مطالعہ ٔقرآن

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی



مطالعہ ٔقرآن



حصہ اول

مطالعہ ٔقرآن

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی


قرآن اللہ کا کلام ہے۔ اللہ نے اپنا یہ کلام اپنے آخری نبی اوررسول حضرت محمد  ﷺ کے قلب اطہر پر بذریعہ وحی نازل فرمایا۔قرآن کی تلاوت کرنا ، اس کے معانی ومفہوم سمجھنے کی کوشش کرنا، اللہ کی نشانیوں میں غوروفکر کرنا ایک بہت مبارک اورباسعادت عمل ہے۔


قرآن کو سمجھنے  کے مختلف ذرائع ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ قرآن کو خود قرآن کے ذریعے اورصاحب قرآن علیہ الصلواۃ والسلام کے ارشادات  کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن کے سب سے پہلے مفسر اور شارح  خود حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے یہ تشریحات  اپنے کئی صحابہ اوراہل بیت کے سامنے بیان فرمائیں۔   ان ہستیوں کو نزول قرآن کے دنوں میں ہی صاحب قرآن، معلم ِاعظم سے قرآن سمجھنے  کے مواقع عطا ہوئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد قرآن کو سمجھنے کے ذرائع اہل بیت  اطہار اورصحابہ کرام ہیں۔
صحابہ کرام کے بعد تابعین اورتبع تابعین میں کئی ہستیوں نے خود کو قرآن کی تعلیم وتدریس کے لیے وقف کیا۔اس مقدس کام کو امت مسلمہ کے علمائے حق  آگے بڑھاتے رہے۔ ان علمائے حق میں فقہ کے علمابھی  ہیں اورباطنی علوم کے حاملین علماء باطن اولیاء اللہ بھی شامل ہیں۔
انبیاء کے ذریعے اور اللہ کی کتابوں سے نوعِ انسانی کو اس حقیقت سے آگہی ملی  کہ زمین آسمان، نظام ہائے شمسی، کہکشائیں اور ساری کائنات  اللہ نے  تخلیق کی ہے۔  اللہ نے فرشتوں ،جنات ،انسان اورلاکھوں کروڑوں انواع پر مشتمل دوسری بے شمار مخلوقات کو تخلیق کیاہے۔

علم الاسماء اور خلافت فی الارض

انسان کو اللہ نے اس زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ اسے علم الاسماء عطافرمایاہے۔ علم الاسماء اللہ تعالیٰ کی بے شمار ،بے حد وحساب صفات کا علم ہے۔ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظاہرہ ہے ۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کو سمجھنے اورکسی حد تک انہیں بروئے کار لانے کے لیے علم اور اختیار عطا فرمایا ہے۔
اس کائنات کے ہررکن کو خود اس کے اپنے بارے میں آگہی عطا کی گئی ہے۔زمین جانتی  ہے کہ میں زمین ہوں، سورج جانتا ہے کہ میں سورج ہوں، پانی کو  اپنے پانی ہونے کا شعور ہے،مٹی جانتی ہے کہ وہ مٹی ہے۔اس زمین پر پائے جانے والے حیوانات ،جمادات ،نبادات اپنے اپنے وجود سے واقف ہیں۔ اپنے وجود سے واقفیت کے ساتھ ہی کائنات کا ہر رکن کسی نہ کسی ذریعے سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے۔اپنی نوع کے ساتھ تعارف اورتعلق کی ایک ڈور میں بندھے ہونے کے ساتھ ساتھ ہر مخلوق دوسری انواع کے ساتھ بھی ایک غیرمرئی ڈور میں بندھی ہوئی ہے۔ اس غیر مرئی ڈور میں مثبت  ومنفی چارج اورکشش وگریز بھی روبہ عمل ہیں۔
یہ ساری کائنات  اللہ کے علم کا ،اللہ کے ارادے کا اظہار ہے۔انسان کو اللہ نے بہت زیادہ اور بنیاد ی علم عطا فرمایا ہے۔

روشنی ۔ نور

 علم کی کوئی علامت بیان کی جائے تو کہا جائے گا کہ علم روشنی ہے۔ کائنات کی ہر تخلیق، ہرحرکت اللہ کی قدرت اورخالقیت کا اظہار ہے ۔ اللہ کی قدرت و خالقیت اللہ کے علم کاحصہہے۔
اللہ کے بھیجے ہوئے  انبیا و مرسلین کے ذریعے اور اللہکی کتابوں کے ذریعے انسانوں کو حقائق سے آگہی ملی۔ قرآن پاک میں اللہ کے  ایک ارشاد
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
(سورۂ نور : آیت 35)
میں  غور و فکر کے کئی پہلو موجود ہیں ، 
اس میں یہ نکتہ  بھی  واضح ہوتا ہے  کہ کائنات کے ہررکن کو اورہر نوع کے ایک ایک فرد کو زندگی اور حرکت اللہ کے نور سے مل رہی ہے۔
  انسان کی ہستی اس نور سے اس طرح منسلک ہے کہ اس کا اثر  جسمانی (Biological) بھی ہے اور روحانی (Spiritual) بھی یعنی اس کا اثر جسم اورروح (Body & Soul) دونوں پر ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے  کہ قرآنِ پاک میں  اللہ کے کلام کو  بھی نور کہا ہے۔
 لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس دلیل (روشن) آچکی ہے۔ اور ہم نے (کفر اور ضلالت کا اندھیرا دور کرنے کو) تمہاری طرف چمکتا ہوا نور بھیج دیا ہے ۔ [سورةالنِّسَاء:174]
بیشک تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے۔[سورةالمَائدة:15]
جو کتاب موسیٰ (علیہ السلام ) لے کر آئے تھے اُسے کس نے نازل کیا تھا،  جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی۔ [سورة الاَنعام:91]
ان (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو انجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نور ہے.  [سورةالمَائدة:46]

قرآن سے ہدایت

قرآن پاک کی تلاوت ،قرآن پاک کی آیات میں غوروفکر ایک بہت ہی مبارک  اورباسعادت عمل ہے۔جیسا کہ ہم نے سلسلہ عظیمیہ کے زیر اہتمام اپنی ماہانہ کلاسوں میں بھی بیان کیاہے کہ قرآن کی ہرآیت، اللہ کا ہر اسم ،حضرت محمد پرصلوٰۃ اور سلام ان سب کے اپنے اپنے انوار ہیں۔جب ہم اللہ کا کلام پڑھتے ہیں،اللہ کے کسی اسم کا ورد کرتے ہیں،رسول اللہ  ﷺ پر ہدیہ صلوٰۃ پیش کرتے ہیں تو ان کے انوار ہمارے وجود پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ہر تحریر،ہربات الفاظ پرمشتمل ہوتی ہے۔ کوئی بہت بڑی بات انتہائی کم الفاظ میں بیان کردی جاتی ہے اورکبھی کسی ایک موضوع پر ضخیم کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ اس کی واضح مثالیں شعر اورنثر ہیں۔
تحریر الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔یہ الفاظ معانی اورمفہوم لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ بات سننے یا پڑھنے سے زیادہ اس کو سمجھنا اہم ہوتاہے۔بات کو ٹھیک طرح سمجھنے  کے لیے اس بات کاپس منظر اوردیگر متعلقہ حقائق سے واقفیت  ضروری ہے۔
الفاظ کے معنی جاننے کے باوجود  مطلب اورمحل استعمال سمجھے بغیر کسی قول کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔
 واضح رہے کہ فہم ہماری سوچ یا طرزفکر کے تابع بھی ہوتی ہے۔  یعنی دوسروں کی کئی باتوں کا مطلب ہم اپنی مخصوص سوچ کے تحت اخذ کرتے ہیں۔ کسی کے بارے میں خوش گمان ہوتے ہیں تو اس کے الفاظ میں اپنے لیے اچھے مطلب اخذ کرتے ہیں۔ کسی سے مخالفت یا بدگمانی کا تعلق ہو تو اس کے اچھے الفاظ کا بھی اپنے لیے ظنز یا تنبیہہ کے مطلب اخذ کرتے ہیں۔ آدمی کی سوچ یا طرزفکر گھر اورمعاشرے کے ماحول سے ،انفرادی رجحانات سے، حلقہ احباب سے، استاد یااساتذہ سے،اپنے نسلی ،ثقافتی ورثے اوردیگر عوامل سے تشکیل پاتی ہے۔
جاننے یعنی آگہی کے لیےیاتعلیم کے لیے  پڑھنا یا سنناضروری ہے اور تربیت  کے لیے قول یا سبق کی  تفہیم ضروری ہے۔
قرآن ایک معجزاتی کلام ہے۔ یہ کلام عربی زبان میں ہے۔ماہرین لسان بتاتے ہیں کہ قرآن  کا انداز عربی زبان و ادب کی کسی  خاص صنف پر  نہیں ہے۔ اس کلام میں جو فصاحت و بلاغت ہے جو گہرائی اور گیرائی ہے عربی زبان کے بڑے بڑے شعراء  اور ادباء نے اس کے سامنے عاجزی کا اظہارکیاہے۔
عربی اسپیکنگ افراد ہوں یا عربی نہ جاننے والے افراد، قرآنی آیات کے مفاہیم تک پہنچنے کے لیے کئی تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں۔
قرآن کو سمجھنے کے لیے محض عربی زبان سیکھ لینا کافی نہیں ہوگا۔ قرآنی آیات میں بیان  ہونے والے الفاظ کی درست تفہیم کے لیے اس کے لغوی معنی کے ساتھ  کسی آیت کے شان نزول، متعلقہ آیت یا سورہ کے حوالے سے تمدنی اور معاشی حالات، افراد ، قبائل اور قوموں کے معاملات و معمولات  اور حسب ضرورت دیگر امور سے واقفیت ضروری ہے۔
قرآن پاک کے الفاظ یعنی متن کا پڑھنا تلاوت ہے۔ان  الفاظ کے معانی اورمفہوم کو سمجھنا فہم القرآن ہے۔  اللہ کی  مشیت اور رسول اللہ ﷺ کے اسوۃ حسنہ کو سمجھتے ہوئے  اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کے لیے خود کو تیار کرنا، قرآن سے ہدایت پانا ہے۔
ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ ایک مسلمان کے لیے اللہ کی اطاعت کے ساتھ اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت لازمی ہے۔
 اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے [سورة آلعِمرَان:132]
 اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا  بیشک وہ بڑی مراد پائے گا ‏[سورۂ احزاب : 71]
جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرے گا اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ ‏[سورةالنِّسَاء:013]
قرآن  نور ہے ۔ قرآن کے الفاظ میں بھی انوار پنہاں ہیں۔  
تو اللہ  پر اور اس کے رسول پر اور نور (قرآن)پر جو ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ۔ [سورۂ  تغابُن:8]
یہ نور کیا ہے....؟
اس کا ایک مطلب تو ایسی روشنی ہے جو راستے  اور اشیاء کو واضح کردیتیہے۔
ایک مطلب دانش و بصیرت و حکمت ہے۔ ایسی روشنی جو حقائق منکشف(Reveal)  کردے، یعنی نور کشف کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ روحانی بزرگوں کے مطابق اس کا ایک مطلب وہ نورہے جس کا تعلق انسان کے باطن سے ہے۔ قرآن کا نور انسان کے باطن کو روشن و منور کردیتا ہے اور انسان کی باطنی نظر کو بیدار اور متحرک کردیتا ہے۔
مجموعی مفہوم یہ سامنے آیا کہ قرآن سے روشنی حاصل کرنے والوں پر قدرت کے قوانین اور اسرار واضح ہوجاتے ہیں۔ ان کے سامنے روشن اور واضح   شاہراہ ہوتی ہے۔ وہ خالق کائنات کی مرضی اور مشیت کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر بصیرت و دانش مندی کے ساتھ اس طرح طے کرتے ہیں کہ مادی تقاضوں کی درست طور پر تکمیل ہوتی رہے اور روحانی تقاضوں کی تکمیل بھی ہوتی رہے۔ قرآن کا نور انسان کو مادی اور روحانی ہر طرح کے سفر میں روشنی اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
اس طرح مختلف  درجات یا  پہلو سامنے آتے ہیں۔
1۔ قرآن کے الفاظ
2۔ قرآن کے مفاہیم
3۔ قرآن سے ہدایت
4۔ قرآن کے انوار
قرآن کے متن کو پڑھنا یعنی تلاوت کرنا بہت  مبارک عمل ہے۔ اس کے بعد مرحلہ ہے آیت یا آیات  کے مفہوم تک پہنچنے کاپھر ہدایت کا مرحلہ  ہے۔
 ایک مرحلہ ہے  قرآنی آیات کے انوار کووصول (Receive) کرنا ۔

اولیاء اللہ کا طرز تربیت اور تعلیم

حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ کا طرز تربیت وتعلیم یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت سے آغاز ہو اور  درجہ بدرجہ آگے بڑھتے ہوئے قرآن کے انوار تک رسائی ہوجائے۔ آپ کوئی سبق پڑھیں گے تواس کی روشنیاں آپ کومل رہی ہوں گی۔ یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی آیت   پڑھیں   ، اسمائے الٰہیہ کا وردکریں   تواس کے انوار قاری  کے وجود پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ  انوارہمارے  وجود کا صحیح طورپر حصہ بنیں اس کے لیے ایک استاد،ایک مرشد (Guide)کی ضرورت ہے۔ استاد یا مرشد اپنے شاگرد یا مرید کو تعلیم دیتے ہیں۔ ان کی  تہذیب نفسی فرماتے ہیں۔ ذہن سازی کرتے ہیں اوراعلیٰ ظرف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کوئی علم حاصل کرتے ہیں،آپ دنیا کا کوئی بھی کام کرتے ہیں آپ کو استاد کی، گائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم طب، علم قانون، انجینئرنگ اوردیگر علوم کی کتابیں موجود ہیں لیکن محض ان کتابوں کو پڑھ کر کوئی شخص ڈاکٹر،وکیل یا انجینئر نہیں بن سکتا۔
 آپ کوعلم کی کسی بھی شاخ میں اور کسی خاص Fieldمیں وقتاً فوقتاً ٹیچرز اورTrainerملتے جاتے ہیں۔ مرحلہ وار آپ کی سمجھ نکھرتی جاتی ہے۔وہ ٹیچراورTrainerآپ کونکھارنے میں اورآپ کو ایک خاص Channelپر  رکھنے میں ، ضابطوں اور حدود میں رہنے کی مشق کے لیے آپ کے رہنما اور مدد گار ہوتے ہیں۔
قرآن پاک پڑھنا اورسمجھنا ہمارا انفرادی عمل ہوسکتاہے لیکن جیسے جیسے ہم اس میں آگے بڑھتے ہیں ہمیں بہرحال ٹیچرکی ،معلم کی ضرورت پڑتی ہے ۔
نوع انسانی کے لیے قرآن کے سب سے پہلے مبلغ اورمعلم  اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ ہیں۔ حضورﷺ قرآن کے اولین مفسر اور شارح ہیں۔ آپ علیہ الصلواۃ والسلام کے بعد صحابہ کرام اور اہل  بیت  اطہار ہیں۔ ان کے بعد یہ محترم فریضہ علمائے حق اوراولیاء اللہ اداکرتے رہے ہیں۔
قرآنی علوم کی ترسیل کے لیے اسلام کے دوراول میں  حلقہ  ہائے درس قائم ہوچکے تھے۔ تزکیہ نفس اور دیگر کئی امور میں عملی تربیت  کے لیے نمایاں  خدمات سلاسل طریقت  نے انجام دیں۔سلاسل طریقت سے وابستہ افراد کے لیے قرآن کی تعلیم وتربیت کا اہتمام ، قرآن پاک اور  معلم اعظم علیہ الصلواۃ والسلام کے عطا کردہ اصولوں کے مطابق ہوا۔ تربیت کے ان طریقوں سے آگہی خود قرآن کے ذریعےہوئی۔
حضرت محمدرسول اللہﷺکوتربیت کے طریقے اورانداز خود اللہ تعالیٰ نے سکھائے ہیں۔ اس سلسلے میں قران پاک میں سورہ بقرہ آیت نمبر  129۔151،سورہ آل عمران آیت نمبر  164، اورسورہ جمعہ آیت نمبر 02 بہت زیادہ غورطلب ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے اپنے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل  کے ساتھ ایک غیر آباد علاقے مکہ میں ‘‘بیت اللہ شریف ’’ تعمیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کیں ان میں سے ایک دعاقرآن پاک کی سورہ بقرہ (129)میں ہے۔
ترجمہ: اے ہمارے رب!  بھیج ان میں انہی میں سے ایک رسول جو انہیں  تیری آیتیں سنائیں ،انہیں سکھائیں   کتاب  دانائی اور ان کا تذکیہ کردیں،بے شک تو العزیز اور الحکیمہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی، اپنےخلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاقبول فرمائی اورمکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے  حضرت اسمعٰیل  علیہ السلام کی اولاد میں کئی صدیوں بعد  حضرت محمد ﷺ کی ولادت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کاجواب وحی کے ذریعہ بھی عطافرمایا۔ یہ جواب سورہ بقرہ آیت151،سورہ آل عمران آیت نمبر 164اورسورہ جمعہ آیت نمبر2میں ہے۔  
سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
ترجمہ: اللہ نے انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا ،(یہ رسول) انہیں اللہ کی آیتیں سناتے ہیں،ان کا تذکیہ کرتے ہیں، انہیں کتاب سکھاتے اور حکمت عطا فرماتے ہیں۔ یقیناً اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں (مبتلا) تھے۔
 حضرت ابراہیمؑ کی دعااوراللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب دعا کے الفاظ اوران کی ترتیب پرتوجہ سے غورکیجئے :
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعاکرتے ہوئےاللہتعالیٰ کے حضور چار گزارشات کیتھیں۔
اے اللہ.... !
 (1) ان میں انہی میں سے ایک رسول معبوث فرما جو انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے ، (2)انہیں کتاب سکھائے (3)تعلیم وحکمت عطا فرمائے  (4)ان کا تزکیہ فرمائے ۔
حضرت ابراہیمؑ کی دعا میں پہلے کتاب وتعلیم کا ذکرہے ، تزکیہ کاذکربعدمیں ہے جبکہ جوابِ دعا  میں اللہ تعالیٰ کی طرف  سے تزکیہ کاعمل پہلے تلقین فرمایا گیاہے۔
جوابِ دعا  والی آیات میں وحی کے الفاظ کی ترتیب انتہائی توجہ طلب ہے۔ غور سے پڑھئے :
ترجمہ:  اللہ نے انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا ، (یہ رسول) انہیں اللہ کی آیتیں سناتے ہیں،ان کا تذکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب سکھاتے اور حکمت عطا  فرماتے ہیں۔ یقیناً اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں (مبتلا) تھے۔(سورہ جمعہ)
یہ نبی مکرم معلم اعظم حضرت محمد ﷺکاطریقۂ تدریس ہے ۔پہلے تزکیہ پھرتعلیم ۔
یہی طریقہ تدریس حضرت محمدرسول اللہﷺ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ اورصوفیاء کرام نے اختیارکیا ہے یعنی تربیت پہلے تعلیم اس کے بعد ۔
روحانی بزرگ اپنے وابستگان ،اپنے شاگردوں ،اپنے  مریدین کے لیے پہلے تزکیہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ان کی طرزفکر کودرست کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں تعلیم دینا شروع کرتے ہیں۔یہ نکتہ بہت زیادہ اہم ہے کہ ذہن مثبت طرزوں میں سوچنے کا عادی ہوجائے گا،انسان کی سوچ میں اللہ پر توکل کا احساس حاوی ہوگا تواس کی زندگی کے ظاہری معاملات میں نہایت آسانی کے ساتھ سدھارآتا جائے گا۔
حضور علیہ الصلواۃ والسلام کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے   سلاسل طریقت کی تریبت یافتہ کئی ہستیوں نے  اس دنیا میں انسانوں کے لیے معلم، مصلح، مربی ،مزکی اورمبلغ وغیرہ کے کردار اداکئے۔
مسلمانوں کی تعلیم واصلاح ،دین اسلام کی تبلیغ  اوردیگر شعبوں میں کئی اولیاء اللہ کی شاندار خدمات  تاریخ میں جگمگارہی ہیں۔
قرآن کی تعلیم وتفہیم کے لیے ،تزکیہ نفس کے لیے، من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ کی توضیح اورتحصیل کے لیے، تعلیمات محمد علیہ الصلواۃ والسلام کو سمجھنے کے لیے ،اتباع رسول اوراسوہ حسنہ پر عمل کے تقاضوں کو سمجھنے کے لیے ،  دنیا اورآخرت میں کامیابیوں  کے راستوں پر چلنے کے لیے ،اپنی روح کے عرفان کے لیے، اللہ وحدہ لاشریک کا قرب پانے کے لیے  حضرت محمدﷺ کے روحانی علوم کے وارث علمائے حق،اولیا اللہ بہترین استاد اور بہترین گائیڈ ہیں۔

قرآن کیسے سمجھا جائے

قرآن  سمجھنا ہے تو بہتر یہ ہوگا کہ عربی زبان سیکھی جائے ۔کسی کلام کا ترجمہ وہ معنی نہیں دے سکتا جو معنی اصل کلام کے ہوتے ہیں۔  ترجمہ نہ وہ معنی دے سکتا ہے اور نہ پڑھنے کا صحیح سرور دے سکتا ہے۔ترجمہ بہر حال ترجمہ ہوتاہے۔
قرآن  اللہ کی کتاب ہے۔ اللہ کایہ کلام  عربی میں نازل ہوا ہے۔کسی دوسری زبان میں ترجمہ کے ذریعے اس پیغام کے معانی اور  مفاہیم کو کما حقہُ منتقل کرنا مترجمین کی استعداد سے باہرکی بات ہے۔   بہرحال قران کے پیغام کو پھیلانے کے لیے ترجمہ ضروری قرار پایا اوریہ اچھا ہی ہوا۔
ہم عربی نہیں جانتے ،ہماری یہ مجبور ی ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے اس کے ترجمہ پر انحصارکیا جائے ۔   لیکن اس مجبوری کو  تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھئے  ، اگر ہم  عربی زبان جانتے  یا  عربی ہماری  مادری زبان ہوتی تو بھی کیا ہم اس کلام کے معنی اورمفہوم کو فوری طورپر سمجھنے کے قابل ہوتے...؟ یا ایسی صورت میں بھی ہمیں استاد کی ضرورت پیشآتی....؟
میری اس تحریر کے قارئین اردو زبان بولنا، پڑھنا اورلکھنا جانتے ہیں۔ قارئین میں سے اکثر نے انٹر، گریجویشن یا ماسٹرز تک تعلیم بھی حاصل کی ہوگی۔ اکثر نے حکیم الامت  علامہ اقبال  کے اشعار بھی سنے یا پڑھے ہوں گے۔
 علامہ اقبال کی کتاب بانگ دراء،بال جبرائیل سے چند اشعار ہمیں سنائے جائیں ۔ان اشعار میں بیان ہونے والے الفاظ کے معانی ہم سب کو معلوم  ہوں گے ۔سوال یہ ہے کہ کسی شعر میں چند  الفاظ جو مطلب دے رہے ہیں کیا ہم ان سے بھی واقف ہوں گے۔
اس تحریر کے  قارئین میں سے کسی کی مادری زبان پنجابی ،سرائیکی ،سندھی ،پشتو، ہندکو،کشمیری، بلوچی، براھوی بھی ہوگی۔ میرا سوال یہ ہے کہ پنجابی ، سندھی یا پشتو  بولنے والے بابا بلھے شاہ ، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ یا  رحمن بابا کے کلام کے مفہوم کو محض الفاظ پڑھ کر سمجھ جاتےہیں۔
اردو ہویاکوئی اور زبان اس کے کلام کومثلاً اشعار کو سمجھنے کے لیے الفاظ کے محل استعمال، جس دور میں وہ شعر کہا گیا ہے  اس دور میں رائج زبان، اس دور کے حالات، کسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے تو اس واقعہ کے بارے میں معلومات وغیرہ ہونی چاہیں یعنی کسی شعر کو سمجھنے کے لیے کسی دور کے حالات ،تہذیب ، تمدن اورتاریخ سے واقفیت بھی ضروری قرار پاتی ہے۔
 ایک مشہور نعت کا شعر ہے۔
زمیں میلی نہیں ہوتی ، زمن میلا نہیں ہوتا
محمد کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا
قارئین کرام ....! اس شعر میں  آنے والے سب الفاظ عام فہم ہیں۔ اردو سمجھنے والے خواتین و حضرات کو ان الفاظ کے معنی معلوم ہوں گے۔ یہ شعر وابستگی کے اثرات، محبت اور عقیدت کے جذبوں کی خوب ترجمانی کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ شعر محض شاعر کے جذبوں کا اظہار ہےیا کسی تاریخی  واقعہ کے ذریعے  آشکارہ ہونے والی ایک حقیقت کا منظوم بیان ہے....؟
بغداد سے تیس میل دور قصبہ سلمان پاک کی ایک پُرشکوہ عمارت میں صحابی رسول سیّدنا سلمان فارسی ؓ  کا مزارِ مبارک ہے ۔ اسی مقام پر  رحمۃ اللعالمین ﷺ کے دو جلیل القدر صحابہ (جن سے متعدد احادیث بھی مروی ہیں) حضرت ‘‘حذیفہ بن الیمان’’ اور حضرت ‘‘جابر بن عبداللہ الانصاری’’ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قبور بھی ہیں۔ یہ قبور پہلے یہاں نہیں تھیں بلکہ  ان دونوں صحابہ کرام کی قبریں مسجدسلیمان اور دریائے دجلہ کے درمیان مسجد سے تقریباً چار فرلانگ کے فاصلے پر تھیں۔
1932میں ایک رات عراق کے حکمران شاہ فیصل اوّل  کو خواب میں   حضرت حذیفہ بن یمان ؓکی زیارت ہوئی ۔آپ  نے  اپنا تعارف کروایا اور عراق کے بادشاہ سے فرمایا‘‘مجھے اور جابر کو یہاں سے منتقل کر دو کیونکہ دریائے دجلہ کا پانی قبر میں رِس رہا ہے۔’’
شاہِ عراق نے مسلسل دو راتوں تک یہی خواب دیکھا مگر سمجھ نہیں پایا۔ تیسری رات حضرت حذیفہ نے مفتی اعظمِ عراق نوری السعید پاشا کے خواب میں آ کر یہی بات دہرائی۔  اس معاملے پر عراق کے مفتی نوری السعیدی کے فتوے کے بعد ایک شاہی فرمان جاری ہوا۔
24 ذی الحجہ، 25 اپریل، پیر کے دن 1932 عیسوی میں ہزاروں انسانوں کی موجودگی میں یہ مزارات کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کی قبر مبارک میں پانی آچکا تھا اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓکے مزار میں نمی  ہو چکی تھی۔ پہلے حضرت حذیفہ کے جسدِ مبارک کو قبر سے نکال کر اسٹریچر پر رکھا گیا۔پھر حضرت جابر بن عبداللہ کے جسدِمبارک کو قبر سے نکالا گیا۔ ان واقعات کو براہِ راست دیکھنے والوں میں مُسلم اور غیرمُسلم افراد شامل تھے۔
حدیث لکھنے اور روایت کرنے والے اِن عظیم المرتبت صحابہِ کرام کے چہروں، کفن اور ریش مبارک دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے انہیں رحلت فرمائے 1400 برس نہیں بلکہ صرف چند گھنٹے ہی گزرے ہوں۔ ان صحابہ کے اجسام مبارکہ اور کفن بھی صحیح سلامتتھے۔
شاعر نے جب یہ واقعہ پڑھا ہوگا تو ان کے دل پر دستک ہوئی ہوگی، ان کی آنکھیں نم ہوگئی ہوں گی، ان کے ذہن کے کئی دریچے کھل گئے ہوں گے۔ ان کے سامنے کاغذ اور ہاتھ میں قلم ہوگا۔ اس عالم میں ایک حقیقت کی ترجمانی شعر کے ان الفاظ میں ہوئی۔
محمد کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا
گویا مندرجہ بالا  شعر  یا مصرعے کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کے لیے ایک تاریخی واقعہ سے واقفیت لازمی ٹھہری۔
کسی کتاب میں درج واقعات یا کوئی داستان یا قصہ  پڑھتے ہوئےاس دور کے حالات تہذیب و تمدن وغیرہ سے آگہی کی بات   نثر پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
 قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ قرآنی آیات اور ان میں آنے والے الفاظ کے صحیح مفہوم تک پہنچنے کے لیے محض عربی زبان جاننا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ زبان و بیان کے ادبی رموز   تک  رسائی، نزول قرآن کے زمانے کے حالات سے واقفیت، قرآن میں مذکور مختلف قوموں کی تاریخ، رسوم و رواج اور دیگر کئی طرح کے معاملات سے واقفیت  ضروری ہوگی۔
جو لوگ عربی نہیں جانتے بہتر تو یہ ہے کہ وہ عربی زبان و ادب کی تعلیم لیں۔ ایسا نہ کرنے والوں کو مطالب قرآنی تک پہنچنے کے لیے  قرآن کے تراجم اور اپنی زبان میں لکھی جانے والی تفاسیر یا تفاسیر کے تراجم پر  انحصار کرنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي
‘‘اے میرے رب ....! میرا سینہ کھول دے۔’’
کوئی بھی علم حاصل کرنے کے لیے ہر آدمی کو ذاتی کوششیں  کرنا ہوں گی۔ کوئی ٹیچر  اپنے کسی شاگرد کو خواہ  کتنا ہی اچھا پڑھا رہا ہو، ہر سبق یاد کرنے اور سمجھنے کے لیے شاگرد کو خود کوشش اور محنت کرنا ہوگی۔ شاگرد کی کوشش اور محنت ہوگی تو استاد انہیں زیادہ سے زیادہ علم سکھا سکیں گے۔کوئی صاحب بہت اچھے ڈاکٹر ہوں، ان کی بیگم صاحبہ بھی اچھی ڈاکٹر ہوں۔ ان کے گھر میں زیادہ تر امراض اور علاج کے موضوعات  پر بات ہوتی رہتی ہو اس کے باوجود ان کے بچے از خود علم طب کے ماہر نہیں بن جائیں گے۔ ان کے ہر بچے کو اناٹومی، فزیالوجی، میڈیسن اور دیگر متعلقہ کتابیں پڑھ کر سمجھنی ہوں گی، امتحانات دینے ہوں گے۔
علم کے حصول کے لیے ایک ذاتی مشق   (Personal Activity) لازمی ہے۔ حصول علم کے لیے ہر ایک کو انفرادی کوششیں کرنا ہوں گی۔ نسلی ورثہ (Inheritance) ، گھر یا ارد گرد کا ماحول اور بعض دیگر عوامل کی موجودگی سے حصول علم سہل تو ہوسکتا ہے لیکن ذاتی کوشش کی ضرورت بہرحال رہے گی۔
آئیے....! اللہ کے حضور دعا کیجیے۔
رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا
‘‘ اے میرے رب ....! میرے علم میں اضافہ فرما’’۔


اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے