ایک عظیم نعمت
آج دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں اور معاشروں کو متاثر کرنے والے دنیا کے ممتاز ترین افراد (جن میں سیاستدان، دانشور، شاعر، فنکار، مختلف علوم وفنون کے ماہرین، سماجی شعبوں کے نمایاں افراد، مذہبی لیڈران کرام ودانشور وغیرہ شامل ہیں) کی ایک عمومی لسٹ کا مطالعہ کریں تو اس میں کسی نامور مسلمان کا نام شاید ہی ڈھونڈنے سے ملے۔ چنانچہ یہ افسوسناک صورتحال ہمارے سامنے آتی ہے کہ آج عالمی سطح پر علوم وفنون یا سماجی ومذہبی شعبوں میں کوئی معروف مسلم شخصیت موجود نہیں ہے۔ سیاسی یا سماجی لحاظ سے صرف مشہور ہوجانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اصل بات یہ ہے کہ علمی لحاظ سے کس شخصیت کا کتنا کنٹری بیوشن ہے یا عالمی سطح پر سماجی طور پر کوئی شخصیت کس قدر موثر حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمان چند ایک مستثنیات کے علاوہ دنیا کے تقریباً ہر شعبہ میں مغرب کے مقلد بنے ہوئے ہیں۔ ایک ستم ہم نے اپنے آپ پر یہ ڈھایا ہے کہ ہم ایک طرف مغرب کے سامنے انتہائی شدید مرعوبیت کا شکار ہیں تو دوسری طرف ہادیٔ برحق صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے عطاکردہ سنہری اصولوں اور راہِ عمل سے سرتاپا اِنحراف کی روش پر گامزن ہیں۔ اس طرح ہم آج کی دنیا میں اپنا ایک اعتبار اور بھرم قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ مغرب میں اسلام کے خلاف متعصبانہ رویہ رکھنے والا طبقہ، اپنے عوام کو اسلام کے خلاف ورغلانے کے لئے موجودہ دور کے مسلمانوں کے طرزِفکر و عمل کو ہی بنیاد بناتا ہے۔ ایسے کئی رسوم ورواج جن کا دینِ اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں، بلکہ جن رسومات اور بے بنیاد اعتقادات سے نوع انسانی کو حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے نجات دلائی، آج کے دور میں مسلم معاشرے میں پورے زور وشور سے رائج ہیں۔ یہ عوامل اسلام مخالف مغربی طبقہ کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کے لئے مواد فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین کے حقوق کی پامالی، لڑکیوں کی تعلیم کو بُرا سمجھنا یا کم تعلیم دلوانا، عقیدہ یا مسلک کی بناء پر قتل وغارت گری، امتیاز پر مبنی قوانین کا نفاذ، قول وفعل کا تضاد وغیرہ۔ مندرجہ بالا چند وجوہات کی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ غیر مسلم معاشروں کے عوام کو اسلام کے قریب لانے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ خود مسلمانوں کا طرزِ فکر وعمل ہے۔ انسانِ کامل حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی انسانی تاریخ میں سب سے منفرد اور موثر ترین مقام کی حامل ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اﷲ کا پیغام انسانوں تک پہنچایا اور اس طرح پہنچایا کہ اس کا پورا پورا حق ادا کردیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے عطا کردہ نظام اور اصولوں کو اختیار کرکے ایک فرد اپنی زندگی میں سہولت، اطمینان اور سکون حاصل کرتا ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کا عطاکردہ نظامِ معاشرت اختیار کرکے انسانی معاشرہ امن وخوشحالی، تحفظ اور توازن وہم آہنگی سے بہرور ہوسکتا ہے۔ توازن اور ہم آہنگی کا مطلب ہے کہ انسانی معاشرہ کو تشکیل دینے والے تمام طبقات کے درمیان اعتدال وتوازن کے ساتھ ہم آہنگی۔ اس بات کی مزید وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ معاشرہ تشکیل دینے والے تمام ارکان یعنی مرد وعورت، خاندان، مختلف پیشہ ورانہ گروہ، مختلف سماجی گروہ مثلاً نوجوان طالب علم، تخلیق کار وغیرہ وغیرہ ان میں سے ہر ایک کے حقوق کا تحفظ اور فرائض کا تعین اس طرح کردینا کہ یہ عمل ایک خوبصورت اعتدال وتوازن کو جنم دے اور جس طرح کائنات کے ارکان یعنی سورج، ستارے، چاند، زمین اور زمین پر مختلف مخلوقات نظامِ فطرت میں اعتدال کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کرکے ایک خوبصورت ہم آہنگی کا سبب بنے ہوئے ہیں، اسی طرح انسانی معاشرہ کے تمام ارکان وطبقات مل کر اعتدال وتوازن کے ساتھ اپنی اپنی ضروریات وخواہشات کی تکمیل کرتے ہوئے ایک خوبصورت امتزاج اور ہم آہنگی کو جنم دیں۔ معاشرہ کا کوئی شخص یا طبقہ دوسرے کو نقصان پہنچاکر اپنا فائدہ حاصل نہ کرے بلکہ دوسرے کو تعاون اور فائدہ پہنچاکر اپنے لئے فائدہ حاصل کرے۔ مندرجہ بالا خصوصیات اﷲ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے عطاکردہ نظامِ معاشرت کا انتہائی درجہ قابل قدر اور منفرد حصہ ہیں۔ جو نظام آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے پیش کیا اور فکر وعمل کے جو در آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے وا کئے ان کی مثال نہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے پہلے نوعِ انسانی کے پاس تھی نہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے بعد اب تک اس سے بہتر کوئی نظام پیش کیا جاسکا ہے۔ یہ بات میں نے عقیدتاً نہیں لکھی ہے۔ دنیا کے غیر جانبدار اور غیر متعصب حتیٰ کہ جانبدار اور متعصب دانشور بھی محمد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی کے اس احسانِ عظیم کا اعتراف کرتے ہیں۔ حضرت محمدصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کا عطاکردہ نظام آج دنیا کو درپیش پیچیدہ اور سنگین مسائل (جن میں نوع انسانی کی بقا کا مسئلہ بھی شامل ہے) واحد حل ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ دنیا ایک عظیم نعمت میسر ہونے کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اُٹھا رہی۔ اس کا جواب میری نظر میں یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری خود مسلمان معاشرے کے سرکردہ افراد وطبقات پر عائد ہوتی ہے۔ موجودہ دور کے مسلمان، اقوام عالم کے لئے خیر سگالی وخیر خواہی پر مبنی افکار کی وسیع پیمانے پر اشاعت اور اپنے طرزِ عمل کے بنیاد پر دینِ اسلام کو عالمی امن وسلامتی اور انسانوں کی ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس بعض متعصب غیر مسلم طبقات نے مسلمانوں کو ایک پُرتشدد، ترقی اور بنیادی انسانی حقوق کی مخالف قوم کے طور پر پروجیکٹ کیا، لیکن مسلمانوں کی جانب سے اس مہم کا مقابلہ حکمت وتدبّرسے کرنے کے بجائے کچھ اس اندازسے کیا گیا کہ اسلام مخالف طبقات نے اسلام کو مغرب کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دے کر اپنے عوام کے ذہنوں کو مسموم کرنا شروع کردیا۔ مسلمان معاشروں میں پچھلے سو دو سو سالوں میں یقینا ایسی کئی ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوںنے معاشرہ پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے لیکن یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اُن شخصیات میں سے کسی کو اسلام یا مسلمانوں کے مفاد میں عالمی سطح پر نمایاں کرنے کی خود مسلمانوں کی جانب سے کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس یہودیوں نے آج سے سو سال قبل اپنی بقاء اور عالمی سطح پر اثر ورسوخ کے حصول کے لئے ایک پلان ترتیب دیا اور یکسوئی اور اتحاد سے اس پلان پر عمل کرنے کے نتیجہ میں عالمی آبادی میں انتہائی کم تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جبکہ مسلمان، دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہونے کے باوجود علمی لحاظ سے، ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اور معاشی لحاظ سے غیر مسلموں کے محتاج اور دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مسلم قوم پچھلے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے ایک طرح کے احساس شکست وریخت میں مبتلا ہے۔ اس احساس نے مسلم قوم کو شدید درجہ مرعوب کردیا ہے۔ مسلم معاشرہ میں کئی قدآور شخصیات منظرعام پر آتی رہیں۔ لیکن توحید کا پیغام موثر انداز میں نہیں دیا گیا۔ اسلام کے پیروکار قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں کرسکے۔ بلکہ وہ خود مسلک کے نام پر انتشار کا شکار ہوتے گئے۔ زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات پر اجتماعی غور وفکر نہیں ہوا، اسلام پر عمل کرنے کے لئے چند ظاہری رسومات کو اہمیت اور اوّلیت دے دی گئی قرآن پاک اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی تعلیمات میں پنہاں حکمتوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس طرح مسلم اُمہ فروعات کے جنگل میں گم ہوگئی۔ غیر مسلم اقوام میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کا ابلاغ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ توحید ورسالتؐ کا پیغام ہمارے پاس امانت ہے۔ اسلام کے اصولوں پر چلنا فطرت کے اصولوں پر چلنا ہے، انسان کی تخلیق جس فطرت پر ہوئی ہے اسلام اس کے تقاضوں سے پوری طرح واقف ہے۔ لیکن مقام افسوس وحسرت ہے آج مسلمان کا اسلام صرف زبان وکلام تک محدود ہوگیا ہے۔ آج کا مسلمان نورِ نبوت اور نورِ الٰہی کے فیضان سے تہی دست نظر آتا ہے۔ مسلمان عملی اور فطری تعلیمات سے دور ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ سمجھ نہیں پارہا کہ موجودہ دور اِبتلا سے باہر نکلنے کے لئے کس طرح کی تدابیر اختیار کی جائیں اور اسلام کے فروغ کے لئے کس طرح کی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ناکامی کس کی ہے؟۔۔۔۔۔ کیا یہ مسلمانوں کی ناکامی ہے؟۔۔۔۔۔ یا یہ اسلام کی ناکامی ہے؟۔۔۔۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ناکامی اسلام کی ناکامی تو بہرحال کسی بھی طرح نہیں ہے لیکن یہ حقیقی مسلمانوں کی ناکامی بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو پھر یہ کس کی ناکامی ہے؟۔۔۔۔۔ دراصل بات تو کافی تلخ ہے لیکن کہے بغیر چارہ نہیں۔۔۔۔۔ یہ اُن لوگوں کی ناکامی ہے جو نسلی، خاندانی اور ثقافتی طور پر صرف نام کے مسلمان ہیں اور جن کی اکثریت اسلام کے ٹھیکیداروں اور فرقہ پرست ملائوں کے زیرِ اثر تفرقوں میں بٹ گئی ہے۔ آج کا مسلمان قرون اُولیٰ کے مسلمان سے کتنی نسبت رکھتا ہے؟۔۔۔۔۔ محض زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے اسلام کے تمام تقاضے پورے نہیں ہوجاتے۔ اسلام کا اقرار اﷲ کی وحدانیت کا اقرار ہے۔ اﷲ کے سوا دوسرے تمام جھوٹے خدائوں کے وجود سے عملی انکار کا اعلان ہے۔ خواہ یہ خدا بت کی شکل میں کسی بت خانے میں ہوں یا دولت پرستی، جاہ پرستی اور تکبر وغرور کی شکل میں دل کے صنم خانے میں سجائے گئے ہوں۔ آج کے دور کے مسلمان ایک بار پھر دنیا کے لئے ہدایت، امن وسلامتی اور تہذیبی ترقی کا سبب بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ دین اسلام کو اپنے اوپر اپنی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی مرضی کے مطابق نافذ کریں۔ وہ رحمۃ اللعالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اُسوہ پر عمل پیرا ہوں۔ ان کا وجود دنیا کے لئے سود مند ہو، وہ اپنے اندر خودی اور خودداری پیدا کریں اور ہر لحاظ سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ یہ ایک محنت طلب کام ہے۔ سہل پسند اقوام اس میدان میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتیں۔ اسلام کی دعوت سچائی اور سلامتی پر مبنی ہے یہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے اﷲ کا عطاکردہ نظام اور راہِ عمل ہے۔ یہ ایسی راہِ عمل ہے جو دنیا میں بھی ترقی وخوشحالی اور کامیابی عطا کرتی ہے اور آخرت (جو انسان کی حقیقی منزل ہے) کی کامیابی کے راستے پر بھی لے جاتی ہے۔ اسلام ہمیشہ باقی رہنے کے لئے اس دنیا میں آیا ہے۔ چنانچہ موجودہ دور کے مسلمانوں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اسلام کے حوالے سے اپنے اوپر عائد فرائض کی تکمیل کے لئے خود کو مکمل طور پر تیار کریں۔ اگر آج کے موروثی مسلمان اس فرض کی انجام دہی میں ناکام رہے تو کوئی بعید نہیں کہ اﷲ تعالیٰ خود غیر مسلم اقوام میں سے کچھ لوگوں کو ہدایت عطا فرمادے اور وہ لوگ دنیا کو اسلام کی سچائیوں سے آگاہ کرنے کی اور بھٹکی ہوئی انسانیت کی رہنمائی کی سعادت سے بہرہ مند ہوں۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت آواز دے دے کر لوگوں کو اپنی طرف بلارہی ہے۔ بڑی بدبختی ہوگی اگر مسلم قوم نسلی مسلمان ہونے کے غرور میں مبتلا رہتے ہوئے سماعت رکھنے کے باوجود اس آواز پر کان نہ دھرے۔ ایک نامور مسلم دانشور سیّد سلیمان ندوی نے ایک بار لکھا تھا ’’اگر آج کلمہ گو مسلمان میں اس ادائے فرض کے سپاہی بننے کا ولولہ نہیں تو کیا عجب کہ اﷲ تعالیٰ کسی اور قوم کو زندگی کے میدان میں لائے اور اس سے اسلام کا یہ فرض ادا کرائے‘‘۔