پاکستان کے مسائل اور روحانی بزرگوں کے اشارے
اﷲ نے دعائیں قبول کرلیں ۔ اﷲ کے فضل و کرم سے دریاؤں میں پانی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے ، انشاء اﷲ آئندہ چند ہفتوں میں دریا ئی پانی میں خاصا اضافہ ہوجائے گا ۔ تاہم گذشتہ مہینوں میں پانی کی شدید قلت سے زراعت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی فوری طور پر ممکن نظر نہیں آتی ۔ اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ موسم کی تبدیلی اور بارشوں کا نہ ہونا انسانی اختیار سے باہر ہیں۔ ملک میں بر وقت بارشیں نہ ہونا قدرتی عمل ہے ، لیکن سات بڑے دریاؤں کی سرزمین پاکستان میں پانی کی موجودہ قلت کو سراسر قدرتی آفت قرار دینے سے ہم متفق نہیں ۔ پانی کی موجودہ قلت قومی سطح پر ہماری بدنیتی اور بُرے اعمال کا منطقی نتیجہ ہے۔ آپ سوچئے ! ہمارا عجیب حال ہے ۔ کسی سال دریاؤں میں سیلاب آجانے سے ہماری بستیاں ، ہمارے کھیت زیرِ آب آجاتے ہیں تو کسی سال بارشیں نہ ہونے سے ہماری زمین پیاسی رہ جاتی ہے …
یہ صحیح ہے کہ موسموں کی تبدیلی اور بارش ہونے نہ ہونے پر انسان خود مختار نہیں ۔ لیکن ’’آج‘‘ بے فکری سے بسر کرتے ہوئے ’’ کل‘‘ کی فکر نہ کرنا تو انسان کا اپنا عمل ہے ۔ ہم گذشتہ پانچ دہائیوں میں یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔
قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا ہے اس میں ایک جگہ مذکور ہے۔
’’ اور بادشاہ نے کہا میں خواب میں دیکھتا ہوں سات گائیں خوب موٹی تازی ہیں ان کو سات دبلی پتلی کمزور گائیں کھا گئی ہیں اور سات بالیں سبز ہیں اور سات بالیں خشک ہیں‘‘۔
بادشاہ کے اس خواب کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ دی ۔ ’’ تم سات سال متواتر خوب کاشتکاری کرنا اور اس سے جو فصل کاٹو اپنی فوری ضرورت کے علاوہ باقی ماندہ کو بالوںمیں رہنے دینا ۔ ان سات سالوں کے بعد سات برس بہت سخت (قحط سالی کے) آئیں گے۔ ان سالوں میں تم اس غلہ کو استعمال کرنا جو پہلے سات سالوں میں بچا کر رکھا ہوگا ۔ پھر ان سات سالوں کے بعدایک سال ایسا آئے گا کہ اس میں خوب بارش ہوگی‘‘۔
بادشاہ کے خواب کی جو تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے بتائی اس میں نصیحت حاصل کرنے والی قوموں کے لئے بہت سبق ہے۔ اس کا ایک سبق یہ ہے کہ خوشحالی کے دنوں میں غفلت میں نہ جا پڑو آنے والے دنوں کی فکر سے غافل نہ ہو… سستی ، لاپرواہی اور مطلق عیش کوشی قوموں کو زیب نہیں دیتی ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیر پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے مشوروں پر عمل کیا۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ عزیز مصر نے ان مشوروں پر عمل کے لئے ہنگامی بنیادوں پر غلہ کی ذخیرہ گاہیں تعمیر کروائی ہوں گی۔ کسانوں کو زیادہ سے زیادہ غلہ اُگانے کی ترغیب دی گئی ہوگی ۔ کسانوں کی طلب کے مطابق پانی ، بیج ، کھاد اور دیگر اشیاء کی فراہمی کا بندوبست کیا گیا ہوگا ۔ لوگوں کو خوشحالی کے دنوں میں (قلت کے دنوں میں نہیں) کفایت کے ساتھ غلہ کے استعمال پر آمادہ کیا گیا ہوگا ۔ بادشاہ اور اس کی حکومت نے ایک خواب کی پیغمبرانہ تعبیر کے مطابق ملک کی معاشی اور زرعی منصوبہ بندی کی ہوگی۔
حدیث کی کتابوں میں نبی کریمﷺ کی کئی پیشگوئیاں درج ہیں۔ ان احادیث کو محدثین نے پیشگوئی کے باب میں درج کیاہے۔ایک بار کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امن و امان کی شکایت کی ۔ آپ نے فرمایا ’’ تم دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ (کوفہ سے متصل مقام) سے اکیلی مکہ جاکر خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے راستہ میں اﷲ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا ‘‘۔ یعنی ملک کے دور دراز علاقوں تک امن وامان کی صورتحال بہت اچھی ہوگی اور لوگوں کو تحفظ کا مکمل احساس ہوگا۔
ایک مرتبہ کچھ لوگ حاضر ہوئے اور اپنی عسرت و تنگدستی بیان کی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ تم دیکھو گے کہ آدمی اپنی مٹھی بھر سونا اور چاندی خیرات کے لئے نکالے گا لیکن کوئی خیرات لینے والا ڈھونڈے سے نہ ملے گا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مملکت کے لوگوں کو وسیع پیمانے پر روزگار میسر ہوگا۔ غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اور زکوٰۃ لینے والوں کے بجائے زکوٰۃ دینے والوں کی کثرت ہوجائے گی۔
ان ارشادات نبوی ﷺ کو محض پیشگوئی نہیں سمجھنا چاہئے۔ میں اس خیال سے متفق ہوں کہ ان ارشادات کے ذریعے معلمِ انسانیت ﷺ نے رہتی دنیا تک کے حکمرانوں اور عوام کو یہ بتایا ہے کہ حکومت کے بنیادی فرائض اور اصل کام دو ہیں۔
-1مملکت میں لااینڈ آرڈر یعنی امن و امان کا اس طرح قیام کہ لوگ اپنی جان و مال کو محفوظ سمجھیں ۔ اگر کبھی کوئی شخص کسی کے ظلم یا زیادتی کا شکار ہوجائے تو حکومت متاثرہ شخص کو فوری انصاف دلائے۔
-2مملکت کے عوام کے لئے حصول معاش کا بندوبست و انصرام ۔ مملکت کے عوام کو روزگار کے حصول کے بلاامتیاز مواقع حاصل ہوں ، حکومت ایسے اقدامات کرے جن کی وجہ سے مملکت اور عوام کی خوشحالی اور معاشی استحکام میں اضافہ ہو۔
پاکستان کواﷲ تعالیٰ نے بے شمار وسائل اورطرح طرح کے خزانوں سے نوازا ہے۔ اس کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ ہمارے چارکروڑ سے زائد ہم وطن انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا غربت و افلاس کی زندگی بسر کرنا ان چار کروڑ افراد کی قسمت میں لکھا ہوا ہے یا ان لوگوں کی غربت اپنے ہی بعض ہم وطنوں کے استحصال کا نتیجہ ہے ؟
اﷲ تعالیٰ نے تو وسائل فراہم کردیئے ان کی تقسیم کی ذمہ داری انسانوں کی ہے۔ قوم کے ان غریب افراد کی محرومی کی ذمہ داری ہمارے معاشرے کے ان سرکردہ افراد پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے یا تو کوتاہ اندیشی سے کام لیا یا قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے غلط فیصلے کئے۔
اب بھی وقت ہے ۔ درست فیصلے کرکے قوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ پاکستان آج بیرونی ممالک کا 38ارب ڈالر کا مقروض ہے لیکن یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے۔ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سالانہ بجٹ اس رقم سے کہیں زیادہ ہیں ۔ روحانی بزرگوں کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم آنے والے چند برسوں میں غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کرکے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ شرط نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ درست فیصلے کرنے اور شدید محنت و جدوجہد کی ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔ ہمارے ملک کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کسی نہ کسی طرح زراعت سے وابستہ ہے۔ روحانی بزرگوں کے مطابق پاکستان کی اقتصادیات کے لئے منصوبہ بندی کرتے وقت ایک خاص نکتہ یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ملک کی خوشحال کے لئے کسان کی خوشحالی پر توجہ دی جائے۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ گندم ، چاول ، کپاس ، گنا ، خوردنی تیل کے بیج اور چائے کی کاشت کرنے والوں کے لئے کاشتکاری کو زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنا دیا جائے ۔ اس مقصد کے لئے پورے سال پانی کی مسلسل اور بلا روک ٹوک فراہمی کے انتظامات کئے جائیں ۔ ملک کے چاروں صوبوں میں ہنگامی بنیادوں پر نئی آبی ذخیرہ گاہیں تعمیر کی جائیں ۔ آبی ذخیرہ گاہوں کی تعمیر میں ہم مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ محض چند ڈیم تعمیر کرلینے پر اکتفا کرنے کے بجائے مسلسل نئے ڈیم تعمیر کرتے رہنے کی پالیسی بنائی جائے۔ پاکستان کو قائم ہوئے 54 سال ہورہے ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد اگر ہم اوسطا سالانہ صرف ایک ڈیم تعمیر کرتے تو آج ہمارے ملک میں پچاس سے زائد ڈیم ہوتے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ؟ اس سال ملک میں جو خشک سالی ہوئی ہم اس سے محفوظ رہتے ۔ ہماری زرعی ، صنعتی اور شہری ضروریات کے لئے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہوتا۔ عوام کو سستی بجلی میسر ہوتی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ ہورہی ہوتی ۔ ہمارے پاس ہزاروں میگا واٹ سستی ہائیڈل بجلی فاضل ہوتی ۔ جسے ایکسپورٹ کرکے سالانہ اربوں روپے کمائے جاسکتے ۔
افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور آج ہم پانی و بجلی کی قلت ، غذائی پیداوار میں کمی کا شکار ہیں اور غیر ملکی قرضوں میں بُری طرح جکڑے ہوئے ہیں ۔
خیر …اب بھی وقت ہاتھ سے نہیںنکلا ہے گذشتہ پچاس سال کی غلطیوں کا ازالہ اﷲ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کے ساتھ عزم مصمم اور انتھک محنت کے ذریعے پانچ سے دس سالوں میں کیا جاسکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کی شکل میں جو عظیم نعمت اﷲ تعالیٰ نے اس ملک کو عطا کی ہے اس سے بھرپور استفادہ کیا جائے ۔ اس مقصد کے لئے قومی مقاصد اور ضروریات سے ہم آہنگ ایک کثیر جہتی قومی واٹر پالیسی تشکیل دی جائے۔ ملک میں سڑکوں کے جال کی طرح واٹر ویز بنائے جائیں۔ دیہی علاقوں کی ترقی و فلاح کے لئے دور رس اقدامات کئے جائیں۔
پاکستان کے حالات پر متفکر ایک صاحب رات کو عبادت میں مصروف تھے کہ ان کی آنکھ لگ گئی ۔ خواب میں دیکھتے ہیں کہ وہ ایک صوفی بزرگ کے دربار میں ہیں۔ وہ صاحب ان بزرگ سے پاکستان کی کمزور مالی حالت کا تذکرہ کرتے ہیں جواب میں بزرگ فرماتے ہیں: ہمیں پاکستان کی غربت پر حیرت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تو اس قوم کو نوازنے میں کوئی کسر نہیں رکھی۔ آخر یہ ملک غریب کیوں ہے؟
پاکستان اﷲ کا بہت بڑا انعام ہے۔ اس انعام کی قدر کرنا اور اس کا حق ادا کرنا ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح تین فیصد سالانہ کے قریب ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے زرعی پیداوار کا ہدف ملکی ضروریات سے زائد مقرر کیا جائے اس کے بعد زرعی پیداوار میں سالانہ اضافے کا ہدف آبادی میں اضافے کی شرح سے زائد رکھا جائے یعنی آبادی میں تین فیصد اضافہ کو سامنے رکھتے ہوئے زرعی پیداوار میں کم از کم چار فیصد سالانہ اضافے کا ہدف مقرر کیا جائے۔
پاکستانی عوام میں قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ صلاحیتوں کے پیشِ نظر یہ کوئی ناممکن الحصول ہدف نہیں ہے۔ جو قوم اپنے دفاع کے لئے چند سالوں میں ایٹم بم بنا سکتی ہے وہ کیا کچھ نہیں کرسکتی؟
اہل پاکستان اﷲ پربھروسہ کرکے تعمیرِ وطن کے جذبہ کے ساتھ میدانِ عمل میں نکل آئیں اس بات پر ہمارا پورا یقین ہے کہ روحانی مدد اس قوم کے لئے تیار کھڑی ہے۔