متوازن زندگی
انسان اور متوازن زندگی
انسان کی جسمانی وذہنی ساخت بھی عجیب ہے۔ وہ اس دنیا میں ہر طرح کے حالات میں خود کو ڈھال لیتا ہے۔ انسان 150 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ گرمی والے علاقوں میں ہنسی خوشی رہتا ہے اور نقطہ انجماد سے کئی درجہ کم ٹھنڈ والے علاقوں میں بھی آباد ہے۔ سوچنے، سمجھنے، بولنے اور نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت اس کے لئے قدرت کا ایک بہت بڑا انعام ہے۔ اس صلاحیت کی وجہ سے انسانی تہذیب کا قیام اور علوم وفنون کی ترقی عمل میں آئی۔ پچھلے دو سو سالوں میں تو علم وٹیکنالوجی کی ترقی اور اس بناء پر رہن سہن میں تبدیلی کی رفتار اس قدر تیز رہی ہے کہ اس پر کسی طوفان کا گمان ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ایک نہایت عجیب صورتحال بھی سامنے آئی ہے کہ انسان پچھلی دو صدیوں میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کرپا رہا ہے۔ کیا یہ تیز رفتار تبدیلی انسان پر کسی دوسری مخلوق کی طرف سے مسلط کی گئی ہے؟۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے یہ سب انسانی ذہن کی اپنی کرشمہ سازیاں ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ تمام تبدیلیاں جو صرف اور صرف انسان کے ہاتھوں ہوئیں، ان سے خود انسان ہی ہم آہنگ کیوں نہیں ہو رہا۔ آئیے ان وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ دو صدیوں میں انسانی تہذیب کی بنیاد علوم میں اضافے اور سیاسی و معاشی نظام میں تبدیلیوں پر قائم ہوئی۔ دنیا نے بیک وقت دو نظام دیکھے۔ دنیا کے ایک حصے پر سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ رہا جبکہ دوسرے حصے پر اشتراکی نظام کا تجربہ کیا گیا۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں مذہب بطور تبرک شامل رکھا گیا جبکہ اشتراکی نظام خالصتاً لادینیت اور خدا کے وجود سے انکار کی بنیاد پر قائم ہوا۔ یہ دونوں نظام اپنے اپنے خالقین کے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ان کو اپنانے والے بھی دنیا کے دو متحارب بلاکس میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کے وجود کے مخالف ہوگئے لیکن ان دونوں نظاموں میں ایک بات ضرور مشترک تھی وہ یہ کہ ان کے ہاں عام انسان کی حیثیت صرف ایک مشین یا مزدور کی ہی رہی۔ ترقی یافتہ معاشروں نے بنیادی ضرورت کی تکمیل کے لئے کئی انقلابی اقدامات کئے۔ خصوصاً روزگار، صحت، تعلیم، رہائش وغیرہ کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری قرار پائی۔ انسانی حقوق کی صورتحال بہت بہتر ہوئی تاہم ان سب خوش آئند اقدامات کے باوجود مغربی معاشروں کے سرکردہ افراد اور دانشوروں کا گروہ انسان کو صرف ایک مادّی وجود سمجھنے کی غلطی کرتا رہا اور یہ غلطی آج تک جاری ہے۔
پچھلی دو صدیوں میں ہونے والی تیز رفتارتبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ معاشروں کی تعمیر جن بنیادوں پر کی جارہی ہے وہ انسانی فطرت، سرشت اور مزاج کے مطابق ضروری اور متوازن اجزاء پر مشتمل نہیں ہیں۔ یہ بات کوئی فلسفیانہ موشگافی، خام خیالی یا شاعر کا تصور ہرگز نہیں۔ یہ کوئی سات پردوں میں پوشیدہ حقیقت بھی نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے جسے محض ذرا سی کوشش سے جانا جاسکتا ہے لیکن اس حقیقت تک پہنچنے کے راستے وحی الٰہی کی روشنی سے منور ہوتے ہیں۔
زمین پر زندگی گزارنے کے لئے انسان اور دیگر تمام مخلوقات کی زندگی روح کی تحریکات کے تابع ہے اور زندگی مادہ اور روح کے اشتراک پر قائم ہے۔ اس دنیا میں متوازن زندگی (خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی) گزارنے کے لئے جس طرح مادّی تقاضوں کی تکمیل ضروری ہے اِسی طرح روحانی تقاضوں کی تکمیل بھی ضروری ہے۔
ہر وہ معاشرہ جو انسان کو صرف ایک مادّی وجود سمجھ کر اس کے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا، انتشار اور افراتفری کا شکار رہے گا جبکہ سائنسی ترقی کی موجود دوڑ کے آغاز میں سائنسدانوں اور نئے حکمرانوں نے مذہب کی مخالفت کے نام پر انسان کے روحانی وجود اور اُس کے روحانی تقاضوں کو یکسر نظر اندازکردیا اور اس طرح ایک بہت عجیب وغریب اور پیچیدہ عدم توازن نے جنم لیا۔ اِدھر مشرق میں مسلمانوں کے بعض مذہبی رہنمائوں نے جدید تعلیم کی مخالفت، دنیا میں دل نہ لگانے اور ضبط نفس کی تعلیم کچھ اس طرح دی کہ بعض لوگوں کو انسان کے مادّی تقاضوں کی تکمیل میں ذہنی طور پر رکاوٹیںمحسوس ہوئیں اور اس طرح یہاں مادّی تقاضوں کی کماحقّہٗ تکمیل نہ ہونے سے عدم توازن پیدا ہوا۔
یہ عدم توازن بھی مشرق اور مغرب کے درمیان بُعد اور فاصلوں کی مانند ہے، لیکن اسے دور کرنا بہرحال ضروری ہے۔ یہ صرف مشرق یا صرف مغرب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ نوع انسانی کی ضرورت ہے۔ سائنسدانوں کو ماننا پڑے گا کہ انسان صرف ایک مادّی وجود نہیں ہے اور مذہبی دانشوروں کوبتانا ہوگا کہ دین دنیا سے قطع تعلق کرنے، اپنے جبلّی جذبات اور احساسات کو کچل دینے، معیارِ زندگی میں اضافہ نہ کرنے کے جذبات رکھتے ہوئے مفلسی میں زندگی گزارنے جیسے نظریات کی تعلیم نہیں دیتا۔ دین تو سراسر فطرت ہے۔
ایک ایسے دور میں جبکہ عام انسان اس پیچیدہ عدم توازن کے باعث شدید اضطراب وپریشانی میں مبتلا ہے اور ایک ایسے عالم میں جبکہ بظاہر تخریب تعمیر پر حاوی ہوتی نظر آرہی ہو، روشنی مدہم پڑ رہی ہو اور اندھیرا پھیل کر گہری تاریکی میں تبدیل ہو رہا ہو، اﷲ کے ایک دوست نے روشنی پھیلانے کے لئے ایک شمع روشن کی۔۔۔۔ ایک ایسی شمع جو نور الٰہی اور نور نبوت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے توانائی حاصل کرکے مادّی اجزاء کو بھی نور اور روشنی عطا کرتی ہے اور اس روشنی کی بدولت نوع انسانی یہ بات سمجھ سکتی ہے کہ روح اور مادّے کے درمیان توازن کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس توازن کے میسر آجانے سے انسان کس طرح اس دنیا میں رہتے ہوئے جنت کی زندگی سے آشنائی حاصل کرلیتا ہے۔ ان محترم ہستی کا نام محمد عظیم ؔہے جو دنیا بھر میں قلندر بابا اولیائؒ کے نام سے معروف ہیں۔ اﷲ کا شکر ہے ان کے افکار کی روشنی ان کے قائم کئے ہوئے روحانی سلسلے سلسلۂ عظیمیہ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔
قلندر بابا اولیاء کے افکار اور سلسلۂ عظیمیہ کی تعلیمات میں تفکر کے ذریعے حقیقت تک رسائی کے سفر کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ ان تعلیمات سے آج کا انسان ترقی کی تیز رفتار کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرسکتا ہے۔
قلندر بابا اولیائؒ فرماتے ہیں کہ ’’دراصل تمام طبعی قوانین روحانی قوانین کا اتباع کرتے ہیں‘‘۔۔۔۔۔ قلندر بابا اولیائؒ فرماتے ہیں کہ ’’کائنات کا محل وقوع اﷲ تعالیٰ کا علم ہے‘‘۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ ’’کائنات میں ہر مخلوق شعور رکھتی ہے۔ مثلاً درختوں اور جانوروںکو پیاس لگتی ہے اور اُنہیں پانی پی کر پیاس بجھانے کا شعور حاصل ہے۔ اس طرح ہوا کو پانی کے ننھے ننھے ذرّوں کا اور ان کو اپنے دوش پر اُٹھالینے کا شعور حاصل ہے۔ یہ عام سطح کا شعور ساری موجودات میں پایا جاتا ہے لیکن اس بات کو سمجھنا کہ موجودات کو یہ وصف کہاں سے ملا، صرف انسان کو میسر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آدم کے پتلے میں اپنی روح پھونک کر یہ علم اس کو بخشا ہے‘‘۔
قلندر بابا اولیائؒ فرماتے ہیں ’’قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے
علم الانسان مالم یعلم
ترجمہ:انسان کو علم سکھایا، وہ نہیں جانتا تھا۔
یہاں سکھانے کا مطلب ودیعت کرنا یا لاشعور میں پیوست کرنا ہے یعنی جس چیز سے کائنات کی سرشت اور جبلّت عاری تھی، اﷲ تعالیٰ نے وہ چیز انسان کی فطرت میں بطور خاص ودیعت کی۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے آدم کو علم الاسماء عطا کیا ’’علم آدم الاسماء کلھا‘‘۔ یہ تمام ارشادات اس مطلب کی وضاحت کرتے ہیں کہ موجودات کے اندر جو چیز اصل ہے اس کو سمجھنا اور جاننا بجز انسان کے اور کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ خصوصی علم اﷲ تعالیٰ نے صرف آدم کو عطا کیا ہے یہ خصوصی علم لاشعور کا علم ہے‘‘۔
قلندر بابا اولیائؒ قرآنی علوم کی روشنی میں آج کے انسان کو درپیش پیچیدہ مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ ان کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہے کہ دین، اﷲ کی نشانیوں میں تفکر کرکے دریافت اور ترقی کے عمل کا مخالف ہرگز نہیں۔۔۔۔۔ دوسری طرف ان کی تعلیمات سے یہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ انسان جب تک ترقی کا سبب بننے والے علوم کی بنیاد سے بے خبر ہے مادّی ترقی اور علوم کا پھیلائو نامکمل اور بے مقصد ہے۔
انسان اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ یہ زمین اور اس زمین کا سازگار ماحول انسان کی تخلیق نہیں ہے۔ خود انسان کو اپنے جسمانی افعال پر قطعی کوئی اختیار نہیں ہے۔ مثلاً انسان مجبور ہے کہ وہ آنکھ سے دیکھے گا، وہ ناک سے بصارت کا کام نہیں لے سکتا، دل کے عضو سے آنتوں کا اور جگر سے دماغ کا کام نہیں لیا جاسکتا۔ انسان نے علوم کی ترقی سے جو کچھ حاصل کیا وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے جسمانی اعضاء اور ان کے افعال کے بارے میں دریافت کیا ہے۔ یہ افعال اور اعمال جس طرح وجود میں آتے ہیں ان پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے ارادے کی ظاہری شکل ہے۔ چونکہ انسان مظاہرِ فطرت میں غور وفکر کرکے دریافت کے عمل میں مصروف ہے اور اﷲ تعالیٰ نے خود انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ہے لہٰذا یہ عمل بذات خود اﷲ کی منشاء کے خلاف نہیں ہے لیکن مادّہ پرستی کے زیرِ اثر جو لوگ موجودات کا خالقِ حقیقی کے ساتھ رابطہ نہیں جوڑتے ان کی دریافتوں سے نوعِ انسانی خواہ وقتی طور پر ضرور فائدہ حاصل کرلے لیکن یہ انسان کو حتمی فوائد دینے سے قاصر ہیں۔ اگر انسان اﷲ کی نشانیوں میں تفکر کے بعد ترقی کرکے اس عمل کو اﷲ کو پہچاننے کا اور اس کی ربوبیت کے اقرار کا ذریعہ بناتا ہے تو یہ عمل سراسر خیر ہے بصورتِ دیگر یہ محض کھیل تماشا ہے جو جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔
اﷲ کے دوست، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے علوم کے وارث قلندر بابا اولیائؒ نے موجودہ دور کے انسان کی سوچ اور ذہنی اپروچ کو مدِنظر رکھتے ہوئے روحانی تعلیم کے اسباق مرتب کئے ہیں۔ ان کی تعلیمات سے انسان اس قابل ہوسکتا ہے کہ موجودہ دور میں اضطراب اور ذہنی انتشار کا سبب بنے والے عدم توازن کو دور کرسکے اور مادّے اور روح کے درمیان توازن قائم کرسکے۔ آپؒ کی تعلیمات سے اس قابل ہوا جاسکتا ہے کہ مادّی وجود سے روحانی تحریکات کا مشاہدہ کیا جاسکے اور روح کی نظر سے مادّے میں کام کرنے والی روشنیوں کو دیکھا جاسکے۔ یہ صلاحیت انفرادی طور پر بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور پورے معاشرے کی سطح پر بھی۔ روحانی صلاحیتوں سے مالا مال فرد اور معاشرہ عدم توازن سے پاک ہوگا اور اس معاشرے میں رہنے بسنے والے اس قابل ہوں گے کہ سائنسی ترقی کی تیز رفتاری کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرسکیں۔ ایسا معاشرہ مادّہ پرستی کے مہلک عنصر سے پاک ہوگا۔ اس میں مادّی وسائل اور آسائشوں کے ساتھ ساتھ روحانی سکون اور اطمینان کی بھی فراوانی ہوگی۔
قلندر بابا اولیائؒ کی تعلیمات عوام النّاس کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں، دانشوروں، فلسفیوں کو بھی طبعی علوم کی تحصیل کے ساتھ کائنات کے خالق اﷲ وحدہٗ لاشریک کے عرفان کی دعوت دیتی ہیں۔
قلندر بابا اولیاء کا ارشاد ہے ’’اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں سماعت میں نے دی ہے، بصارت میں نے دی ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اطلاع میں نے دی ہے۔ ہم عام حالات میں جس قدر اطلاعات وصول کرتے ہیں، ان کی نسبت تمام دی گئی اطلاعات کے مقابلے میں کیا ہے؟ شاید صفر سے ملتی جلتی ہو، وصول ہونے والی اطلاعات اتنی محدود ہیں جن کوناقابل ذکر کہیں گے۔ اگر ہم وسیع تر اطلاعات حاصل کرنا چاہیں تو اس کا ذریعہ بجز علوم روحانی کے کچھ نہیں ہے اور علوم روحانی کے لئے ہمیں قرآن پاک سے رجوع کرنا پڑے گا‘‘۔
انسان کی جسمانی وذہنی ساخت بھی عجیب ہے۔ وہ اس دنیا میں ہر طرح کے حالات میں خود کو ڈھال لیتا ہے۔ انسان 150 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ گرمی والے علاقوں میں ہنسی خوشی رہتا ہے اور نقطہ انجماد سے کئی درجہ کم ٹھنڈ والے علاقوں میں بھی آباد ہے۔ سوچنے، سمجھنے، بولنے اور نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت اس کے لئے قدرت کا ایک بہت بڑا انعام ہے۔ اس صلاحیت کی وجہ سے انسانی تہذیب کا قیام اور علوم وفنون کی ترقی عمل میں آئی۔ پچھلے دو سو سالوں میں تو علم وٹیکنالوجی کی ترقی اور اس بناء پر رہن سہن میں تبدیلی کی رفتار اس قدر تیز رہی ہے کہ اس پر کسی طوفان کا گمان ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ایک نہایت عجیب صورتحال بھی سامنے آئی ہے کہ انسان پچھلی دو صدیوں میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کرپا رہا ہے۔ کیا یہ تیز رفتار تبدیلی انسان پر کسی دوسری مخلوق کی طرف سے مسلط کی گئی ہے؟۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے یہ سب انسانی ذہن کی اپنی کرشمہ سازیاں ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ تمام تبدیلیاں جو صرف اور صرف انسان کے ہاتھوں ہوئیں، ان سے خود انسان ہی ہم آہنگ کیوں نہیں ہو رہا۔ آئیے ان وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ دو صدیوں میں انسانی تہذیب کی بنیاد علوم میں اضافے اور سیاسی و معاشی نظام میں تبدیلیوں پر قائم ہوئی۔ دنیا نے بیک وقت دو نظام دیکھے۔ دنیا کے ایک حصے پر سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ رہا جبکہ دوسرے حصے پر اشتراکی نظام کا تجربہ کیا گیا۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں مذہب بطور تبرک شامل رکھا گیا جبکہ اشتراکی نظام خالصتاً لادینیت اور خدا کے وجود سے انکار کی بنیاد پر قائم ہوا۔ یہ دونوں نظام اپنے اپنے خالقین کے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ان کو اپنانے والے بھی دنیا کے دو متحارب بلاکس میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کے وجود کے مخالف ہوگئے لیکن ان دونوں نظاموں میں ایک بات ضرور مشترک تھی وہ یہ کہ ان کے ہاں عام انسان کی حیثیت صرف ایک مشین یا مزدور کی ہی رہی۔ ترقی یافتہ معاشروں نے بنیادی ضرورت کی تکمیل کے لئے کئی انقلابی اقدامات کئے۔ خصوصاً روزگار، صحت، تعلیم، رہائش وغیرہ کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری قرار پائی۔ انسانی حقوق کی صورتحال بہت بہتر ہوئی تاہم ان سب خوش آئند اقدامات کے باوجود مغربی معاشروں کے سرکردہ افراد اور دانشوروں کا گروہ انسان کو صرف ایک مادّی وجود سمجھنے کی غلطی کرتا رہا اور یہ غلطی آج تک جاری ہے۔
پچھلی دو صدیوں میں ہونے والی تیز رفتارتبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ معاشروں کی تعمیر جن بنیادوں پر کی جارہی ہے وہ انسانی فطرت، سرشت اور مزاج کے مطابق ضروری اور متوازن اجزاء پر مشتمل نہیں ہیں۔ یہ بات کوئی فلسفیانہ موشگافی، خام خیالی یا شاعر کا تصور ہرگز نہیں۔ یہ کوئی سات پردوں میں پوشیدہ حقیقت بھی نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے جسے محض ذرا سی کوشش سے جانا جاسکتا ہے لیکن اس حقیقت تک پہنچنے کے راستے وحی الٰہی کی روشنی سے منور ہوتے ہیں۔
زمین پر زندگی گزارنے کے لئے انسان اور دیگر تمام مخلوقات کی زندگی روح کی تحریکات کے تابع ہے اور زندگی مادہ اور روح کے اشتراک پر قائم ہے۔ اس دنیا میں متوازن زندگی (خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی) گزارنے کے لئے جس طرح مادّی تقاضوں کی تکمیل ضروری ہے اِسی طرح روحانی تقاضوں کی تکمیل بھی ضروری ہے۔
ہر وہ معاشرہ جو انسان کو صرف ایک مادّی وجود سمجھ کر اس کے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا، انتشار اور افراتفری کا شکار رہے گا جبکہ سائنسی ترقی کی موجود دوڑ کے آغاز میں سائنسدانوں اور نئے حکمرانوں نے مذہب کی مخالفت کے نام پر انسان کے روحانی وجود اور اُس کے روحانی تقاضوں کو یکسر نظر اندازکردیا اور اس طرح ایک بہت عجیب وغریب اور پیچیدہ عدم توازن نے جنم لیا۔ اِدھر مشرق میں مسلمانوں کے بعض مذہبی رہنمائوں نے جدید تعلیم کی مخالفت، دنیا میں دل نہ لگانے اور ضبط نفس کی تعلیم کچھ اس طرح دی کہ بعض لوگوں کو انسان کے مادّی تقاضوں کی تکمیل میں ذہنی طور پر رکاوٹیںمحسوس ہوئیں اور اس طرح یہاں مادّی تقاضوں کی کماحقّہٗ تکمیل نہ ہونے سے عدم توازن پیدا ہوا۔
یہ عدم توازن بھی مشرق اور مغرب کے درمیان بُعد اور فاصلوں کی مانند ہے، لیکن اسے دور کرنا بہرحال ضروری ہے۔ یہ صرف مشرق یا صرف مغرب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ نوع انسانی کی ضرورت ہے۔ سائنسدانوں کو ماننا پڑے گا کہ انسان صرف ایک مادّی وجود نہیں ہے اور مذہبی دانشوروں کوبتانا ہوگا کہ دین دنیا سے قطع تعلق کرنے، اپنے جبلّی جذبات اور احساسات کو کچل دینے، معیارِ زندگی میں اضافہ نہ کرنے کے جذبات رکھتے ہوئے مفلسی میں زندگی گزارنے جیسے نظریات کی تعلیم نہیں دیتا۔ دین تو سراسر فطرت ہے۔
ایک ایسے دور میں جبکہ عام انسان اس پیچیدہ عدم توازن کے باعث شدید اضطراب وپریشانی میں مبتلا ہے اور ایک ایسے عالم میں جبکہ بظاہر تخریب تعمیر پر حاوی ہوتی نظر آرہی ہو، روشنی مدہم پڑ رہی ہو اور اندھیرا پھیل کر گہری تاریکی میں تبدیل ہو رہا ہو، اﷲ کے ایک دوست نے روشنی پھیلانے کے لئے ایک شمع روشن کی۔۔۔۔ ایک ایسی شمع جو نور الٰہی اور نور نبوت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے توانائی حاصل کرکے مادّی اجزاء کو بھی نور اور روشنی عطا کرتی ہے اور اس روشنی کی بدولت نوع انسانی یہ بات سمجھ سکتی ہے کہ روح اور مادّے کے درمیان توازن کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس توازن کے میسر آجانے سے انسان کس طرح اس دنیا میں رہتے ہوئے جنت کی زندگی سے آشنائی حاصل کرلیتا ہے۔ ان محترم ہستی کا نام محمد عظیم ؔہے جو دنیا بھر میں قلندر بابا اولیائؒ کے نام سے معروف ہیں۔ اﷲ کا شکر ہے ان کے افکار کی روشنی ان کے قائم کئے ہوئے روحانی سلسلے سلسلۂ عظیمیہ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔
قلندر بابا اولیاء کے افکار اور سلسلۂ عظیمیہ کی تعلیمات میں تفکر کے ذریعے حقیقت تک رسائی کے سفر کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ ان تعلیمات سے آج کا انسان ترقی کی تیز رفتار کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرسکتا ہے۔
قلندر بابا اولیائؒ فرماتے ہیں کہ ’’دراصل تمام طبعی قوانین روحانی قوانین کا اتباع کرتے ہیں‘‘۔۔۔۔۔ قلندر بابا اولیائؒ فرماتے ہیں کہ ’’کائنات کا محل وقوع اﷲ تعالیٰ کا علم ہے‘‘۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ ’’کائنات میں ہر مخلوق شعور رکھتی ہے۔ مثلاً درختوں اور جانوروںکو پیاس لگتی ہے اور اُنہیں پانی پی کر پیاس بجھانے کا شعور حاصل ہے۔ اس طرح ہوا کو پانی کے ننھے ننھے ذرّوں کا اور ان کو اپنے دوش پر اُٹھالینے کا شعور حاصل ہے۔ یہ عام سطح کا شعور ساری موجودات میں پایا جاتا ہے لیکن اس بات کو سمجھنا کہ موجودات کو یہ وصف کہاں سے ملا، صرف انسان کو میسر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آدم کے پتلے میں اپنی روح پھونک کر یہ علم اس کو بخشا ہے‘‘۔
قلندر بابا اولیائؒ فرماتے ہیں ’’قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے
علم الانسان مالم یعلم
ترجمہ:انسان کو علم سکھایا، وہ نہیں جانتا تھا۔
یہاں سکھانے کا مطلب ودیعت کرنا یا لاشعور میں پیوست کرنا ہے یعنی جس چیز سے کائنات کی سرشت اور جبلّت عاری تھی، اﷲ تعالیٰ نے وہ چیز انسان کی فطرت میں بطور خاص ودیعت کی۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے آدم کو علم الاسماء عطا کیا ’’علم آدم الاسماء کلھا‘‘۔ یہ تمام ارشادات اس مطلب کی وضاحت کرتے ہیں کہ موجودات کے اندر جو چیز اصل ہے اس کو سمجھنا اور جاننا بجز انسان کے اور کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ خصوصی علم اﷲ تعالیٰ نے صرف آدم کو عطا کیا ہے یہ خصوصی علم لاشعور کا علم ہے‘‘۔
قلندر بابا اولیائؒ قرآنی علوم کی روشنی میں آج کے انسان کو درپیش پیچیدہ مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ ان کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہے کہ دین، اﷲ کی نشانیوں میں تفکر کرکے دریافت اور ترقی کے عمل کا مخالف ہرگز نہیں۔۔۔۔۔ دوسری طرف ان کی تعلیمات سے یہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ انسان جب تک ترقی کا سبب بننے والے علوم کی بنیاد سے بے خبر ہے مادّی ترقی اور علوم کا پھیلائو نامکمل اور بے مقصد ہے۔
انسان اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ یہ زمین اور اس زمین کا سازگار ماحول انسان کی تخلیق نہیں ہے۔ خود انسان کو اپنے جسمانی افعال پر قطعی کوئی اختیار نہیں ہے۔ مثلاً انسان مجبور ہے کہ وہ آنکھ سے دیکھے گا، وہ ناک سے بصارت کا کام نہیں لے سکتا، دل کے عضو سے آنتوں کا اور جگر سے دماغ کا کام نہیں لیا جاسکتا۔ انسان نے علوم کی ترقی سے جو کچھ حاصل کیا وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے جسمانی اعضاء اور ان کے افعال کے بارے میں دریافت کیا ہے۔ یہ افعال اور اعمال جس طرح وجود میں آتے ہیں ان پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے ارادے کی ظاہری شکل ہے۔ چونکہ انسان مظاہرِ فطرت میں غور وفکر کرکے دریافت کے عمل میں مصروف ہے اور اﷲ تعالیٰ نے خود انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ہے لہٰذا یہ عمل بذات خود اﷲ کی منشاء کے خلاف نہیں ہے لیکن مادّہ پرستی کے زیرِ اثر جو لوگ موجودات کا خالقِ حقیقی کے ساتھ رابطہ نہیں جوڑتے ان کی دریافتوں سے نوعِ انسانی خواہ وقتی طور پر ضرور فائدہ حاصل کرلے لیکن یہ انسان کو حتمی فوائد دینے سے قاصر ہیں۔ اگر انسان اﷲ کی نشانیوں میں تفکر کے بعد ترقی کرکے اس عمل کو اﷲ کو پہچاننے کا اور اس کی ربوبیت کے اقرار کا ذریعہ بناتا ہے تو یہ عمل سراسر خیر ہے بصورتِ دیگر یہ محض کھیل تماشا ہے جو جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔
اﷲ کے دوست، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے علوم کے وارث قلندر بابا اولیائؒ نے موجودہ دور کے انسان کی سوچ اور ذہنی اپروچ کو مدِنظر رکھتے ہوئے روحانی تعلیم کے اسباق مرتب کئے ہیں۔ ان کی تعلیمات سے انسان اس قابل ہوسکتا ہے کہ موجودہ دور میں اضطراب اور ذہنی انتشار کا سبب بنے والے عدم توازن کو دور کرسکے اور مادّے اور روح کے درمیان توازن قائم کرسکے۔ آپؒ کی تعلیمات سے اس قابل ہوا جاسکتا ہے کہ مادّی وجود سے روحانی تحریکات کا مشاہدہ کیا جاسکے اور روح کی نظر سے مادّے میں کام کرنے والی روشنیوں کو دیکھا جاسکے۔ یہ صلاحیت انفرادی طور پر بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور پورے معاشرے کی سطح پر بھی۔ روحانی صلاحیتوں سے مالا مال فرد اور معاشرہ عدم توازن سے پاک ہوگا اور اس معاشرے میں رہنے بسنے والے اس قابل ہوں گے کہ سائنسی ترقی کی تیز رفتاری کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرسکیں۔ ایسا معاشرہ مادّہ پرستی کے مہلک عنصر سے پاک ہوگا۔ اس میں مادّی وسائل اور آسائشوں کے ساتھ ساتھ روحانی سکون اور اطمینان کی بھی فراوانی ہوگی۔
قلندر بابا اولیائؒ کی تعلیمات عوام النّاس کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں، دانشوروں، فلسفیوں کو بھی طبعی علوم کی تحصیل کے ساتھ کائنات کے خالق اﷲ وحدہٗ لاشریک کے عرفان کی دعوت دیتی ہیں۔
قلندر بابا اولیاء کا ارشاد ہے ’’اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں سماعت میں نے دی ہے، بصارت میں نے دی ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اطلاع میں نے دی ہے۔ ہم عام حالات میں جس قدر اطلاعات وصول کرتے ہیں، ان کی نسبت تمام دی گئی اطلاعات کے مقابلے میں کیا ہے؟ شاید صفر سے ملتی جلتی ہو، وصول ہونے والی اطلاعات اتنی محدود ہیں جن کوناقابل ذکر کہیں گے۔ اگر ہم وسیع تر اطلاعات حاصل کرنا چاہیں تو اس کا ذریعہ بجز علوم روحانی کے کچھ نہیں ہے اور علوم روحانی کے لئے ہمیں قرآن پاک سے رجوع کرنا پڑے گا‘‘۔