ایک محفل میں بات ہورہی تھی مشرق بعید کے ملک جاپان کی۔ جاپان 1945ء میں تباہ ہوا اور پھر اگلے محض دو عشروں میں اْس نے شاندار ترقی کی۔ امریکا کی طرف سے اپنے دو شہروں پر ایٹمی حملوں کی تاب نہ لا کر جاپان امریکا اور اتحادی افواج سے جنگ ہا ر گیا تھا۔ اس کی معیشت اور انفرا اسٹرکچر برباد ہوگیا۔ لیکن ایٹمی حملہ بھی جاپانی قوم کا جذبہ ا ور عزم تباہ نہیں کرسکا۔ تباہ حال قوم دوبارہ اٹھ کھڑی ہوئی اور چند برسوں میں دنیا کی معیشت اور منڈیوں پر چھا گئی۔
جاپان نے یہ حیرت انگیز ترقی کس طرح کی…؟ ہم یعنی پاکستانی بے انتہا وسائل کے باوجود ترقی کیوں نہیں کر پا رہے…؟
بعض ارباب دانش نے اس کا ایک سبب یہ بتایا کہ جاپانی ایک قوم ہیں۔ اٹھانوے فیصد سے زائد جاپانی ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ وہاں مختلف نسلی اور لسانی اکائیاں نہیں ہیں۔ جاپان کے عوام اپنے بادشاہ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن وہاں نظامِ حکومت جمہوری ہے۔ جاپان کے برعکس پاکستان مختلف قومیتوں پر مشتمل ملک ہے۔ پاکستان میں نو بڑی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ آزادی حاصل کیے ستر برس ہونے والے ہیں لیکن ہم ابھی تک ایک قوم نہیں بن پائے۔ ہم پاکستانی ہونے کے ساتھ پنجابی، سندھی، پختون، سرائیکی، ہندکو ان (ہندکواسپیکنگ)، بلوچ، براہوی، اردو اسپیکنگ یا مہاجر اور اس کے بعد دیگر ذات برادریوں کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں آمرانہ حکومتیں بنیں۔ جمہوری حکومتیں اہلیت کی کمی یا کچھ اور غیر مرئی اسباب کی وجہ سے ٹھیک طرح کام نہیں کرسکیں یا جلدی جلدی تبدیل ہوتی رہیں۔
واقعی ہم ترقی نہیں کرسکے لیکن کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مختلف لسانی اکائیوں پر مشتمل ملک ہیں…؟
دیکھئے…! جاپان، چین یا کوریا میں کسی ایک زبان بولنے والوں کی غالب اکثریت ہونا ان ملکوں کی ترقی کا سبب نہیں ہے۔ نہ ہی کثیر لسانی ملک ہونا کسی کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے۔ چین صدیوں سے ایک یک لسانی ملک ہے لیکن انقلاب سے پہلے چین کی معیشت بہت کمزور تھی۔ یک لسانی ملک کوریا نے بھی 1960ء کے بعد ترقی شروع کی۔
جزیرہ نما عرب کے نو ملکوں اور کئی افریقی ملکوں میں ایک ہی زبان، عربی بولی جاتی ہے۔ سعودی عرب، عراق، یمن، متحدہ عرب امارات، عمان، بحرین، قطر، کویت، اردن کے علاوہ شام، لبنان اور فلسطین میں عربی بولی جاتی ہے۔ افریقی ممالک مصر، لیبیا، سوڈان، الجیریا، تیونس، مراکش، موریطانیہ میں بھی عربی ہی بولی جاتی ہے۔ اس پورے خطے میں کئی ملکوں میں رہنے والے کروڑوں افراد ایک ہی زبان بولتے ہیں لیکن اس یک لسانی کے باوجود ان ممالک نے معاشی اور سماجی سطح پر کتنی ترقی کرلی، یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ واضح رہے کہ چند عرب ممالک میں تیل سے حاصل ہونے والی دولت کو معروف معنوں میں اقتصادی ترقی نہیں کہا جاسکتا۔
اب ایک مثال یورپ سے لیتے ہیں۔ سوئیٹزر لینڈ ایک کثیر لسانی ملک ہے۔ یہاں جرمن، فرینچ، اطالوی اور رومانی بولی جاتی ہیں۔یہ زبانیں سوئٹزرلینڈ کی علاقائی زبانیں شمار نہیں ہوتیںبلکہ ان چاروں زبانوں کو وہاں سرکاری زبانوں کا درجہ دیا گیا ہے۔ تقریباً پچاسی لاکھ آبادی کے ساتھ چار لسانی ملک ہونے کے باوجود سوئٹزرلینڈ کی معیشت دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں شامل ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی جی ڈی پی تقریباً 665 ارب ڈالر اور فی کس آمدنی تقریباً 55 ہزار امریکن ڈالر ہے۔ حکومتی خزانے میں فاضل دولت کا یہ حال ہوگیا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے اپنے ہر بالغ شہری کو ہر ماہ ڈھائی ہزار ڈالر (پاکستانی ڈھائی لاکھ روپے سے زائد) بطور وظیفہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
شمالی امریکا کا خوشحال ملک کینیڈا ایک کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک ہے۔ اس ملک میں سرکاری زبانیں دو ہیں انگلش اور فرینچ۔کینیڈا میں حکومت کی طرف سے نو علاقائی زبانوں کو تسلیم شدہ زبانوں کا درجہ دیا گیا۔ کثیر قومیتی، کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی ہونا کینیڈا کی ترقی میں کبھی کوئی رْکاوٹ نہیں بنا۔ چار کروڑ سے کم آبادی والے کثیرالقومیتی ملک کینیڈا میں دس صوبے ہیں۔ کینیڈا کی جی ڈی پی 1,550 ارب امریکن ڈالر اور فی کس آمدنی 43000 ہزار امریکن ڈالر سے زیادہ ہے۔ مغرب میں کثیر قومیتی اور کثیر لسانی ملکوں کی ترقی کی اور بھی کئی مثالیں پیش نظر ہیں۔
اسلامی ملکوں میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں، سیاحت اور دیگر انسانی ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے ترقی کرنے کی بڑی مثالیں صرف دو ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا۔ واضح رہے کہ ترکی یک لسانی لیکن ملائیشیا کثیر الثقافتی اور تین مختلف مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل ملک ہے۔ آبادی میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
پاکستان کے ترقی نہ کرپانے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی استحکام نہیں رہا۔ کبھی آمریت رہی، کبھی جمہوری حکومت اور جمہوری حکومتیں بھی جلدی جلدی تبدیل ہوتی یا تبدیل کی جاتی رہیں۔ ترقی نہ کر پانے کی یہ وجہ بھی ایک حیلہ بہانہ ہی لگتی ہے۔
عوامی جمہوریہ چین میں 1948ء سے ایک پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ اظہار رائے اور پریس پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہے۔ ہمارے ہاں معروف اصطلاح کے مطابق تو چین میں ایک آمرانہ نظامِ حکومت قائم ہے لیکن چین آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردارامریکا اور یورپی ممالک اب چین کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں رہتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا جمہوری ملک کہلانے والا بھارت بھی چین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بے قرار نظر آتا ہے۔
اب آتے ہیں سیاستی استحکام یا عدم استحکام کی طرف… مشرقِ بعید کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک جاپان میں پانچ سال میں پانچ وزرائے اعظم آئے اور چلے گئے۔ وزرائے اعظم کی اس تیز رفتار تبدیلی سے جاپانی معیشت کے استحکام اور ترقی کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک نے مختلف نظام ہائے حکومت اور مختلف حالات میں ترقی کی ہے۔ قوموں کی ترقی کے اسباب میں لیڈر شپ کی اپنی ریاست اور عوام سے کمٹ منٹ، قومی مفاد میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دی جانے والی حقیقت پسندانہ پالیسیاں اور پھر ہر حکومت کی طرف سے ان ہالیسیوںپر مستقل عملدرآمد کرتے رہنا بھی شامل ہے۔
پاکستان کا کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک ہونا ترقی کی راہ میں کوئی رْکاوٹ نہیں ہے بلکہ یہ تنوع تو ہمارے معاشرے کا حسن اور ہمارے لیے نہایت قیمتی اثاثہ ہے۔ شمال تا جنوب سر بفلک پہاڑ، سرسبز میدان، صحرا، دریا، سمندر اور قدرت کی عطا کردہ بیشمار نعمتوں کے ساتھ ساتھ یہاں بسنے والے بہت اچھے، جفاکش، ایثار پسند،ذہین اور مہمان نواز لوگ۔اس سوہنی دھرتی کو اپنے روشن روشن خیالات و نظریات اور مہارتوں سے منور کرنے والے صوفیا، شاعر، دانشور، کھلاڑی، فن کار غرض کون سی ایسی نعمت ہے جو پاکستان میں فراواں نہیں۔
قارئینِ کرام ….! پاکستان اس لیے ترقی نہیں کر پارہا کہ پاکستان کے حکمران، عوام کا مان توڑتے رہے ہیں۔ حکمرانوں نے ، سیاستدانوں نے عوام سے جو مانگا عوام نے انھیں دیا۔ اس طبقے نے عوام سے ووٹ مانگے ، اعتماد مانگا ، قربانیاں مانگیں، عوام نے یہ سب کچھ دیا ، لیکن حکمرانوں نے عوام کو کیا دیا…؟
بیروزگاری، غربت، لاقانونیت، حصولِ انصاف میں شدید ترین مشکلات، تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محرومی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی قلت، ناصاف پانی اور آلودگی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کروڑوں عوام نے اپنے ووٹوں سے چند سو لوگوں پر اعتماد کرکے بدلے میں سہولتیں کم اور اذیتیں اور تکلیفیں زیادہ پائی ہیں۔
ہمارے منتخب نمایندے خواہ وہ حکومت میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں ، ہمارے کئی افسران ، کئی بڑے زمیندار، صنعت کار اور تاجر دولت تو پاکستان سے کماتے ہیں لیکن اکثر لوگ اس دولت کو جمع باہر کے ملکوں میں کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ انسان کا دل وہاں ہوتا ہے جہاں اْس کا مال جمع ہوتا ہے اور انسان کے دل میں اُس جگہ کی قدر بتدریج کم ہونے لگتی ہے جہاں اس کی اولاد نے نہیں رہنا ہوتا۔
میری خواہش اور دعا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط و مستحکم ہو لیکن پاکستان صحیح معنوں میں ترقی اس وقت کرے گا جب پاکستان کے حکمرانوں اور افسران کی پہلی ترجیح پاکستان کی دھرتی اور پاکستانی عوام ہوں گے۔ ہر صوبے، ہر علاقے کو ان کے حقوق پورے احترام کے ساتھ دیے جائیں گے۔ جب مال دار طبقات اپنی دولت پاکستان میں ہی محفوظ سمجھنے لگیں گے اور اپنی اولاد کا مستقبل بھی پاکستان سے ہی وابستہ کردیں گے۔
_________________
ملک فیروز خان نون : پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبہ نہایت اہم ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر پاکستان کا اہم اقتصادی مرکز بنے گا۔ پاکستان میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ شہر گوادر 1784ء تا 1958ء اومان کے پاس تھااور گوادر کی پاکستان کو واپسی کا سہرا پاکستان کے ساتویں وزیرِ اعظم ملک فیروز خان نون کے سر ہے۔ قوم کی نئی نسلوں کو بزرگوں کے کارناموں اور خدمات سے واقف رکھنا بہت ضروری ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری سے گزارش ہے کہ گوادر شہر میں نئی شاہراہوں اور نئے ٹاؤنز کے نام رکھتے ہوئے بانیان پاکستان ، پاکستان اور بلوچستان کی معزز اور محترم ہستیوں کے نام پر سڑکوں اور علاقوں کو موسوم کرتے ہوئے گوادر کی کسی بڑی شاہراہ کا نام فیروز خان نون روڈ اور کسی بڑے علاقے کا نام فیروز خان نون ٹاؤن رکھا جائے۔
جہاں دولت ۔ وہاں دل
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روزنامہ ایکسپریس ۔ 26 جولائی 2016ء