اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 21 ستمبرکو پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خطاب پر بھارتی سیاستدانوں اور بھارتی میڈیا کا بڑا حصہ سخت غصے کا اظہار کیوں کررہا ہے؟کیا پاکستان کے وزیراعظم نے اس عالمی فورم پر بھارت کے بارے میں کوئی نئی بات کہہ دی ہے؟ کیا اقوام عالم کی اس تنظیم کے سامنے انھوں نے کوئی نیا مطالبہ رکھ دیا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔ درحقیقت بھارت اقوامِ متحدہ میں خود اپنے وعدوں کی یاد دہانی اور کشمیر کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قرار داد پر عمل درآمدد کے جائز اور قانونی مطابے پر بھی بُرا مان جاتا ہے۔ پاکستان میں عوامی حلقوں کی رائے یہ ہے کہ بھارتی حکومت اور میڈیا جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مسئلہ کشمیرکے ذکر پر ہی ناراض نہیں ہیں بلکہ ان کی ناراضی اورغصے کی وجوہات میں پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کی ناکامیاں بھی شامل ہیں۔
بھارت طویل عرصے سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے مختلف ترکیبیں آزما رہا ہے۔ پینتالیس سال پہلے اسے ایک بڑی کامیابی مل بھی چکی ہے۔ مشرقی پاکستان میں عوام کو پاکستان کے خلاف ورغلانے کے لیے بھارت نے آکاش وانی، آل انڈیا ریڈیو، بھارتی پریس کی معاونت اور مشرقی پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کئی سازشوں کوعملی جامہ پہنایا۔ مشرقی پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت عوامی لیگ کے جنگجو بازو (Militant Wing)سے وابستہ کئی نوجوانوں کو بھارتی فوج نے ٹریننگ دی۔ بھارتی سرپرستی میں مکتی باہنی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی۔اس تنظیم میں پاکستان سے ناراض بنگالیوں کے علاوہ بھارتی جماعت آر ایس ایس کے اراکین اور دیگر بھارتی بھی شامل تھے، انھیں بھارتی فوج نے چھاپہ مار جنگ کی تربیت دی۔ مشرقی پاکستان میں گڑبڑ پھیلانے کے لیے بھارت کی جانب سے بہت بڑے پیمانے پر فنڈنگ بھی کی گئی۔
اس وقت کی پاکستانی حکومت اور پاکستان کی کئی اہم سیاسی جماعتیں اس سازش یا بھارتی مداخلت کے مختلف طریقوں کا بروقت ادراک نہ کرسکیں۔ اس دوران پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کئی سنگین غلطیاں کیں۔ سب سے بڑی غلطی دستور ساز اسمبلی کے لیے مشرقی پاکستان کے عوام کے فیصلوں کو قبول نہ کرنا اور اعلان کردہ تاریخ پر اسمبلی کا اجلاس نہ بلوانا تھی۔ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے چند ارکان کے مشوروں پر پاکستان کے صدر جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو ملنے والے مینڈیٹ سے انکار کیا۔
یہ انکار مشرقی پاکستان کے عوام کو اپنی توہین محسوس ہوا اور انھوں نے اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کے رویوں پر سخت احتجاج شروع کردیا۔ مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہونے میں پاکستان کے حکمرانوں، سینئر بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کی کم فہمی وعاقبت نا اندیشی سے کوئی انکار نہیں لیکن مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں بھارت کی مداخلت، مشرقی پاکستان میں شورش پھیلانے کے لیے بھارتی شہریوں کی عملی شمولیت کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ بھارت کے وزیرِاعظم نریندر سنگھ مودی نے جون 2015ء میں ڈھاکا میں کھلے عام یہ اعتراف کیا کہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ساتھ بھارتی فوجی بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کے معاملات میں بھارتی مداخلت کی ایک طویل فہرست ہے۔
موجودہ دور میں بھارت کے پاکستان پر غصے کی کئی وجوہات ہیں۔ پاکستان میں سیاسی استحکام، معیشت کی بہتری، پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ، چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ، بجلی کی پیداوار کے نئے منصوبے اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں نئے صنعتی زونز کا قیام بھارت کو پسند نہیں۔ کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف کشمیر ی عوام کی جدوجہد میں شدت نے بھی بھارت کو حواس باختہ کیا ہوا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے آپریشن ضرب عضب کی کامیابیاں، اس سے قبل سوات آپریشن کی کامیابیاں بھی بھارت کے لیے مایوسیوں کا سبب بنی ہیں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے سیاسی بازو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو اندرونِ ملک کئی بڑے چیلنجزکا سامنا ہے۔ مودی اور بی جے پی کے دیگر رہنماؤں نے انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے وعدے اوردعوے کیے تھے۔ ان میں سے ایک وعدہ یہ تھا کہ اگر بی جے پی کو اکثریت مل گئی اور مودی وزیراعظم بن گئے تو دولت مند بھارتیوں کا بیرونِ ملک بینکوں میں جمع کالا پیسہ واپس بھارت لائیں گے۔ بھارتیوں کے اس کالے پیسے کی مالیت 71ہزارکروڑ روپے بتائی گئی۔ مودی نے انتخابی وعدہ کیا تھا کہ وہ بھارتیوں کا یہ کالا دھن واپس لاکر بھارت کے غریبوں کو خوشحال بنادیں گے لیکن پارلیمنٹ میں بڑی اکثریت کے ساتھ مودی کے وزیراعظم بننے کے باوجود ایسا کچھ نہ ہوا۔
بی جے پی کے زیر اقتدار بھارت میں زراعت کے شعبے کا حال بھی بہت بُرا ہے ۔ مودی کے وزیر اعظم بننے سے بھارت میں خوشحالی اور سماجی بہتری تو کیا آتی وہاں تو ناصرف غیر ہندو اقوام یعنی عیسائی اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ہندو دھرم کے ماننے والے نچلی ذات کے افراد، دلتوں کو بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی جانب سے تضحیک، تمسخر، اہانت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دلتوں کو تعلیمی اداروں میں داخلہ دینے سے انکار کردینا بھی بھارت میں عام ہے۔ واضح رہے کہ نچلی ذات کہلائے جانے والے دلتوں کی آبادی 20کروڑ سے زائد ہے۔ آج بھارت میں نہ عیسائی محفوظ ہیں نہ مسلمان، نہ ہی نچلی ذات کے ہندو۔ ان کے علاوہ سکھوں کی بھارت سے شکایات میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
انتخابی وعدے پورے نہ کرسکنے اور عوامی مسائل سے لاتعلقی کے باعث بی جے پی اپنے ووٹروں کی حمایت کھورہی ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ آر ایس ایس کا سیاسی بازو بی جے پی مایوسی کے عالم میں بھارت میں مذہبی انتہا پسندی پھیلانے کے علاوہ ، پاکستان کے خلاف بھارتی عوام کے جذبات بھڑکانے اور ملک میں جنگی جنون پیدا کرنے میں ہی اپنا بھلا سوچ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انڈین سیکیورٹی فورسسزکی بربریت اور پرامن مظاہرین پر پیلیٹ گنوں سے گولیوں کی بھرمار اور سو سے زائد کشمیری نوجوانوں کی شہادت بھی بھارتی مایوسی اورجنجھلاہٹ کا مظاہرہ ہے۔
8 جولائی 2016 کو نوجوان کشمیری برہان مظفر وانی کی شہادت بھی کئی سوالات اٹھا رہی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ سے زیادہ فوج تعینات کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں اپنی ہم نوا حکومت ہونے کے باوجود اس لڑکے سے اتنا خوف زدہ کیوں تھی؟
بھارت کی جانب سے جنگی جنون پھیلانے کو سنجیدہ حلقے تشویش سے دیکھ رہے ہیں۔ توقع تو یہی کی جانی چاہیے کہ بھارتی وزیراعظم مودی اور اُن کے مشیران بھارت کے 70کروڑ سے زائد انتہائی غریب عوام پر رحم کریں گے اور جنگی جنون کو اپنی انتخابی ضروریات کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ لیکن اگر بھارتی حکمرانوں کو ایڈونچر کا شوق ہورہا ہے توانھیں سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستانی عوام، حکومت اور فوج اپنے وطن کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔
……………
عبداللہ جمال دینی: بلوچی ادب کے استاد، اردو اور بلوچی زبان کے ممتاز ادیب، کئی کتابوں کے مصنف ، کئی رسائل کے ایڈیٹر ’’بابائے بلوچی‘‘ عبداللہ جان جمال دینی 94 سال کی عمر میں کوئٹہ میں انتقال کرگئے۔ عبداللہ جمال دینی کی بلوچی ادب کے لیے خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑے ادبی اعزاز ’’کمالِ فن ‘‘ ایوارڈ سے نوازا تھا۔ عبداللہ جمال دینی کی وفات بلوچ ادب و صحافت کا بہت بڑا نقصان ہے۔
علی بابا : سندھی زبان کے معروف افسانہ نگار، ناول نگار اور ڈرامہ نویس علی محمد عرف علی بابا گزشتہ ماہ 76سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔ علی بابا نے عملی زندگی کاآغاز ریلوے میں بطور کلرک ملازمت سے کیا ، ایک ٹیکسٹائل مل میں اسسٹنٹ منیجر بھی رہے، ساتھ مشق سخن جاری رہی۔ علی بابا نے اپنی تحریروں میں سندھ کی ثقافت کی روح کو اجاگر کرنے کی سعی کی، پیر حسام الدین راشدی نے علی بابا کو سندھی تاریخ کا راوی کہا ہے۔ علی بابا کی وفات سے سندھی افسانہ اور سندھی ڈرامہ ایک بہت بڑے متلاشی حقیقت اور جستجو میں مگن درویش صفت قلمکار سے محروم ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ علی بابا اور عبداللہ جمال دینی کی مغفرت ہو اور ان کے پسماندگان اورمتعلقین کو صبر عطا ہو۔
ایڈونچر کا شوقین بھارت
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روزنامہ ایکسپریس ، کراچی
منگل 27 ستمبر 2016
Source Link