کلمہ طیبّہ
یہ سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی کی وہ تحریر ہے جو اُنہوں نے اپنی وفات سے چند روز قبل قلمبند کی تھی۔۔۔۔۔ سعیدہ باجی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُن کی اِس تحریر کو ’’حق الیقین‘‘ کے صفحات پر پیش کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔ اس تحریر میں اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تعلق، حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق اور علومِ نبوت کا فہم نہایت واضح ہے۔
ہمارے یہاں بچہ جیسے ہی بولنا شروع کرتا ہے۔ تو عام طور پر اُسے کلمہ سکھایا جاتا ہے اور جب یہی بچہ اپنی دنیاوی زندگی کے سفر کو طے کرکے اگلے سفر کی تیاری کے لئے موت کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو پھر اُسے کلمہ یاد دلایا جاتا ہے اور کلمہ پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ گویا دنیاوی شعور کے آغاز سے انجام تک کلمے کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے اور مرتے دم تک یہی کوشش رہتی ہے کہ آدمی اِس بنیاد پر قائم رہے۔
ایمان اور ایقان کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ کلمے کی اہمیت کو اس کی حکمتوں کے ساتھ سمجھا جائے تاکہ جس شعور کا آغاز اس دنیا سے ہوا ہے۔ اس شعور کی بنیادیں اتنی مضبوط ہوجائیں کہ وہ شعور زمین سے آسمان تک اور جسم سے روح تک زندگی کے ہر سفر میں اپنے خالق کو پہچان لے۔
روحانی بزرگوں کے تذکروں میں کہیں کہیں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ جب وہ بزرگ کلمے کا پہلا حرف ’’لا‘‘ زبان سے ادا کرتے تھے تو دیکھنے والے کی نگاہ سے دنیا کی ہر شئے پوشیدہ ہوجاتی اور دماغ میں آنے والی تمام اطلاعات کا رابطہ ٹوٹ جاتا۔ زندگی کی حرکت موت کے سکوت میں بدل جاتی۔
جب وہ ’’الا اﷲ‘‘ کہتے تو شعور سے زندگی کا رابطہ بحال ہوجاتا اور عدم کے اندھیرے میں چھپنے والی کائنات پھرسے ظہور کے پردے پر موجود ہوجاتی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہر ذی روح عدم کی دہلیز کو پار کرکے ظہور کے پردے پر وجودی حیثیت سے نمودار ہوا ہے!۔۔۔۔۔
’’لا‘‘ کُن سے پہلے اﷲ کی معرفت ہے اور ’’الا اﷲ‘‘ کُن کے بعد اﷲتعالیٰ کی معرفت ہے۔۔۔۔۔ لا اور الااﷲ کے درمیان محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عدم کی حقیقتوں کے اسرار ورموز کے امین ہیں۔ اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کے آئینے میں حق نے جو رونمائی کی ہے ،وہ اﷲ کے محبوب کی کائنات ہے۔ حقیقت ِمحمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کا آئینہ ازل سے ابد تک اپنی کائنات کی عکاسی کر رہا ہے۔
لا اور الا اﷲ کے درمیان محمد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نہ ہوتے تو کائنات عدم کے پردے سے ظہور میں نہ آتی۔ سیاہ بادل کے پردے سے بجلی کی چمک باہر نہ نکلتی تو بجلی کو کون جانتا کہ سیاہ بادل اپنے پردے میں بجلیوں کے کیسے کیسے خزانے چھپائے ہوئے ہے۔
لا کے پردے میں چھپے ہوئے الا اﷲ کے خزانے کا جمال کائنات کی روحِ اعظم ہے۔ اس روحِ اعظم کے ادراک کے پھیلائو کا ہر دائرہ ایک ایک پیغمبر علیہ السلام کا عالم ہے۔۔۔۔۔
روحِ اعظم رحمت اللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں!۔۔۔۔۔
اﷲ تک پہنچنے کے بے شمار راستے ہیں۔۔۔۔۔ ہر راستے پر ایک پیغمبرؑ ایستادہ ہیں۔۔۔۔۔ راستہ اﷲ کی فکر کا نور ہے۔۔۔۔۔ اس نور کے تجسّس کی صورت پیغمبر ہے۔۔۔۔۔ جو مسافر بن کر نور کی حقیقتوں کو نور کے پردوں میں کھوجتے رہتے ہیں اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اُن کے تجسّس سے روشنی حاصل کرتا رہتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے تمام پیغمبران علیہم السلام کو بشری شعور عطا فرمایا ہے۔ جس طبعی شعور کے ساتھ تمام پیغمبران علیہم السلام کی تخلیق کی گئی ہے وہی طبعی شعور تمام نوع انسانی کو بشری شعور کی جانب رہنمائی کرنے کا وسیلہ ہے۔ اس طرح تمام پیغمبران علیہم السلام بنی نوع انسانی کے اندر بشری تقاضوں کی فیڈنگ کرتے ہیں۔
انسانی عقل وشعور کا بنیادی تقاضہ علم ہے۔ اﷲ کے نائب پیغمبران علیہم السلام، اﷲ تعالیٰ کے ودیعت کردہ علوم کے خزانے اور دفتر ہیں اور اﷲ پاک کی اجازت سے انسانی عقل وشعور میں اپنے افکار کی روشنیاں انسپائر کرتے ہیں تاکہ بشری عقل وشعور اپنے روحانی تقاضوں سے آشنا ہوکر اُس روحِ اعظم کے ساتھ وابستہ ہوجائے جو تمام ارواح کو اپنے خالق اور اپنے رب سے متعارف کرانے کا وسیلہ ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام میں کلمہ طیبّہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔
ترجمہ: کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ کیسی عمدہ مثال بیان کی ہے اﷲ تعالیٰ نے کہ کلمہ طیبّہ، ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے۔ جس کی جڑیں بڑی مضبوط ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ دے رہا ہے اپنا پھل ہر وقت۔ اپنے رب کے حکم سے اور بیان فرماتا ہے اﷲ تعالیٰ مثالیں لوگوں کے لئے۔ تاکہ وہ خوب ذہن نشین کرلیں۔ (سورئہ ابراہیم 24-25)
آیئے! ۔۔۔۔۔ اس آیتِ قرآنی کی روشنی میں کلمہ کی حقیقت اور حکمتوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
اﷲ تعالیٰ نے کلمہ طیبّہ کی تعریف ایک عمدہ مثال کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔ اس مثال میں کلمہ طیبّہ کو ایک پاکیزہ درخت کہا گیا ہے۔ درخت کی جڑیں، اُس کا تنا، اُس کی شاخیں، اُس کے پتے، پھل پھول ۔۔۔۔۔ سب درخت کے اعضاء ہیں۔ جب الگ الگ جز کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہر جز اپنی شناخت کے لئے الگ الگ نام سے پکارا جاتا ہے۔ مگر جب کُل کا ذکر ہوتا ہے تو وہ ’’درخت‘‘ یعنی ایک نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک نام اپنے اندر پوشیدہ تمام ناموں کا احاطہ کرتا ہے۔
یہ پاکیزہ درخت جس کے تمام اعضاء نہایت ہی مضبوط وتوانا ہیں اور اس کا پھیلائو زمین سے آسمان تک ہے۔ اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کی جانب سے یہ حکم ہے کہ وہ مسلسل اور مستقل اپنا پھل ہر وقت دیتا رہے۔ وہ اﷲ تعالیٰ کی اجازت سے اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھا رہا ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کا رزق اس کی مخلوق تک پہنچتا رہے۔ رزق کی تقسیم کائنات میں اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت کا نظام ہے۔ جو پردئہ وجود پر آنے والی تمام مخلوق کو زندگی کی قوت بخشنے والا ہے۔ مخلوقِ خدا کی زندگی کی تمام قوتوں اور تقاضوں کو قائم اور جاری وساری رکھنے کا نام حیات ہے اور اُس کا اسم الٰہی ’’رب‘‘ ہے۔ جو رب العالمین ہے۔
اﷲ تعالیٰ اس آیت میں کلمہ طیبّہ کو پاکیزہ درخت کی مثال دے کر یہ فرمارہے ہیں کہ کلمہ طیبّہ وہ ہے جس کا تعلق اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت کے نظام سے ہے ، وہ رب کی اجازت سے اپنے رب کے عطا کردہ وسائل کی تقسیم کا وسیلہ ہے اور ربوبیت کے نظام کا ایک نہایت ہی اہم رکن ہے۔ اہم رکن ہونے کی وجہ اس کے اوپرکچھ ذمہِداریاں عائد ہوتی ہیں۔ جو رب نے اس پر ڈالی ہیں۔ اس ذمہ داری کو اپنے رب کے ارادے ومنشاء کے مطابق احسن طریقے سے سنبھالنے کے لئے اسے رب کی جانب سے تحفظ حاصل ہے تاکہ وہ اپنے کاموں کو جب تک اﷲ چاہتا ہے مسلسل اور مستقل طور پر ادا کرتا رہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ زمین سے آسمان تک پھیلے ہوئے اس پاکیزہ درخت کی اصل کیا ہے۔ درخت کی اصل اس کا بیج ہے۔ بیج کے بغیر درخت کا وجود ناقابل تذکرہ ہے۔ گویا سارا درخت خواہ اُس کا پھیلائو آسمان تلک ہی کیوں نہ ہو اس کے ایک بیج میں بند ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ مثالیں لوگوں کے لئے بیان کی گئی ہیں تاکہ وہ ان میں غوروفکر کریں اور اپنی عقل وشعور میں ان مثالوں کے ذریعے اﷲ تعالیٰ حکمتوں کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اس طرح لوگوں کے عقل وشعور اﷲتعالیٰ کے نور سے روشن ہوجائیںگے یوں وہ جہالت کے اندھیروں میں بھٹک کر اپنے اوپر ظلم کرنے سے بچ جائیںگے۔
جب آدمی کا یقین اپنے تمام مراحل طے کرلیتا ہے تو اسے بقا حاصل ہوجاتی ہے۔ بقا!۔۔۔۔۔ پھیلے ہوئے درخت کا اپنے بیج میں سماجانا ہے۔ جز لا تجزاء کا اپنے کل کے ساتھ ابدی رابطہ ہے۔ محدودیت کا لامحدودیت میں داخل ہونا ہے۔ بندے کا خالق حقیقی سے ابدی قرب حاصل کرنا ہے۔ یہی قائم الصلوٰۃ کا وہ درجہ ہے جس میں اﷲ کی فکر کا نور رُوح کا ادراک بن کر کام کر رہا ہے۔ اﷲ کی فکر کا نور جب روح اور جسم دونوں کا احاطہ کرلیتا ہے اور روح کے ادراک سے لے کر جسمانی حواس وشعور نور کا مشاہدہ کرلیتے ہیں تو اﷲ کے حکم کی تکمیل ہوجاتی ہے اور بندے کے اندر امر ربّی کی تحریکات جاری وساری ہوجاتی ہے۔
کُن اﷲ کا حکم ہے جس کا اطلاق لاپر ہے۔ لا سے مراد لامحدودیت کا عالم ہے۔ جس کے لئے اﷲ پاک فرماتے ہیں کہ ’’وہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا اور اس میں کسی قسم کا تغیر وتبدّل نہیں ہے‘‘۔
اﷲ اپنی ذات میں علیم ہے۔ لامحدودیت میں پھیلے ہوئے علم کو جب اﷲ نے ظاہر کرنے کا ارادہ کیا تو کُن سے فیکون ہوگیا۔ کُنکا اطلاق عدم کے پردے میں چھپی ہوئی کائنات پر ہے۔ جس سے سوائے ذاتِ باری تعالیٰ کے اور کوئی واقف نہیں۔ فیکون لا یا عدم کے پردے سے باہر کائنات کا مظاہرہ ہے۔ جس میں افرادِکائنات کو اپنی وجودی حیثیت سے باخبری حاصل ہوئی۔ کُنکہنے سے سب سے پہلے تمام روحیں پیدا ہوئیں۔ ہر روح کے اندر اﷲ کا ارادہ اس کی مخصوص فکر کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
ارواح!۔۔۔۔۔ کائنات کی مشین کے کُل پرزے ہیں۔ ہر کُل پرزے کا اپنا ایک مخصوص کام ہے۔ جس کی ادائیگی کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ اس مخصوص کام کے حوالے سے اجتماعی نام کے علاوہ فرد کا نام بھی ضروری ہے تاکہ اس کے کام کو چیک کیا جاسکے۔ اﷲتعالیٰ کے تمام احکامات روح اعظم کے ذریعے روح کو ملتے ہیں او روح اعظم اﷲ تعالیٰ کے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کا روحانی ادراک ہے۔ جو کُن کے بعد کے سامنے آنے والے مظاہرات کا مشاہداتی ادراک ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے کا رابطہ اس روح اعظم سے ہے۔ جس کے ذریعے اُسے اﷲ پاک کے احکامات وصول ہورہے ہیں۔ مگر عقل وشعور اس سے بے خبر ہے۔ جب عقل وشعور اس حقیقت سے باخبر ہوجاتی ہے اور امرربّی کی تحریکات اس کے اندر جاری وساری ہوجاتی ہیںتو وہ اﷲ کے ارادے سے واقف ہوجاتا ہے اور اپنا ارادہ اﷲ کے ارادے میں شامل کردیتا ہے۔ اس طرح اﷲ کے ارادے سے فرد کے ارادے کو مستقل اور مسلسل سیرابی ہوتی رہتی ہے۔
تمام پیغمبران علیہم السلام اﷲ پاک کے نہایت ہی مقرب ومعزز بندے ہیں۔ جو اﷲ تعالیٰ کی اجازت سے اپنے ذاتی ارادے وعقل وحواس کے ساتھ اپنے رب کے احکامات پر مستقل اور مسلسل کام کر رہے ہیں۔ ان کی ذاتِ اقدس شجرِ طیبّہ کی طرح ہے۔ جس کے پھل سے زمین وآسمان کی تمام مخلوق رزق حاصل کر رہی ہے۔
جب پیغمبر کی فکر کا نور اﷲ کے کسی بندے میں جذب ہوجاتا ہے تو وہ بھی کلمہ طیبّہ کی ابدی زندگی سے روشناس ہوجاتا ہے۔