علم اور انسان
اسلام نوع انسانی کو اس پر اُبھارتا ہے کہ وہ کائنات سے متعلق ہر چیز کا تفصیلی علم حاصل کرے
انسان کے شرف کی وجہ یا بنیاد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ کسی دوسری مخلوق حتّٰی کہ مقرب فرشتوں تک کو نہیں دیا
یہاں ہر انسان کو حصول علم وعرفان کا مکلف بنایا
اس کائنات کی تمام تر مخلوقات میں انسان کو افضل ترین مخلوق یا اشرف المخلوقات کہا جاتاہے۔ سوال یہ ہے کہ بنی آدم یعنی انسان کے اس شرف کی وجہ کیا ہے۔ قرآن پاک سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ انسان کے شرف کی وجہ یا بنیاد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ کسی دوسری مخلوق حتّٰی کہ مقرب فرشتوں تک کو نہیں دیا ۔
وعلم آدم الاسماء کلھا.
علم کی بناء پر ملنے والی فضیلت کی وجہ سے ہی آدم مسجود ملائک قرار پایا۔ اسی وجہ سے ابلیس کے آدم سے حسد یا دشمنی کاآغاز ہوا اور ابلیس نے آدم کو اللہ کی راہ سے بھٹکانے کے لئے اللہ سے مہلت طلب کرلی جو اسے دیدی گئی۔ابلیس یا شیطان نے انسان کو ورغلایا۔ آدم سے لغزش ہوئی۔اس نافرمانی کے ارتکاب پر آدم کو حکم ہوا کہ وہ اب جنت سے زمین پر چلے جائیں۔ وہاں ایک مقرر مدت تک رہ کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس زمین پر گزانے والی زندگی کے اعمال کی بنیاد پر جنت میں ان کی واپسی کا فیصلہ ہوگا۔اس زمین پر انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ ہدایت ورہنمائی کا سلسلہ قائم ہوا۔ دوسری طرف شیطان انسان کو بھٹکانے اور اسے اللہ سے دورکرنے کے مشن پر کمر بستہ ہوگیا۔
اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت انسان خیرو شر کے درمیان زندگی گذارتاہے ۔اس بات کا اختیارانسان کو دے دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو خیر کو قبول کرے، چاہے تو شیطان کے پھیلائے ہوئے شر کے جال میں پھنس جائے۔
انسان فطری طورپر اللہ سے قرب چاہتا ہے ۔اللہ کو جاننے اللہ کو پالینے کی خواہش انسان کا قلبی وروحانی تقاضہ ہے۔ شیطان اس تقاضہ کو دبا کر انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کردینے کے مشن پر گامزن ہے۔ شیطان کامشن یہ ہے کہ آدم کو نیچادکھا دیا جائے اور اس طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ انسان دیگر مخلوقات پر برتری اور فضیلت کا حقدار نہیں ہے!۔۔۔۔۔ لیکن اپنی تمامتر سازشوں اور کوششوں کے باوجود شیطان نوع انسان پر مکمل طورپر کبھی بھی غلبہ حاصل نہیں کرسکا۔ انسان کے اندر موجود اللہ سے تعلق کی خواہش شیطان کو باربار مایوس اور نامراد کرتی رہتی ہے۔
یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے ارادہ ،اللہ کی مرضی اور مشیّت کا اظہارہے۔ اللہ کو پانے کی خواہش کے تحت ہی انسان اللہ تعالیٰ کے ارادہ کواللہ کی مرضی اور مشیّت کو سمجھنے کی کوشش کررہاہے۔ اس کوشش میں مختلف علوم سامنے آئے۔ علوم کو بنیادی طور دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔ ایک مادی علوم یعنی فزکس دوسرے روحانی علوم یعنی میٹافزکس۔۔۔۔۔
اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں اقسام کے علوم کو روشنی وحی ٔ الٰہی سے ملی ہے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں نے وحی کے ذریعہ ملنے والی روشنی سے نوع انسانی کو راستہ دکھایا ۔اس دنیا میں تہذیب و تمدن کا جو بھی ارتقا ہوا ہے، علوم وفنون میں جو بھی ترقی ہوئی، ان سب کی بنیا د اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبران کرام علیہم السلام نے رکھی ہے۔ گویا پیغمبران کرام علیہم السلام ہمہِاقسام علوم کا منبع یا Originاور تہذیب و تمدن کے اولین معمار ہیں۔
زمین پر انسانی ذہن کے ارتقاء کے مراحل اور درجوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں چار نہایت واضح اور بنیاد ی مراحل نظر آتے ہیں۔ ارتقاء کا پہلا مرحلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے، اسے ہم حیرتوں کا دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ ارتقاء کا دوسرا مرحلہ حضرت نوح علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے، اسے ہم آگہی کا پہلا دور کہہ سکتے ہیں۔ ارتقاء کے تیسرے مرحلہ کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے، اس دور کے آغاز کو ہم تجسّس و ادراک اور بعد ازاں یقین کے دور سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
انسان کے شعوری ارتقاء کا اگلا مرحلہ یا چوتھا دور حضرت محمد ﷺ سے شروع ہوتا ہے، جسے تجسس و ادراک سے بڑھ کر دریافت و انکشافات کا دور بھی کہا جاسکتا ہے۔ پہلے کے تینوں ادوار میں سے ہر ایک ہزاروں سال پر مشتمل تھا لیکن ہر دور اگلے دور سے منسلک یا پیوستہ تھا، یعنی ایک مرحلہ (Phase) کی تکمیل پر دوسرا مرحلہ (Phase) شروع ہوتا تھا۔ تاہم ارتقاء کے چوتھے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے بعد ارتقاء کے درجے تو ہیں لیکن کوئی اگلا دور یا پانچواں دور نہیں ہے۔ یہ دور ذہنیِارتقاء کے لحاظ سے کامل عروج کا دور ہے اس کے بعد اگر کچھ ہے تو صرف قیامت ہے۔
اللہتعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو پوری نوعِ انسانی کے لئے قیامت تک کے لئے ہدایت ورہنمائی کا ذریعہ بنادیا ہے۔ آپﷺ پر اللہ کی آخری کتاب قرآن کا نزول ہوا۔ قرآن پاک نوع انسانی کے لئے ہدایت ورہنمائی ہے۔ اس میں اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے طریقے بھی تعلیم کئے گئے ہیں۔ حقوق اللہاور حقوقِالعبادکے حوالہ سے بھی جامع رہنمائی کی گئی ہے۔ ساتھ ساتھ علم حاصل کرنے اور اس کائنات میں غوروفکر کرتے ہوئے دریافتوں اور انکشافات کی طرف بھی انسان کو اُبھارا گیا ہے۔ اس کتاب میں باربار غور وفکر کی تلقین وتاکید کی گئی ہے۔
مادّی علوم یعنی فزکس یا سائنس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو، اللہکی منصوبہ سازی کو سمجھنے کی کوشش کررہاہے۔ جبکہ میٹافزکس یعنی روحانی علوم کے ذریعہ بھی انسان اللہ کی مرضی و مشیّت کو سمجھنے اور اس کی قربت کے حصول کی کوشش کررہاہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک مقام پر سائنس اور روحانیت ایک ہی مقصد کے علمبردار نظر آتے ہیںجبکہ اگلے مقام پر سائنس اور روحانیت میں یہ فرق واضح ہوجاتاہے کہ مادی علوم کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو سمجھنا چاہتاہے اور روحانیت کے ذریعہ انسان اللہ کے ارادہ کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ تعلق کے قیام کی کوشش کرتاہے۔
یہاں ایک اہم سوال سامنے آتاہے کہ طبعی علوم یعنی فزکس کے حوالہ سے قرآن کی تاکید کا عقیدہ اور عبادات سے بھی کوئی تعلق ہے۔
قران پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
ترجمہ:’’ہم نے انسانوں اورجنات کو اپنی عبادت کے لئے تخلیق کیا‘‘۔ (سورہ الذّٰریات :آیت56)
تخلیقِ آدم کے مراحل بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتاہے۔
وعلم آدم الاسماء کلھا.
ہم نے آدم کو تمام اشیاء کے علوم سکھادیئے۔
اب اس علم کا استعمال یا اس کی Utilityکس طرح ہوگی؟۔۔۔۔۔اس علم کا ایک استعمال تویہ ہے کہ انسان اس زمین پر زندگی گذارتے ہوئے مظاہرفطرت میں تفکر کرے۔ قوانینِِفطرت کو سمجھے اور اشیاء میں تصرف وتبدیلی کے ذریعہ انسانوں اور دوسری مخلوقات کیلئے آسانیاں حاصل کرے۔ انسانی معاشرہ کو صحیح ڈھب پر چلائے، زمین پر عدل وانصاف قائم کیاجائے۔ دوسروں کے حقوق کا بہترین طریقہ پر تحفظ کیا جائے۔ اس علم کا ایک استعمال یہ ہے کہ علم وٹیکنالوجی کے فروغ کے باعث ہونے والے ذہنی ارتقا ء کی وجہ سے اﷲِوحدہٗ لاشریک پر ایمان میں مزید پختگی حاصل ہو۔ طبعی قوانین سے آگہی کے ذریعہ بھی انسان یہ سمجھ سکے کہ اس کائنات کا بنانے والا، اسے قائم رکھنے والا، اسے نظم وضبط کے ساتھ چلانے والا ایک خالق ہے جو تنہا اس کا مالک ہے اور وہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیﷺ اور اللہ کی آخری کتاب قرآن نے گذشتہ تمام انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کی اور انسان کواللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے اور اللہ کی بتائی ہوئی کائنات میں تفکر کی تاکید کی ہے چنانچہ ہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ دین اسلام اور جدید عصری علوم میں کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ اسلام تو خو د اپنے پیروکاروں اور تمام انسانوں کو سائنسی علوم کی تحصیل اور صنعت وحرفت کی ترقی کی طرف اُبھارتا ہے۔ سائنسی اشیاء کی ساخت اوراُن کی خصوصیات یا صفات کے علم کانام ہے۔جبکہ صنعت یاٹیکنالوجی ان معلومات کو برتتے ہوئے ان اشیاء سے عملی استفادہ کو کہا جاتاہے ۔باالفاظ دیگر اشیاء کے خواص سے فائدہ اٹھانے کا نام صنعت یا ٹیکنالوجی ہے۔
اشیاء سے استفادہ کے دودرجے قرار پاتے ہیں۔پہلا درجہ اشیاء کی پہچان اوردوسرا درجہ اشیاء کے فوائد سے استفادہ اور ان کی مضرتوں سے بچاؤ کا ہے۔ جہاں تک پہلے درجہ کا تعلق ہے۔ اسلام نوع انسانی کو اس پر اُبھارتا ہے کہ وہ کائنات سے متعلق ہر چیز کا تفصیلی علم حاصل کرے۔ قرآن مجید کی کئی آیات ا س سلسلے میں دلالت کرتی ہیں مثلاً سورۂ آلِ عمران میں ہے کہ ۔۔۔۔۔
ترجمہ:’’یقینا زمین اور آسمانون کی تخلیق اور رات دن کے ہیر پھیر میں پختہ عقل والوں کے لئے نشانیاں موجود ہیں‘‘۔(سورۂ آلِ عمران: آیت 190)
ترجمہ:’’کیا ان لوگوں نے زمین اور آسمانوں کی بادشاہت اور اللہ کی پیداکردہ چیزوں میں غور نہیں کیا؟‘‘۔۔۔۔۔ (سورۂ اعراف: آیت 185)
اب رہا دوسرا درجہ یعنی اشیاء سے عملی استفادے کا ، تو ا س ضمن میں بھی کئیآیات قرآنی کے ذریعہ نوعِانسانی کو ابھار اگیا ہے۔ مثلاً۔۔۔۔۔
ترجمہ:’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے اللہ نے وہ سب کا سب تمہارے لئے مسخر کردیا اور تم پر اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں کامل کردیں‘‘۔ (سورۂ لقمان: آیت 20)
قرآن پاک کی یہ آیت نوع انسانی کے لئے اللہ کی انمول اور بے بہا نعمتوں کا ایک عظیم الشان اعلان ہے۔ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کو آگاہ فرمارہے ہیں کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ،جزوی طورپر نہیں بلکہ سب کا سب انسانوں کے لئے مسخر کر دیا گیاہے۔ قرآن کریم انسان کو بتارہا ہے کہ اس کا دائرہ تحقیق اور دائرہ عمل محض زمین کی بالائی اور ظاہری سطح تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اجازت دیدی ہے کہ و ہ زمین اور آسمانوں میں جہاں چاہے تحقیق کرے اللہ کی دی ہوئی بصیرت کے ذریعہ اپنی تحقیق کے نتائج حاصل کر ے اور ان نتائج کے مطابق زمین وآسمانوں میں اشیاء کو اپنے تصرف میں لے آئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرے۔
خاص طورپر توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ نے اپنی نعمتوں کا ہی ذکر نہیں کیا بلکہ خاص طورپر ارشاد فرمایا کہ تم پر اپنی ظاہری وباطنی نعمتوں کی تکمیل کردی ہے۔ ان ظاہری وباطنی نعمتوں سے آگاہی حاصل کرنا بھی انسان کے لئے ضروری ہے اور اس طرح یہاں ہر انسان کو حصول علم وعرفان کا مکلف بنایا جارہاہے۔