انسان کو عطا کردہ تین چپس CHIPS

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


انسان کو عطا کردہ تین چپس CHIPS

مادی علوم کی CHIPکے ذریعہ انسان نے سائنس وٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی کی۔ جمالیاتی CHIPکے ذریعہ انسان کی شخصیت کو نکھار اور انسانی معاشروں کو توازن وہم آہنگی جیسی خوبیاں مسیر آتی ہیں۔ روحانی علوم کی تفہیم یعنی اس تیسری CHIPکے ذریعہ انسان کی روحانی نظر بیدار ومتحرک ہوتی ہے۔


اس دنیا میں پیدا ہونے والی ہرمخلوق اپنی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہے۔ قدرت اس کام میں ہر مخلوق کی فراخدلی سے مدد کررہی ہے۔ اس زمین پر ہر مخلوق کی عمومی ضروریات  میں آکسیجن  اورخوراک سرفہرست ہیں۔ ان کے بعددوسرے تقاضے اورضروریات ہیں۔ انسان  کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہوا، پانی اور خوراک انسان کی لازمی ضروریات ہیں۔ ہوا کے بغیر چند منٹ، پانی کے بغیر چند دن اور خوارک کے بغیر، انسان،   چند ہفتو ں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔
ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ اﷲ کی بنائی ہوئی کائنات کے تمام ارکان اپنے انفرادی وجود سے، اپنی نوع سے اور دوسری مخلوقات  سے واقف ہیں۔ کبوتر خودکو پہچانتا ہے۔  نر کبوتر کو اس بات کا علم ہے کہ اس کی رفیق مادہ کبوتر ہے۔ یہ دونوں اس بات سے واقف ہیں کہ ہماری غذا کیاہے، ہمیں پیاس لگے تو پانی پینا ہے۔ نر کبوتر اور مادہ کبوتر صنف مخالف کی کشش کے اثرات سے واقف ہیں۔ نر کبوتر اور مادہ کبوتر کو معلوم ہے کہ اُن کی نسل کیسے چلے گی۔ وہ جانتے ہیں کہ اپنی نومولود اولاد کو غذا کس طرح کھلائی جاتی ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ ایک نوع کی مخلوق کافی حد تک دوسری نوع کی مخلوق کوبھی پہچانتی ہے۔ کبوتر جانتاہے کہ بلی کون ہے اوراسے بلی سے اپنا بچاؤ کس طرح کرناہے۔درخت اپنے ہم جنس درخت کو پہچانتاہے۔ پہاڑ خود کو اوردوسرے پہاڑوں کو پہچانتا ہے۔زمین اپنے آپ سے اورخود پر آباد تمام مخلوقات سے واقف ہے۔ چاند کو معلوم ہے کہ میں چاند ہوں۔ چاند کو زمین اوردوسرے سیاروں سے بھی واقفیت ہے۔ ایک نظام شمسی خود کو اور دوسرے نظام ہائے شمسی کو پہچانتاہے۔کائنات کے تمام ارکان خود سے اوردوسرے ارکان سے واقف ہیں۔
کائنات کاہر رکن اپنی مادی ضروریات کو سمجھتا ہے اوران ضروریات کی تکمیل کے طریقوں سے بھی واقف ہے۔
دوسری تمام مخلوقات کی نسبت انسان کی ضروریات بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ ضروریات کا تعلق زندگی کی بقا اورنشونما سے ہے جبکہ بہت سی ضروریات ایسی ہیں جن کے پورانہ ہونے سے آدمی کی مادی زندگی کو توکوئی خطرہ نہیں ہوگا البتہ ان ضروریات کے پورا  نہ ہونے سے انسان بہت کچھ پانے سے محروم رہ جائے گا۔ اس کی شخصیت نامکمل یا ادھوری رہ جائے گی۔آئیے !ان ضروریات پر بات کرتے ہیں۔
انسان کو اﷲ تعالیٰ نے خاص صلاحیتیں اوراوصاف عطافرمائے ہیں۔
انسان کی سب سے بڑی خصوصیت اورفضلیت یہ ہے کہ اسے علم الاسماء عطاکیاگیاہے۔  انسان کی ایک ‘‘خوبی ’’یہ ہے کہ خالقِ کائنات، اﷲ کی چاہت اور اﷲ سے قربت کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے۔یہاں یہ امر ذہن میں رہے کہ اﷲ کی محبت صرف انسان کا خاصہ نہیں ہے، دیگر مخلوقات بھی اﷲ کی محبت سے سرشار اپنے اپنے طورپر اس کی حمد وثناء میں مصروف ہیں تاہم یہ انسان ہی ہے جسے اﷲ نے اپنی معرفت کی اہلیت سب سے زیادہ عطا کی ہے۔
حقیقت کو پالینے کے لیے انسان کواﷲ کی نشانیوں کافہم عطاکیا گیا۔علم کی پیاس،علم کی طلب انسان کے اندر موجود ہے۔ یہِ انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔اس نکتہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ یا جو قومیں علم کے حصول سے غفلت برتتی ہیں وہ اپنے فطری تقاضوں کو کچل رہی ہوتی ہیں۔
اس زمین پر انسان کے لیے علم بنیاد ی طورپر  ‘‘تین ’’ ہیں۔ یہ  تین  علم انسان کو اس کے تین مختلف تقاضوں کی تکمیل کے لیے آگہی اور ادراک عطاکرتے ہیں،راستے اورطریقے فراہم کرتے ہیں۔
ان میں سے ہر علم کو موجودہ دور کی اصطلاح میں ہم  ایک CHIPبھی کہہ سکتے ہیں۔ اس  طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر انسان کو قدرت کی جانب سے تین CHIPSعطاکی گئی ہیں۔ان میں سے ایک علم یا CHIPکا تعلق انسان کے مادی  تقاضوں  یا مادی ضروریات سے ہے۔اسے ہم روٹی روزی ،رہن سہن اوربقائے نسل کاعلم کہہ سکتے ہیں۔ تمام مادی اور طبعی علوم اس CHIPمیں شامل ہیں ۔ مادی علوم کی یہ CHIPکچھ فرق  کے ساتھ زمین پر بسنے والی ہر مخلوق کوعطاکی گئی ہے۔ اس  CHIPسے ملنے والی آگہی کے تحت اس زمین پربسنے والی دوسری تمام مخلوقات اپنی مادی ضروریات سے واقف ہیں اورانہیں پورا کرنے کے طریقے جانتی ہیں البتہ انسان مادی علم میں دوسری تمام مخلوقات سے کہیں زیادہ برترہے۔
مثال کے طورپر انسانی آنکھ روشنی میں ایک خاص حد تک دیکھ سکتی ہے ۔ انسان  اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتا ۔انسانی کان  20ہرٹز سے نیچے یا 20ہزار ہرٹز سے اوپر کی آوازیں نہیں سن سکتے جبکہ بہت سے جانور اندھیرے میں دیکھ سکتے ہیں اورکئی جانور یا بعض پرندوں کی حد نظرVisibilityانسانوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کئی جانوروں کی حسِ سماعت انسانوں سے بہت بہتر ہوتی ہے، اسی طرح کئی جانوروں کی سونگھنے کی حس انسانوں سے بہت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔
کئی دوسرے حیوانات کے مقابلے میں انسان کی محدود حد ِنظر، محدود حسِ سماعت یا سونگھنے کی محدود حس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کادائرہ عمل محدود ہوگیا۔انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کے ذریعہ قدرت کی مختلف تخلیقات میں تصرف کرکے انہیں اپنے کام میں لاسکتاہے۔ مثال کے طورپر  انسان نے اندھیرے میں بھی دیکھنے کی ضرورت محسوس کی تو اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو کام میں لاکرمختلف ذرائع سے روشنی حاصل کرلی ۔اس کی مثالیں چراغ،دیا،لالٹین کے بعد الیکٹرسٹی سے حاصل کردہ روشنی اور انفراریڈ  شعاعوں  سے حاصل کردہ Visionہے۔
مادی علوم کے تحت انسان کو عناصر میں تصرف کی اہلیت بھی دی گئی ہے۔ پانی یا دیگر ذرائع سے بجلی کا حصول اس تصرف کی نمایاں مثال ہے۔ ریڈیو ،ٹیلی ویژن ، انٹر نیٹ وغیرہ بھی اس تصرف کی وجہ سے ظہور میں آئے۔
سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں انسان کی پیش رفت مادی علوم کی وسعتیں ہیں، ایک خاص CHIPکی ایکٹیویشن ہے۔
دوسری مخلوقات کے برخلاف انسان صرف مادی تقاضوں کی حامل مخلوق نہیں ہے۔انسان کو قدرت کی جانب سے جمالیاتی تقاضے بھی عطاکیے گئے ہیں۔ ان جمالیاتی تقاضوں کے تحت ہرانسان میں ایک جمالیاتی حس موجود ہے۔یہ جمالیاتی حس ہی ہے جس کی وجہ سے انسان مختلف رنگوں کو باہم ملاکر ایک خوش نمامنظر تخلیق کرتاہے، مختلف الفاظ کو خاص ترکیب سے ترتیب دے کر نظم ونثر کی صورت میں ادب کے اعلیٰ شاہکار وجود میں لاتاہے۔انسان کی جمالیاتی حس کی وجہ سے ہی موسیقی کی دلکش اوروجد آفرین دھنیں ترتیب پاتی ہیں۔انسانی معاشروں میں ثقافت کی رنگارنگی دراصل انسان کی جمالیاتی حِس کی وجہ سے ہی ہے۔جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل بھی انسان کی ضروریات میں شامل ہے تاہم ان تقاضوں کا تعلق انسان کی بقاء سے نہیں ہے۔اس بات کا مطلب یہ ہے کہ جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل ہوا، پانی،روشنی کی طرح انسانی وجود کے لیے ناگزیر نہیں ہے۔جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل نہ ہو نے پر کوئی شخص مرنہیں جائے گا لیکن انسان کے باطنی وجود کو سمجھنے اورانسانی سوچ و فکرکے ارتقا ء کے لیے اعلیٰ جمالیاتی حِس کی بھی ضرورت ہے۔ادب کی مختلف اصناف نثر،شعرونغمہ، موسیقی ،مصوری ،آرٹ کی کوئی بھی شکل ،،گلیوں سڑکوں اورعمارتوں کی تعمیر میں ترتیب ورنگ آمیزی ،اندرونی وبیرونی ڈیزائننگ ،مختلف اقسام کے دلفریب ملبوسات ،سامان آرائش و زیبائش ،زیورات وغیرہ یہ سب انسان کے جمالیاتی ذوق کی نشاندہی کرتے ہیں۔انسان کے جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل اس کی شخصیت میں نکھار ،سلجھاؤ اورٹھہراؤ کا سبب بنتی ہے۔ یہ کہنا  غلط نہ ہوگا کہ کئی سماجی ادب آداب (Manners & Etiquettes)بھی دراصل انسان کے جمالیاتی ذوق کے باعث وجود میں آئے۔صاف ہوا،متوازن خوارک اورمناسب ورزش ،جسم کی صحت کے لیے ضروری ہیں اسی طرح ذہن کی صحت اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے ادب یاآرٹ کی کسی بھی شکل کے ذریعہ تخلیقی عمل سے کسی نہ کسی طرح کی وابستگی بھی ضروری ہے۔
جمالیاتی تقاضوںکی تکمیل کی اہلیت فراہم کرنے کے لیے انسان کو ایک دوسری CHIPعطاکی گئی ہے۔ 
انسان بنیادی طورپردوشعورسے مرکب ہے، ایک شعور دوسرا لاشعور (شعور اورلاشعور کی مزید قسمیں بھی ہیں) مادی یا طبعی علوم کا تعلق انسان کے شعور سے ہے ۔جمالیاتی تقاضوں اوران سے وابستہ علوم وفنون کا یااس دوسری CHIPکا تعلق کچھ تو شعور سے ہے اورکچھ لاشعور سے ہے یعنی یہ CHIPشعور کی دوکیفیات کی حامل ہے۔ فنون لطیفہ کی تخلیق میں فنکار پر شعوری کیفیات کا غلبہ ہو تو انسان کی مادی کیفیات کے حوالے سے تخلیقات سامنے آتی ہیں۔ صنف مخالف کی کشش بھی ایک مادّی جذبہ ہے۔ جنگ وجدل، معرکہ آرائی،حقوق طلبی وغیرہ بھی مادّی معاملات ہیں۔شاعری یا افسانے ،جن میں صنف مخالف کی خوبصورتی ، اس سے وصل کی خواہش یا اس حوالے سے دیگر جذبات کا اظہارہو یہ سب مادّی اور شعوری کیفیات ہیں۔ رزمیہ نغمے اورترانے بھی مادّی اورشعوری کیفیات کے زیر اثر تخلیق پاتے ہیں۔ صنف مخالف کی کشش کے باعث اُبھرنے والا جذبہ چاہے اُسے محبت کہہ لیا جائے یا اُس جذبے کا کوئی اورنام رکھ لیا جائے، مادّی جذبہ ہے۔ان سب کا تعلق مادّی یا شعوری حواس یا پہلی CHIPسے ہے مگر ....عشق ....عشق کی بنیاد مادّی جذبات پر نہیں ہے۔
فنون لطیفہ کی تخلیق میں کسی فنکار پر ،شاعرپر، صوفی پر، لاشعوری کیفیات غالب ہوں توایسی تخلیقات وجود میں آتی ہیں جو عام انسانی سطح سے بہت بلند ہوتی ہیں۔ایسی بعض تخلیقات کو الہامی بیان یا الہامی شاعری جیسے خطابات بھی دیے گئے۔اس ضمن میں مولانا جلال الدین رومیؒ،بابا فریدؒ، سلطان باہوؒ،شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ، بابا بلھے شاہؒ، رحمن باباؒ ، بابا تاج الدین ناگپوریؒ،رومیؒ کے مرید ِہندی  اقبال ؒ اور  قلندر بابا اولیاء ؒکے صوفیانہ کلام کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
مادی علوم کیCHIPاور جمالیات  وفنون لطیفہ کی CHIPکے علاوہ انسان کو ایک اور بہت خاص اہلیت عطا کی گئی ہے۔ یہ روحانی یا باطنی علوم کو سمجھنے کی استعداد اورباطنی طورپر تصرف کی صلاحیت ہے۔ اسے ہم تیسری  CHIPکہہ سکتے ہیں۔یہ تیسری  CHIPلاشعوری یا روحانی علوم پر مشتمل ہے۔سچے خواب،چھٹی حس،کشف ،الہام وغیرہ کا تعلق انسان کے لاشعور ی حواس یا اس تیسری  CHIP سے ہے۔اگر ہم لاشعوری حواس یا روحانی علوم کی اسCHIPکے مختلف فنکشن کو سمجھ لیں،اس CHIPکو روبہ عمل لانا (Activateکرنا)سیکھ لیں تو ہم اس کائنات کے کئی اسرار ورموز سے واقف ہوسکتے ہیں۔ اس CHIP کے فنکشن سمجھ میں آنے لگیں توانسان یہ جاننے لگتا ہے کہ عشق کیا ہے۔ عشق کی بنیاد مادی جذبات اورذاتی اغراض پر نہیں ہے ۔عشق کا تعلق انسان کے باطن سے ہے، عشق انسان کی اصل یعنی اس کی روح سے ایک چشمہ کی طرح پھوٹ کر صحرا میں آب رواں بن جاتاہے۔
سمعیہؓ و بلالؓ، اویس قرنی   ؒ،حسینؓ،حسن بصریؒ ، جعفر صادق   ؒ،رابعہ بصریؒ ،بایزید ؒ، جنیدؒ،رومیؒ ،معین الدین اجمیریؒ، امیرخسروؒ، شاہ لطیفؒ اوربے شمار صحابہ  و  اولیاء    .... یہ سب عشق کے استعارے ہیں..؎

عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
 عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رسولؐ، عشق خدا کا کلام


عشق کو سمجھنا ہو توانسان کواپنے باطنی وجود یعنی روح کو سمجھنا ہوگا۔روح کو سمجھنے کے لیے لاشعوری کیفیات کو سمجھنا یعنی اس  تیسری CHIPکے مختلف فنکشن کو سمجھنا ور ان سے کام لینا سیکھنے کی ضرورت ہے۔روحا نی علوم کے ذریعہ یا لاشعور کی اس CHIP کے ذریعہ انسان لاشعور کی زبان سمجھ سکتاہے۔اگر کسی شخص کو لاشعور کی یہ زبان سمجھ میں آنے لگے تو وہ اپنے وجود کی حقیقت کو، اس دنیا کو ،اس کائنات کو بہتر طورپر سمجھنے اور عرفان الٰہی کی راہوں پر چلنے کے قابل ہو سکتاہے۔
مادی علوم کی CHIPکے ذریعہ انسان نے سائنس وٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی کی۔ جمالیاتی CHIPکے ذریعہ انسان کی شخصیت کو نکھار اور انسانی معاشروں کو توازن وہم آہنگی جیسی خوبیاں مسیر آتی ہیں۔ روحانی علوم کی تفہیم یعنی اس تیسری CHIPکے ذریعہ انسان کی روحانی نظر بیدار ومتحرک ہوتی ہے۔اﷲ وحدہٗ لاشریک پر ایمان کی پختگی ،نیت کے اخلاص ، دوسروں کے ساتھ خیر خواہی ،خود احتسابی جیسی صفات پروان چڑھتی ہیں۔
روحا نی علوم کے فروغ کے ذریعہ انسانی معاشروں میں اخوت وبھائی چارہ، احترام آدمیت، عفو ودرگزر، رشک وتحسین، اﷲ کی شکر گزاری ،اﷲ کی محبت، حضرت محمدﷺکا عشق اورآپ ﷺکی اطاعت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔
حضرت محمدؐ کے وارث اولیاء اﷲ اپنی روحانی اولاد ،اپنے شاگردوں ،دوستوں اورمریدوں کی تربیت اس نہج پر فرماتے ہیں کہ سالک کادل اﷲ کی محبت سے لبریز ہوجائے ۔موجودہ دور کے تقاضوں اورآج کے انسان کی ذہنی سطح کے پیش نظر سلسلۂ عظیمیہ کے امام حضور قلندر بابا اولیاء اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے تربیتی نصاب اس طرح ترتیب فرمایا ہے کہ انسان مادی تقاضوں اورجمالیاتی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنے روحانی تقاضوں کو بھی ٹھیک طرح سمجھ کرانکی بہتر طورپر تکمیل کے قابل ہوسکے۔انسان کی زندگی کا اصل کا مقصد تواپنے خالق،اپنے مالک اﷲ وحدہٗ لاشریک کا عرفان پانا اوراﷲ کی سچی اورخالص بندگی کرنا ہے۔ 

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَoالرَّحْمَنِ الرَّحِيمِoمَالِكِ يَوْمِ الدِّينِoإِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ




[از : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ، اپریل 2012ء ]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے