تقویٰ کیا ہے
اسلام کے نظامِ عبادات کا روحانی پہلو
اسلام کے نظامِ عبادات کا روحانی پہلو
اﷲتعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا، مرد و عورت بنائے۔ ان کے ذریعہ کثرت سے انسان اس زمین پر پھیلا دیئے قرآنِ پاک میں اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ بے شک اﷲ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔ (سورۂ الحجرات)
اﷲ کی نظر میں نہ تو کسی قوم، قبیلہ یا خاندان سے وابستگی کی اہمیت ہے نہ ہی کوئی اور مادی سبب اہمیت رکھتا ہے بلکہ اﷲ کی نظر میں زیادہ عزت ومرتبہ کا مالک وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔
یہ بات تو معلوم ہوگئی کہ اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت پرہیز گاری کی ہے۔ اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پرہیز گاری کیا ہے؟ کیا پرہیز گاری کسی ایک خاص عمل کا نام ہے؟ یہ کوئی ایک وصف یا صفت ہے یا کئی اوصاف یا صفات ہیں؟ اس ضمن میں قرآن سے رجوع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پرہیز گاری یا تقویٰ کوئی ایک صفت نہیں بلکہ یہ کئی صفات پر مشتمل ایک مکمل پیکج ہے۔ اس پیکج میں کئی امور ایک دوسرے سے منسلک اور پیوستہ ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ قرآن کن صفات کو پرہیز گاری قرار دیتا ہے۔
ایمان۔ اﷲ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، اﷲ کی کتابوں پر، اﷲ کے پیغمبروں پر ایمان رکھنا، صلوٰۃ قائم کرنا اور اپنے اہلِ و عیال کو اس کی تلقین کرنا روزہ رکھنا، زکوٰۃ دینا یعنی اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا، حق داروں کو ان کا حق دینا، حلال روزی کا حصول، عہد کو پورا کرنا، عدل و انصاف کا مکمل اہتمام، سختی، تکلیف اور مقابلہ آرائی کے وقت ثابت قدم رہنا، اﷲ کی راہ میں قربانی دینا، ظاہری و باطنی پاکیزگی کا اہتمام کرنا، ظاہری پاکیزگی کا مطلب ہے ذاتی اور ماحول کی صفائی کا اہتمام کرنا۔ جب کہ باطنی پاکیزگی سے مراد نیت کی صفائی و پاکیزگی۔ راست بازی اور مثبت طرزِ فکر یعنی پازیٹو تھنکنگ ہے۔ اﷲ کے مقرر کردہ ادب و شعائر کی تعظیم و احترام، معاشرہ میں ظلم و فساد سے باز رہنا۔
یہ ہیں وہ چند نمایاں اوصاف جن کا تذکرہ قرآنِ پاک میں تقویٰ کے حوالے سے کیا گیا ہے۔
اﷲ کے آخری رسول محمدﷺ نے اسلامی تاریخ میں جمعہ کا پہلا خطبہ قبا میں ارشاد فرمایا۔ اس میں اور باتوں کے علاوہ آپﷺ نے فرمایا:
’’میں تمہیں تقویٰ کی تلقین کرتا ہوں کیوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو جو بہترین تلقین کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے آخرت کے لئے آمادہ کرے اور تقویٰ کے لئے کہے‘‘۔
حج کے سفر میں زاد راہ ساتھ لے جانے کی ہدایت کرتے ہوئے قرآن تقویٰ کا ذکر کرتا ہے۔ اس ہدایت کو دوسرے تمام اقسام کے سفر پر بھی لاگو سمجھنا چاہیے۔
سفر کے لئے زاد راہ ساتھ لیجاؤ اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔(سورۂ بقرہ)
سفر میں یا تو ضروریات کے حصول کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر اشیائے خوردونوش سمیت چند دوسری چیزوں کی۔ تقویٰ تو ایک عمل ہے۔ اسے بہترین زاد راہ کیوں قرار دیا جارہا ہے؟ دراصل ساری زندگی خود ایک سفر ہے جس کی منزل آخرت ہے۔ اس دنیا کی زندگی آخرت کی تعمیر ہے۔ اور آخرت کے لئے بہترین تیاری تقویٰ کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے۔ تقویٰ کو بہترین زاد راہ قرار دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اوپر جس پیکج کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس کے کئی اجزاء کامیابیوں کے حصول میں مدد دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر حق دار کو اس کا حق دینا، عہد کو پورا کرنا، سختی اور تکلیف کے وقت ثابت قدم رہنا۔ حلال روزی کا حصول، ظاہری و باطنی پاکیزگی، ظلم و فساد سے باز رہنا وغیرہ۔
تقویٰ کے پیکیج میں جن امور کا تذکرہ ہوا ہے انہیں ہم دو بڑے حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک حصہ کا تعلق خالص عبادات سے ہے دوسرے حصہ کا تعلق معاملات سے ہے۔ گو کہ اﷲ کے حکم کی بجاآوری میں سرانجام دیئے گئے معاملات بھی عبادت کے زمرہ میں آجاتے ہیں۔
صلوٰۃ کا قیام، رمضان کے روزوں کا اہتمام، اﷲ کے گھر کے حج کا تعلق خالصتاً عبادات سے ہے۔ اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا، حق داروں کو ان کا حق دینا، عہد کی تکمیل، عدل و انصاف، استقامت، قربانی، حلال روزی، پاکیزگی، شعائر اﷲ کی تعظیم، معاشرہ میں ظلم و فساد سے باز رہنا۔ ان سب کا تعلق معاملات سے ہے۔ عبادت کا تعلق اﷲ اور بندے سے ہے۔ معاملات کا تعلق اﷲ اور بندہ سے بھی ہے اور بندہ اور بندہ سے بھی۔
عبادت، معاملات اور تقویٰ کی اس انتہائی مختصر تشریح کے بعد آیئے آج کے مسلمانوں کی حالتِ زار اور مسلم معاشروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ دنیا کی چھ ارب سے زائد آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔ مسلمان ممالک کی تعداد 55 سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے تقریباً ہر خطہ اور ہر ملک میں مسلم آبادی بطور اقلیت موجود ہے۔ مسلمان اُمت کے پاس بیش قیمت قدرتی وسائل موجود ہیں۔ کئی اسلامی ممالک کا شمار دنیا کے دولتمند ممالک میں ہوتا ہے۔ جب کہ بیشتر کا شمار درمیانی معیشت رکھنے والے یا غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن غریب اسلامی ملک تو ایک طرف امیر اسلامی ملک کے باشندے بھی اپنے مستقبل کو بہتر اور اپنی دولت کو محفوظ کرنے کے لئے یورپ اور امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ غیر مسلم یورپ اور امریکہ کی طرف۔۔۔۔۔!
ہم اپنے معاشروں، اپنے ممالک، اپنی حکومتوں کو اپنا سرپرست اور محافظ محسوس نہیں کرتے، ہم مسلمان ہیں۔ اﷲ پر یقین رکھتے ہیں، اﷲ کی عبادت کرتے ہیں۔ اﷲ سے مدد مانگتے ہیں۔ اﷲ کا وعدہ ہے کہ مدد طلب کرنے والوں کی مدد کرے گا۔ لیکن آج اﷲ کی مدد ہمارے لئے کیوں نہیں آتی۔؟ ہم خود کو غیر محفوظ کیوں سمجھتے ہیں۔؟ بہت سے مسلمان اپنی روزی کی تلاش میں، اپنی دولت کے تحفظ کی خاطراور اپنی حکومتوں کی بقاء کے لئے امریکہ کی جانب کیوں دیکھتے ہیں؟ اس کا جواب بہت سادہ اور آسان ہے۔ تقویٰ کے پیکج پر مکمل طور پر عمل نہ کرنے سے ہمارے معاشرے کمزوری اور انحطاط کا شکار ہیں۔ تعلیماتِ نبویﷺ رائج نہ کرنے سے یہ معاشرے وقت کے چیلنجزسے مقابلہ کے لئے مطلوبہ صلاحیتوں کے افراد تیار نہیں کرپارہے۔طرح طرح کی پابندیوں اور خوف کے باعث اسلامی ممالک میں عوام تو ایک طرف اہلِ دانش کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی پوری طرح پنپنے کے مواقع نہیں مل رہے۔ جہاں فرد کے سوچنے پر پہرے بٹھا دیئے جائیں اور تخلیقی صلاحیتوں پر پابندی محسوس ہونے لگے وہاں جمود پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ جمود ایسا ہی ہے جیسے ایک جگہ ٹہرا ہوا پانی۔۔۔۔۔ کسی جگہ مدتوں پانی ٹہرا رہے تو اس میں سڑاند اور تعفن پیدا ہونے لگتا ہے۔ بہت سی مخلوق کا اس ماحول میں جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ جن کا بس چلتا ہے وہ اس منفی ماحول سے بچنے کے لئے نقلِ مکانی کرجاتے ہیں جو یہ نہ کرسکیں وہ نہایت بے بسی سے اپنے آپ کو حالات کے حوالے کردیتے ہیں۔ البتہ کچھ عناصر کو یہ ماحول خوب راس آتا ہے۔ یہ متعفن اور مسموم فضا انہیں پھلنے پھولنے میں مدد دیتی ہے۔ سمجھنے میں آسانی کی خاطر ان عناصر کو ہم اپنے معاشرہ کے استحصالی طبقات سے تشبیہہ دے سکتے ہیں۔
ذرا غور تو کیجئے آج کے بہت سے مسلم معاشرے ایسے ہی جمود کا شکار نہیں ہوگئے ہیں۔ کیا معاشرہ کی عام حالت ایسی نہیں ہوگئی ہے کہ اچھے کام کرنا بہت مشکل اور بُرے کام آسان ہوگئے ہیں۔ اچھے کاموں کے لئے تعاون کرنے والے کم سے کم ہوتے جارہے ہیں اور برے کاموں میں مدد دینے والے ہاتھ بڑھا بڑھا کر مل جاتے ہیں۔ ماحول برائی کے فروغ میں مدد گار ہے۔ رہی اچھائی تو وہ اپنی کی بقاء کے لئے کوشش کررہی ہے۔ ان اسباب کی بناء پر معاشرہ میں بیروزگاری عام ہے۔ میرٹ کا قتل ہورہا ہے۔ اقرباء پروری اور سفارش کے بل پر حقدار کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ استحصالی طبقہ سیاستدانوں کی بداعمالیوں، سرکاری افسروں کی رشوت خوری، بنکوں کے قرضوں کے ذریعہ قومی وسائل کی لوٹ مار کے ذریعہ دولت بٹورنے میں مصروف ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال، بڑھتی ہوئی چوریوں ڈکیتیوں سے عیاں ہے۔ سماجی سطح پر مسائل بڑھتے جارہے ہیں جن میں نوجوانوں کی بے روزگاری، اولاد اور والدین میں بڑھتے ہوئے فاصلے، لڑکیوں کی شادی جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ چند افراد پر مشتمل ظالم فسادی، خائن، غاصب طبقہ پھل پھول رہا ہے۔ لوگوں کی اکثریت خاموشی سے ظلم سہے جارہی ہے۔ جس کا بس چل رہا ہے وہ کھلی فضاء میں جینے کی خاطر امریکہ یا یورپ کا رُخ کررہا ہے۔
کیا یہ سب کچھ اﷲ کی یاد سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ جہاں تک اﷲ کو یاد کرنے ، اﷲ کا ذکر کرنے کا تعلق ہے تو گزشتہ دو تین دہائیوں میں مساجد کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ نمازیوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ پہلے زیادہ تر ادھیڑ عمر کے اور بوڑھے لوگ مساجد میں جایا کرتے تھے اب نوجوانوں کی بڑی تعداد مساجد کا رُخ کرتی ہے۔ مسلم خواتین میں مذاہب سے وابستگی کی شرح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
ہمارے ہاں یہی سمجھا جاتا ہے کہ پابند صوم و صلوٰۃ لوگ متقی اور پرہیز گار ہوتے ہیں۔ اگر پابند صوم و صلوٰۃ داڑھی بھی رکھ لے اور پینٹ شرٹ چھوڑ کر شلوار قمیض یا کرتا پاجامہ پہننا شروع کردے تو اس کی بزرگی اور تقویٰ پر تو گویا مہر تصدیق ثبت ہوگئی۔ ایک شخص پابندی سے نماز ادا کرتا ہے اور روزہ رکھتا ہے، زیادہ وقت اﷲ کی حمد و تسبیح میں گزارتا ہے تو وہ یقینا عبادت گزار کہلائے گا اس کا اجر اﷲ کے پاس ہے لیکن ایسا شخص اگر معاشرتی معاملوں سے لاتعلق ہوکر عبادت میں مصروف رہتا ہے اور دنیا داری سے بالکل دور رہتا ہے تو اس کا یہ طرزِ عمل بھی مطلوب و محمود نہیں ہے۔ لیکن ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص پابندی سے نماز پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی عہد شکنی کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے۔ فساد پھیلاتا ہے یا فساد میں معاون بنتا ہے تو ایسا شخص تمام تر عبادتوں کے باوجود متقی کہلانے کا ہر گز حقدار نہیں ہے۔
قرآن اور ارشادتِ نبویﷺ سے علم ہوتا ہے کہ تقویٰ تمام عبادات کی روح ہے۔ گویا تقویٰ اسلام کے نظام عبادات و معاملات کا روحانی پہلو ہے۔ آج امتِ مسلمہ کو جو سنگین مسائل درپیش ہیں ان کا بہت بڑا سبب اسلام کے نظام عبادات ومعاملات کے روحانی پہلوؤں کو نظر انداز کردینا ہے۔ دورِ حاضر کے مسلم معاشروں کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ ان میں عبادت کو الگ سمجھ لیاگیا ہے اور معاملات کو الگ۔ اس کی مثال ایسے لوگوں سے دی جاسکتی ہے جو پابندی سے نماز پڑھتے ہیں لیکن کاروبار کرتے ہوئے جھوٹ بولنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ اسی طرح بہت سے لوگ ظلم کرتے ہیں، فساد پھیلاتے ہیں۔
خطبہ حجتہ الوداع حقوق انسانی کا اولین چارٹر ہے۔ اس میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
نہ کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔ نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر۔ نہ کالا گورے سے افضل ہے۔ نہ گورا کالے سے۔ ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔
لیکن آج مسلمانوں میں بہت سے افراد یا معاشرے انسانوں کے مابین رنگ و نسل کی بناء پر امتیاز کرتے ہیں۔ مثلاً عرب۔۔۔ آج کل عرب جو تیل کی وجہ سے دولت کے مالک ہیں غیر عربوں خصوصاً مسلمان غیرعربوں کو کمتر خیال کرتے ہیں لیکن یہی عرب یورپین یا امریکن لوگوں کو افضل خیال کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ انجینئرنگ، بزنس ایڈمنسٹریشن، طب یا کسی اور شعبہ میں ایک ہی قابلیت اور تجربے کے حامل پاکستانی کی تنخواہ اسی جیسے کسی گورے کی تنخواہ سے بہت کم رکھی جاتی ہے وجہ۔۔۔۔۔؟ وہ گورا ہے۔ یہ پاکستانی ہے۔ حالانکہ ہوسکتا ہے بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پاکستانی دوسروں سے زیادہ اہل اور محنتی ہو۔ کیا آج وسائل کے مالک اور خود کو اعلیٰ سمجھنے والے عربوں کا یہ طرزِ عمل نبی کریمﷺ کے ارشادات کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے۔
پاکستانی سماج کے دو بڑے مسائل نوجوانوں کی بے روزگاری اور بہت سی لڑکیوں کی شادی کے لئے بروقت مناسب بر نہ ملنا ہیں۔ اگر ان مسائل کے حقیقی اسباب تلاش کئے جائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ یہ مسائل بھی قرآن اور نبی کریمﷺ کی ہدایات سے واضح روگردانی کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ آج کے مسلمان تقویٰ کی زیادہ سے زیادہ صفات اپنائے ہوئے ہوتے۔ اﷲ سے قربت کا ذریعہ صرف عبادات کو ہی نہ سمجھتے بلکہ اپنے معاملات کو بھی اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کے مطابق چلاتے تو آج یہ امت غیروں کی نگاہ میں حقیر نہ ہوتی۔ تقویٰ اﷲ کی نظروں میں عزت و مرتبہ دلاتا ہے جسے اﷲ عزت عطا کردے دنیا کی کوئی طاقت اُسے مرعوب نہیں کرسکتی۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اے ایمان والو! اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو اﷲ تمہیں فیصلہ کرنے کی قوت عطا کرے گا اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کردے گا اور تمہارے قصور معاف کردے گا۔ اﷲ بڑا فضل کرنے والا ہے۔ (سورہ الانفال)
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ بے شک اﷲ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔ (سورۂ الحجرات)
اﷲ کی نظر میں نہ تو کسی قوم، قبیلہ یا خاندان سے وابستگی کی اہمیت ہے نہ ہی کوئی اور مادی سبب اہمیت رکھتا ہے بلکہ اﷲ کی نظر میں زیادہ عزت ومرتبہ کا مالک وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔
یہ بات تو معلوم ہوگئی کہ اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت پرہیز گاری کی ہے۔ اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پرہیز گاری کیا ہے؟ کیا پرہیز گاری کسی ایک خاص عمل کا نام ہے؟ یہ کوئی ایک وصف یا صفت ہے یا کئی اوصاف یا صفات ہیں؟ اس ضمن میں قرآن سے رجوع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پرہیز گاری یا تقویٰ کوئی ایک صفت نہیں بلکہ یہ کئی صفات پر مشتمل ایک مکمل پیکج ہے۔ اس پیکج میں کئی امور ایک دوسرے سے منسلک اور پیوستہ ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ قرآن کن صفات کو پرہیز گاری قرار دیتا ہے۔
ایمان۔ اﷲ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، اﷲ کی کتابوں پر، اﷲ کے پیغمبروں پر ایمان رکھنا، صلوٰۃ قائم کرنا اور اپنے اہلِ و عیال کو اس کی تلقین کرنا روزہ رکھنا، زکوٰۃ دینا یعنی اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا، حق داروں کو ان کا حق دینا، حلال روزی کا حصول، عہد کو پورا کرنا، عدل و انصاف کا مکمل اہتمام، سختی، تکلیف اور مقابلہ آرائی کے وقت ثابت قدم رہنا، اﷲ کی راہ میں قربانی دینا، ظاہری و باطنی پاکیزگی کا اہتمام کرنا، ظاہری پاکیزگی کا مطلب ہے ذاتی اور ماحول کی صفائی کا اہتمام کرنا۔ جب کہ باطنی پاکیزگی سے مراد نیت کی صفائی و پاکیزگی۔ راست بازی اور مثبت طرزِ فکر یعنی پازیٹو تھنکنگ ہے۔ اﷲ کے مقرر کردہ ادب و شعائر کی تعظیم و احترام، معاشرہ میں ظلم و فساد سے باز رہنا۔
یہ ہیں وہ چند نمایاں اوصاف جن کا تذکرہ قرآنِ پاک میں تقویٰ کے حوالے سے کیا گیا ہے۔
اﷲ کے آخری رسول محمدﷺ نے اسلامی تاریخ میں جمعہ کا پہلا خطبہ قبا میں ارشاد فرمایا۔ اس میں اور باتوں کے علاوہ آپﷺ نے فرمایا:
’’میں تمہیں تقویٰ کی تلقین کرتا ہوں کیوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو جو بہترین تلقین کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے آخرت کے لئے آمادہ کرے اور تقویٰ کے لئے کہے‘‘۔
حج کے سفر میں زاد راہ ساتھ لے جانے کی ہدایت کرتے ہوئے قرآن تقویٰ کا ذکر کرتا ہے۔ اس ہدایت کو دوسرے تمام اقسام کے سفر پر بھی لاگو سمجھنا چاہیے۔
سفر کے لئے زاد راہ ساتھ لیجاؤ اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔(سورۂ بقرہ)
سفر میں یا تو ضروریات کے حصول کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر اشیائے خوردونوش سمیت چند دوسری چیزوں کی۔ تقویٰ تو ایک عمل ہے۔ اسے بہترین زاد راہ کیوں قرار دیا جارہا ہے؟ دراصل ساری زندگی خود ایک سفر ہے جس کی منزل آخرت ہے۔ اس دنیا کی زندگی آخرت کی تعمیر ہے۔ اور آخرت کے لئے بہترین تیاری تقویٰ کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے۔ تقویٰ کو بہترین زاد راہ قرار دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اوپر جس پیکج کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس کے کئی اجزاء کامیابیوں کے حصول میں مدد دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر حق دار کو اس کا حق دینا، عہد کو پورا کرنا، سختی اور تکلیف کے وقت ثابت قدم رہنا۔ حلال روزی کا حصول، ظاہری و باطنی پاکیزگی، ظلم و فساد سے باز رہنا وغیرہ۔
تقویٰ کے پیکیج میں جن امور کا تذکرہ ہوا ہے انہیں ہم دو بڑے حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک حصہ کا تعلق خالص عبادات سے ہے دوسرے حصہ کا تعلق معاملات سے ہے۔ گو کہ اﷲ کے حکم کی بجاآوری میں سرانجام دیئے گئے معاملات بھی عبادت کے زمرہ میں آجاتے ہیں۔
صلوٰۃ کا قیام، رمضان کے روزوں کا اہتمام، اﷲ کے گھر کے حج کا تعلق خالصتاً عبادات سے ہے۔ اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا، حق داروں کو ان کا حق دینا، عہد کی تکمیل، عدل و انصاف، استقامت، قربانی، حلال روزی، پاکیزگی، شعائر اﷲ کی تعظیم، معاشرہ میں ظلم و فساد سے باز رہنا۔ ان سب کا تعلق معاملات سے ہے۔ عبادت کا تعلق اﷲ اور بندے سے ہے۔ معاملات کا تعلق اﷲ اور بندہ سے بھی ہے اور بندہ اور بندہ سے بھی۔
عبادت، معاملات اور تقویٰ کی اس انتہائی مختصر تشریح کے بعد آیئے آج کے مسلمانوں کی حالتِ زار اور مسلم معاشروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ دنیا کی چھ ارب سے زائد آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔ مسلمان ممالک کی تعداد 55 سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے تقریباً ہر خطہ اور ہر ملک میں مسلم آبادی بطور اقلیت موجود ہے۔ مسلمان اُمت کے پاس بیش قیمت قدرتی وسائل موجود ہیں۔ کئی اسلامی ممالک کا شمار دنیا کے دولتمند ممالک میں ہوتا ہے۔ جب کہ بیشتر کا شمار درمیانی معیشت رکھنے والے یا غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن غریب اسلامی ملک تو ایک طرف امیر اسلامی ملک کے باشندے بھی اپنے مستقبل کو بہتر اور اپنی دولت کو محفوظ کرنے کے لئے یورپ اور امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ غیر مسلم یورپ اور امریکہ کی طرف۔۔۔۔۔!
ہم اپنے معاشروں، اپنے ممالک، اپنی حکومتوں کو اپنا سرپرست اور محافظ محسوس نہیں کرتے، ہم مسلمان ہیں۔ اﷲ پر یقین رکھتے ہیں، اﷲ کی عبادت کرتے ہیں۔ اﷲ سے مدد مانگتے ہیں۔ اﷲ کا وعدہ ہے کہ مدد طلب کرنے والوں کی مدد کرے گا۔ لیکن آج اﷲ کی مدد ہمارے لئے کیوں نہیں آتی۔؟ ہم خود کو غیر محفوظ کیوں سمجھتے ہیں۔؟ بہت سے مسلمان اپنی روزی کی تلاش میں، اپنی دولت کے تحفظ کی خاطراور اپنی حکومتوں کی بقاء کے لئے امریکہ کی جانب کیوں دیکھتے ہیں؟ اس کا جواب بہت سادہ اور آسان ہے۔ تقویٰ کے پیکج پر مکمل طور پر عمل نہ کرنے سے ہمارے معاشرے کمزوری اور انحطاط کا شکار ہیں۔ تعلیماتِ نبویﷺ رائج نہ کرنے سے یہ معاشرے وقت کے چیلنجزسے مقابلہ کے لئے مطلوبہ صلاحیتوں کے افراد تیار نہیں کرپارہے۔طرح طرح کی پابندیوں اور خوف کے باعث اسلامی ممالک میں عوام تو ایک طرف اہلِ دانش کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی پوری طرح پنپنے کے مواقع نہیں مل رہے۔ جہاں فرد کے سوچنے پر پہرے بٹھا دیئے جائیں اور تخلیقی صلاحیتوں پر پابندی محسوس ہونے لگے وہاں جمود پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ جمود ایسا ہی ہے جیسے ایک جگہ ٹہرا ہوا پانی۔۔۔۔۔ کسی جگہ مدتوں پانی ٹہرا رہے تو اس میں سڑاند اور تعفن پیدا ہونے لگتا ہے۔ بہت سی مخلوق کا اس ماحول میں جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ جن کا بس چلتا ہے وہ اس منفی ماحول سے بچنے کے لئے نقلِ مکانی کرجاتے ہیں جو یہ نہ کرسکیں وہ نہایت بے بسی سے اپنے آپ کو حالات کے حوالے کردیتے ہیں۔ البتہ کچھ عناصر کو یہ ماحول خوب راس آتا ہے۔ یہ متعفن اور مسموم فضا انہیں پھلنے پھولنے میں مدد دیتی ہے۔ سمجھنے میں آسانی کی خاطر ان عناصر کو ہم اپنے معاشرہ کے استحصالی طبقات سے تشبیہہ دے سکتے ہیں۔
ذرا غور تو کیجئے آج کے بہت سے مسلم معاشرے ایسے ہی جمود کا شکار نہیں ہوگئے ہیں۔ کیا معاشرہ کی عام حالت ایسی نہیں ہوگئی ہے کہ اچھے کام کرنا بہت مشکل اور بُرے کام آسان ہوگئے ہیں۔ اچھے کاموں کے لئے تعاون کرنے والے کم سے کم ہوتے جارہے ہیں اور برے کاموں میں مدد دینے والے ہاتھ بڑھا بڑھا کر مل جاتے ہیں۔ ماحول برائی کے فروغ میں مدد گار ہے۔ رہی اچھائی تو وہ اپنی کی بقاء کے لئے کوشش کررہی ہے۔ ان اسباب کی بناء پر معاشرہ میں بیروزگاری عام ہے۔ میرٹ کا قتل ہورہا ہے۔ اقرباء پروری اور سفارش کے بل پر حقدار کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ استحصالی طبقہ سیاستدانوں کی بداعمالیوں، سرکاری افسروں کی رشوت خوری، بنکوں کے قرضوں کے ذریعہ قومی وسائل کی لوٹ مار کے ذریعہ دولت بٹورنے میں مصروف ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال، بڑھتی ہوئی چوریوں ڈکیتیوں سے عیاں ہے۔ سماجی سطح پر مسائل بڑھتے جارہے ہیں جن میں نوجوانوں کی بے روزگاری، اولاد اور والدین میں بڑھتے ہوئے فاصلے، لڑکیوں کی شادی جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ چند افراد پر مشتمل ظالم فسادی، خائن، غاصب طبقہ پھل پھول رہا ہے۔ لوگوں کی اکثریت خاموشی سے ظلم سہے جارہی ہے۔ جس کا بس چل رہا ہے وہ کھلی فضاء میں جینے کی خاطر امریکہ یا یورپ کا رُخ کررہا ہے۔
کیا یہ سب کچھ اﷲ کی یاد سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ جہاں تک اﷲ کو یاد کرنے ، اﷲ کا ذکر کرنے کا تعلق ہے تو گزشتہ دو تین دہائیوں میں مساجد کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ نمازیوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ پہلے زیادہ تر ادھیڑ عمر کے اور بوڑھے لوگ مساجد میں جایا کرتے تھے اب نوجوانوں کی بڑی تعداد مساجد کا رُخ کرتی ہے۔ مسلم خواتین میں مذاہب سے وابستگی کی شرح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
ہمارے ہاں یہی سمجھا جاتا ہے کہ پابند صوم و صلوٰۃ لوگ متقی اور پرہیز گار ہوتے ہیں۔ اگر پابند صوم و صلوٰۃ داڑھی بھی رکھ لے اور پینٹ شرٹ چھوڑ کر شلوار قمیض یا کرتا پاجامہ پہننا شروع کردے تو اس کی بزرگی اور تقویٰ پر تو گویا مہر تصدیق ثبت ہوگئی۔ ایک شخص پابندی سے نماز ادا کرتا ہے اور روزہ رکھتا ہے، زیادہ وقت اﷲ کی حمد و تسبیح میں گزارتا ہے تو وہ یقینا عبادت گزار کہلائے گا اس کا اجر اﷲ کے پاس ہے لیکن ایسا شخص اگر معاشرتی معاملوں سے لاتعلق ہوکر عبادت میں مصروف رہتا ہے اور دنیا داری سے بالکل دور رہتا ہے تو اس کا یہ طرزِ عمل بھی مطلوب و محمود نہیں ہے۔ لیکن ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص پابندی سے نماز پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی عہد شکنی کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے۔ فساد پھیلاتا ہے یا فساد میں معاون بنتا ہے تو ایسا شخص تمام تر عبادتوں کے باوجود متقی کہلانے کا ہر گز حقدار نہیں ہے۔
قرآن اور ارشادتِ نبویﷺ سے علم ہوتا ہے کہ تقویٰ تمام عبادات کی روح ہے۔ گویا تقویٰ اسلام کے نظام عبادات و معاملات کا روحانی پہلو ہے۔ آج امتِ مسلمہ کو جو سنگین مسائل درپیش ہیں ان کا بہت بڑا سبب اسلام کے نظام عبادات ومعاملات کے روحانی پہلوؤں کو نظر انداز کردینا ہے۔ دورِ حاضر کے مسلم معاشروں کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ ان میں عبادت کو الگ سمجھ لیاگیا ہے اور معاملات کو الگ۔ اس کی مثال ایسے لوگوں سے دی جاسکتی ہے جو پابندی سے نماز پڑھتے ہیں لیکن کاروبار کرتے ہوئے جھوٹ بولنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ اسی طرح بہت سے لوگ ظلم کرتے ہیں، فساد پھیلاتے ہیں۔
خطبہ حجتہ الوداع حقوق انسانی کا اولین چارٹر ہے۔ اس میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
نہ کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔ نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر۔ نہ کالا گورے سے افضل ہے۔ نہ گورا کالے سے۔ ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔
لیکن آج مسلمانوں میں بہت سے افراد یا معاشرے انسانوں کے مابین رنگ و نسل کی بناء پر امتیاز کرتے ہیں۔ مثلاً عرب۔۔۔ آج کل عرب جو تیل کی وجہ سے دولت کے مالک ہیں غیر عربوں خصوصاً مسلمان غیرعربوں کو کمتر خیال کرتے ہیں لیکن یہی عرب یورپین یا امریکن لوگوں کو افضل خیال کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ انجینئرنگ، بزنس ایڈمنسٹریشن، طب یا کسی اور شعبہ میں ایک ہی قابلیت اور تجربے کے حامل پاکستانی کی تنخواہ اسی جیسے کسی گورے کی تنخواہ سے بہت کم رکھی جاتی ہے وجہ۔۔۔۔۔؟ وہ گورا ہے۔ یہ پاکستانی ہے۔ حالانکہ ہوسکتا ہے بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پاکستانی دوسروں سے زیادہ اہل اور محنتی ہو۔ کیا آج وسائل کے مالک اور خود کو اعلیٰ سمجھنے والے عربوں کا یہ طرزِ عمل نبی کریمﷺ کے ارشادات کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے۔
پاکستانی سماج کے دو بڑے مسائل نوجوانوں کی بے روزگاری اور بہت سی لڑکیوں کی شادی کے لئے بروقت مناسب بر نہ ملنا ہیں۔ اگر ان مسائل کے حقیقی اسباب تلاش کئے جائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ یہ مسائل بھی قرآن اور نبی کریمﷺ کی ہدایات سے واضح روگردانی کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ آج کے مسلمان تقویٰ کی زیادہ سے زیادہ صفات اپنائے ہوئے ہوتے۔ اﷲ سے قربت کا ذریعہ صرف عبادات کو ہی نہ سمجھتے بلکہ اپنے معاملات کو بھی اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کے مطابق چلاتے تو آج یہ امت غیروں کی نگاہ میں حقیر نہ ہوتی۔ تقویٰ اﷲ کی نظروں میں عزت و مرتبہ دلاتا ہے جسے اﷲ عزت عطا کردے دنیا کی کوئی طاقت اُسے مرعوب نہیں کرسکتی۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اے ایمان والو! اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو اﷲ تمہیں فیصلہ کرنے کی قوت عطا کرے گا اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کردے گا اور تمہارے قصور معاف کردے گا۔ اﷲ بڑا فضل کرنے والا ہے۔ (سورہ الانفال)