خود فریبی…؟

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


پاکستان کے عوام وخواص میں کئی عجیب اور بعض حیران کن طرز فکروطرز عمل کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہمارے وطن کو قدرت نے بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن اکثر لوگ ان نعمتوں پر اللہ کے شکر گزار نہیں بنتے۔ جن لوگوں کے پاس مال و زر کے انباراور بڑی بڑی پوزیشنز ہیں، ان میں سے اکثر پاکستان کی برائیاں کرتے اور ملک کے مستقبل کے بارے میں کنفیوژن پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ اس ملک کے غریب اور محروم لوگ پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے اللہ سے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
حلال و حرام کی پروا کیے بغیر جن لوگوں نے پاکستان سے کروڑوں اربوں کمائے اور وہ یہاں آرام سے زندگی بسرکرتے ہیں ان میں سے اکثر لوگ پاکستان سے کمائی گئی دولت کا بڑا حصہ جائز یا ناجائز طریقوں سے پاکستان سے باہر منتقل کردیتے ہیں۔ دوسری طرف بیرونی ممالک میں انتہائی سخت حالات میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کش اپنی کمائی کا بڑا حصہ پاکستان بھیجتے ہیں۔
ذرا غورکیجیے…! امیر طبقات کی جانب سے پاکستان سے کمائے گئے کھربوں روپے باہر بھیج دینے سے ملک کی معیشت کمزور ہورہی ہے، لیکن… پاکستان سے باہر سخت حالات میں رہنے والے غریب اور مڈل کلاس پاکستانیوں کی اپنے وطن بھیجی جانے والی رقوم سے پاکستان کی معیشت کو سہارا مل رہا ہے۔ یادد رہے کہ گزشتہ مالی سال  بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے (جن میں اکثریت محنت کش مزدوروں کی ہے) سترہ ارب ڈالر سے زائد رقم پاکستان بھیجی۔وطن کی اس خدمت پر قوم کے محنت کشوں اور عام آدمیوں کو سلام۔
ہماری ایک خاصیت اپنا حق سمجھتے ہوئے دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک ہمیں امداد دیتے رہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ مختلف عالمی تنازعات میں ہم نے امریکا کا ساتھ دیا ہے اس لیے امریکا پر لازم ہے کہ وہ ہمیں خصوصی دوست کا درجہ دے، ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ مذہبی تعلق کی وجہ سے امیر مسلمان ممالک کو پاکستانیوں کے لیے مراعات کے دروازے کھول دینے چاہیئیں۔ ہم اس سیدھی سادی حقیقت پر توجہ نہیں دیتے کہ بین الاقوامی تعلقات کا قیام اور فروغ لسانی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ باہمی مفادات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ڈپلومیٹک تعلقات میں مفادات کے تحت گرم جوشی، سرد مہری آتی رہتی ہے۔ پچھلی چار پانچ دہائیوں میں ہونے والے کئی واقعات قوموں کے درمیان تعلقات کی مختلف جہتوں کو واضح کرتے ہیں۔
امریکا اورچین ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے۔ کئی عالمی فورمز اوراقوام متحدہ میں امریکا چین کے لیے ایک بڑی رکاوٹ تھا۔ پاکستان کے ذریعے امریکا اور چین کے رابطوں کا آغاز ہوا۔ ایک دوسرے کے مخالف دونوں ممالک نے باہمی مفادات کی بنیاد پر کئی نکات پر اتفاق کیا۔ اکتوبر 1971ء میں عوامی جمہوریہ چین کے نمایندوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں پہلی بار شرکت کی۔ چین کی آزادی  کے بتیس سال بعد جنوری 1979ء میں امریکا اور چین کے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی ریاست سوویت یونین اور 1949ء میں آزاد ہونے والا چین دونوں ہی کمیونزم کے علمبردار اور سرمایہ دار نظام کے سخت خلاف تھے لیکن 1963ء  میں دونوں کمیونسٹ ممالک کے تعلقات میں دراڑیں پڑنے لگیں اور یہ ایک دوسرے سے بہت دُور ہوگئے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد 2001ء میں چین اور روس میں ایک بار پھر گہرے تعلقات قائم ہوئے اور ماضی کے مخالف یہ دو ممالک اچھی ہمسائیگی اور دوستانہ تعاون کے ایک معاہدے میں بندھ گئے۔
اقوام عالم میں ایک نمایاں مقام پانے کے لیے چینی عوام اور حکومت نے سخت محنت کی ہے۔ چینی قوم غیروں کی امداد اور قرضوں کی طلبگار نہیں بنی۔ چین اپنی معیشت اور دفاع کو مضبوط تر بنانے کے لیے حقیقت پسندانہ پالیسیاں بنا کر مشکل ترین اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا گیا۔ ہماری ایک خامی یہ ہے کہ ہم گوروں سے اور انگلش زبان سے بہت مرعوب ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انگلش بولنا ہی علم و فضل کی نشانی اور دنیا میں ترقی کا ذریعہ ہے۔
آپ مشرق میں چین، کوریا جاپان چلے جائیں۔ وہاں آپ کو سرکاری دفتروں میں، تعلیمی اداروں میں،  اسپتالوں میں ہر جگہ ان کی اپنی مادری زبان میں کام ہوتا نظر آئے گا۔ مغرب میں اٹلی، اسپین، فرانس، ہالینڈ جرمنی، سوئٹزرلینڈ یا کسی بھی دوسرے یورپی ممالک میں چلے جائیں ہر جگہ کاروبار مملکت، تعلیم اور معاشرتی امور ان کی اپنی ہی زبانوں میں سرانجام پاتے ہیں۔ برادر اسلامی ملک ترکی میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک میڈیکل، انجینئرنگ، قانون، بزنس اور دیگر تمام شعبوں میں اعلیٰ تعلیم ترکی زبان میں دی جاتی ہے۔ اسلامی ممالک میں ترکی واحد ملک ہے جو یورپ اور امریکا کے ساتھ پورے اعتماد کے ساتھ بات کرتا ہے۔ انگلش زبان نہ جاننا ترکوں کے لیے کسی کم مائیگی کا سبب کہیں نہیں بنا۔ صنعتی ترقی، اندرون ملک بہترین انفرا اسٹرکچر، سیاحت اور دیگر شعبوں کی وجہ سے ترکی کا شمار آج دنیا کی مستحکم معیشتوں میں ہوتا ہے۔
میرے پاس پاکستان کے مختلف شہروں ، قصبوں اور گاؤں سے خطوط آتے ہیں۔ کئی کرم فرما اپنے ہاں ہونے والی شادی بیاہ کی تقریبات کے دعوت نامے بھی بھیجتے ہیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، فیصل آباد، ملتان، حیدرآباد جیسے بڑے شہروں کے علاوہ پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان، آزاد کشمیر کے بڑے شہروں اور قصبات سے ملنے والے تقریبات کے دعوت نامے ذیادہ تر انگریزی زبان میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ دعوت نامے ملنے پر دلہا  دلہن کے لیے دعاؤں اور داعیان کے لیے اظہار تشکر کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ جہاں اکثر لوگ قومی زبان اردو یا اپنی مادری زبان بھی ٹھیک طرح پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے وہاں اپنے گھر میں ہونے والی خالصتاً مشرقی تقریبات کے لیے ہم انگریزی کا سہارا لینا ضروری کیوں سمجھتے ہیں…؟
دنیا میں ہر ترقی یافتہ قوم نے اپنی نئی نسل کی تعلیم کا اہتمام اپنی قومی اور مادری زبان میں ہی کیا ہے۔ ہمارے ملک میں شرح خواندگی تشویشناک حد تک کم ہے۔ پاکستان کو ترقی دینی ہے، اسے معاشی لحاظ سے مضبوط ملک بنانا ہے، اپنے شاندار ورثے کی حفاظت کرنی ہے اور اس ورثے کی بنیار پر اپنی شناخت بنانی ہے تو ہمیں اپنی قومی زبان اردو اور اس خطے کی دیگر زبانوں یعنی پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، ہندکو، بلوچی، براہوی، کشمیری  اور بلتی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانا ہوگا۔
جب ترکی میں پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی سطح تک کی تعلیم ترکی زبان میں ہوسکتی ہے تو پاکستان میں بنیادی اور اعلیٰ تعلیم اردو اور دیگر علاقائی زبانوں میں کیوں نہیں دی جاسکتی۔ رہا انگلش سیکھنے کا معاملہ تو جو طالب علم چاہیں وہ اسکول کے بعد ایک یا دو سال کے کورسز کے ذریعے انگلش سیکھ لیں۔ ہم جرمنی، فرانس، چین یا کوریا وغیرہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے فرنچ، جرمن، چینی یا کوریائی زبان بھی تو سیکھ ہی لیتے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ بارشیں نہ ہوں تو ہم بارش کے لیے دُعائیں مانگتے ہیں ۔ بارشیں زیادہ ہوجائیں تو  ہماری فصلیں اورآبادیاں زیرِ آب آجاتی ہیں۔ ہم خشک سالی میں بھی امداد کے منتظر رہتے ہیں اور سیلاب کے بعد بھی امداد کی اپیلیں کرتے ہیں۔ ہم غیروں (خواہ وہ مغربی ممالک ہوں یا مشرق کے امیر ممالک) سے امداد اور خصوصی سلوک کی توقع رکھتے ہیں لیکن اپنی حالت بہتر بنانے کے لیے خود محنت اورکوششوں سے جی چراتے ہیں۔
ہمارا ایک مسئلہ غریبوں میں اتحاد نہ ہونا ہے۔ لوگوں میں اتحاد عظیم تر قومی مقاصد اور اجتماعی فلاح کے لیے ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں قومی مفادات کو نظر انداز کرکے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے بالائی طبقات میں فوراً اتحاد ہوجاتا ہے لیکن اس ملک کے غریب اور مڈل کلاس خود اپنے مفادات کے لیے متحد نہیں ہوتے۔ ہمارے سیاست دان  اور حکمران  بڑے بڑے  وعدے کرکے  ووٹ  تو غریب اکثریت سے لیتے ہیں لیکن مفادات کی حفاظت زیادہ تر امیر اقلیت کی کرتے ہیں۔ غریب عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے جب تک ہمارے حکمران نیک نیتی، سچائی اور اخلاص کے ساتھ کمربستہ نہ ہوں حالات میں بہتری کی توقع کرنا خود فریبی ہوگی ۔


خود فریبی…؟
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی 
روزنامہ ایکسپریس ۔  19 جولائی 2016ء

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے