خانہ کعبہ کے سامنے
کلمہ کی طاقت کس طرح استعمال کی جائے
کلمہ کی طاقت کس طرح استعمال کی جائے
رمضان کا مہینہ، بیت اﷲ اور مسجد الحرام کی روح پر ور فضائیں۔
میں خانہ کعبہ کے سامنے مسجد الحرام کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ مسجد الحرام کے میناروں سے اذانِ فجر کی آواز مکہ کی فضائوں میں پھیل رہی تھی۔ اس مقدس پکار کے جواب میں دُور دُورسے لوگ، جن میں جوان، بوڑھے، بچے ، مرد، عورتیں سب ہی شامل تھے جوق در جوق مسجد الحرام کی طرف آرہے تھے۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جس کی ہر لہر کا رخ مسجد الحرام کی طرف تھا۔ لوگوں نے مسجد میں صفیں بنانا شروع کردیںوہاں پر جگہ نہ رہی تو مسجد الحرام کے چاروں طرف سڑکوں پر صفیں بننے لگیں۔ امام کی ایک تکبیر پر لاکھوں لوگوں نے نماز قائم کرلی۔ ان میں گورے، کالے، عربی،عجمی، ایشین، افریقن، یورپین، امریکن سب ہی شامل تھے۔ دنیا کے مختلف خطوں، مختلف قوموں کے مختلف زبانیں بولنے والے لوگ اپنی نسلی لسانی شناخت ایک طرف رکھ کر صرف مسلمان ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے صلوٰۃ کی ادائیگی میں مصروف تھے۔۔۔۔۔
امام صاحب پڑھتے رہے لاکھوں مسلمان نہایت نظم وضبط کے ساتھ ان کی اقتداء کرتے رہے۔ خانہ کعبہ آنکھوں کے سامنے ہو اور نماز ادا کی جارہی ہو ایسے میں دل کا جو حال ہوتا ہے وہ صاحبِ حال ہی جانتا ہے۔ اس کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا اگر ناممکن نہیں تو نہایت ہی مشکل بہرحال ہے۔ میں اُن جذبات کو لکھ تو نہیں سکتا لیکن دل پر گزرنے والی کیفیات کا جو عکس چہروں پر آتا ہے اسے کسی حد تک پڑھ تو سکتا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ ظہر، عصر اور مغرب کے وقت لاکھوں لوگ نماز ادا کرنے مسجد آتے اور واپس جاتے رہے۔
عشاء کے وقت لاکھوں لوگوں کی مسجد الحرام آمد کا روح پرور منظر ایک بار پھر نظروں کے سامنے تھا۔ عشاء کی نماز ہوئی، اس کے بعد تراویح ہوئی، وتر میں امامِ کعبہ نے اﷲ تعالیٰ کے حضور نہایت سوز اور گداز کے ساتھ دعا کی۔
اپنے گناہوں کی ، غلطیوں کی، کوتاہیوں کی معافی مانگی۔ دعا کے دوران لاکھوں مسلمانوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ آنسوئوں کے ساتھ سسکیاں بھی اُبھرنے لگیں ۔ نمازیوں کی سسکیوں ، آہوں اور چیخوں سے بیت اﷲ کی فضائیں گونج رہی تھیں۔ امام صاحب کی آواز بھی بھرا گئی تھی وہ بھی رو رو کر اﷲ سے معافی مانگ رہے تھے۔ اُمت کے لئے عافیت طلب کررہے تھے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے کامیابیوں اور فتوحات کی التجائیں کررہے تھے۔ امام صاحب اُمت مسلمہ کے مسائل ومشکلات کو اﷲ تعالیٰ کے سامنے پیش کرکے اﷲ تعالیٰ سے بخشش اور کرم طلب کررہے تھے۔ ان کے پیچھے لاکھوں مقتدی رو رو کر آمین کہہ رہے تھے۔ میں بھی دعا مانگ رہا تھا۔۔۔۔ آمین کہہ رہا تھا اس دوران مجھے یاد آیا کہ پہلے امام صاحب کشمیر، افغانستان، چیچنیا، بوسنیا کے مسلمانوں کی کامیابیوں کے لئے نام لے لے کر دعائیں کرتے تھے۔ مگر اس سال دعا میں یہ سب نام سنائی نہ دئیے۔کیا اُن کے مسائل حل ہوگئے ہیں یا پھر ڈپلومیسی کی نزاکتیں اُن خطّوں کا نام لینے سے روک رہی ہیں۔ بہرحال امام صاحب دعا مانگتے رہے مقتدی رو رو کر آمین کہتے رہے۔
مسجد الحرام کی انوار وتجلیات سے معمور فضائوں میں، رمضان کی مقدس ساعتوں میں، امام کعبہ کی اقتداء میں قرآن سننے کے اثرات ہی الگ ہیں۔ مسجد الحرام کا ماحول اور قرآن کے انوار سامع پر اس طرح اثرا نداز ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ بندہ نور میں نہا گیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اﷲ سے بہت قریب ہیں۔ مرتبۂ احسان کی کیفیت بار بار طاری ہوتی ہے ۔ اس یقین میں بھی زبردست اضافہ ہوتا ہے کہ ہم اﷲ سے جو مانگیں گے وہ عطا ہوگا۔ دعائیں قبول ہوں گی اور واقعی ایسا ہوتا ہے۔ ہم جو مانگتے ہیں اﷲ ہمیں عطا فرماتا ہے۔ صحت، تندرستی، رزق کی فراوانی، عزت ، دولت، شہرت لوگ اس در سے کیا کیا نہیں پاتے۔
دعا کے بارے میں مختلف روایات ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ جو لوگ اپنی ذات سے پہلے دوسروں کے لئے دعا کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ اُن سے بہت خوش ہوتے ہیں اُن کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔ میں نے اس معاملہ پر غور کیا تو مجھ پر ایک عجیب انکشاف ہوا۔۔۔۔ کم از کم گذشتہ پچاس سال سے تو یہ ہورہا ہے کہ جو کچھ ہم اپنی ذات کے لئے مانگ رہے ہیں وہ تو ہمیں مل رہا ہے اور جو کچھ اجتماعی طور پر مانگ رہے ہیں۔۔۔۔ نہیں مل رہا۔ ذاتی خوشحالی، عزت، شہرت کروڑوں مسلمانوں نے اپنے لئے اُن میں سے جو چیزیں مانگیں اُنہیں مل گئیں۔ اقوامِ عالم میں اُمت کا اثر ورسوخ دھاک اور دبدبہ، دشمنوں کے مقابلہ میں فتح، اجتماعی عزت وافتخار، یہ چیزیں سالہا سال سے مسلسل اجتماعی دعائوں کے باوجود حاصل نہیں ہوئیں۔ بلکہ اُمت کے اثر ورسوخ اور دھاک و دبدبہ کا تو اب یہ عالم ہوگیا ہے کہ ہم بیت اﷲ میں کھڑے ہوکر دعا مانگتے ہوئے بھی غاصبوں کے نام لینے سے کترانے لگے ہیں۔ شاید اِسی لئے کشمیر، چیچنیا وغیرہ کے نام اس دعا سے نکال دئیے گئے ۔
مسجد سے باہر آکر میں سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ اپنے پاس سے گزرتے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ چہرہ خوانی کرتا رہا اس چہرہ خوانی کے دوران ہی ایک بار پھر ایک جھٹکا لگا، مجھے یاد آیا کہ فجر کے وقت جب میں لوگوں کو مسجد کی طرف آتے دیکھ رہا تھا تو وہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود کسی ایک غیر مرئی ڈور سے بندھے ہوئے محسوس ہوتے تھے سب کے چہروں پر سب کی آنکھوں میں ایک ہی جذبہ کی چمک نظر آتی تھی، سب کا رُخ بیت اﷲ کی طرف تھا سب کا دھیان اﷲ کی طرف تھا۔۔۔۔ ہر شخص اپنا ذاتی تشخص رکھنے کے باوجود اﷲ کے رنگ میں رنگا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک میگنیٹک فیلڈ ہے جو لوہے کے ذرّوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔
صبح ایک شخص نظر آیا تھا درمیانہ قد، دبلا پتلا جسم، چہرہ پر چھوٹی چھوٹی داڑھی۔۔۔۔ میں نے سلام کر کے پوچھا آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اُس نے کہا مسلمان ہوں ڈھاکہ سے آیا ہوں ، ایک گورا چٹہ مضبوط بدن شخض ملا تھا پوچھا آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اُس نے کہا الحمد اﷲ مسلمان ہوں کابل سے آیا ہوں۔۔۔۔ سبحان اﷲ خواہ کوئی کسی ملک سے آرہا ہو یہاں آتے وقت سب اپنی شناخت مسلمان بتاتے ہیں۔۔۔۔
عشاء کے بعد مسجد کے باہر سڑک کے کنارے میری نظر واپس جاتے ہوئے لوگوں پر پڑی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔۔۔۔ مسجد آتے وقت لوگوں کے چہروں پر جن جذبات کی چمک تھی وہ مسجد سے واپسی پر مجھے نہیں نظر آرہی تھی میری آنکھیں خراب تو نہیں ہوگئیں؟ شاید ایسا ہی ہو۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا باقی چیزیں تو ٹھیک نظر آرہی تھیں۔ مسجد الحرام کے بڑے دروازے کے عین سامنے مرغیاں تلنے والی امریکن کمپنی ’’کے ایف سی‘‘ کا بورڈ بھی صاف نظر آرہا تھا۔ ’’برگر کنگ‘‘ بھی صاف پڑھا جارہا تھا۔ انٹر کانٹی نینٹل بھی ہلکی روشنی کے باوجود صاف لکھا دکھائی دے رہا تھا۔ دُور کی نظر تو ٹھیک کام کررہی تھی۔ شاید قریب کی نظر کچھ زیادہ کمزور ہوگئی ہو۔ لیکن قریب ہی دکان پر رکھی تسبیح اور جائے نماز پر میڈ اِن چائنا اور جاپان کے الفاظ بھی صاف پڑھے جارہے تھے۔ اچانک اُن دونوں اصحاب پر نظر پڑی جو صبح مسجد آتے ہوئے ملے تھے۔ میں اُن سے ملا سلام کیا۔ اپنی یقین دہانی کے لئے دوبارہ پوچھا آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ ایک نے کہا بنگالی ہوں بنگلہ دیش سے آیا ہوں، دوسرے نے کہا افغان ہوں افغانستان سے آیا ہوں۔ یہ کیا ہوا؟ جب مسجد کی طرف رُخ تھا تو یہ اپنے آپ کو مسلمان بتاتے تھے باہر سڑک پر خود کو بنگالی اور افغان بتاتے ہیں۔ ان دونوں کی زبانی یہ سُن کر مجھے احساس ہوا کہ خرابی نظر میں نہیں خرابی کہیں اندر ہے۔
جب ہمارا رُخ مسجد الحرام کی طرف ہوتا ہے تو ہم سب ایک فکر ، ایک سوچ، ایک شناخت کے حامل ہوجاتے ہیں۔ جب ہم مسجد سے باہر آتے ہیں تو اپنی شناخت تبدیل کرلیتے ہیں۔ اس خیال کے ساتھ یہ سوال بھی جواب طلب تھا کہ جو دعا ہم اپنے لئے مانگتے ہیں وہ قبول ہورہی ہے جو دعا پوری اُمت کے لئے مانگ رہے ہیں وہ قبول کیوں نہیں ہورہی۔
یہ سوچتے سوچتے میں لوگوں کے ہجوم میں چلتے ہوئے مسجد سے کافی دور آگیا اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مسلسل میرے ساتھ چل رہا ہے میں نے دیکھا تو ایک صاحب نظر آئے لیکن سر پر رومال ہونے کے سبب اُن کا چہرہ صاف نظر نہ آتا تھا۔ میں نے اُنہیں سلام کیا اُنہوں نے جواب دیا اور کہا: تو کیا سوچ رہا ہے؟ مجھے عجیب سا لگا۔ یہ صاحب کون ہیں اور انہیں میری سوچوں سے کیا مطلب؟ میں نے پوچھ ہی لیا آپ کون ہیں؟ کہنے لگے تو مجھے پوری طرح نہیں جانتا ۔ بہرحال۔ میں فطرت ہوں۔ فطرت؟ بڑا عجیب سا نام ہے۔ میں نے سوچا۔۔۔۔ اُنہوں نے میری کیفیت بھانپ لی اور بولے جو مجھے سمجھ لے اُس کے لئے نہ تو میرا نام عجیب ہے نہ میں خود کوئی عجوبہ ہوں ۔ اور جو مجھے نہ سمجھے اُس کے لئے میں عجیب بھی ہوں اور مجھے نہ سمجھنے کی کڑی سزا بھی ہے۔ اب بتانا چاہے تو بتا کہ تو کیا سوچ رہا ہے اور کچھ جاننا چاہتا ہے تو سوال کر۔ گھبراہٹ ، مرعوبیت، خوف چندلمحوں میں نجانے کیا کیا کیفیات مجھ پر گزر گئیں لیکن فطرت نے خود ہی کلام اور سوال کی دعوت دے دی تھی اس لئے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ بیت اﷲ کی طرف آتے ہوئے لوگ اﷲ کے رنگ میں رنگے ہوئے محسوس ہوتے ہیں یہاں سے واپس جاتے ہوئے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ یہ رنگ مستقل کیوں نہیں رہتا؟ ۔۔۔۔۔۔دوسرا سوال یہ ہے کہ جو دعائیں ہم اپنے لئے مانگتے ہیں وہ تو جلد ہی قبول ہوجاتی ہیں لیکن جو دعائیں اپنی اُمت کے لئے اپنی قوم کے لئے مانگتے ہیں وہ قبولیت کا شرف نہیں پاتیں۔ پچھلے تیس سال سے بیت المقدس کی بازیابی کی دعائیں مانگ رہے ہیں، پچاس سال سے کشمیر کی آزادی کی دعائیں مانگ رہے ہیں، اُمت کی عزت وافتخار کی دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن ذاتی خوشحالی حاصل ہوجانے کے باوجود ہمارے اجتماعی حالات روز بروز خراب کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ میری باتیں سُن کر فطرت نے کہا :
سُن! اﷲ کے رنگ میں رنگنے کے لئے خانہ کعبہ میں حاضری ضروری نہیں ہے ۔ ایک مومن دنیا کے کسی بھی خِطّہ میں ہو وہ وہاں اپنے آپ کو اﷲ کے رنگ میں رنگ سکتا ہے۔ اور جان لے کہ یہ رنگ ایسا کچا نہیں ہے کہ اِدھر چڑھا اُدھر اُتر گیا۔۔۔۔۔
تو پھر خانہ کعبہ کی طرف آتے ہوئے لوگ رنگ میں رنگے ہوئے کیوں نظر آتے ہیں؟ میرے اس سوال پر فطرت نے کہا وہ سب لوگ رنگے نہیں جاتے اُن پر نور کی کرنیں پڑرہی ہوتی ہیں اگر سفید مرکری لائٹ پر نیلے رنگ کا شیڈ لگا دیا جائے تو کیا ہر چیز نیلی نظر نہیں آئے گی۔ لیکن نیلی روشنی میں آکر نیلا نظر آنا اور نیلے رنگ میں رنگ جانا دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ یہی یہاں کا حال ہے۔ لوگ جب تک اس مقدس نورانی ماحول میں رہتے ہیں ان پر یہاں کا رنگ حاوی نظر آتا ہے۔ اب جو لوگ اس نور کو اپنے باطن تک سرائیت کرنے دیتے ہیں یہ نور اُن کے وجود میں سماجاتا ہے۔ جو لوگ صرف ظاہری وجود تک اِس نور سے فیضیاب ہونا چاہتے ہیں اُن کی مثال ان لوگوں کی ہے جن پر روشنی تو پڑرہی ہے لیکن یہاں سے واپسی پر وہ اُس نور سے محروم ہوجاتے ہیں۔
میں نے فطرت سے پوچھا ہم مستقل طور پر اﷲ کے رنگ میں رنگ جائیں اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ فطرت نے جواب دیا اﷲ کو پہچاننے کی کوشش کرنا ہوگی اﷲ کی مرضی اور منشاء کو سمجھنا ہوگا۔ اب میں نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں۔ اﷲ کی وحدانیت اور اس کے بندہ محمدﷺ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس کی کتاب پر ہمارا ایمان ہے۔ اﷲتعالیٰ ہم سے محبت کرتے ہیں اﷲ نے قرآن میں ہمیں بہترین اُمت قرار دیا ہے۔ پھر اﷲ ہمیں کافروں کے مقابلہ میں کامیابیاں کیوں نہیں دے رہا۔ ہم آج دنیا میں ہر جگہ کیوں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ میرے اندر کا دکھ مجھے مسلسل سوال کرنے پر اُبھار رہا تھا۔
تم کلمہ گو ضرور ہو کلمہ کی طاقت سے بھی تم لوگ واقف ہو لیکن یہ طاقت کس طرح استعمال کی جائے تم خود اس سے واقف ہونا نہیں چاہتے۔ تم چاہتے ہو کہ اﷲ کی نصرت شاملِ حال ہو۔ لیکن تم لوگ نصرت کے حصول کے تقاضے نبھانا نہیں چاہتے۔ تم لوگوں کو فتح اور نصرت کیوں ملے؟--------- فطرت نے مجھ سے ہی سوال کر ڈالا ۔ میں نے کہا ۔۔۔۔ مسلمانوں نے تو ہر دور میں اﷲ کی تائید ونصرت پر بھروسہ کیا ہے۔ غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق میں اﷲ کی نصرت مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھی؟ فطرت نے جواب دیا کہ ان معرکوں میں مسلمانوں کو گھر بیٹھے فتح حاصل نہیں ہوگئی تھی۔ پہلے مسلمان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جارح دشمن کے مقابلے پر نکلے۔ رسول اﷲﷺ نے سپہ سالاری کے ایسے جوہر دکھائے جن پر دنیا آج بھی حیرت کرتی ہے۔ مسلمانوں کی فتوحات کے اولین اسباب میں رسول اﷲﷺ کی بہترین جنگی مہارت، نادر روزگارحکمتِ عملی، ڈپلومیسی کے بہترین انداز اور شاندار سیاسی بصیرت شامل ہیں۔ جب مسلمانوں نے تمام مادی لوازمات پورے کردیئے تو پھر اﷲتعالیٰ نے فرشتوں کو ان کی مدد کے لئے بھیجا ۔ اور آج کیا صورت ہے؟ آج تم لوگ چاہتے ہو کہ ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے کوئی جدوجہد، کوئی عمل، قومی تعمیر کے کچھ کام نہ کرنا پڑیں۔ بس ایک دن تم لوگ اﷲ سے کہو کہ یااﷲ! بیت المقدس ہمیں واپس دلوادے، کشمیر کو آزاد کروادے اور اﷲ تمہاری کسی کوشش کے بغیر تمہاری فرمائشیں پوری کردیا کرے۔ بے شک اﷲ اس چیز پر بھی قادر ہے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ اﷲ کے بنائے ہوئے ضابطوں کے مطابق نہیں ہے۔
اور سنو! تم کہتے ہو کہ اﷲتعالیٰ تمہاری ذاتی دعائیں قبول کرلیتا ہے اور اجتماعی دعائیں قبول نہیں کرتا۔ تم خود غور کرو۔ اپنی ذاتی ضروریات کی تکمیل کے لئے تم کس قدر مخلص ہو۔ کتنی محنت کرتے ہو۔ اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لئے صبح سے شام، شام سے رات، رات سے صبح تک انتھک محنت کرتے ہو۔ اپنی بہترین ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں صرف کرتے ہو۔ جس شخص میں اپنے کاموں کے لئے جتنا خلوص ہے اور جو کسی کام کے لئے جتنی جدوجہد کرتا ہے اﷲتعالیٰ اُسے اُتنی ہی کامیابیوں سے نوازتا ہے۔ تم خود دیکھ لو۔ اپنی ذات کے لئے تمہاری کوششیں کس قدر ہیں اور اپنی قوم اور اپنی امت کے لئے تمہاری دعائیں کتنی زیادہ اور کوششیں کتنی کم ہیں۔
میں فطرت کی ان باتوں کا کیا جواب دیتا۔ مسجد الحرام کی دیوار کے سایہ تلے آکر چپ چاپ ایک طرف بیٹھ گیا۔