روایت ہے کہ کوئی شخص ایک فلسفی کے ہاں آکر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ فلسفی اسے نہیں جانتا تھا۔ خاموشی طویل ہوئی توفلسفی نے اسے کہا کہ توکچھ بول تاکہ میں تجھے جان سکوں۔اس روایت سے یہ واضح ہوا کہ گفتگو آدمی کے تعارف کا بڑا ذریعہ ہوتی ہے۔
خاموشی کی کئی فضیلتیں بیان کی جاتی ہیں۔ بعض اوقات خاموشی ادب واحترام کا اظہار ہوتی ہے توکبھی تسلیم ورضا کا اشارہ،کہیں علم کی وصولیابی اورکہیں غوروفکر میں محو ہونے کے لیے خاموشی ضروری ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی خاص مرحلے پرخاموش رہنا کئی مصیبتوں سے بچنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ خاموشی کے فضائل اوراس کی اہمیت اپنی جگہ لیکن انسان کی شخصیت کی زیادہ تر نمایندگی اس کی باتوں،الفاظ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ علم ہو یا عمل دونوں ہی الفاظ پرانحصارکرتے ہیں۔
میں کیا ہوں؟ میں وہ ہوں جو میں بولتا ہوں اور میں کیا بولتا ہوں؟ میں وہ بولتا ہوں جو میں سوچتا ہوں۔ یعنی میری باتیں میری سوچ کا اظہار ہیں۔انسان کی سوچ، اس کے جذبات واحساسات، ضروریات وتقاضے، دکھ وخوشی، جدائی و وصال، محرومی وحصول، غرض انسان کی ہر حالت کا اظہار الفاظ کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ الفاظ ہمارے خیالات، ہمارے جذبات واحساسات کی شکل و جسم ہیں۔ گویا الفاظ ہماری سوچ کی تصویر وتجسیم ہیں۔ یہ تصویریں کہیں نثرکے روپ میں نظر آتی ہیں کہیں نظم کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ آدمی اتنا ہی سوچتا ہے جتنا کہ وہ جانتا ہے۔کوئی شخص اگراپنی سوچ کو وسیع کرناچاہے اور اپنی سوچ کوگہرائی دینا چاہے تو اسے اپنے دائرہ آگہی اور علم کو وسیع کرنا ہوگا۔ اسے آگہی اور علم کے مختلف ذرایع کوبھی سمجھنا ہوگا کیونکہ علم کے ذرایع خارجی بھی ہیں اور باطنی بھی۔
قارئین کرام! آپ سے پوچھا جائے کہ پھولوں کے نام بتائیں۔ آپ میں سے کوئی تین،کوئی پانچ اورکوئی سات پھولوں کے نام لے دیں گے۔ چند ہی مرد وخواتین ہوں گے جو دس سے زائد پھولوں کے نام بتا سکیں۔ جو مرد وخواتین پانچ پھولوں کے نام، ان کی صورت اورمہک کے بارے میں جانتے ہیں، اگر ان سے کہا جائے کہ پھولوں کے اثرات پراپنے خیالات تحریر کیجیے توان کی تحریر میں ان ہی پانچ پھولوں کا ذکر ملے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سوچ ہمارے علم کی حدود میں رہتی ہے۔ پھولوں پر لکھتے وقت اگر ہم اپنی سوچ کو وسعت دینا چاہتے ہیں تو ہمیں مزید پھولوں کے بارے میں جاننا ہوگا۔ اسی طرح ہر موضوع پر ہمیں اپنے احاطہ علم یا دائرہ علم کو توسیع دینا ہوگی۔ دیہات میں رہنے والے ایک شخص نے ساری عمر صرف بیل گاڑی ہی دیکھی ہو، اگر اس سے پوچھا جائے کہ گاڑیاں کتنی قسم کی ہوتی ہیں تو صرف بیل گاڑیوں کی اقسام ہی بتائے گا۔
ایک پختہ فکر شخصیت کے لیے سوچ میں توسیع کے ساتھ ساتھ گہرائی بھی ضروری ہے۔ زندگی میں ہونے والے مشاہدات و تجربات سے نتائج اخذکرنے اور سبق سیکھتے رہنے سے سوچ میں گہرائی آتی ہے۔
ہر انسان کے لیے علم کا حصول ضروری ہے۔ حاصل شدہ علم کواچھی طرح برتنے کے لیے دانش کی ضرورت ہے۔ دانش کا استعمال یہ ہے کہ سیکھے ہوئے علم اورزندگی میں ہونے والے مشاہدات و تجربات کی مدد سے نقصانات سے بچا جائے اورفوائد حاصل کیے جائیں۔ نقصانات سے بچنا اورفوائد کا حصول انفرادی بھی ہوسکتا ہے اور اجتماعی بھی۔ حکمران اپنی قوم کے لیے اجتماعی فوائد یا اجتماعی نقصانات کا سبب بنتے ہیں۔ دانش انسانوں کو خیراور نجات کے راستوں پر بھی چلا سکتی ہے اور گمراہی کی اندھیری وادیوں میں بھی بھٹکا سکتی ہے۔
دانش باعث خیرہے یا شر…؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ دانش پر مثبت پہلو غالب ہے یا منفی پہلو۔ دانش دراصل انسان کی نیت کے تابع ہوتی ہے۔ نیت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی۔ دانش اچھی نیت کے زیراثر ہوگی تو خیرکو فروغ ملے گا، بری نیت حاوی ہوگی تو دانش اورعلم دونوں ہی افراد اورمعاشروں کے لیے ضعف، شر، ضرر اور فساد کا سبب بن جائیں گے۔ نیت خراب ہو تو اچھے الفاظ بھی بے معنی اورمنفی ہوجاتے ہیں۔ بدنیتی کے ساتھ کیا جانے والا ہر وعدہ جھوٹ، فریب اور دھوکا ہے۔ جھوٹے وعدے اپنے مخاطب کو توقعات، خوش گمانیوں اورانتظار کی کیفیت میں رکھتے ہیں ۔ یہ وقت کے ضیاع اورامیدوں کی پامالی کا سبب بنتے ہیں۔ نیک نیتی کے ساتھ کہے گئے سادہ سے الفاظ بھی بامعنی اور مثبت اثرکے حامل ہوتے ہیں۔
دنیاوی معاملات میں فیصلے’’ظاہر‘‘پر ہوتے ہیںجب کہ نیت کا تعلق ’’باطن‘‘ سے ہے۔ ایک شخص کسی فرد کی یا قوم کی امانت میں خیانت کرتا ہے ، یا وہ مختلف ذرایع سے حرام کماتا ہے۔اس کمائی کو وہ اپنے ٹیکس ریٹرن میں بھی ظاہرکردیتا ہے۔ بددیانتی، رشوت، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی وغیرہ کے ذریعے کمائی گئی غیر قانونی آمدنی کو وہ شخص بازار سے خریدے گئے انعام یافتہ پرائز بانڈ، بیرون ملک سے بینک کے ذریعے منگوائی گئی رقم یا کسی اور راہ سے قانونی ظاہرکردیتا ہے۔ اس طرح ناجائز،کالا پیسہ (Black Money) ملکی قانون کی نظر میں جائزاور سفید(White) ہوجاتا ہے۔ قانونی موشگافیوں کے ذریعے ناجائزکوجائزکرلینا دراصل بدنیتی کوخوشنما الفاظ کے ذریعے چھپا لینا ہی ہے۔ جس معاشرے میں جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا اور اسے قبول کرلینا عام ہوجائے وہ معاشرے ترقی نہیں بلکہ تنزلی کی طرف جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں استحکام کے بجائے انتشار بڑھتا ہے۔
ملک اور قوم کومضبوط ومنظم بنانے کے لیے قوم میں سچ کا، حق کا فروغ ضروری ہے۔ قوم کے لیڈر ہوں، افسران ہوں، سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین ہوں، کسان، تاجر، صنعت کار ہوںیا مزدور، طالب علم ہوں، ورکنگ یا گھریلو خواتین ہوں، بچے ہوں یا بڑے، خیر پانا ہے تو سب کے لیے ضروری ہے کہ سچ بولنا سیکھیں یعنی صادق بنیں۔ ملک وملت میں کسی بھی سطح پر ذمے دار بننے کے لیے صادق ہونے کے ساتھ ساتھ امین ہونا بھی لازمی ہے۔کسی شخص کے امین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے دیے گئے کام کے حوالے سے اس پر اعتبار اور اعتماد کیا گیا ہے اور وہ شخص اس اعتماد پر پورا اترتے ہوئے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ دی گئی ذمے داریوں کو پورا کرنے کی کوششیں کرے گا۔ کسی کو امین سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے معتبر اورمحافظ سمجھا گیا ہے۔
سچ بولنا اورامانت کی پاسداری،انسانی شخصیت کے یہ دونوں اعلیٰ اوصاف نیت کی سچائی کا اظہار ہیں۔ نیک نیتی سے برکتیں نازل ہوتی ہیں، خوشی اورخوشحالی آتی ہے۔ بد نیتی سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ پریشانیاں، ڈپریشن اوربدحالی آتی ہے۔
پاکستان کے حالات دیکھیں۔ ہمارا پیارا وطن بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ملک میں غربت، ناخواندگی یا جہالت، متعدی اور غیر متعدی بیماریاں، کرپشن، اداروں میں بد انتظامی، بد امنی، انصاف کے حصول میں مشکلات وتاخیر اوردیگر کئی مسائل کیوں ہیں؟
ایک عام سا جواب یہ ہے کہ ان خرابیوں کی ذمے داری یکے بعد دیگرے آنے والی سب حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے حکمران اپنے فرائض صداقت وامانت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرتے تو آج پاکستان کا شمارترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا۔ لیکن،کیا ساری ذمے داری صرف حکمرانوں کی ہی ہے؟ کسی نہ کسی درجے میں عام لوگ قصور وار نہیں ؟ صرف حکمرانوں کی بات ہی کیوں کی جائے؟ ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے‘‘ یہ الفاظ کہتے ہوئے ہم میں سے ہر پاکستانی کو خود اپنے باطن میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور خود سے پوچھنا چاہیے۔ ہم نے ملک وقوم کی طرف سے خود پر عائد ہونے والے فرائض سچائی اوردیانت داری کے ساتھ پورے کیے ہیں؟ ہم اپنی قوم کے ساتھ کتنے سچے ہیں؟ اپنی قوم کی طرف سے ملنے والی امانتوں کی ہم کس حد تک پاسداری کررہے ہیں؟
حق تو یہ ہے کہ دوسروں کو تلقین سے پہلے خود مجھے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ میری نیت پرکس کا غلبہ ہے۔ خیرکا یا شر کا؟
الفاظ ، سوچ اور نیت
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روزنامہ ایکسپریس ، کراچی
منگل 20 ستمبر 2016
Source Link