عورتوں پر بُزرگ کی سواری آنا
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کی رائے
السلام و علیکم
ہم نے معروف اسکالر ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی صاحب کے ساتھ مختلف عنوانات پر سوال جواب کی نشست کا اہتمام کیا ہے۔
آج کی نشست میں ہم جس موضوع پر بات کریں گے۔ وہ ہے سواریاں۔
السلام و علیکم ڈاکٹر صاحب۔
وعلیکم السلام۔
ڈاکٹر صاحب معاشرے میں یہ نظر آتا ہے کہ کسی مرد یا عورت پر، کسی بزرگ کی سواری آئی ہے۔ آپ کا تعلق روحانی سلسلے سے ہے۔ تو آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ تصوف کی باتیں ہیں کہ کسی مرد یا عورت کے اوپر، کسی بزرگ کی سواری کا آنا اور پھر اس کا مختلف سوالات کے جوابات دینا۔
جی بالکل آپ نے ٹھیک کہا کہ ایسے کئی واقعات سننے میں آتے ہیں کہ کسی مرد پر یا کسی کسی عورت پر، زیادہ تر خواتین پر، کسی خاص دن جیسے جمعرات کو، پیر کو، جمعہ کو اور کسی خاص ٹائم میں زیادہ تر عصر مغرب کے درمیان۔ ان کی بالکل خاص کیفیت ہوجاتی ہے اور اس وقت ان کے اہل خانہ اور دوسرے قریبی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان پر سواری آگئی ہے۔ اچھا وہ سواری آگئی ہے اس میں بزرگوں کے اسماء گرامی ہوتے ہیں۔ اس میں بڑے بڑے بزرگوں کا نام وہ لیتے ہیں۔ کسی پر کسی بڑے بزرگ کی کسواری آتی ہے۔ کسی پر کسی بڑے بزرگ کی سواری آتی ہے اور وہاں پر پھر ان کے محلے کے رشتہ دار یا احباب جمع ہوجاتے ہیں اور پھر ان سے اپنے بارے میں سوالات کرتے ہیں جی گھر میں مسئلہ ہے یہ کیسے حل ہوگا۔ کوئی چیز گم ہوگئی، کسی بچی کی شادی بیاہ کا مسئلہ ہے۔ کسی کےروزگار کا مسئلہ ہے۔ زیاددہ تر جوابات تو یہ ہوتے ہیں کہ یہ اصل میں ہے بندش اور یہ بندش فلاں نےکری ہے یا کسی اشارے کے ساتھ یا نام کے ساتھ یا پھر اشارے کے ساتھ۔ درحقیقت یہ ایک ذہنی کیفیت ہےاور اس کو کسی بزرگ سے منسوب کرنا میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اس بزرگ کی بے ادبی ہے۔ جس کے ساتھ بھی یہ منسوب کر رہے ہیں کہ یہ بزرگ آرہے ہیں اور وہ ان خاتون پر آرہے ہیں اور ایک وقت مقررہ پر آرہے ہیں۔ یہ ان بزرگ کےس اتھ عقیدت کم اور بے ادبی زیادہ ہے اور ہمیں ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نہیں کرنی چاہئیں۔
آپ اسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس کی ذہنی کیفیت ہے۔ یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے اور یہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جس کے علم نفسیات نے کئی نام دیے ہیں۔ آپ اسے مرض کہہ لیں۔ یا اسے کوئی ایبارملٹی کہہ لیں۔ اسے کیفیت کہہ لیں۔ اس کا تصوف کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ یہ کوئی تصوف کی یا صوفیاء کی باتیں ہیں۔ چونکہ اس میں صوفیا کرام اور اولیاء اللہ کے اسمائے گرامی لیے جاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ بھی کوئی صوفیانا تعلیمات کا کوئی حصہ ہے۔ یہ سراسر اس کی ایبنارملٹی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ اگر یہ ایبنارملٹی ہے تو جیسے مرگی کا دورہ ہے وہ تو کبھی بھی پڑ سکتا ہے۔ دن میں پڑ سکتا ہے۔ رات میں بھی ہوسکتا ہے۔ صبح بھی ہوسکتا ہے۔ شام میں بھی ہوسکتا ہے۔ یا اور کوئی کسی کو فرض کرلیں کہ کوئی ہائیپر ایکٹیو آدمی ہے۔ کوئی شیزوفرینک ہے۔ کوئی بہت زیادہ اینگر میں رہتا ہے تو وہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بڑے ٹائم کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ شیڈیولڈ ہوتا ہے۔ جمعرات کو ہی ہوگا اور اتنے بجے ہوگا تو ایک تو بات یہ کہ وہ بزرگ بڑے پابند ہیں ٹائم کے۔ وہ اپنا سارا شیڈول چھوڑ کر یہاں آتے ہیں، حاضر ہوتے ہیں گویا ایک طریقے سے یہ تو آپ کسی سے عقیدت رکھتے ہیں کوئی آپ کا بڑا ہوتا ہے۔ آپ اس کے پاس جاتے ہو یا اسے اپنے پاس بلاتے ہو۔ آپ اپنے دادا کے پاس اپنے نانا کے پاس ان کی خدمت میں سارا جمع ہوتا ہے ان کے پاس یا انہیں کہتے ہیں کہ تم آؤ ہمارے پاس۔ فلاں وقت ملنے آیا کرو۔ ٹھیک ہے بزرگ اپنے بچوں کے ہاں جاتے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ وہ تو ہم سب دیکھتے ہیں کہ بھئی کوئی بزرگ بھی اپنے بچوں کے پاس ملنے کے لیے آتے ہیں اٹس اوکے۔ لیکن پروٹوکول کیا ہے۔ ھسب مراتب کیا ہے۔ چھوٹے جاتے ہیں۔ عید بقرہ عید پر بچے جاتے ہین بڑوں کو سلام کرنے یا بڑے آتے ہیں بچوں کے پاس۔ بڑے بھی آتے ہیں گھر میں آکے عیدی دیتے ہیں۔ بزرگ اتنے بڑے عظیم لوگ جنہوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی، دین اسلام پھیلایا۔ یہاں کے لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی۔ اسلام کے پیغام سے ان کو آگاہ کیا۔ واقف کیا اور دین کی تبلیغ کی۔ اور ان کے بڑے درجات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجاتوں کو بلند فرمائیں۔ آمین
ان بزرگوں کا آپ ادب کر رہے ہو یا ان کی بے ادبی کر رہے ہو۔ یہ تو ادب کے خلاف ہے۔ ایسی باتیں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ضعیف الاعتقادی ہیں۔ اور ایسی باتیں تواہم پرستی ہیں۔ اور ان باتوں کو یہ بھی دیکھیے کہ ان کا رزلٹ کیا آتا ہے۔ اکثر وہ ایسے جوابات دیتے ہیں کہ جو بڑے مبہم ہوتے ہیں۔ اور کنفیوز کرنے والے جوابات ہوتے ہیں۔ اب وہ جس کے ساتھ بھی ہوتا ہےاس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کہ آیا اس کے کسی سائیکلوجیکل ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ اسے کسی اور کوئی دماغی مرض کی موجودگی کے علاج کی ضرورت ہے یا اسے اپنی فکر اور فہم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض مرتبہ تو ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو سائیکیٹرسٹ کے پاس لے کر جائیں اور وہ دوائیں دیں اور اس سے وہ چیز ٹھیک نہ ہوسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح تعلیمات ہونی چاہئیں۔ ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ صحیح راستہ ہے یا یہ غلظ راستہ ہے۔ یہ ایک طریقے کی غلط فہمی ہے یا گمراہی ہے۔
سواری آنا جس طریقے سے ہمارے ہاں بتایا جاتا ہے کہ سواری آئی۔ سواری آئی، پہلے تو بڑا مضحکہ خیز سا لفظ ہے کہ سواری آئی۔ اس کو کسی بزرگ سے منسوب کرنا یہ خلافواقع ہے، خلاف حقیقت ہے، اور بزرگ کی بے ادبی ہے۔ یہ بالکل ہمارے ہاں تو یہ بتایا گیا ہے اور یہ کہ جی وہ بزرگ بہت ساری باتیں بتا دیتے ہیں، جس پر بزرگ کی سواری آئی ہوئی ہوتی ہے وہ بہت ساری باتیں بتا دیتے ہیں۔ وہ کیسے بتا دیتے ہیں۔ بہت سارے ریزن ہوسکتے ہیں اس کے بتانے کے۔
ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ آپ کا کہ آپ نے بہت ہی بنیادی لوگوں کے ذہن کے سوالات ہیں جس پر آپ نے ان سوالات پر روشنی ڈالی۔
ہم نے معروف اسکالر ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی صاحب کے ساتھ مختلف عنوانات پر سوال جواب کی نشست کا اہتمام کیا ہے۔
آج کی نشست میں ہم جس موضوع پر بات کریں گے۔ وہ ہے سواریاں۔
السلام و علیکم ڈاکٹر صاحب۔
وعلیکم السلام۔
ڈاکٹر صاحب معاشرے میں یہ نظر آتا ہے کہ کسی مرد یا عورت پر، کسی بزرگ کی سواری آئی ہے۔ آپ کا تعلق روحانی سلسلے سے ہے۔ تو آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ تصوف کی باتیں ہیں کہ کسی مرد یا عورت کے اوپر، کسی بزرگ کی سواری کا آنا اور پھر اس کا مختلف سوالات کے جوابات دینا۔
جی بالکل آپ نے ٹھیک کہا کہ ایسے کئی واقعات سننے میں آتے ہیں کہ کسی مرد پر یا کسی کسی عورت پر، زیادہ تر خواتین پر، کسی خاص دن جیسے جمعرات کو، پیر کو، جمعہ کو اور کسی خاص ٹائم میں زیادہ تر عصر مغرب کے درمیان۔ ان کی بالکل خاص کیفیت ہوجاتی ہے اور اس وقت ان کے اہل خانہ اور دوسرے قریبی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان پر سواری آگئی ہے۔ اچھا وہ سواری آگئی ہے اس میں بزرگوں کے اسماء گرامی ہوتے ہیں۔ اس میں بڑے بڑے بزرگوں کا نام وہ لیتے ہیں۔ کسی پر کسی بڑے بزرگ کی کسواری آتی ہے۔ کسی پر کسی بڑے بزرگ کی سواری آتی ہے اور وہاں پر پھر ان کے محلے کے رشتہ دار یا احباب جمع ہوجاتے ہیں اور پھر ان سے اپنے بارے میں سوالات کرتے ہیں جی گھر میں مسئلہ ہے یہ کیسے حل ہوگا۔ کوئی چیز گم ہوگئی، کسی بچی کی شادی بیاہ کا مسئلہ ہے۔ کسی کےروزگار کا مسئلہ ہے۔ زیاددہ تر جوابات تو یہ ہوتے ہیں کہ یہ اصل میں ہے بندش اور یہ بندش فلاں نےکری ہے یا کسی اشارے کے ساتھ یا نام کے ساتھ یا پھر اشارے کے ساتھ۔ درحقیقت یہ ایک ذہنی کیفیت ہےاور اس کو کسی بزرگ سے منسوب کرنا میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اس بزرگ کی بے ادبی ہے۔ جس کے ساتھ بھی یہ منسوب کر رہے ہیں کہ یہ بزرگ آرہے ہیں اور وہ ان خاتون پر آرہے ہیں اور ایک وقت مقررہ پر آرہے ہیں۔ یہ ان بزرگ کےس اتھ عقیدت کم اور بے ادبی زیادہ ہے اور ہمیں ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نہیں کرنی چاہئیں۔
آپ اسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس کی ذہنی کیفیت ہے۔ یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے اور یہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جس کے علم نفسیات نے کئی نام دیے ہیں۔ آپ اسے مرض کہہ لیں۔ یا اسے کوئی ایبارملٹی کہہ لیں۔ اسے کیفیت کہہ لیں۔ اس کا تصوف کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ یہ کوئی تصوف کی یا صوفیاء کی باتیں ہیں۔ چونکہ اس میں صوفیا کرام اور اولیاء اللہ کے اسمائے گرامی لیے جاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ بھی کوئی صوفیانا تعلیمات کا کوئی حصہ ہے۔ یہ سراسر اس کی ایبنارملٹی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ اگر یہ ایبنارملٹی ہے تو جیسے مرگی کا دورہ ہے وہ تو کبھی بھی پڑ سکتا ہے۔ دن میں پڑ سکتا ہے۔ رات میں بھی ہوسکتا ہے۔ صبح بھی ہوسکتا ہے۔ شام میں بھی ہوسکتا ہے۔ یا اور کوئی کسی کو فرض کرلیں کہ کوئی ہائیپر ایکٹیو آدمی ہے۔ کوئی شیزوفرینک ہے۔ کوئی بہت زیادہ اینگر میں رہتا ہے تو وہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بڑے ٹائم کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ شیڈیولڈ ہوتا ہے۔ جمعرات کو ہی ہوگا اور اتنے بجے ہوگا تو ایک تو بات یہ کہ وہ بزرگ بڑے پابند ہیں ٹائم کے۔ وہ اپنا سارا شیڈول چھوڑ کر یہاں آتے ہیں، حاضر ہوتے ہیں گویا ایک طریقے سے یہ تو آپ کسی سے عقیدت رکھتے ہیں کوئی آپ کا بڑا ہوتا ہے۔ آپ اس کے پاس جاتے ہو یا اسے اپنے پاس بلاتے ہو۔ آپ اپنے دادا کے پاس اپنے نانا کے پاس ان کی خدمت میں سارا جمع ہوتا ہے ان کے پاس یا انہیں کہتے ہیں کہ تم آؤ ہمارے پاس۔ فلاں وقت ملنے آیا کرو۔ ٹھیک ہے بزرگ اپنے بچوں کے ہاں جاتے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ وہ تو ہم سب دیکھتے ہیں کہ بھئی کوئی بزرگ بھی اپنے بچوں کے پاس ملنے کے لیے آتے ہیں اٹس اوکے۔ لیکن پروٹوکول کیا ہے۔ ھسب مراتب کیا ہے۔ چھوٹے جاتے ہیں۔ عید بقرہ عید پر بچے جاتے ہین بڑوں کو سلام کرنے یا بڑے آتے ہیں بچوں کے پاس۔ بڑے بھی آتے ہیں گھر میں آکے عیدی دیتے ہیں۔ بزرگ اتنے بڑے عظیم لوگ جنہوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی، دین اسلام پھیلایا۔ یہاں کے لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی۔ اسلام کے پیغام سے ان کو آگاہ کیا۔ واقف کیا اور دین کی تبلیغ کی۔ اور ان کے بڑے درجات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجاتوں کو بلند فرمائیں۔ آمین
ان بزرگوں کا آپ ادب کر رہے ہو یا ان کی بے ادبی کر رہے ہو۔ یہ تو ادب کے خلاف ہے۔ ایسی باتیں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ضعیف الاعتقادی ہیں۔ اور ایسی باتیں تواہم پرستی ہیں۔ اور ان باتوں کو یہ بھی دیکھیے کہ ان کا رزلٹ کیا آتا ہے۔ اکثر وہ ایسے جوابات دیتے ہیں کہ جو بڑے مبہم ہوتے ہیں۔ اور کنفیوز کرنے والے جوابات ہوتے ہیں۔ اب وہ جس کے ساتھ بھی ہوتا ہےاس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کہ آیا اس کے کسی سائیکلوجیکل ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ اسے کسی اور کوئی دماغی مرض کی موجودگی کے علاج کی ضرورت ہے یا اسے اپنی فکر اور فہم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض مرتبہ تو ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو سائیکیٹرسٹ کے پاس لے کر جائیں اور وہ دوائیں دیں اور اس سے وہ چیز ٹھیک نہ ہوسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح تعلیمات ہونی چاہئیں۔ ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ صحیح راستہ ہے یا یہ غلظ راستہ ہے۔ یہ ایک طریقے کی غلط فہمی ہے یا گمراہی ہے۔
سواری آنا جس طریقے سے ہمارے ہاں بتایا جاتا ہے کہ سواری آئی۔ سواری آئی، پہلے تو بڑا مضحکہ خیز سا لفظ ہے کہ سواری آئی۔ اس کو کسی بزرگ سے منسوب کرنا یہ خلافواقع ہے، خلاف حقیقت ہے، اور بزرگ کی بے ادبی ہے۔ یہ بالکل ہمارے ہاں تو یہ بتایا گیا ہے اور یہ کہ جی وہ بزرگ بہت ساری باتیں بتا دیتے ہیں، جس پر بزرگ کی سواری آئی ہوئی ہوتی ہے وہ بہت ساری باتیں بتا دیتے ہیں۔ وہ کیسے بتا دیتے ہیں۔ بہت سارے ریزن ہوسکتے ہیں اس کے بتانے کے۔
ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ آپ کا کہ آپ نے بہت ہی بنیادی لوگوں کے ذہن کے سوالات ہیں جس پر آپ نے ان سوالات پر روشنی ڈالی۔