علم کیا ہے؟ ۔ قلم کیا ہے؟

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


علم کیا ہے؟ ۔  قلم کیا ہے؟

خالقِ حقیقی اور انسان کے درمیان عبد اور معبود کے تعلق اور
انسان اور کائنات کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو سمجھنے کی شاہ کلید (Master Key)



اہلِ ایمان کے لئے اس فانی زندگی میں ابدی سعادتوں کی بارش برسانے والا، رحمتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ایک بار پھر سایہ فگن ہے۔ اہلِ ایمان کو رمضان کی مقدس ساعتیں مبارک ہوں۔
اﷲ کے آخری رسول محمدﷺ کے نزدیک اس مہینہ کے شب و روز کی علیحدہ شان اور اہمیت ہے۔ شعبان کی آخری تاریخوں میں ایک روز نبی کریمﷺ نے مسجد نبویﷺ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :
’’لوگو! ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے کہ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں اﷲ کے آخری رسول محمدﷺ کے قلبِ اطہر پر قرآن نازل ہوا۔
شہر رمضان الّذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینت
من الھدے والفرقان فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ ط
ترجمہ: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ جس میں لوگوں کے لئے رہنمائی ہے۔ ہدایت کی واضح نشانیاں ہیں۔ جو حق و باطل کو الگ کرنے والا ہے۔ تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ پورے مہینے روزہ رکھے‘‘۔
مبارک و منور ساعتوں والی وہ رات جس میں نزولِ قرآن  کا آغاز ہوا  لیلۃ القدرقرار پائی۔

انا انزلنہ فی لیلۃ القدرO

 بے شک ہم نے اس کو شب قدر میں نازل فرمایا
یہاں ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ شب قدر کا مطلب کیا ہے۔ قرآن خود ہی یہ سوال قائم فرماتا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیتا ہے۔

وما ادراک مالیلۃ القدرO

 اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے
لیلۃ القدر خیر من الف شہرO (یہ رات) شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے
شب قدر کی مبارک ساعتوں میں غارِ حرا میں نزول قرآن کا آغاز ہوا۔ اﷲتعالیٰ کے مقرب فرشتہ   جبرائیل علیہ السلام اﷲ کا پیغام لے کر اﷲ کے آخری نبی محمدﷺ کے پاس آئے اور نوعِ انسانی کے لئے رہتی دنیا تک کے لئے ہدایت و کامرانی کے فارمولوں پر مشتمل دستاویز کا آغاز ان آیات سے ہوا۔

اقراء باسم ربک الذی خلق O خلق الانسان من علقO اقرا وربک الاکرمO
الذی علم بالقلمO علم الانسان مالم یعلمO 

ترجمہ: پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا، اور انسانوں کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔
قرآن اﷲ کا کلام ہے۔ جو اس نے نوع انسانی کے لئے اپنے محبوب ترین بندہ محمدﷺ کے ذریعہ نازل فرمایا۔ جن ساعتوں میں اس کے نزول کا آغاز ہوا  ان کی شان یہ ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہیں۔ اس وقت جو آیات نازل ہوئیں ان میں پڑھنے کا، اﷲتعالیٰ کی ربوبیت، انسان کی تخلیق، اﷲ کی شانِ کریمی، علم اور قلم کا تذکرہ ہے۔
یہ علوم کیا ہیں اور قلم کا کیا مطلب ہے؟۔۔۔۔۔
صوفیاء کی تعلیمات سے حاصل ہونے والی فہم و دانش کے مطابق یہاں علم کا مطلب دراصل اﷲتعالیٰ کا ارادہ اور اﷲ تعالیٰ کی مشیئت ہے۔ یہ ساری کائنات، آسمان، زمین، فرشتے، جنات، انسان، چرند، پرند، نباتات و جمادات۔ ان میں پائے جانے والے تمام نظام، تقاضے مثلاً پیدائش، بھوک پیاس، بڑھوتری، بقائے نسل وغیرہ اور تمام جذبات مثلاً محبت، نفرت، پیار، غصہ، مسابقت وغیرہ۔۔۔۔۔ سب اﷲتعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں۔ ان سب چیزوں کے بارے میں جاننا اور سمجھنا علم کے دائرہ میں آتا ہے۔
زندگی کے مختلف تقاضوں کی تکمیل کے لئے اﷲتعالیٰ نے ہر نوع کو حسبِ ضرورت علم عطا کیا ہے۔ مثلاً مچھلی کو زندگی گزارنے کے لئے ضروری دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ پانی میں تیرنے کا علم ودیعت کردیا گیا ہے۔ اسی طرح پرندوں کو فضاء میں اُڑنے کا علم ودیعت کردیا گیا۔ اﷲتعالیٰ نے فرشتوں کو علم عطا کیا، جنات کو علم عطا کیا ان کے بعد انسان کو علم عطا کیا۔ مگر انسان کو فرشتوں اور جنات سے بہت زیادہ علم عطا کر کے فضیلت عطا فرمادی۔ فضیلت دلوانے والا یہ علم کیا ہے۔ یہ اﷲتعالیٰ کا عطا کردہ وہ علم ہے جسے علم الاسماء کہا جاتا ہے۔ اسی علم کی وجہ سے انسان کو اﷲ کا نائب اور مسجود ملائک ہونے کا شرف ملا ہے۔
علم الاسماء کیا ہے۔ یہ کائنات کے ایک ایک ذرّہ، ایک ایک فرد، ایک ایک نوع، زمین، آسمان، ستاروں، نظام ہائے شمسی، کہکشاؤں میں جاری و ساری اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ صفات کا علم ہے۔ جو کچھ اس کائنات میں ہورہا ہے۔ سب کا سب اﷲتعالیٰ کے ارادہ کا مظہر یا Display ہے۔ یہاں کوئی چیز کوئی عمل اﷲتعالیٰ کے احاطہ علم اور قدرت سے باہر نہیں ہے۔ ہر چیز کی فطرت اور مقدر اﷲتعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ ہے۔
علم الاسماء کی کئی جہتیں ہیں۔ مثلاً ایک درخت ہے۔ اس میں پھول اور پھل آتے ہیں۔ ایک درخت بیج سے کونپل، کونپل سے پودا، پودے سے درخت بننے تک جن جن مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ سب علم ہے۔ درخت میں یہ تمام مراحل کس کس وقت اور کس طرح طے ہوتے ہیں یہ معلوم  کرنا اس علم کی تفہیم ہے۔
کسی چیز کا ہونا علم ہے اور کسی چیز کے بارے میں جاننا، اُسے دریافت کرنا، اس میں تصرف کرلینا یہ سب کے سب ’’قلم‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ سیکھنے، تسخیر کرلینے اور تصرف کرلینے کا ہر عمل ’’قلم‘‘ کے دائرہ میں آتا ہے۔ معروف معنوں میں پین (Pen) ہو یا پینسل، ٹائپ رائٹر ہو یا کمپیوٹر یا آئندہ وقتوں میں سامنے آنے والی کچھ اور چیزیں یہ سب بنیادی طور پر قلم کے زمرہ میں آتی ہیں۔ سیکھنے کا عمل اور سکھانے کے تمام آلات۔علم کی تشریح، تجزیہ، ترتیب و تدوین کے تمام کام ’’قلم‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔
انسان کو سیکھنے اور سکھانے کی خاص صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں۔ ان معاملات میں انسان فرشتوں اور جنات سے بہت آگے ہے۔ ان سارے کاموں کی انجام دہی کے لئے انسان کے وجود کو خاص صلاحیتوں سے بہرہ مند کرنا ضروری تھا چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کی ساخت ایسی بنائی کہ ان تمام تقاضوں کی بہتر سے بہتر تکمیل ہوسکے۔
لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویمO اور ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا
یہاں بہترین صورت سے مراد انسان کی جسمانی ساخت اور اس کا ناک نقشہ ہی نہیں ہے بلکہ انسان کی   تمام تر ذہنی اور روحانی صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔ تخلیق کے طویل اور پیچیدہ مراحل سے گزر کر انسان اس قابل ہوسکا کہ اﷲتعالیٰ کی امانت اور اﷲ تعالیٰ کی نیابت کے فرائض سنبھال سکے۔
بہ ترتیب نزول قرآن کی ابتدائی آیات میں ہی انسان کی تخلیق، اس کے شرف، علم کے حصول اور اس پر اﷲ تعالیٰ کے انعام و اکرام کا ذکر بڑا معنی خیز اور فکر انگیز ہے۔ ان آیات میں تفکر سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ   سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات دراصل خالقِ حقیقی اور انسان کے درمیان عبد اور معبود کے تعلق اور انسان اور کائنات کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو سمجھنے کی شاہ کلید (Master Key) یا Password ہیں۔
ان پاس ورڈز کو سمجھنے یا اس ماسٹر کی کو بروئے کار لانے کے لئے ایک خاص اہلیت درکار ہے۔ یہ اہلیت صاحب قرآن حضرت محمدﷺ کی تعلیمات اور طرز فکر کے تحت قرآن میں تفکر کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ جو افراد یا جو قومیں قرآن کے حقیقی فہم سے رہنمائی اور ہدایت حاصل کر کے قدم اُٹھاتی ہیں کامیابی ان کے راستہ میں آنکھیں بچھائے کھڑی ہوتی ہے۔ یہ کوئی خوش عقیدگی پر مبنی دعویٰ نہیں۔ اس حقیقت کی گواہی سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
سب سے پہلی گواہی دورِ نبویﷺ سے ملتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے قرآن پر عمل کر کے مختلف قبائل میں منتشر لوگوں کو جن میں بہت سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی تھے ایک ملتِ واحدہ کی شکل میں منظم کیا۔ گنوار ان پڑھ قبائل نے جب قرآنی تعلیمات سے اپنی زندگیوں کو سنوارا تو دنیا نے اپنی امامت کا تاج انہیں پیش کردیا۔ قرآن سے حاصل ہونے والی رہنمائی، روشنی اور ہدایت کی بدولت ایک شاندار اور مستحکم تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑی۔ اسلامی تہذیب و تمدن سے متاثر ہو کر دنیا بھر کی اقوام ایک ہزار برس تک حاملانِ قرآن کی پیروی اپنے لئے باعث افتخار سمجھتی رہیں۔ قرآن کی بدولت انسانی معاشروں کو علم کی اہمیت سے آشنائی ہوئی۔ قرآن پر عملدرآمد سے انسانی معاشروں کو انصاف اور امن میسر آیا۔ قرآنی احکامات کی تعمیل میں اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں غور و فکر کرنے سے علوم کو فروغ حاصل ہوا۔ مسلمانوں کی جانب سے فروغِ علم کی سرپرستی کے باعث علوم طبیعیات (فزکس) کی نئی نئی شاخیں پھوٹیں۔ اس عمل سے تہذیب انسانی کو ارتقاء حاصل ہوا۔
مدینہ منورہ میں مسلم تہذیب و تمدن اور اسلامی ریاست کی بنیاد پڑی۔ یہاں سے ترقی اور کامیابی کا جو سفر شروع ہوا وہ تقریبا ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ مسلمان ایک ہزار سال تک ایک سپر پاور کی حیثیت سے دنیا پر حکمران رہے۔ لیکن پھر۔۔۔۔۔ پھر مسلمانوں پر زوال آنا شروع ہوا۔ قوت و اقتدار، عزت و سربلندی کی حامل قوم ٹکڑیوں میں بٹ کر ذلت و غلامی کے گڑھوں میں گرنے لگی۔ ایک ہزار سال تک بامِ عروج پر رہنے والی قوم ذلت و پستیوں میں کیوں گرنے لگی؟۔۔۔۔۔ جواب کے لئے کسی گہری تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ جواب سادہ اور واضح ہے۔
جب تک اس امت نے قرآن سے تعلق قائم رکھا اور قرآن سے ہدایت حاصل کرتی رہی اسے          ترقی وکامیابی حاصل رہی۔ جب اس امت نے قرآن سے عملاً لاتعلقی اختیار کرلی اور اسے محض دعا و تعویذ کے لئے، گھر میں برکت یا ایصالِ ثواب کے لئے پڑھنے لگی، اجتماعی معاملات میں قرآنی احکامات سے چشم پوشی یا انحراف کیا جانے لگا تو امت ایک بار پھر منتشر لو گوں کے گروہ کی طرح ہوگئی۔ آج ہمارا کیا حال ہے؟۔۔۔۔۔ ہم اپنے اسلاف کی کامیابیوں، ان کے قوت و اقتدار کے تذکروں سے بھرے ہوئے تاریخ کے صفحات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم ایسے تھے، ہم ویسے تھے، یورپ نے علم ہم سے سیکھا۔ دنیا کو تہذیب ہم نے سیکھائی، یہ ساری باتیں سچ ہیں لیکن یہ سچ ماضی کا حصہ ہے۔ حال کی حقیقت یہ ہے کہ ہم علمی، اقتصادی، سماجی، سیاسی ہر شعبہ میں اہل یورپ سے مرعوب و متاثر ہیں اور ان کی تقلید کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے اپنے تابناک ماضی کو بھی یاد کرتے جاتے ہیں۔ لیکن صرف ماضی کے ذکر سے ہماری آج کی محرومیاں ختم نہیں ہوجائیںگی۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اسلاف نے اس دنیا میں کامیابیاں کس طرح حاصل کی تھیں؟ ان کی کامیابیوں کا راز قرآن کی پیروی میں پنہاں تھا۔ قرآن آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ قرآن سے استفادہ اور رہنمائی کے لئے نبی کریمﷺ کی تعلیمات سے بھی ہم واقف ہیں۔ تو پھر کمی کیا ہے؟۔۔۔۔۔ کمی عزم اور عمل کی ہے۔
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کرنے کا عزم درکار ہے۔   تعلیماتِ نبویﷺ کے مطابق قرآن پر عمل کرنے کا عزم درکار ہے۔ رمضان کا مہینہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے، روزوں کا مہینہ ہے،رحمتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے۔ صبر اور ایثار اور انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے۔ اپنی حالتِ زار پر غور کرنے کے لئے اس مہینہ میں میسر ماحول سے بہتر ماحول اور کون سا ہوسکتا ہے۔
آیئے اس رمضان میں روزہ، نماز، تراویح، زکوٰۃ، خیرات کی ادائیگی کے ساتھ ہم سب مل کر اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں، ان غلطیوں پر اﷲتعالیٰ سے معافی مانگیں۔ اپنی اصلاح کریں۔ قرآن اوراسوۂ حسنہ ﷺ سے رہنمائی اور اکتسابِ فیض کے لئے کوئی پروگرام ترتیب دیں۔ قرآن کا ہم پر یہ حق ہے کہ اسے پڑھا جائے سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حیثیت میں نگراں اور ذمہ دار ہے۔ باپ اپنے گھر کا نگراں اور جوابدہ ہے۔ ماں اپنی اولاد پر نگراں اور جوابدہ ہے۔ گھر جہاںخاندان رہتا ہے بہت بابرکت جگہ ہے۔ کیوں نہ ہم میں سے ہرایک اپنے گھر سے قرآن سے عملی تعلق کی بحالی کا پروگرام شروع کردے۔ باپ اس پروگرام کا نگراں بنے اور ماں اس کی معاون۔ کہیں ماں نگراں بنے اور باپ معاون اور سب مل کر خود کو اور اپنے بچوں کو قرآن کے نور سے، تعلیماتِ نبویﷺ کے نور سے منور کرنے میں لگ جائیں۔ اگر ہم اس سال سے اس بابرکت کام کا آغاز کریں تو ہمارے لئے یہ سال دوہری خوشیوں کا باعث بنے گا ایک رمضان کی آمد کی خوشی دوسرے قرآن کی برکتوں کے نزول کی خوشی۔

اقراء باسم ربک الذی خلق O 



[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، نومبر 2002ء ]

[ کتاب حق الیقین، صفحہ 71-76]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے