نوعِ انسانی کی علمی ترقی اور ارتقاء

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


نوعِ انسانی کی علمی ترقی اور ارتقاء 

خالقِ حقیقی اور انسان کے درمیان عبد اور معبود کے تعلق اور



سائنس ارتقاء کے نئے نئے مراحل اور منزلیں طے کرتی چلی جارہی ہے۔ دنیا کے ہرخطے میں سائنسی ترقی نوعِ انسانی کے طرزِ معاشرت پر اثر انداز ہوئی ہے۔ نوعِ انسانی کا ہر فرد اس ترقی سے کسی نہ کسی طور متاثر ہوا ہے۔ یہاں ایک سوال یہ سامنے آتا ہے کہ یہ سب کچھ انسانی عقل کا کرشمہ ہے یا انسانی کمال کا حاصل ہے؟ مختلف شعبوں میں تحقیق و جستجو کے ذریعے جو نتائج سامنے آرہے ہیں یہ انسان کی اپنی ایجاد یا اس کی ذاتی تخلیق ہیں؟ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ دراصل اﷲتعالیٰ کی آیات میں غور و فکر، تجسس اور تلاش کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے،
’’آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش، زبانوں (لسانیات) کا فرق اور رنگوں کا فرق اﷲتعالیٰ کی آیات میں ہیں۔ بے شک یہ آیات علم رکھنے والوں کے لئے (غور و فکر کا سامان) ہیں۔
اور اس کی آیات میں سے ہیں بجلی کا چمکنا جو خوف اور امید کا سبب ہے اور آسمان سے پانی برسنا اور پھر اس پانی سے زمین کو اس کے مردہ ہونے تک زندہ رکھنا۔ اس میں عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔
نوعِ انسانی کی علمی ترقی اور ارتقاء اﷲ کی پھیلائی ہوئی کائنات میں، اﷲ کی نشانیوں میں تفکر کا نتیجہ ہے۔ قرآنِ پاک نوعِ انسانی کے ہرفرد کے لئے اﷲتعالیٰ کا پیغام ہے۔ اپنے اس پیغام میں خالقِ کائنات نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی عطا کردی ہے۔
اُمتِ مسلمہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ قرآن ان کی مذہبی کتاب ہے۔ امت کے اس فخر کے علی الرغم جب ہم دیکھتے ہیں کہ جدید تمدنی، سائنسی، صنعتی، اقتصادی اور معاشی ترقی میں مسلمانوں کا کتنا کردار ہے تو ہمیں انتہائی درجے مایوسی اور افسوس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کا اس دور میں کہیں بھی کوئی قابلِ ذکر مقام نہیں ہے۔
معزز قارئین کرام سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
ایک ہوتا ہے قول اور ایک ہوتا ہے عمل یا فعل ۔۔۔۔۔ قرآنِ پاک بحیثیت کتاب کے قول ہے۔ صاحبِ قرآن سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی حیات مبارکہ میں اس قول (قرآن) پر عمل کر کے دکھلایا۔ چنانچہ نوعِ انسانی کے لئے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس زندگی عملی قرآن کی حیثیت رکھتی ہے۔
انسانوں میں جس ہستی کو اﷲتعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ قربت حاصل ہوئی اور جس ہستی نے اﷲتعالیٰ کے ذہن اور ارادے کو بہترین طور پر سمجھا وہ حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ اس محترم ہستی کے چند ارشاداتِ گرامی کے مطالعہ کا شرف حاصل کرتے ہیں۔
’’جس شخص کو اس حالت میں موت آئے کہ وہ علم حاصل کرنے میں مصروف ہوتا کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کو زندہ کردے اس کے اور پیغمبروں کے درمیان بہشت میں فقط ایک درجے کا فاصلہ ہوگا‘‘
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علم کو خود اس کے مقام سے حاصل کرو اور اس کے اہل سے سیکھو کیونکہ خدا کی خاطر علم کا سکھانا خوبی ہے اور علم کا طلب کرنا عبادت، اس کے متعلق بحث کرنا تسبیح، اس پر عمل کرنا خدا کی راہ میں جہاد اور اس کا جاہل کو سکھانا صدقہ ہے۔ علم کا اہلِ دانش پر فیاضی سے خرچ کرنا خدا کی قربت اور نزدیکی ہے‘‘۔
’’جو شخص علم کا خواستگار ہو وہ اس کی مانند ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہو اور رات کو عبادت میں مشغول رہتا ہو‘‘۔
’’انسان اپنے پیچھے جو یادگار اور میراث چھوڑتا ہے وہ صالح فرزند، اچھی عمارات اور آثار اور وہ علم و دانش ہے جس پر لوگ اس کے بعد عمل کریں‘‘۔
نوعِ انسانی کے لئے عملی قرآن اور آج دو صورتوں میں موجود ہے۔ ایک اﷲ کے آخری نبی حضرت محمدمصطفیﷺ کا اسوۂ حسنہ اور دوسرا  اﷲتعالیٰ کی تخلیق کردہ لامتناہی وسعت کی حامل کائنات۔ جس طرح قرآن کا پڑھنا انسانوں کے لئے خیر و فلاح کا سبب ہے اسی طرح کائنات میں جابجا پھیلی ہوئی تخلیقات کا، اس لئے علم حاصل کرنا کہ اس سے مخلوق کو فائدہ پہنچے یہ بھی اﷲ کی خوشنودی اور خیر و فلاح کا ذریعہ ہے۔
اﷲتعالیٰ نے دنیا میں کوئی چیز بلامقصد تخلیق نہیں کی۔ چنانچہ انسان کے لئے ضروری قرار پاتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی تخلیق کا مقصد جانے بلکہ کائنات کی تخلیق کا مقصد بھی تلاش کرے۔ حدیثِ قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
’’میں چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا‘‘۔
اﷲتعالیٰ کی نشانیوں اور تخلیقات کا علم حاصل کر کے اﷲ کی پہچان کرنا ہی مقصدِ تخلیق کی تکمیل ہے اور اﷲتعالیٰ انسانوں سے اس مقصدِ تخلیق کی تکمیل چاہتا ہے۔ اس بات کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں عبادات اور معاملات وغیرہ پر تقریباً ڈیڑھ سو آیات ہیں جب کہ اﷲ کی نشانیوں پر غور و فکر اور اﷲ کی تخلیقات کا علم حاصل کرنے سے متعلق تقریباً ساڑھے سات سو آیات موجود ہیں۔ یہ بات پہلے بھی بیان کی جاچکی ہے کہ قرآن پاک محض کسی ایک قوم کے لئے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ قیامت تک دنیا میں آنے والی نوعِ انسانی کے تمام افراد کے لئے ذریعہ ہدایت ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اپنی نشانیوں میں تفکر کرنے کی دعوت کسی ایک مخصوص قوم کو نہیں دی بلکہ تمام انسانوں کو اﷲتعالیٰ نے عمل کی جانب راغب کیا ہے ۔ لہٰذا جو افراد یا اقوام فکر و تجسس کی راہ میں قدم رکھیںگی، قدرت کا تعاون انہیں حاصل ہوجائے گا۔ قرآن کی وہ آیات جن میں کہا گیا ہے کہ اﷲ کی آیات میں علم رکھنے والوںکے لئے عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں، ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں۔ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ان میں مسلمانوں کے لئے نشانیاں موجود ہیں بلکہ اربابِ عقل کے لئے نشانیوں کی موجودگی کا ذکر کیا گیا ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی قوم، نسل یا گروہ سے ہو۔
اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی حالت ایک پسماندہ اور بے شعور قوم کی سی ہے۔ غیر مسلم اقوام مسلمانوں پرغالب ہیں۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ یہ غلبہ کیوں ہے؟۔۔۔۔۔ اس کے جواب کے لئے بھی قرآن پاک ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
ایک صبح نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی ہے۔۔۔۔۔ ہلاکت ہو اس پر جو اسے پڑھے اور غور نہ کرے۔ اس پر دوبارہ اور سہ بار ہلاکت ہو۔ وہ آیت یہ ہے،
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کا بدلنا اور کشتی جو دریا میں لوگوں کے لئے فائدے لے کر چلتی ہے اوروہ جو اﷲ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے زندگی بخشی اور زمین میں ہرقسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور بادل جو کہ آسمان و زمین کے بیچ حکم کے تابع ہیں، ان میں نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لئے‘‘۔ (سورہ ٔ بقرہ 164 )
جس طرح اﷲتعالیٰ کی آیات میں غور و فکر کرکے اور اس کی تخلیقات کا عمل حاصل کر کے قدرت کا تعاون حاصل ہوتا ہے بالکل اسی طرح اﷲتعالیٰ کی نشانیوں سے اعراض برتنا یا اسے نظر انداز کردینا اﷲ تعالیٰ کی جانب سے نظر انداز ہونے کا اور اس کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔
سورۂ یوسف کی آیت 105 میں ارشاد ہے:
’’آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی ایسی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ دھیان دیئے بغیر گزر جاتے ہیں‘‘۔
اس آیت میں اﷲتعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ قدرت نے تو اپنی نشانیاں جگہ جگہ بکھیر دی ہیں لیکن لوگ ان پر دھیان نہیں دیتے۔ سوال یہ ہے کہ لوگ دیکھنے کے باوجود دھیان کیوں نہیں دیتے؟ اس کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے اندر جاننے، جستجو کرنے اور حاصل کرنے کا پیٹرن ہی ختم ہوچکا ہے۔
اﷲ کی نشانیوں میں تفکر کا مطلب ہر گز صرف یہ نہیں ہے کہ ان نشانیوں کی زبانی کلامی تعریف کردی جائے۔ تفکر کا مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کی تخلیقات کا علم حاصل کیا جائے۔ جو لوگ یہ علم حاصل کرلیتے ہیں اور اس علم کو نوعِ انسانی اور دیگر مخلوق کے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں، قدرت کا تعاون انہیں حاصل ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ جو افراد یا قومیں اس سے اغماض یا پہلو تہی کرتی ہیں وہ اﷲتعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے محروم ہوجاتی ہیں۔
اﷲتعالیٰ ایسے لوگوں اور اقوام کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کیا یہ لوگ آسمانوں اور زمین میں اور جو کچھ اﷲ نے بنایا ہے اس کی تخلیق پر غور نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی موت قریب آگئی ہے‘‘۔
اﷲتعالیٰ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرنے اور اﷲ کی توحید کا اقرار اور صاحبِ قرآن سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رسالت کو تسلیم کرنے کے بعد مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے احکامات کی پابندی کریں اور اﷲتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ بعض مذہبی دانشوروں کی کوتاہ بینی اور ان کے غلط یا غیر حقیقی رویئے سے امت کی رہنمائی کا فریضہ احسن طریقے سے پورا نہیں ہوا اور قوم تفرقوں میں بٹ گئی۔ جسمانی عبادات پر تو بہت زور دیا گیا لیکن عبادات کی روح اور حکمت پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب بے روح جسم بنا دیا گیا اور قرآن کی ساڑھے سات سو سے زیادہ آیات جو اﷲ کی نشانیوں کا علم حاصل کرنے کا حکم دے رہی ہیں، وہ نظر انداز ہوگئیں۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا دنیا کے امور اور معاملات میں مثبت کردار رفتہ رفتہ ختم ہوگیا اور پوری قوم غیر مسلموں کی دست نگر اور محتاج ہوگئی۔ زوال اور محتاجی کی اس کیفیت کے بارے میں اﷲ اور اﷲ کے رسولﷺ نے ہمیں پہلے سے خبردار کردیا ہے۔
’’اے لوگو! وہ چاہے تو تم (سب) کو لے جائے اور دوسروں کو لے آئے اور اﷲ اس بات پر قادر ہے‘‘۔
’’یہ اس سبب سے ہے کہ اﷲ کسی نعمت کو جس کا انعام کسی قوم پر کرچکا ہو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اس کو تبدیل نہ کردیں جو کچھ ان کے پاس ہے۔ بے شک اﷲ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ (سورہ انفال 53)
’’اگر تم رو گردانی کرو گے تو اﷲ تمہاری جگہ دوسری قوم لے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔ (سورۂ محمد38)
آج مسلمان قرآن کے بڑے حصے پر عمل چھوڑ کر محض اپنے اسلاف کے کارناموں کے ذکر پر اور گزشتہ دنوں کی سہانی یادوں پر تکیہ کئے منتظر ہیں کہ غیب سے کوئی بندہ ظاہر ہو اور ماورائی طاقت استعمال کر کے مسلمانوں کو محنت اور کوشش کے بغیر امامت کے منصب پر فائز کردے۔ لیکن یہ توقعات یا خواہشات اس لئے پوری ہوتی نظر نہیں آتیں کہ ایسا ہونا اﷲتعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود (محنت و مشقت کر کے اور اﷲ کی تخلیقات کا علم حاصل کر کے ، اﷲ کی مخلوق کے لئے مفید بن کر) اپنی حالت نہ بدلنا چاہے۔ اﷲتعالیٰ کے دیئے ہوئے قوانین اور اصولوں پر عمل کر کے دنیا میں دوبارہ عروج اس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی تن آسانی، سہولت پسندی اور غلط زاویہ نگاہ سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اﷲتعالیٰ کے حضور اظہارِ ندامت اور توبہ کریں اور پوری تندہی، خلوصِ نیت اور انتھک جدوجہد کے ذریعے اﷲتعالیٰ کی مرضی و منشاء کے مطابق عمل کرنے والے بن جائیں۔ قرآن بشارت دیتا ہے کہ:
’’جو لوگ جلد ہی سنبھل جاتے ہیں اﷲتعالیٰ ان کی گزشتہ خامیوں کو نظر انداز کردیتا ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ دوبارہ کامیابیوں کی جانب اپنے سفر کا آغاز کس طرح کرسکتی ہے اور پسماندگی کے داغ کو کیسے دھو سکتی ہے۔ ہماری تمام تر کوتاہیوں، غلط اور قحط الرجال کے باوجود یہ اﷲ کا خصوصی کرم و فضل ہے کہ امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والے صاحبان بصیرت اور اہلِ فکر و نظر سے مکمل طور پر خالی نہیں ہوئی ہے۔ ان سعید لوگوں میں سے ایک دورِ حاضر کی عظیم روحانی ہستی حضور قلندر بابا اولیائؒ فرماتے ہیں:
’’موجودہ دور کے مفکر کو چاہیے کہ وہ وحی کی طرزِ فکر کو سمجھے اور نوعِ انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے جسمانی وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ نوعِ انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہوسکے۔ اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں جن کا مخرج توحید اور صرف توحید ہے اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کر کے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کرسکے تو وہ اقوامِ عالم کو وظیفۂ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کرسکتے ہیں اور وہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ کیوں کہ مستقبل کے خوفناک تصادم چاہے وہ معاشی ہو یا نظریاتی، نوعِ انسانی کو مجبور کردیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت لگا کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سوال کسی نظامِ حکمت سے نہیں مل سکتے‘‘۔



[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، فروری 2003ء ]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے