دشمن کا کام کیا ہوتا ہے؟؟

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی



دشمن کا کام کیا ہوتا ہے؟؟

کوئی نجات دہندہ آئے گا
خطرات بھی ہیں اور امکانات بھی

دنیا بھر میں آباد مسلمان خواہ وہ اسلامی ممالک میں بستے ہوں یا آبادی کے لحاظ سے کسی غیر مسلم اکثریتی ملک میں رہتے ہوں آج شدید اضطراب ، خوف اور بے یقینی میں مبتلا ہیں۔
 اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی ایک بے قصور انسان کاقتل تمام انسانوں کے قتل کے مترادف ہے۔ اپنے دفاع کے لئے اسلام نے ریاست اور دین کے دشمنوں سے جنگ کی اجازت دی ہے لیکن دنیا کے مذاہب میں یہ اعلیٰ وصف صرف اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے مسلمانوں کو جنگ کے دوران بھی زیادتی سے باز رہنے اور نرمی اور صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ دشمن عورتوں،  بچوں ، بوڑھوں کو نقصان پہنچانے ، اس قوم کی کھیتیاں اُجاڑنے اور شہروں کو تباہ و برباد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔
ترجمہ: اور تم اﷲ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ مگر زیادتی نہ کرو اﷲ زیادتی
کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۂ البقرہ)
 یہ تمام باتیں محض تلقین و نصیحت کی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ دورِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں کفار کی     پے در پے جارحیت سے دفاع کرتے ہوئے فتح پانے کے بعد، دور خلافت راشدہ میں اور اس کے بعد اسلامی احکامات پر عمل پیرا مسلمان حکمرانوں کے ادوار میں جب بھی حالتِ جنگ کا سامنا ہوا  اِن تعلیمات پر سختی سے عمل ہوتا رہا۔ البتہ غیر مسلم اقوام نے جو وحی کی تعلیمات سے محروم یا دور تھیں مخالف قوم کے ساتھ انسانیت کو شرما دینے والے مظالم کے پہاڑ توڑنے کو اپنا حق اور افتخار سمجھا۔
 کئی یورپی اقوام اور ایشیا میں منگول و تاتاری درندگی ، سفاکی، وحشت و بربریت کی انتہائی شرمناک تاریخ رکھتے ہیں۔ گذشتہ دو سو سالوں میں مغرب میں جمہوری نظام کی بالادستی ، انسانی حقوق کے احترام کے ’’معنی خیز نعروں ‘‘ کے باوجود یورپ میں آج بھی اس سفاکی کے مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بوسنیا میں گزشتہ چند سالوں میں مسلمانوں پر توڑے جانے والے شدید مظالم بے قصور مردوں ، عورتوں ، بچوں کا اجتماعی قتل عام ۔ مسلمان عورتوں کی عصمت کی پامالی ، املاک کی بربادی اور ان کی آئندہ نسلوں کا مستقبل تاریک کردینے کے اقدامات اس کی واضح مثالیں ہیں۔
 دنیا کی تاریخ  اُٹھا کر دیکھیں تو نظر آئے گا کہ مختلف وقتوں میں مختلف اقوام دوسری قوموں کے ہاتھوں ظلم و استبداد کا نشانہ بنیں، اہلِ کتاب اقوام میں سے نہ یہودی ظلم سے محفوظ رہے نہ عیسائی نہ مسلمان ۔ جہاں تک مظلوم ہونے کا تعلق ہے تو مختلف اوقات میں یہ تینوں اقوام ظلم کے آہنی شکنجہ میں کسی جاتی رہیں ۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے یہودیوں اور عیسائیوں نے جب بھی ان کا زور چلا اپنی مخالف قوم پر ظلم روا رکھنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی  ساتھ ہی تاریخ کی یہ گواہی بھی بہت ٹھوس اور معتبر ہے کہ اہلِ اسلام نے ظلم تو بہت سہے ہیں لیکن وہ خود ظالم کبھی نہیں بنے۔ نہ جنگ کے دوران نہ فتح کے بعد۔ اس کی سب سے روشن مثال فتح مکہ ہے۔فتح مکہ کے بعد بھی تاریخ ایسی روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
 رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی اسلامی ریاست چالیس سال سے بھی کم عرصہ میں جزیرہ نما عرب سے بڑھ کر دور دراز علاقوں تک پھیل گئی۔ اسلامی مملکت کی یہ توسیع اسلام کے فطری اصولوں ،انسانوں کو حقوق کی ادائیگی ، ایک شاندار اور بھرپور اسلامی تمدن کی وجہ سے ہوئی۔ اس دوران فوجی مہمات بھی ہوئیں لیکن کہیں بھی مسلمان سپاہ یا فاتح مسلمان قوم نے ظالم کا رویہ اختیار نہیں کیا ۔ اس کے بجائے اس دور کے معاشرہ کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کرایا ۔ یہ طرزِ عمل مختلف علاقوں میں غیر مسلموں کی جانب سے جوق در جوق اسلام قبول کرلینے کا سبب بنا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں آباد بہت سے غیر مسلموں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ ان کے اس طرزِ عمل پر اسلامی ریاست نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ انہیں اسلام قبول کرلینے پر مجبور نہیں کیاگیا نہ ہی انہیں دوسرے درجہ کے شہری گردانا گیا ۔ بحیثیت شہری اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے تمام حقوق کی پاسداری اور حفاظت کی گئی ۔ ان کے لئے وظائف مقرر کئے گئے ۔ ان کی عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا نہ صرف یہ بلکہ ان عبادت گاہوں کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے باقاعدہ مالی اعانت بھی فراہم کی جاتی رہی۔
 دنیا کی دوسری بہت سی قوموں کی طرح ہم کبھی غالب رہے کبھی مغلوب اور کبھی مظلوم لیکن ظالم کبھی نہیں بنے۔ اس لئے کہ اسلام ہر قسم کے ظلم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ ظلم کو پسند نہیں کرتے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اﷲ ظالم کو ناپسند کرتا ہے اور مظلوم کے ساتھ ہوتا ہے۔
 وہ دین جو امن و سلامتی کا دین ہے۔ وہ دین جو ظلم کی ہر شکل کے خلاف ہے۔ اس دین کے پیروکار ظلم پر کمربستہ ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر اس دین کا نام لیوا کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو وہ اپنے دین کی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی کرتا ہے۔ تاہم اسلام جہاں ظلم کی کسی بھی قسم کو پسند نہیں کرتا وہاں مسلمانوں کو یہ بھی حکم دیتا ہے وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو روکنے کی کوشش کریں۔ ظلم کو پسند نہ کرنا اور ظالم نہ بننے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ظلم سہتے رہنے کا مطالبہ کیا جارہا ہو۔
  گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ برصغیر میں برطانوی استعمار ، خلافت عثمانیہ کے زوال، عرب ، افریقہ اور مشرقِ بعید میں برطانوی ، فرانسیسی ، ولندیزی اور دیگر اقوام کی جانب سے اپنی کالونیاں تشکیل دینے کے عمل سے سب سے زیادہ مسلمان قوم متاثر ہوئی ۔ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ ان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ ان کے عقائد اور طرزِ زندگی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ کہیں سیاسی چالبازیوں سے ، کہیں اقتصادی لالچ یا دباؤ سے اور کہیں براہِ ارست فوجی جارحیت کے ذریعے مسلمانوں پر شکلیں بدل بدل کر ظلم ہوتا رہا اور مسلمان ۔۔۔۔۔مسلمان زیادہ تر مسجدوں ، خانقاہوں ، کھلے میدانوں ، دفتروں اور گھروں میں تقریریں ، مذاکرے باتیں اور دعائیںکرتے رہے۔ عملی جدوجہد سے دور رہ کر اﷲ سے دعا کرتے رہے کہ مسلمانوں کا بول بالا کردے کفار کو نیست و نابود کردے۔
 گزشتہ دو سو سالوں کے حالات اور اپنے طرزِ عمل کاجائزہ لیں۔ ہمیں صاف نظر آئے گا کہ ہم عمل کے بجائے ردّ ِ عمل میں مصروف قوم ہیں۔ ہمارے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو ہم گلہ کرتے ہیں، ظلم ہوتا ہے تو فریاد کرتے ہیں ، کوئی چوٹ مارتا ہے توسسکی بھرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ زیادہ کچھ کرنا ہو تو اپنے دشمنوں کو برا بھلا کہتے ہیں ،ان کے خلاف جلوس نکالتے ہیں، جلسے کرتے ہیں ، قراردادیں منظور کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ردّ عمل کی نفسیات میں مبتلا قومیں کبھی ترقی و استحکام حاصل نہیں کرتیں۔
 ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ امریکہ ، روس ، مغرب اور دیگر غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہم اپنی فریادیں لے کر بھی امریکہ اور مغرب کے پاس ہی جاتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ۔ ہم ان سازشیوں کو برا کہتے ہیں انہیں کوسنے دیئے جاتے ہیں۔ ان کے نیست و نابود ہونے کے لئے غیبی طاقت کے انتظار میں رہتے ہیں۔
  سوال یہ ہے کہ دشمن کا کام کیا ہوتا ہے؟ کوئی اسلام کا دشمن اسلام کی مدد کرے گا یا اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا؟ ہم فریاد کناں بن کر یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہائے دشمنانِ اسلام ہمارے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ ارے بھائی ! دشمن تو سازش ہی کرے گا اب یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ ان سازشوں کو کامیاب ہونے دیتے ہیں یا انہیں اس طرح ناکام بناتے ہیں کہ دشمن کو کچھ کر گزرنا تو درکنار اُسے آپ کے خلاف آئندہ کچھ سوچنے کی بھی ہمت نہ ہو۔
 سوال یہ ہے کہ دشمن کو اس کے ارادوں اورعزائم سے کیسے باز رکھا جائے؟
 سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا دشمن تو ہمارے خلاف سازشیں ضرور کرے گا۔ ہمیں ان سازشوں پر جلنے کڑھنے کے بجائے ان سازشوں کے توڑ کے لئے اپنی اجتماعی دانش و بصیرت کو استعمال کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسی پالیسیاں اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرنا ہوگا جس کی بدولت قوم علمی ، سیاسی ، اقتصادی اور دفاعی طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے۔
 لیکن یہ پالیسیاں کون بنائے؟ یہ مقاصد کیسے حاصل ہوں؟!؟
 کیا ہماری قوم میں تعلیم کی شرح خطرناک حد تک کم ہونے کے باوجود ایسے جواہرِ قابل موجود نہیں ہیں جو آج کے دور کے حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر قوم کے لئے دور رس نتائج کی حامل مفید حکمتِ عملی ترتیب دے سکیں ۔
 ہمارا یقین ہے کہ صورتحال اتنی خراب نہیں ، اس قوم کے پاس ذہانت کی کمی نہیں ہے۔ مسئلہ اجتماعی مقاصد کے لئے اس ذہانت کو بروئے کار لانے کا ہے۔ یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ اپنے ذاتی معاملات میں ، اپنے گھر ، دفتر ، کاروبار یا دیگر کسی بھی ذاتی معاملہ میں ہم اپنی ذہانت کا بہت خوب استعمال کرتے ہیں ۔ جب معاملہ اجتماعی مقاصد کا آتاہے تو ہم اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہمارا رویہ کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ہم اپنے فرائض کی ادائیگی سے زیادہ اپنے حقوق طلبی کے خواہاں رہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارے اجتماعی کام کردے۔ بعض حلقوں میں تو یہ سوچ کچھ اس طرح رچ بس گئی ہے کہ وہ دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ کہیں سے کوئی نجات دہندہ آکر انہیں فتح اور نصرت دلوا دے گا۔ یہ سوچ کتنی ہی دلاویز اور دلکش کیوں نہ ہو۔ درست بہرحال نہیں ہے۔
 ہمارے بڑے بڑے مسائل میں یہ مسئلہ بھی شامل ہے کہ ہمارے حکمران خود کو فہم و دانش کا سمندر اور عقلِ کل سمجھتے رہے ہیں جبکہ عوام سمجھتے رہے کہ حکمران اپنے ہموطنوں کے حالات و مسائل جانتے ہی نہیں۔ خود بہت سے حکمرانوں نے بھی عوام سے دور دور رہنے کو فنِ حکمرانی کا ضروری تقاضہ اور اپنی شان سمجھا۔
 اس سوچ نے حکمرانوں اور عوام کے درمیان دوریاں اور بدگمانیاں پیدا کیں ، ٹھوس اعتماد کے بجائے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ اس صورتحال نے نفسانفسی اور انفرادی سوچ کو فروغ دیا۔اب ذاتی و انفرادی مفادات کے حصول کے لئے ذہانت کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
 انسانی ذہن کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ ذہانت جس طرح زیادہ استعمال ہوتی ہے اس میں مہارت و پختگی حاصل ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر تعمیری کاموں میں ذہانت استعمال کی جائے تو نتیجہ میں ذہن میں مثبت خیالات اور آئیڈیاز زیادہ آتے ہیں۔ تخریبی کاموں میں ذہانت استعمال کی جائے تو ذہن شیطانی خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہم نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ سامنے رکھا ۔ اجتماعی مفادات کے حصول پر کم توجہ اور کم وسائل صرف کئے ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ذاتی معاملات میں ہم خوب کامیاب ہیں ۔ اجتماعی معاملات میں ہم اکثر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے۔
 آج ہم ایک مرتبہ پھر حالات کے اُلٹ پھیر کی وجہ سے ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں۔ جہاں سے کئی راستے نکلتے ہیں ۔ ان میں سے درست راستہ کے انتخاب کے لئے ہمیں اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ فہم و فراست کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں استعمال کرنا ہوگا۔ آج ہمیں جن حالات کاسامنا ہے ان میںہمارے لئے خطرات بھی ہیں اور امکانات بھی۔ خطرات فوری بھی ہیں اور دور رس بھی اسی طرح امکانات محدود بھی ہیں اور لامحدود بھی ۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں زیادتی نہ کرنے کا حکم دیا ہے ساتھ ہی ظلم سہتے رہنے سے بھی منع کیا گیا ہے اور اس سے بچنے کے طریقہ بھی تعلیم کئے گئے ہیں۔ ظلم صرف وہی نہیں ہوتا جو دوسروں کی طرف سے ہو بعض اوقات اپنے فیصلوں یا اپنے منفی طرزِ عمل سے افراد یا قومیں خود اپنے اوپر ظلم شروع کردیتی ہیں۔ آج ہماری ہلکی سی لغزش یا معمولی سا غلط فیصلہ ہمارے لئے اپنے اوپر شدید ظلم کے مترادف ہوگا۔ ایسا ظلم جس کا خمیازہ نہ صرف موجودہ نسل کو بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
ترجمہ: ان سے کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟
وہ لوگ دنیا میں جن کی ساری کوشش اور جدوجہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ
وہ سب کچھ ٹھیک کررہے ہیں۔ (سورہ الکہف)

وماعلینا الا البلاغ



[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، نومبر 2001ء ]

[از : کتاب حق الیقین ، صفحہ 135-140 ]


اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے