مناقشہ نہیں مکالمہ ہونا چاہیے

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی



پاکستان میں مختلف شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی مردوخواتین کی جانب سے کہیں براہِ راست اورکہیں بالواسطہ مولوی صاحبان کو تنقید یا نکتہ چینی کا ہدف بنایا جاتا رہتا ہے۔یہ تاثردینے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ معاشرے کودرپیش کئی مسائل مولوی صاحبان کی وجہ سے حل نہیں ہو رہے۔کبھی یہ تاثردیا جاتا ہے کہ ملک میں علم کے فروغ اورفنون کی ترقی میں مولوی رُکاوٹ ہیں۔
کیا پاکستان واقعی مولوی صاحبان کی وجہ سے ترقی نہیں کررہا…؟
علم کے فروغ،فنون کی ترقی،معیشت کے استحکام، معاشرے میں تبدیلیوں اور سماجی ارتقاء کو مولوی صاحبان نے روک رکھا ہے…؟
یہ اور بعض دوسرے اہم سوالات پر بات کرتے ہوئے آیے ! ماضیٔ قریب اور بعید کے چند واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
انسانوں کا ہر معاشرہ ہر دور میں رواجی اور تمدنی تبدیلیوں سے گزرتا رہتا ہے۔ یہ تبدیلیاں کہیں محض رسم و رواج میں ردوبدل، کہیں ارتقاء اورکہیں انقلاب کہلاتی ہیں۔
دنیا کے ہر معاشرے کی طرح، پاکستان اور برصغیر کے مختلف معاشرے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کا سامنا کرتے رہے۔ یورپ اورایشیاء کے کئی ملکوں کی طرح  برصغیر میں بھی دو بڑے طبقے سامنے آئے۔ روایت پسند اور جدت پسند۔ روایت پسند (Conservative) کو قدامت پرست بھی کہا گیا اور جدت پسند لوگ ترقی پسند (Progressive) کہلائے۔ ان دو طبقات کو دائیں  بازو (Rightist) اور بائیں  بازو (Leftist) کے نام بھی دیے گئے۔
صدیوں  پہلے یورپ میں بادشاہوں کی آمریتیں قائم تھیں۔ بادشاہوں کو عوام پر حکم چلانے اور رعایا سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے  سپاہیوں کے علاوہ دیگر طبقات کے سہارے بھی درکار تھے۔ پیداواری معیشت زیادہ تر زراعت و باغبانی پر مشتمل تھی۔ اس لیے بادشاہوں کو بڑے بڑے ایسے زمینداروں کی ضرورت تھی جوان کے وفادار اور ٹیکس گزار ہوں۔ اپنی رعایا کی سوچ پر پہرے بٹھانے اور بادشاہ کے جابرانہ اور ظالمانہ احکامات کو حتمی جواز عطا کرنے کے لیے مزید مضبوط سہاروں کی ضرورت مذہبی پیشواؤں کے ذریعے پوری ہوگئی۔ اس طرح یورپ میں بادشاہ، نواب یاجاگیر دار اور مذہبی پیشواؤں کے غیر تحریری معاہدوں پر مشتمل  ایک تین طبقاتی اتحاد وجود میں آگیا۔
بادشاہ کے ہر طرح کے احکامات کواکثر مذہبی پیشوا جائز اورقابلِ تقلید قرار دیتے، بادشاہ مذہبی پیشواؤں کے عقیدت مند ہونے کا تاثر دے کر ان کی عزت وتوقیر بڑھاتے۔
بادشاہوں کو حکومت کرنے اور علاقے فتح کرنے میں  دلچسپی تھی۔ نوابوں کو اپنی دولت میں اضافہ عزیز تھا اور مذہبی  پیشواؤں کو تقدیس کے نام پر عوام کو متاثر اور مرعوب کرنا تھا۔ چنانچہ بادشاہ ،جاگیردار اور مذہبی پیشوا حسبِ حیثیت ایک دوسرے کے سرپرست، محافظ ، مددگار یا معاون کاکردار ادا کرتے رہے۔ چرچ نے اپنے خودساختہ نظریات کو مقدس قرار دے کر معاشرے کے عقائد ونظریات کا تعین کرنے کی کوشش کی ۔ چرچ کی اجازت یا توثیق سے ہونے والی تحقیق کے علاوہ ہر قسم کی علمی تلاش اور تحقیق کو خدائی کاموں میں مداخلت  قرار دیا گیا۔ نکولس کوپرنیکس، گلیلیو ،گلیلی ، بنجمن فرینکلین، امانویل کانٹ ، الیگزینڈر فلیمنگ، وائی کلف، کارل لینئس،گیوردانو برونو، سمیت نیچرل سائنس کے کئی عالموں کو اپنی تحقیق اورجدید نظریات کی وجہ سے چرچ کے غیظ وغضب کا نشانہ بننا پڑا ۔ علم کی راہ میں رُکاوٹ اور عالموں کی بے حرمتی پر بادشاہ آنکھیں اورکان بند کیے خاموش رہے۔ رہے جاگیردار اور نواب تو انھیں تو بادشاہ کی خوشنودی اورمذہبی اجارہ داروں کی شفقت عزیز تھی۔
یورپ کے عوام نے رفتہ رفتہ علم کی روشنی  پھیلنے میں تعاون کیا۔ عوام میں اپنے حقوق کا احساس بھی جاگا اورلوگ بادشاہت کے خلاف ہونے لگے۔انقلاب فرانس (1789ء) کے بعد تو  یورپ کے حالات بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئے۔ سائنس کے لیے چرچ کی مخالفت بھی اب  مزاحمت نہ رہی۔ یورپ میں جمہوریت آگئی اور بادشاہت چند ملکوں میں برائے نام ہی رہ گئی۔عوا م کے لیے قانون سازی معاشرتی امور اور سائنس وٹیکنالوجی کے میدانوں میں چرچ کے عمل دخل کو یورپی عوام نے مسترد کردیا۔
مسلم معاشروں کو اس قسم کے مسائل کا سامنا کبھی نہیں رہا۔اسلامی ریاستوں نے علوم و فنون کی ہمیشہ سرپرستی کی۔  مسلمان سائنسدانوں اورمفکرین کی تحقیقات اور نظریات کو  مسلم مذہبی علما کی طرف سے کسی مخالفت یا مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ کئی مدارس سے تو دینی علوم کے ساتھ ساتھ نیچرل سائنس کے عالموں نے ایک ساتھ اکتساب ِ علم کیا۔
قرنِ وسطیٰ میں جابر بن حیان، ابن الہیثم، ابن سینا، الخوارزمی، الاصمعی، ابوبکر الرازی، عبدالرحمٰن الصوفی، ابن رشد، نصیر الدین طوسی، امام غزالی، الادریسی، ابو ریحان البیرونی، ابن النفیس،ابن خلدون،الجذری، ابن بیطار، ابونصرالفارابی، ابوقاسم الزہراوی،ابن فرناس جیسے بڑے بڑے عالم سامنے آئے، مختصر یہ کہ قرونِ وسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں، مفکروں، مؤرخوں اور دیگر شعبوں کے بڑے بڑے عالموں نے علم کے ذریعے نوعِ انسانی کی عظیم الشان خدمات سرانجام دیں اور دیگرطبقات کے ساتھ ساتھ مسلم مذہبی علما سے بھی داد تحقیق پاتے رہے۔ کہیں علمی بنیاد  پرکوئی  اختلاف رائے ہوا ہو تو وہ الگ بات ہے لیکن مسلم معاشروں میں بطور مذہبی ادارے کسی نے سائنسی تحقیقات / نظریات کی مخالفت یا مزاحمت نہیں کی۔
اب آتے ہیںبرصغیر کی طرف۔ ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کو مسلمانوں کی اکثریت نے قبول نہ کیا۔مسلمان انگریزوں کو آقا اورخود کو غلام سمجھتے تھے۔ انگریزوں کے ساتھ اپنی ناراضگی کے اظہارکے لیے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے انگلش زبان اور مغرب سے درآمد سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی قبول نہ کیا۔ یہ مخالفت مسلمانوں کیے مذہبی طبقوں کی جانب سے زیادہ کی گئی۔ اس مخالفت کو مذہب اور سائنس میں تصادم قرار دیا جانا درست نہیں ہوگا۔یہ ایک مفتوح قوم کی جانب سے قابض قوم کی زبان ،ان کے طرز زندگی اور ان کی علمی برتری سے بیزاری کا اظہار تھا۔
انگریز حکمرانوں کے ساتھ تعلقات اور معاملات کیسے رکھے جائیں،اس پر برصغیر کے مسلمانوں کے مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔ 1875 میں سرسید احمد خان کی جانب سے جدید علوم کی تعلیم کی دعوت پر مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے لبیک کہا۔ برصغیر میں جدید تعلیم یافتہ مسلمان  بعدازاں سرکاری ملازمتوں اور معیشت کے دیگر شعبوں میں  مؤثرکردار ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ دوسری جانب دیکھیں تو دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کے پاس انڈین سول سروس اورجدید معیشتی اداروں مثلاً بینکنگ، صنعت وحرفت، شعبۂ قانون ، صحافت اور معاشرے کے دیگر اہم شعبوں  میں شمولیت کے لیے مطلوبہ تعلیمی قابلیت نہیں تھی۔ لہٰذا معاشرے میں اس طبقے کا عملی کردارکم سے کم ہوتا گیا۔
قیام ِ پاکستان کے بعد سے ملک کے حکومتی ، سیاسی اورسماجی معاملات مذہبی عالموں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ مردوخواتین کے ہاتھوں میں ہیں۔ پاکستان آج بھی تعلیم، صحت، سماجی رویوں اوردیگر کئی معاملات میں دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک سے بھی بہت پیچھے ہے۔
قوم کو درپیش مسائل کے حل اور جسد ملی کو لاحق بیماریوں سے نجات کے لیے صحیح اسباب کی نشاندہی اورمرض کی درست تشخیص ضروری ہے۔ پاکستان کو درپیش کئی مسائل کا سبب مذہبی عالموں کی جانب سے کی جانے والی مخالفتیں نہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ پر مشتمل حکمرانوں ، سیاستدانوں اورافسروں میں بصیرت کی کمی، قومی ضروریات اورعظیم تر قومی مقاصد سے چشم پوشی، نااہلی، بدعنوانی، عارضی بنیادوں (Adhocism) پر فیصلے اور دیگر عوامل شامل ہیں۔پاکستانی سماج کی حالت بہتر بنانے، ملک سے ناخواندگی، بیماریوں، ناانصافیوں ، انسانی حقوق کی پامالیوں اور دیگر خرابیوں سے نجات پانے کے لیے معاشرے کے ہر طبقے کو اپنی اپنی غلطیوں کا  اعتراف کرنے اور اصلاحِ احوال  کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کے معاشروں  میں  مذہبی عالموں کے لیے ہمیشہ بہت عزت واحترام رہا ہے۔  ہمارے معاشروں میں جدید تعلیم دینے والوں اساتذہ کا بھی بہت احترام کیا جاتا ہے۔ پاکستانی سماج کی بہتری کے لیے  مذہبی عالموں  اورجدید تعلیم یافتہ طبقات کے درمیان اشتراکِ عمل ہونا چاہیے ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ جدید تعلیم یافتہ اور مذہبی تعلیم یافتہ طبقات قوم کی حالت بہتر بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مناقشہ کے بجائے مکالمے کا آغاز کریں۔





مناقشہ نہیں مکالمہ ہونا چاہیے

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی 
روزنامہ ایکسپریس ۔  2 اگست 2016ء

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے