ وقت صلوٰۃ کا قیام فرض کیا۔ رسول اﷲﷺ نے اس اہم ترین فریضہ کی ادائیگی اور اسے قیامت تک محفوظ رکھنے کے لئے بے مثال اقدامات فرمائے۔ صلوٰۃ (نماز) کے ذریعہ ایک طرف قرآن پاک کی حفاظت کا اہتمام ہوا دوسری جانب نماز باجماعت کے ذریعہ اسلامی معاشرہ میں اجتماعیت، وقت کی پابندی، اطاعت امام، نظم و ضبط کو فروغ دیا گیا۔ نماز کی ادائیگی کے لئے وضو ضروری قرار دے کر طہارت و پاکیزگی کی اہمیت واضح کی گئی۔ نماز سے قبل اذان بھی اسلامی نظامِ عبادت کی ایک انفرادیت ہے۔ کیا یہ بھی رسول اﷲﷺ کا ایک معجزہ نہیں ہے کہ آپﷺ نے تا قیامت ہر روز پانچ وقت اﷲ کی وحدانیت کے اعلانِ عام اور لوگوں کو صلوٰۃ کی ادائیگی کی یاد دہانی اور بلاوے کا بندوبست فرمادیا۔ دنیا کے کسی مذہب میں توحید و رسالت کی گواہی، دنیا اور آخرت کی فلاح کے لئے اتنی جامعیت کے ساتھ بلاوے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
صوم (روزہ) :
قرآن میں اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے۔ اس آیتِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اﷲ کے انبیاء نے صلوٰۃ کی طرح صوم کی ہدایت بھی کی۔ آج بھی کئی مذاہب میں روزہ کا رواج پایا جاتا ہے، لیکن ان مذاہب کے پیروکار اس اہم عبادت کے معاملہ میں بھی اپنے پیغمبر کی اصل تعلیمات سے لاعلم معلوم ہوتے ہیں۔ ان مذاہب کے مذہبی، تاریخی لٹریچر سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت موسیٰ ؑ یا حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی اُمت کے لئے روزہ کا کیا طریقہ تعلیم فرمایا تھا۔ بالفرض اگر کہیں سے ان طریقوں کی بابت کچھ علم ہو بھی جائے پھر بھی یہ امر یقینی نہیں کہ آج بھی ہر جگہ ان طریقوں کی پیروی کی جارہی ہو۔ اُمتِ مسلمہ نے قرآن پاک کے حکم اور رسول اﷲﷺ کے عطاکردہ طریقوں کے مطابق روزہ کے فرض کی ادائیگی کا بھرپور اہتمام کیا۔ رسول اﷲﷺ کی متعدد احادیث میں روزہ کی فرضیت اور روزہ کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رسول اﷲﷺ نے یہ تک بتایا ہے کہ روزہ کی جزا اﷲ خود ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال سے پوری اُمتِ مسلمہ دنیا کے ہر خطۂِ زمین ، ہر موسم میں روزہ کا باقاعدگی اور ذوق شوق سے اہتمام کرتی ہے۔ اس عبادت کی ادائیگی کا تاقیامت اس قدر موثر اہتمام رسول اﷲﷺ کی تربیت کا اعجاز نہیں۔۔۔۔۔؟
زکوٰۃ:
قرآن پاک سے پتہ چلتا ہے کہ انبیائے سابقین علیہم السلام نے اپنے اُمتیوں کو صلوٰۃ کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا۔ لیکن آج دنیا کی کتنی اقوام میں زکوٰۃ کی ادائیگی ایک مذہبی فریضہ کی حیثیت سے باقی ہے؟ انبیائے سابقین کے اُمتیوں نے جہاں ان کی دیگر تعلیمات پر عمل نہ کیا وہاں زکوٰۃ کی ادائیگی سے بھی پہلو تہی کی۔ نتیجتاً آج نہیں بلکہ کئی صدیوں سے اہلِ کتاب اقوام میں بھی بطور مذہبی فریضہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ اﷲ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ نے اپنے اُمتیوں کو زکوٰۃ کی ادائیگی کی اہمیت سے آگاہ فرمایا۔ آپﷺ نے اس عمل کو مال کی پاکیزگی، خیر و برکت اور اﷲ کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔ زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم 9 ہجری میں آیا۔ دورِنبویﷺ اور اس کے بعد اہلِ ایمان کا ایک بڑا طبقہ اس فریضہ کی خوشدلی سے ادائیگی کرتا رہا۔ تاہم کچھ مواقع ایسے بھی آئے جب بعض مسلمانوں کی جانب سے زکوٰۃ کی ادائیگی میں لیت۔و لیل کا مظاہرہ ہوا۔ ان مواقع پر بھی رسول اﷲﷺ کی تربیت کام آئی۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور میں بعض جگہ سے ایسی شکایات آئیں۔ یہ ایک بہت نازک وقت تھا۔ اُمت مسلمہ رسول اﷲﷺ کے وصال کے صدمہ سے نڈھال تھی۔ نومسلم قبائل میں بعض شرارتی عناصر لوگوں کو اسلام کے خلاف ورغلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسے ماحول میں بعض لوگوں کی جانب سے زکوٰۃ کی ادائیگی میں حیلے بہانے تراشے جارہے تھے لیکن خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان لوگوں کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی اور تمام صاحبِ نصاب لوگوںسے پوری پوری زکوٰۃ وصول کی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک بہت بڑارسک لینا گوارا کرلیا لیکن اسلام کے ایک اہم فرض کی ادائیگی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ ایک انتہائی نازک وقت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا یہ فیصلہ رسول اﷲﷺ کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا۔
حج:
زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ مکہ معظمہ میں بیت اﷲ شریف میں حاضری اور حج ہر صاحبِ استطاعت مسلم پر فرض ہے۔ مناسک حج کی ادائیگی کا دورانیہ کئی دنوں پر مشتمل ہے۔ حاجیوں کے رش اور دیگر عوامل کے باعث یہ ایک پُرمشقت عمل بھی ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ مکہ سے دُوردراز مقامات پر رہنے والوں کے لئے اس فریضہ کی ادائیگی میں بہت زیادہ اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ کی تعلیمات کی بدولت کثیر اخراجات، طویل دورانیہ کے مناسک اور کئی طرح کی مشقتوں کے باوجود ہر دور میں مسلمان فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے بیچین و بیتاب رہے ہیں۔ شرعی لحاظ سے حج صرف صاحبِاستطاعت مسلمین پر فرض ہے لیکن کم مالی وسائل رکھنے والے بھی اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے بیقرار رہتے ہیں اور پائی پائی جمع کرکے وہاں جانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ الحمدﷲ اس عبادت کا تاقیامت تسلسل رسول اﷲﷺ کی تعلیمات کا اعجاز نہیں ہے۔۔۔۔۔؟
عبادات ہوں یا معاملات، مادی امور ہوں یاروحانی امور، دنیا کی بات ہو یا آخرت کی، فرد کا معاملہ ہو یامعاشرہ کی زندگی کے ہرشعبہ، وقت کے ہر دور اور دنیا کے ہر خطہ میں رسول اﷲﷺ کی تعلیمات امت مسلمہ کے ہرفرد کے لئے ہدایات و رہنمائی کا سرچشمہ، امید، ترقی، استحکام کا ذریعہ ہیں۔ رسول اﷲﷺ کی ہستیٔ مبارک کا اور آپﷺ کی تعلیمات کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ کتنا ہی وقت کیوں نہ گزر جائے انسان کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے۔ رسول اﷲﷺ کی تعلیمات کبھی بھی پرانی (Out dated) یا ناقابلِ عمل نہیں۔
وہ دانائے سُبل ختم الرسل، مولائے کلؐ جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طٰہٰ
[از روحانی ڈائجسٹ ]