8 ستمبر 1958 : گوادر کی پاکستان میں شمولیت کا دن
تحریر ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پاکستانی قوم کے لیے کئی ایام زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ مثال کے طور پر 23 مارچ، 14 اگست، 6 ستمبر وغیرہ۔ پاکستان کی تاریخ میں 8 ستمبر بھی ایک نہایت اہم دن ہے۔ آنے والے برسوں میں چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر مکمل ہوجانے اور گوادر ڈیپ سی پورٹ مکمل فعال ہونے کے بعد پاکستانی قوم پر اس دن کی اہمیت زیادہ سے زیادہ واضح ہوتی جائے گی۔
8 ستمبر 1958ء کو پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم ملک فیروز خان نون نے ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کی ریاست مکران کے ساحلی شہر گوادر کی پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔
گوادر کی پاکستان میں شمولیت میں فیروز خان نون کی ذاتی دلچسپی اور ان کی شبانہ روز سفارتی کوششوں کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کو اپنے اس محسن اور دیگر اکابرین کے کارناموں سے مسلسل واقف رہنا چاہیے۔ ملک فیروز خان نون کی اس شاندار خدمت کی وجہ سے پاکستان آج گوادر میں ڈیپ سی پورٹ اور گوادر کو ایک ماڈرن شہر بنانے کے قابل ہواہے۔
یہ علاقہ ایک زمانے میں خان آف قلات کی آزاد ریاست کا حصہ تھا، 1783 ء میں سمندر پار پڑوسی ریاست مسقط و عُمان کے ایک شہزادے سید سلطان بن احمد بن سعید البوالسعیدی نے اپنے ملک میں شورش کے بعد قلات کے حاکم میر محمد نصیر خان کے پاس پناہ لی تھی۔ میر صاحب نے شہزادے کا خیال کرتے ہوئے اس کے گزراوقات کیلئے ازراہ عنایت گوادر کا ساحلی علاقہ اس کے حوالے کردیا ۔ اس وقت یہاں کی سالانہ آمدن 84 تنکا تھی۔ 1797 ء میں اپنے ملک میں حالات ٹھیک ہونے کے بعد سلطان بن احمد بن سعید واپس مسقط چلاگیا ، لیکن اس نے شہزادے نے بلوچ سردار کی مروت و مہربانی کو اپنا استحقاق سمجھتے ہوئے گوادر پر اپنا قبضہ بھی برقرار رکھا ۔
1861ء میں برطانوی فوج نے میجر گولڈ سمتھ کی کمان میں اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ برٹش حکومت نے 1863ء میں گوادر میں اپنا ایک اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ مقرر کر دیا۔ برطانیہ کی برٹش انڈیا اسٹیم نیوی گیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندر گاہوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔1863ء میں گوادر میں پہلا تار گھر (ٹیلی گرام آفس) اور 1894ء میں پہلا پوسٹ آفس قائم ہوا۔تاہم برصغیر سے انگریزوں کے چلے جانے اور 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت گوادر کا انتظام سلطنتِ مسقط و عُمان کے پاس ہی تھا۔
گوادر چونکہ جغرافیائی ، تاریخی ، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے مکران کا حصہ ہے اس لیے گوادر کے عوام کی شدید خواہش تھی کہ گوادر کو باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ حکومتِ پاکستان تک گوادر کے عوام کی خواہشات پہنچ رہی تھیں۔ اس حوالے سے گوادر کی ایک ممتاز کاروباری اور سماجی شخصیت حاجی محمد اقبال بلوچ نے بھی 23 اپریل 1950ء کو حکومت پاکستان کے نام ایک خط میں گوادر کی پاکستان میں شمولیت کے لیے ضروری اقدامات کی طرف توجہ دلائی۔
حکومتِ پاکستان نے گوادر کی واپسی کے لیے مسقط و عمان کی حکومت اور سلطان سعید بن تیمور سے کئی سال تک مذاکرات کیے اور دونوں حکومتوں کی باہمی رضا مندی سے انتہائی خوش گوار انداز میں گوادر کی پاکستان کو منتقلی کا معاہدہ طے پاگیا۔ اس معاہدے کا اعلان 8ستمبر اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ملک فیروز خان نون نے کیا تھا۔
گوادر کی پاکستان میں شمولیت پر وزیر اعظم فیروز خان نون کی تقریر کا متن
"The Government of Pakistan has issued a communiqué stating that the administration of the Port of Gwadar and its hinterland, which had been in the possession of His Highness the Sultan of Muscat and Oman since 1784, was today taken over by Pakistan with full sovereign rights. The people of Gwadar have joined the people of Pakistan and the whole of Gwadar now forms part of the Islamic Republic of Pakistan. I know that the people all over Pakistan, including those residing in Gwadar, have received this announcement with feelings of great joy. I welcome the residents of Gwadar into the Republic of Pakistan and I would like to assure them that they will enjoy equal rights and privileges along with all other Pakistan nationals irrespective of considerations of religion, caste or creed. They will have their full share in the glory and prosperity of the Republic to which they now belong. The residents of Gwadar, most of whom are members of the brave Baloch community, have close racial and cultural links with the people of Pakistan and joining the Republic of Pakistan represents the natural culmination of their political aspirations. I should like to take this opportunity to thank, on behalf of the people and Government of Pakistan, Her Majesty’s Government in the United Kingdom for their assistance and help in bringing to a successful conclusion our negotiations with His Highness the Sultan of Muscat and Oman for the transfer of his rights in Gwadar. The negotiations were pursued with great vigour during the last six months and at every stage we received valuable advice from Her Majesty’s Government in the United Kingdom. I should like to congratulate and thank his Highness the Sultan of Muscat and Oman on his wise and statesmanlike decision, which has endeared him to the people of Pakistan. The success of these negotiations and the return of Gwadar to Pakistan should help to illustrate that international disputes can be resolved in a peaceful and satisfactory manner provided that the parties to a dispute are prepared to approach the problem in a spirit of fairness and justice without allowing their emotions or prejudices to get the better of their judgment. I’ve been advocating this course during the last six months and I’m happy that the present Government has been able to establish the validity and effectiveness of this policy. Gwadar is the first fruit of this policy of goodwill and cooperation. I fervently hope and pray that it will be possible for us to resolve our other international disputes in an equally peaceful and reasonable manner. Pakistan Zindabad."
گوادر کی بندرگاہ اور گردونواح کے علاقے کا انتظام پاکستان نے سلطان مسقط و عمان سے پورے ریاستی حقوق کے ساتھ حاصل کرلیا ہے جنہیں 1784ء سے اس علاقے پر تصرف حاصل تھا۔ گوادر کے لوگ اب پاکستان میں شامل ہوچکے ہیں اور پورا گوادر اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ میں جانتا ہوں کہ پاکستان بھر کے لوگوں اور گوادر کے عوام نے اس اعلان کو مسرت کے احساس کے ساتھ سنا ہے۔ میں گوادر کے شہریوں کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شمولیت پر خیرمقدم کرتا ہوں اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ان کے دیگر پاکستانیوں کے مساوی حقوق ہوں گے قطع نظر اس کے کہ ان کا مذہب ، ذات یا نسل کیا ہے۔ اس ملک کی عظمت و خوشحالی میں ان کا برابر حصہ ہوگا جس کا وہ حصہ بنے ہیں۔ گوادر کے لوگ جن میں اکثریت بہادر بلوچوں کی ہے وہ پہلے ہی پاکستان کے عام سے قریبی ثقافتی اور نسلی تعلق کے حامل ہیں اور پاکستان میں شمولیت ان کی سیاسی خواہشات کا نقطہ عروج ہونا چاہیے، اس موقع پر میں ملکہ برطانیہ کی حکومت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے سلطان مسقط و عمان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے لیے معاونت کی۔ مذاکرات کے ذریعے گوادر کی پاکستان کو واپسی سے اس امر کی وضاحت ہونی چاہیے کہ بین الاقوامی تنازعات پر امن اور اطمینان بخش طریقے سے حل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ فریقین مسئلے کو شفافیت اور انصاف کی نگاہ سے دیکھنے کے لیے تیار ہوں اور اپنے تعصبات اور جذبات کو اپنے فیصلوں پر غالب نہ آنے دیں۔ میں گزشتہ 6 ماہ کے عرصے کے دوران اسی راستے کی وکالت کررہا تھا اور مجھے بڑی خوشی ہے کہ موجودہ حکومت نے اس پالیسی کی اثابت اور موثر ہونے کو ثابت کردیا ہے۔ گوادر ہماری خیرسگالی اور تعاون کی پالیسی کا پہلا ثمر ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ ہمارے لیے ممکن ہوگا کہ ہم دیگر بین الاقوامی تنازعات بھی اسی طریقے سے پرامن طور پر اور معقول طریقے سے حل کرسکیں۔ پاکستان زندہ باد۔
[از : روزنامہ ایکسپریس کراچی، جمعرات 8 ستمبر 2016ء ۔ صفحہ 3
Source: