رد عمل کی نفسیات

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


رد عمل کی نفسیات 


ایک تیل پیدا کرنے والے اسلامی ملک عراق کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکہ کے عزائم سے کئی اسلامی ممالک میں شدید تشویش اور خوف پایا جاتا ہے۔ اسلامی ممالک پر، خاص طور پر عرب ممالک پر امریکہ کے رعب و دبدبہ کا یہ عالم ہے کہ عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو امریکی عزائم کے خلاف مزاحمت تو درکنار زبانی مذمت یا احتجاج کی ہمت بھی نہیں ہوپارہی۔ یورپ کے بعض ممالک میں عوامی رائے عراق پر امریکی حملے کے خلاف ہے اور وہاں عوام کی جانب سے اس کا بھرپور اظہار بھی ہوا ہے۔ یورپ کے کئی شہروں میں امریکہ کے خلاف ہونے والے ان نہایت بڑے مظاہروں نے اسلامی ممالک کے بعض دانشوروں کو بھی شدید غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے۔ یورپی عوام کے اس رویہ کو ہمارے ہاں بعض لوگوں نے انسانی ضمیر کی بیداری اور نجانے کیا کیا دل خوش کن خطابات دیئے ہیں۔ اگر آج یورپ میں ہونے والے مظاہرے انسانی ضمیر کے زیر اثر ہورہے ہیں تو یہ ضمیر اس وقت کہاں سورہا تھا جب عراق پر پابندیوں کے باعث لاکھوں معصوم عراقی بچے مناسب خوراک اور دوائیں نہ ملنے سے ہلاک ہورہے تھے۔ یہ ضمیر اس وقت کہاں تھا جب امریکہ کی فضائیہ افغان شہروں پر آگ اور بارود کاقہر نازل کر کے سینکڑوں معصوم نہتے سویلین عوام کو موت کے اندھیروں میں دھکیل رہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں معصوم عراقی بچوںاور نہتے افغان عوام کی بے گناہ ہلاکت سے یورپی ریاستوں کے مفادات متاثر نہیں ہورہے تھے۔ اسِلئے اس وقت وہاں خاموشی تھی۔ آج عراق پر امریکی عزائم سے کئی یورپی ممالک کے مفادات براہِ راست متاثر ہونے کا خدشہ ہے اس لئے ضمیر کی خلش نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کے تحت امریکی پیشقدمی کی مخالفت کی جارہی ہے۔
پچیس سال پہلے جب روس افغانستان پر قابض تھا اور امریکہ اسے وہاں سے نکالنے کی جدوجہد کی قیادت کررہا تھا اس وقت پورا مغربی یورپ اور تمام اسلامی ممالک امریکہ کے زبر دست حمایتی اور مدد گار تھے۔ بیسویں صدی کا دوسرا  نصف حصہ امریکہ اور روس کے درمیان برتری کے لئے اعصابی، نفسیاتی، معاشی اور فوجی مقابلوں کے عروج کا دور تھا۔ اس دور میں ایک سپر طاقت امریکہ نے اپنی حریف دوسری سپر طاقت روس سے کہیں جمہوریت کے نام پر، کہیں معاشی ترقی کے نام پر، کہیں آزادی اظہار کے نام پر اور کہیں جہاد کے نام پر دو دو ہاتھ کئے۔ امریکہ کی برتری کے لئے لڑی جانے والی اس جنگ میں مغربی یورپ نے اپنے وسائل، ٹیکنالوجی اور سیاسی حمایت سے امریکہ کو مدد فراہم کی تو اسلامی ممالک کی جانب سے دولت یا افرادی قوت کے ذریعہ امریکہ کو تقویت فراہم کی گئی۔ اس جنگ میں لاکھوں افغان عوام نے روس کے خلاف جہاد کے نام پر شریک ہو کر امریکہ کے لئے دنیا کی واحد سپر طاقت ہونے کا راستہ ہموار کیا۔
امریکی ڈالر اور جدید امریکی اسلحہ سے لیس لاکھوں افغان عوام کی مزاحمت سے لاچار ہو کر روسی فوجیں ذلیل و خوار ہو کر افغانستان سے چلی گئیں۔ لیکن افغانیوں کو کیا ملا؟۔۔۔۔۔ لاشیں، معذور جسم، بیواؤں اور یتیموں کے جمگھٹے، تباہِحال بستیاں، ٹوٹے ہوئے حوصلے اور روسی فوج کے قبضہ کی جگہ امریکی فوج کا قبضہ!۔۔۔۔۔
کیا افغانستان پر روس کا قبضہ براہِ راست اسلام پر حملہ تھا اور اس قبضہ کے خلاف جدوجہد اسلام کے دفاع کے لئے تھی۔ درحقیقت یہ دوبڑی طاقتوں امریکہ اور روس کی چپقلش تھی جس میں امریکہ نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنے دشمن روس کے خلاف مسلمانوں کو استعمال کیا۔
اگر افغانستان پر روس کا قبضہ اسلام پر حملہ تھا تو افغانستان سے روس کی پسپائی سے عالم اسلام کو فتح مند ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا  بلکہ روسی پسپائی کا سب سے زیادہ فائدہ یورپ کو ہوا جہاں سے بغیر جنگ لڑے اور بغیر خون بہائے روسی غلبہ ختم ہوگیا اور مشرقی یورپ کے ممالک روسی چنگل سے نکل آئے۔ اسی کے نتیجہ میں یورپی یونین کے قیام کے مراحل آسان ہوئے۔ افغانستان سے روسی پسپائی کی وجہ سے ہی امریکہ 90ء کی دہائی میں عراق پر حملہ کا موقع حاصل کرسکا۔ مشرق وسطیٰ میں اس صورتحال کا تمام تر فائدہ اسرائیل نے حاصل کیا، مصر اور اردن نے اسرائیلی زیادتیوں کی مزاحمت ترک کردی اور فلسطینی عوام کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ گویا افغانستان سے روسی پسپائی کے تمام تر ثمرات امریکہ، یورپی ممالک اور اسرائیل کو حاصل ہوئے اسلامی ممالک کو کیا حاصل ہوا؟۔۔۔۔۔ محض تھپکیاں اور شاباشی کے چند بول وہ بھی عارضی۔۔۔۔۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی یورپ پر روس کا قبضہ، لیفٹ بلاک کی تشکیل اور آخر میں افغانستان پر روس کا قبضہ اور امریکہ کی جانب سے ان تمام اقدامات کی مزاحمت، مذاہب یا نظریات کی جنگ نہ تھی یہ عالمی سطح پر بالادستی حاصل کرنے اور دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کی مہم تھی۔ اس مہم میں روس بازی ہار چکا ہے۔ اب امریکہ تن تنہا عالمی جاگیردار کا کردار ادا کررہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر امریکی یلغار یا صدام حسین کو غیر مسلح کرنے کے نام پر عراق کے خلاف امریکی عزائم اسی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ یہ عالمی جاگیرداری اپنے استحکام کے لئے کئی امور کے تقاضے کرتی ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان تمام قوموں کو اپنا دست نگر بنا کر رکھا جائے جہاں سے مزاحمت کی ہلکی سی بھی توقع ہو۔ چنانچہ اس تقاضہ کی تکمیل کے لئے اسلام کو مغرب کے لئے ایک بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ورنہ اسلام کسی کے لئے کوئی خطرہ نہیں، اسلام تو انسانوں کے لئے سلامتی اور عافیت ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ آج عراق پر امریکی یلغار اسلامی ثقافت اور مسلم تہذیب پر غیر مسلم یلغار ہے۔
ہم اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کی جانب سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہیں۔ ہم اسلام کے بارے میں ان کے جذبات اور عزائم سے بھی ناواقف نہیں ہیں۔ لیکن حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ خود اپنے بارے میں بھی کسی غلط فہمی میں نہ رہا جائے۔ ہمارے بعض دانشور بہت خوش ہو کر ہمیں بتاتے ہیں کہ مغرب اور امریکہ اسلام سے خوفزدہ ہیں وہ اسلامی تہذیب کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
اس تاثر کے حقیقت پسندانہ اور بے لاگ تجزیے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج کا مسلمان اس قابل ہے بھی کہ وہ مغربی تہذیب کے لئے کسی خوف کا سبب بن سکے؟۔۔۔۔۔
تیل کی دریافت کے بعد کئی عرب ممالک کے حالات تبدیل ہوئے اور وہ غربت اور پسماندگی سے نکل کر خوشحالی کے دور میں داخل ہوگئے۔ تیل سے حاصل ہونے والی اس دولت سے عرب مسلمانوں نے اپنے لئے پرشکوہ عمارتیں بنوائیں، سڑکیں بنوائیں، جدید شہر بسائے لیکن اسلامی نظریہ حیات، قرآن کے پیغام کے فروغ پر، اﷲ کی طرف سے ملنے والی اس دولت کا (کیونکہ یہ خالصتاً قدرتی وسائل سے حاصل ہورہی ہے اس میں انسانی محنت کا دخل بہت کم ہے) کتنا حصہ خرچ کیا گیا، مسلم ممالک نے دنیا بھر میں اسلام کے پیغام کی ترویج کے لئے کیا کام کئے۔ جب کہ اس دوران خود اسلامی ممالک میں مغربی طرزِحیات اور مغربی ثقافت کا نفوذ کس قدر ہوا۔ عرب ممالک تیل کی دولت کے باوجود معاشی معاملات میں پوری طرح امریکہ اور یورپ کے غلبہ میں ہیں۔ عربوں کی دولت امریکن اور یورپی بنکوں میں جمع ہے۔ مسلمانوں کے خوشحال اور بارسوخ طبقات کی نئی نسل امریکہ اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہے۔ جس قوم نے امریکن طرزِ زندگی کو فخر سے اپنا لیا ہو!۔۔۔۔۔ جس قوم کی دولت امریکن بنکوں میں ہو!۔۔۔۔۔ جس قوم کی نئی نسل امریکن اسکولوں سے زندگی گزارنے کے ڈھنگ سیکھ رہی ہو!۔۔۔۔۔ اس قوم کی تہذیب سے امریکہ یا مغرب کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔۔
اسلامی ممالک کی تعداد پچاس سے زائد اور مسلمانوں کی آبادی ایک ارب سے زائد ہے۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی اسلامی ممالک کی زبان عربی ہے۔ اس کے علاوہ ایشیاء کے اسلامی ممالک میں ایک درجن سے زائد زبانیں رائج ہیں جن میں سے بڑی زبان اُردو کہی جاسکتی ہے۔ عرب ہوں یا دوسرے اسلامی ممالک ان میں کہیں بھی ان کی قومی زبان واحد زبان کے طور پر رائج نہیں ہے۔ ہر جگہ انگریزی موجود ہے یا افریقہ اور عرب کے بعض ممالک میں جو فرانس کی کالونی رہ چکے ہیں فرانسیسی زبان کا غلبہ نظر آتا ہے۔
ان ممالک میں زیادہ تر دُہرا نظامِ تعلیم رائج ہے۔ برتری اُس نظام کو حاصل ہے جس میںذریعہ تعلیم مغربی زبان یعنی انگریزی یا فرانسیسی ہے۔ پاکستان میں یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ والدین کی اکثریت خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقہ سیِہو، اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم دلانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔
ہماری قوم کے لوگ حصولِ تعلیم کے لئے یا ملازمت یا کاروبار کے لئے امریکہ یا یورپ جاتے ہیں تو ان کی زبانیں سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہاں جا کر ہم میں سے اکثر ان کے رنگ میں بھی رنگ جاتے ہیں۔ لیکن ان کے لوگ جب کاروبار  یا اپنے دوسرے کاموں سے ہمارے ہاں آتے ہیں تو وہ ہماری زبان سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ خود اپنے ہاں ان سے ملنے کی خاطر بھی ہم ان کی ہی زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنی روایات سے وابستگی کی شدّت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریڈیو یا ٹی وی پر نیوز ریڈر یا کمپیئر اُردو، پنجابی، سندھی وغیرہ بولتے وقت کوئی لفظ غلط بولے تو ہم اس کا ذرا بھی نوٹس نہیں لیتے لیکن اگر نیوز ریڈر خبریں پڑھتے وقت انگریزی کے ہجے یا گرامر کی کوئی غلطی کردے تو انگریزی زبان کے پرستار پاکستانیوں کے اعتراضات کی بھرمار ہوجاتی ہے۔
مختلف قوموں میں اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی سرزمین سے وابستگی کا اظہار ایک اور انداز سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آج اسلامی ممالک امریکی اور یورپی عوام کو اپنی شہریت قبول کرنے کی دعوت دیں تو وہاں کتنے لوگ یہ دعوت قبول کریں گے۔ دوسری طرف امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، جاپان وغیرہ اگر مسلم ممالک کے عوام کو اپنی شہریت کی دعوت دیں تو یہاں کتنے لوگ اس دعوت کو قبول کریں گے۔ مسلمان عرب اور دوسرے ایشیائی اسلامی ممالک کے لاکھوں لوگ بہتر مستقبل کے لئے ترکِ وطن کر کے امریکہ اور یورپ گئے۔ زندگی میں بہتر مواقع کے حصول کے لحاظ سے یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ بڑی تعداد میں امریکن اور دوسرے مغربی ممالک کے باشندے بھی بغرضِروزگار دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک میں موجود ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ جب ہم امریکہ یا یورپ گئے تو وہاں دُہرے معیار میں پھنس کر رہ گئے۔ ہم میں سے کتنوں نے وہاں جا کر اپنی اعلیٰ روایات و اقدار کو چھوڑ کر ان کا رنگ اپنالیا۔ اپنا رنگ ڈھنگ ہی بھول گئے۔ ہمارے کتنے ہی حکمران، سیاستداں، تاجر، فنکار، طالبعلم امریکہ جا کر رہنا چاہتے ہیں۔ وہاں جا کر چند سال رہنے کے بعد ہم میں سے اکثر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہاں کی نیشنلٹی یا کم از کم گرین کارڈ جیسی کوئی دستاویز حاصل کرلیں۔ امریکہ اور یورپ میں جانے والے مسلمانوں کی اکثریت کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ ان کی نئی نسل اسلامی اقدار سے بے بہرہ اور مغربی ثقافت کی پروردہ ہے۔خود اسلامی ممالک میں کیا حال ہے ۔ ہمارے ہاں ثقافت کا مطلب چند لوک رقص، لوک گیت، دیہی زندگی کے چند مناظر، علاقائی لباسوں اور شادی بیاہ کی رسموں تک ہی محدود ہوگیا ہے۔ ورنہ ہماری روز مرہ کی زندگی تیزی سے مغربی رنگ میں ڈھل رہی ہے۔ ہماری زندگی کا کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں ہم مغرب کے بنائے ہوئے اصول اور ان کے قائم کردہ معیار کی پیروی نہیں کررہے۔ زراعت، صنعت، تجارت، مواصلات،سڑک پر چلنے کے لئے ٹریفک قوانین حتّٰی کہ ہمارے گھروں کے باورچی خانے بھی امریکن یا اٹالین طرزوں پر بنائے جاتے ہیں۔
اس وقت دنیا کے معاملات جس قوم یا جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے نت نئے انداز اختیار کرتے رہتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز پر دنیا پر یورپ کی بالادستی تھی سلطنت برطانیہ کی وسعت اسقدر تھی کہ اس کی قلمرو میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ بیسویں صدی کے پہلے پچاس سالوں میں یورپی اختلافات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا پر یورپی بالادستی کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس صدی کے دوسری نصف حصہ میں سوویت یونین کے بخیے اُدھیڑ دیئے گئے۔ اب اکیسویں صدی ہے۔ اس صدی کا ایجنڈا یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر بھرپور طریقہ سے امریکی تسلط قائم کردیا جائے۔ اس تسلط کے قیام کے لئے جہاں جیسا ہوسکے جواز تراش لیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ اس عالمی ماحول میں مسلمانوں کا طرزِ عمل کیا ہو؟۔۔۔۔۔
جدید دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان بحیثیت قوم رد عمل کی نفسیات میں تبدیلی لائے!۔۔۔۔ جمود پرستی، ظاہرہ رسوم کو اسلام کے تقاضے سمجھنے کے بجائے قرآن پاک اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات کے حقیقی فہم تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے!۔۔۔۔ رسول اﷲﷺ کے ارشاد کے مطابق مومنانہ فراست حاصل کی جائے!۔۔۔۔
نور الٰہی اور نور نبوت سے روشنی حاصل کرکے قوموں کے عروج و زوال کے میکنزم اور زمانہ کے اُلٹ پھیر کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کسی کی دنیاوی طاقت سے مرعوب ہو کر اپنے ایمان کو ضعف نہ پہنچایا جائے۔ اﷲ پر کامل ایمان اور اﷲ کی عطا کردہ صلاحیتوں کے بہتر استعمال سے مشکل وقت کا مقابلہ کر کے اپنے لئے آسانیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔

[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، مارچ 2003ء ]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے