حالات کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی
اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو پینتیس سال قبل دنیا کے وسط میں واقع عرب کے شہر مکہ سے دنیا کو توحید کی طرف بلایا ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ دعوت مختلف مراحل سے گذرتی رہی اور محض تیئس سال کے مختصر عرصہ میں اس شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کے ادوار میں تھی نہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد آج تک سامنے آئی ہے۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بے شمار پہلو اور گوشے نظر آتے ہیں جن سے حسبِ موقع رہتی دنیا تک رہنمائی اور فیضان حاصل کیا جاسکتا ہے۔ افراد اور اقوام کے لئے زندگی کے ہر موقع پر حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے حضرت محمد مصطفٰے صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں قابلِ عمل سبق موجود ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ
بے شک تمہارے لئے رسول اﷲ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ (سورہ الاحزاب)
اعلانِ نبوت کے بعد محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو دو بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
- مکی دور
- مدنی دور
مکی دور میں جو اعلانِ نبوت کے تیرہویں سال میں مکہ سے ہجرت تک کے دور پر مشتمل ہے۔ رسول اﷲ کے دستِ حق پر بیعت کرکے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے خواتین و حضرات پر مصائب و مشکلات کے ان گنت پہاڑ ٹوٹے۔ مکی دور کے صحابہ وصحابیات وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ تھا۔ ان کا یقین اتنا پختہ تھا کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت لالچ ، خوف یا دباؤ کے کسی بھی ہتھکنڈے اس میں ذرہ برابر بھی تغیّر پیدا نہ کرسکتی تھی ۔ یہ سب دلیر اور بہادر لوگ تھے اور ان کے سردار سرورِ کائنات محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تھے۔ ان مبارک ہستیوں کو ہر لمحہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی براہِ راست نگرانی اور رہنمائی حاصل تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے تربیت پاکر عظیم الشان اسلامی ریاست کو محض چند سالوں میں مشرق سے مغرب تک پھیلا دیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اﷲ کے رسول کی بارگاہ سے فیض و تربیت پاکر اسلام کاپیغام اس طرح پھیلایا کہ اسلامی تہذیب دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب بن گئی ۔ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کی بدولت دنیا کو امن و سلامتی میسر آئی اور دنیا علم کی اہمیت سے روشناس ہوئی۔ اسلامی مملکتوں میں علم و عرفان کے چشمے پھوٹ پڑے۔ مسلمان سائنسدانوں کے محیر العقول علمی کارناموں اور ایجادات سے دنیا کے لوگوں نے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم بے انتہاء فیض حاصل کیا۔
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کے ذریعہ دنیانے سیاسیات ، اقتصادیات ، علوم و فنون اور زندگی کے دیگر شعبوں میں نوعِ انسانی کی ترقی اور فلاح و بہبودکے گر سیکھے۔
ایک مضبوط و مستحکم اسلامی ریاست کاقیام اور زمانہ کے سرد و گرم کا مقابلہ کرکے اپنا وجود برقرار رکھنے والی سخت جان اسلامی تہذیب کا قیام کس طرح ممکن ہوا ؟
اس سوال کا جواب پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰے صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیئس سالہ مکی اور مدنی زندگی میں پنہاں ہے۔
مکہ میں جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مشرکین و کفار کی سخت مخالفت کا سامنا تھا وہیں حضرت خدیجۃ الکبریٰ ، حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اپنی تمام دولت اسلام کے مشن کے لئے وقف کردی تھی۔ مسلمانوں کی جمعیت کو حضرت حمزہ اور حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہم جیسے زور آور اور بارعب حضرات سے بھی تقویت حاصل تھی۔ مسلمانوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی جارہی تھی ۔ ان میں سماجی لحاظ سے کمزور اور غریب طبقہ کے افراد بھی شامل تھے اور سماج میں بلند مرتبہ رکھنے والے اور صاحب ثروت افراد بھی تھے۔ یہ سب لوگ اﷲ اور اس کے رسول کے لئے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ تک بہا دینے اور اپنی تمام جمع پونجی لٹا دینے کو اپنے کے لئے سب سے بڑا اعزاز اور دنیا و آخرت کی سب سے بڑی کامیابی سمجھتے تھے۔ ایسے ماحول میں کفارِ مکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ظلم و ستم پر کمر بستہ رہے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے جانثاروں کو ان کفار سے د وبدو مقابلے کاحکم نہیں دیا۔کفارِ مکہ نے مسلمانوں کامعاشی بائیکاٹ کردیا اور رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو پورے قبیلہ بنو ہاشم کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا لیکن آپ نے تین سال تک اس مصیبت و ابتلا کو تحمل سے برداشت کیا۔
مکی دور میں کئی مسلمانوں پر کفار کی جانب سے انسانیت کو شرما دینے والے مظالم ڈھائے گئے۔ لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پنے صحابہ کوصبر سے کام لینے کی تلقین کی۔
کیا اُس وقت مسلمان تعداد میں اس قدر نہیں ہوگئے تھے کہ کفار کی زیادتیوں کے خلاف کوئی مہم چلاسکتے؟۔ کیا مسلمانوں میں اہلِ ثروت افراد کی کمی تھی یا ان میں طاقتور افراد موجود نہ تھے؟۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ لیکن اُس وقت کفار کے مقابلہ پر نکل آنا حکمت و دانش کے خلاف تھا۔ جو دعوت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نوعِ انسانی کے لئے لے کر آئے تھے اس وقت مکہ کی گلیوں کو کفار کے خون سے سرخ کرکے اس کو فروغ نہیں دیا جاسکتا تھا۔ وہ وقت ظلم و زیادتیاں سہنے کاتقاضہ کرتا تھا۔ کھل کر میدان میں نکل آنے سے شجاعت و بہادری کی زریں مثالیں تو تاریخ کا حصہ تو بن سکتی تھیں لیکن اس سے اسلام کے مشن کو شدید نقصان بھی پہنچ سکتا تھا۔
ـ حضرت محمد اﷲ کے رسول تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاندھوں پر رسالت کی بھاری ذمہ داریاں تھیں۔ آپ نوعِ انسانی تک توحید کے پیغام اسی طرح پہنچا دینا چاہتے تھے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کافروں کی ایذا رسانیوں اور ظلم و ستم کوسہتے ہوئے پیغام حق کی ترویج کا مقدس کام جاری رکھا۔
مکہ میں مسلمانوں کو کفار کی زیادتیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے رسول اﷲ نے مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔ حبشہ اس وقت ایک عیسائی ریاست تھی۔ مسلمان وہاں مکہ کی نسبت امن و امان سے رہے اور رسول اﷲ کی ہجرت کے بعد مدینہ آئے۔
مکہ میں قیام کے دوران نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابی طالب خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ قریش مکہ نے ہر ممکن کوشش کرلی کہ ابی طالب ان کے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ لیکن ابی طالب نے اپنے بھتیجے کا ساتھ کسی قیمت پر نہ چھوڑا۔ یہ وہ ابی طالب ہیں جنہوں نے دینِ اسلام قبول نہ کیا تھا۔
ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لاکر اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہودیوں اور مدینہ کے ارد گرد آباد غیر مسلم قبائل سے امن و سلامتی کے ساتھ رہنے اور کسی دشمن کے حملے کی صورت میں مشترکہ دفاع کے معاہدے کئے۔
صلح حدیبیہ بذاتِ خود ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ صلح کے اس معاہدے کے نکات سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے مسلمانوں کی شکست اور کفارِ مکہ کی فتح ہوئی ہو لیکن درحقیقت ایسا نہیں تھا بلکہ قرآن پاک نے تو اس معاہدہ کو مسلمانوں کے لئے فتح مبین کے نام سے یاد کیا ہے۔
انا فتحنالک فتحاً مبینا
بلاشبہ ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا کی ۔ (سورہ الفتح)
صلح حدیبیہ کے موقع پر ابھی معاہدے کے نکات زبانی طور پر طے ہوئے تھے، انہیں ضبط تحریر میں نہیں لایاگیا تھا اس دوران ایک صحابی مکہ کے کفار کے چنگل سے نکل کر مسلمانوں سے آملے ۔ اس موقع پر وہاں موجود قریش کے نمائندے نے مطالبہ کردیا کہ مسلم امہ کے اس فرد کو کفار کے حوالہ کردیا جائے ۔ صحابہ کرام اس گستاخانہ مطالبہ پر سخت طیش میں آگئے ۔ لیکن اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے عظیم ترین مصلحت اور امت کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے قریش کے نمائندہ کا یہ مطالبہ بھی منظور کرلیا اور ایک مسلمان کو بوجھل دل کے ساتھ کفار کے حوالہ کردیا گیا۔
یہ بھی تاریخِ اسلام کا روشن و زرّیں باب ہے کہ صرف تین سو تیرہ مسلمانوں کی بے سرو سامان جماعت نے بدر کے میدان میں ایک ہزار سے زائد کفار کے مسلح لشکر کو شکست فاش دی۔ بدر کے بعد بھی مدینہ کی ریاست کئی بار کفار کی جارحیت کا نشانہ بنی اور ہر بار رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے اس جارحیت سے دفاع کے لئے علیٰحدہ حکمتِ عملی ترتیب دی۔ مسلمانوں نے اﷲ کے بھروسہ پر تعداد و وسائل کی کمی کے باوجود بے خوف ہوکر دشمنوں کامقابلہ کیا ۔ آخر کار اﷲ کی طرف سے نصرت و کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔
مسلمان سپاہی موت سے کبھی نہیں ڈرا ۔ اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قوم کے لئے زندگی اور اپنے لئے حیاتِ جاودانی حاصل کی ۔ لیکن موت سے نہ ڈرنے اور جانتے بوجھتے خود کو موت کے منہ میں دے دینے میں بہت فرق ہے۔
ہجرت سے لے کر فتح مکہ تک رسول اﷲ نے اسلامی ریاست کو چہار طرف سے گھرے ہوئے دشمنوں سے بچانے ، اسے مستحکم اور خوشحال بنانے کے لئے ہمہ جہت ، مؤثر اور نتیجہ خیز پالیسیاں اختیار کیں ، ان پالیسیوں کے اثرات کے تحت ایک مستحکم اور شاندار اسلامی تہذیب وجود میں آئی۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنیادی اصولوں پر کوئی بھی سمجھوتہ کئے بغیر مختلف اوقات میں حالات کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی مرتب کی۔ جہاں جنگ کرنے اور داد شجاعت دینے کی ضرورت تھی وہاں عزم و استقامت کے ساتھ بہادری کے جوہر دکھائے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان معرکوں کی منصوبہ بندی بھی اس انداز سے کی کہ جانی نقصان کم سے کم ہو۔
قرآن پاک اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں زندگی کے مختلف مسائل و معاملات کے لئے واضح رہنمائی موجود ہے۔ یہ رہنمائی ہر دور میں قابلِ عمل ہے۔ اس رہنمائی سے بجا طور پر استفادہ کرناہمارا اپنا کام ہے۔ ہمیں اپنے ذہن اور اپنی سوچ کو استعمال کرنا ہوگا۔ ہمیں کوئی فرشتہ آکر نہیں بتائے گا کہ اس وقت تم لوگ فلاں بات پر عمل کرو ۔ ہمارے سامنے قرآن پاک اور رسول اﷲ کی حیاتِ مبارکہ مجموعی صورت میں موجود ہے۔ ان میں سے کب کس طرح رہنمائی حاصل کرنی ہے یہ ہمارا اپنا کام ہے۔
اس وقت پاکستانی قوم بالخصوص اور امت مسلمہ بالعموم انتہائی نازک اور سنگین صورتحال سے دوچار ہیں، اس نازک وقت میں حکمت و تدبر ، بصیرت ، دلیری و بہادری سے کام لینے کی ضروت ہے۔ ہمارا دشمن ظاہر بھی ہے اور چھپا ہوا بھی ہے۔ ہمیں صلح حدیبیہ اور غزوہ ٔ خندق میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اختیار کی گئی حکمتِ عملی کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے۔ بہادری محض میدان میں آکر داد شجاعت دینے کا نام ہی نہیں ہے کبھی کبھی اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا عمل بھی بہادری قرار پاتا ہے۔ ہمیں اﷲ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ اور کاملِ یقین کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ فہم و فراست کو کام میں لے کر حالات کا جائزہ لینے اور درست فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل جرأت مندی میدان میں دیوانہ وار نکل کر لڑنا نہیں ہے بلکہ معقول فیصلوں کے لئے بھی زیادہ ہمت و جرأت درکار ہوتی ہے اس لئے کہ ایسے فیصلے کچھ لوگوں کے لئے ناپسندیدہ ہوسکتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں عقلِ سلیم عطا کر اور ایسا فیصلہ کرنے کی توفیق عطا کر جسے بڑی تائید حاصل ہو ۔
ہم عنقریب ان کو اطراف عالم اور خود ان کی ذات میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے ۔ یہاں تک کہ
حق ان پر ظاہر ہوجائے گا۔ (سورہ حم السجدہ)