معاشرہ میں اصلاح اور بہتری کا عمل

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


معاشرہ میں اصلاح اور بہتری کا عمل 

اصلاح کے ناممکن ہونے کا احساس مایوسی کو جنم دیتا ہے۔
 مایوسی حرکت کو ختم کرکے جمود کو بڑھا دیتی ہے۔
 حرکت زندگی ہے تو جمود موت ہے ، گویا مایوسی موت ہے۔ 


اس وقت دنیا کی چھ ارب سے زائد آبادی میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب پچیس کروڑ سے زائد ہے۔ کئی اسلامی ممالک کے ایک پڑوسی براعظم یورپ کی مجموعی آبادی تقریباً تینتیس کروڑ ہے۔ یورپ میں مستحکم ترین معیشت کے حامل خاص طور پر دو ممالک جرمنی اور فرانس ہیں۔ جرمنی وہ ملک ہے جسے دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ ، برطانیہ و دیگر ممالک پر مشتمل اتحادی افواج نے شکست دے کر دو خود مختار ملکوں میں تقسیم کردیا تھا۔  یورپ کے یہ دو امیر ترین ممالک اقتصادی لحاظ سے دنیا میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ عالمی رینکنگ میں امریکہ پہلے نمبر پر اور جاپان دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکہ کی آبادی 26 کروڑ جاپان کی آبادی 12 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔
اُمّتِ مسلمہ پچاس سے زائد اسلامی ممالک میں آباد ہے۔ تیل ، قدرتی گیس اور دیگر کئی قدرتی وسائل سے مالا مال سوا  ارب آبادی کی اُمّتِ مسلمہ کی مجموعی قومی پیداوار یورپ کے ایک ملک فرانس کی مجموعی قومی پیداوار سے بھی کم ہے۔ فرانس کے پاس نہ تیل کی دولت ہے نہ اسے دوسرے قدرتی وسائل فراوانی کے ساتھ میسر ہیں۔
اُمّتِ مسلمہ کا ایک رکن پاکستان ہے۔ چودہ کروڑ پچاس لاکھ سے زائد آبادی والا ملک پاکستان۔ محب وطن پاکستانیوں کے جذبوں کا ایک رخ تو یہ ہے کہ انہوں نے تمام تر عالمی پابندیوں کے باوجود اپنے ملک کو ایک ایٹمی طاقت بنا دیا۔ اس قوم کے کئی افراد دنیا کے چوٹی کے اداروں میں اعلیٰ مقامات پر فائز ہیں۔ امریکہ، کینیڈا ، برطانیہ ، یورپی ممالک ، آسٹریلیا میں پاکستانی بڑی تعداد میں باقاعدہ قانونی ’’شہری‘‘ کی حیثیت سے آباد ہیں۔ ان ممالک میں کئی پاکستانیوں نے سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں اپنی شاندار اہلیت و قابلیت کو مختلف سطحوں پر تسلیم کروایا ہے۔ ان میں سے اکثر پاکستانی وہ ہیں جو ملک میں مواقع نہ ملنے کے باعث بہتر کیریئر کے لئے ملک سے باہر گئے تھے۔ پاکستانی قوم عمل اور رد ّعمل کے معاملہ میں عجیب و غریب صفات کی حامل ہے۔ اﷲ وحدہ لاشریک پر غیر متزلزل ایمان ہمارا سب سے بڑا  اثاثہ ہے۔ اﷲ کے آخری رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا عشق ہمارے وجود کے لئے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ اﷲ کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن میں واضح اصول و احکامات عطا فرما دیئے ۔ اﷲ کے رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسوۂ حسنہ کے ذریعہ قرآنی اصول و احکامات پر عملدرآمد کے طریقہ تعلیم فرما دیئے۔ ہمارے پاس کتاب اﷲ بھی موجود ہے اور سنتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی ہم واقف ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے اقرار باللسان اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے عشق کے دعوؤں میں جو شدت ہے وہ شدت اﷲ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات و فرامین پر عمل کرنے میں نہیں ہے۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کو ایک سعادت اور ثواب کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن قرآنی احکامات پر عمل نہیں کرتے۔ ہم بڑی عقیدت و محبت سے اﷲ کے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں ہم یہ جانتے ہیں کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنا دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے مگر اس کے باوجود ہم رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔
اﷲ نے اﷲ کے رسول نے حکم دیا ہے کہ علم حاصل کیا جائے۔ اﷲ کی نشانیوں میں یعنی مظاہر قدرت میں غور و فکر کیا جائے۔ آج کی زبان میں اس کی تشریح اس طرح کی جائے گی کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد ریسرچ و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھا جائے۔ اس قرآنی حکم کی تعمیل میں ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ریسرچ تو درکنار پرائمری تعلیم کے میدان میں بھی بہت پیچھے ہیں ۔ اگر شرح خواندگی کے سرکاری اعداد و شمار کو بالکل درست مان لیا جائے تو ہماری شرح خواندگی تیس فیصد کے قریب بنتی ہے۔ اس شرح میں ان لوگوں کو بھی شامل رکھا گیا ہے جو محض اپنا نام پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں۔ اس سرکاری شرح خواندگی کے مطابق پاکستان کی چودہ کروڑ پچاس لاکھ آبادی میں چار کروڑ پینتیس لاکھ افراد خواندہ ہیں اور دس کروڑ پندرہ لاکھ افراد ناخواندہ یا جاہل ہیں۔ اس طرح یہ تلخ اور افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ فروغ علم کی شرح تیس فیصد نہیں بلکہ دراصل فروغ جہالت کی شرح ستر فیصد ہے۔ پاکستان میں اضافہ آبادی کی شرح اگر 2.8 فیصد مانی جائے تو ہمارے ہاں سالانہ تقریباً چالیس لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ شرح خواندگی (یا شرح جہالت) کو سامنے رکھا جائے تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہاں سالانہ 28 لاکھ جہلاء کا اضافہ متوقع ہے۔
دس کروڑ سے زیادہ ان پڑھ لوگوں پر مشتمل چودہ کروڑ پاکستانی عوام کا ایک بہت بڑا مسئلہ غربت ہے۔ پاکستانی قوم کا نصف سے کچھ کم حصہ شدیدغربت و پسماندگی کا شکار ہے۔ ملک میںکتنے ہی گھرانے ہیں جہاں روز کی کمائی گھر کے بچوں اور بڑوں کے لئے روٹی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ کسی دن کام نہ ملے تو اُس گھر میں اس دن شاید چولہا ہی نہ جلے۔ کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جن کے گزارے کا واحد ذریعہ خود کھیتی باڑی کے ذریعہ حاصل ہونے والی گندم یا کسی اور زرعی جنس پر ہے مگر اس کے لئے بھی ان کی نظریں آسمان پر اٹھی بروقت بارش کی منتظر رہتی ہیں۔ اگر وقت پر بارش نہ ہو تو یہ واحد سہارا بھی ساتھ چھوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ غربت و افلاس بہت ظالم و ستم گر ہوتے ہیں۔ یہ انسان سے عزت نفس چھین کر اس کے ایمان کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں۔ محسنِ انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم انسان کی ذات اور معاشروں کو غربت و افلاس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا نظام عطا فرمایا جس کی بدولت وسائل کی منصفانہ بنیادوں پر تقسیم عمل میں آئی۔ اس نظام کے ثمرات اس طرح حاصل ہوئے کہ اسلامی ریاست میں غربت کا خاتمہ ہوگیا اور خوشحالی چندلوگوں تک محدود رہنے کے بجائے معاشرہ کے تمام طبقات تک پھیل گئی۔ ایسا وقت آگیا کہ زکوٰۃ دینے والے خوشحالی لوگوں کی تعداد بے شمار ہوگئی اور زکوٰۃ لینے والے مستحقین بہت تھوڑے لوگ رہ گئے۔
قرآن اور رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم اعتدال اور نظم و ضبط کا حکم دیتے ہیں۔ ارکانِ اسلام خصوصاً نماز ، روزہ اور حج میں اطاعت و اظہار بندگی کے روحانی پہلو کے ساتھ ساتھ انفرادی و اجتماعی سطح پر نظم و ضبط کا پیغام اور عملی تربیت کا سامان بھی موجود ہے۔ قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر اہلِ ایمان سے اعتدال ، رواداری ، برداشت کے لئے کہا گیا ہے۔ احادیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں کئی جگہ ان اعلیٰ اوصاف کے اپنانے کی تلقین موجود ہے۔ ہمارے معاشرے میں ان احکامات پر عملدرآمد کی کیا صورتحال ہے یہ ہم سب کے سامنے ہے۔
مندرجہ بالا چند مثالیں یہ امر واضح کرنے کے لئے بیان کی گئی ہیں کہ ہم زبان سے تو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنے تعلق کا خوب ذکر کرتے ہیں لیکن ان کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرنے میں ہم شدید کوتاہی کے مرتکب ہور ہے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ ہم منظم انداز میں زندگی بسر کرنے کے بجائے بے ہنگم انداز میں ایک ہجوم کی طرح رہ رہے ہیں تو یہ کچھ غلط نہ ہوگا۔ سڑکوں پر ٹریفک کی بے قاعدگی ، محلہ اور گلیوں میں گھروں کے آگے بہتا ہوا گندہ پانی اور کچرے کے ڈ ھیر ، ٹوٹی ہوئی سڑکیں ، اُبلتے ہوئے گٹر ، ٹاؤن پلاننگ کے نقائص، کثیرمنزلہ عمارتوں میں ، فلیٹوں کی تعمیر میں انسانی ضروریات سے مجرمانہ بے توجہی ، عوام کا سرکاری اداروں اور افسروں پر عدم اعتماد ، سرکاری افسران کو عوامی رویّوں سے شکایات اور دیگر بہت سے معاشرتی مسائل اور سماجی خرابیاں ۔ یہ سب اس معاشرہ کے مختلف پہلوؤں کے عکاس ہیں جس میں آج میں ۔۔۔آپ ۔۔۔ہم سب زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہر درد مند محب وطن پاکستانی یہ خواہش رکھتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں پیدا ہوجانے والی خرابیاں دور ہوں ۔ جسد ملّی کو لاحق سنگین امراض سے قوم کو چھٹکارا ملے۔ اس ملک کا نظام ٹھیک ہوجائے اور دنیا کے دوسرے اچھے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی لوگ جان و مال کے تحفظ کے احساس کے ساتھ خوشحال اور مطمئن زندگی بسرکریں۔
ایک بار نظام درست ہوجائے تو قوم کی تعمیر اور ترقی کے مراحل آسان ہوجاتے ہیں۔ کوئی معاشرہ کس قدر توانا و مستحکم ہے اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاتا ہے کہ افراد معاشرہ اپنی ذہنی صلاحیتیں کن اعلیٰ مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس معاشرہ میں علوم و فنون کے فروغ کا حال کیا ہے اور لوگوں کی تخلیقی صلاحیتیں کن شعبوں میں اور کس انداز میں استعمال ہوتی ہیں۔ پاکستانی قوم میں افراد کی صلاحیتوں کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو بہت عجیب صورتحال سامنے آتی ہے۔ اس قوم کے لوگوںمیں ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا حامل فرد موجود ہے۔ لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اکثر اپنے انفرادی معاملات میں اپنی صلاحیتوں کا خوب اچھی طرح اظہار کرتے ہیں۔ دوسری طرف اجتماعی معاملات طے کرتے وقت پتہ نہیں ہمیں کیا ہوجاتا ہے کہ وہا ں بعض اوقات ہم سنگین غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ غربت ، تعلیم کی کمی ، قوم پر قرضوں کا جال ، کرپشن ، امن و امان کی غیر تسلی بخش صورتحال ، فرقہ واریت جیسے مسائل ان سنگین غلطیوں کے لازمی نتائج ہی تو ہیں۔
ایک ایسی قوم جس کی نصف سے زیادہ تعداد ان پڑھ افراد پر مشتمل ہو ۔ جس کی نصف کے قریب آبادی غربت و پسماندگی میں مبتلا ہو ، جو غیر ملکی قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی ہو، جو بددیانت سیاسی رہنماؤں ، خائن حکمرانوں کے ہاتھوں لٹی ہو ، جہاں علماء حق کی جانب سے خیر و محبت کے گلستانوں کے سامنے علماء سوء کی جانب سے نفرت و فرقہ واریت کے الاؤ دہکا لئے گئے ہوں۔ جہاں اعلیٰ مقام کے حصول میں جھوٹ و منافقت سہارے کا کام دیں اور تقویٰ اور اعلیٰ اخلاق کے حامل زمین پر بیٹھے اعلیٰ اصولوں کی دہائی دیتے ہی رہ جائیں ایسے معاشرہ میں اصلاح اور بہتری کا عمل شروع ہو تو کیونکر ہو ، کام کہاں سے شروع کیا جائے اور کیسے شروع کیا جائے۔ بظاہر تو یہ اصلاح ناممکن نظر آتی ہے۔ اصلاح کے ناممکن ہونے کا احساس مایوسی کو جنم دیتا ہے۔ مایوسی حرکت کو ختم کرکے جمود کو بڑھا دیتی ہے۔ حرکت زندگی ہے تو جمود موت ہے ، گویا مایوسی موت ہے۔
کیا ہمیں مایوسی کے عالم میں بیٹھ کر قاضی ٔ وقت کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے یا پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھ کر اپنی تقدیر خود سنوارنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ اگر ہم مایوس ہوکر بیٹھ جانے کافیصلہ کرلیں تو دنیا کے کسی مصلح ، کسی طبیب کے پاس ہمارے لئے کوئی تدبیر کوئی دوا نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم آگے بڑھ کر اصلاح کا بیڑا اٹھالیں اور تعمیر کا عزم کرلیں تو پھر قدرت کی مدد بھی ہمارے شامل حال ہوگی۔ ہمارے ارد گرد کئی مثالیں موجود ہیں ہم اپنی طرزِ فکر کے مطابق ان سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ پچاس سالوں کے اندر جرمن قوم نے اپنے عزم و استقلال کے ذریعہ جرمنی کی تقسیم کی علامت دیوار برلن کو گرا دیا اور مغربی اور مشرقی جرمنی ایک بار پھر متحد ہوگئے۔ ہانگ کانگ کو انگریزوں نے چین سے علیٰحدہ کردیا تھا۔ چینی قوم کے آہنی عزم کی بدولت وہ دن آگیا جب ہانگ کانگ دوبارہ چین کا حصہ بن گیا۔ چین ہم سے ایک سال بعد یعنی 1948 ء میں عوامی جمہوریہ کی حیثیت سے اپنے نئے سفر پر عازم ہوا تھا۔ 1980ء تک چین کی حالت یہ تھی کہ اس کی سالانہ برآمدات صرف اور صرف 10 ارب ڈالر کی تھیں۔1976ء میں ماوزے تنگ اور چوئن لائی کے بعد چین کی نئی قیادت نے تقلیدی ذہن سے نکل کر چین کو درپیش مسائل اور دور جدید کے تقاضوں کوسمجھا۔ ان کے مطابق پالیسیاں ترتیب دیں جس کے نتیجے میں صرف بیس سال کے عرصہ میں یعنی 2000ء میں چین نے اپنی برآمدات میں جو اضافہ کیا ہے وہ حیران کن ہے۔ چین کی برآمدات 1980ء کے دس ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر 2000ء میں دو کھرب 50 ارب ڈالر سالانہ تک جا پہنچیں۔ جبکہ 2002ء میں ان برآمدات کی مالیت کا اندازہ تین کھرب ڈالر لگایا جارہا ہے۔
اگر جرمن قوم دوسری جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد مایوس ہوکر بیٹھ جاتی تو کیا آج جرمنی دوبارہ متحد ملک کی شکل اختیار کرسکتا۔ کیا جرمنی یورپ کا سب سے امیر ملک بن سکتا تھا۔ اگر چینی قوم مایوس ہوجاتی تو کیا ہانگ کانگ اسے واپس مل سکتا تھا کیا چین کی برآمدات دس ارب ڈالر سے بڑھ کر تین کھرب ڈالر تک ہوسکتی تھیں۔
اپنے معاشرہ کے انتشار ، افراتفری ، بے ہنگم پن سے نجات دلانے ، ترقی کرنے اور قوموں کی برادری میں باعزت مقام حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ روحانی بزرگوں سے حاصل ہونے والی روشنی ہمیں کیا راہ دکھاتی ہے۔ ایک بات ۔۔۔ صرف ایک بات کہ ہم اپنے قول و فعل میں تضاد ختم کرلیں ، اﷲ کے ساتھ بھی سچ بولیں ، بندوں کے ساتھ بھی سچ بولیں۔
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:اے ایمان والو ! تقویٰ اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ (التوبہ ۔ 119)
اور جس نے اﷲ کی ہدایت کو پکڑ لیا وہ سیدھے راستہ پر لگ گیا (آلِ عمران ۔101)   سچ بولنے والے اہلِ تقویٰ اور اﷲ کی ہدایت کو پکڑ کر سیدھے راستہ پر چلنے والوںکے لئے اﷲ تعالیٰ بشارت دیتے ہیں کہ
اور مومنوں کو خوشخبری سنادو کہ ان کے لئے اﷲ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔ (الاحزاب ۔ 47)




[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، اپریل  2002ء ]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے