مراقبہ برائے اساتذہ

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

  مراقبہ سب کے لئے

MEDITATION FOR TEACHERS 

 مراقبہ  برائے اساتذہ

روزمرہ زندگی کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے کہ زندگی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شعبہ میں کامیابی اور تکمیل اسی صورت میں میسر آتی ہے جب ذہنی ارتکاز اور توجہ ایک نقطہ پر مرکوز ہو ۔ مراقبہ ایک ایسا ہمہ جہت نظام العمل ہے جو ہمارے اندر ذہنی ارتکاز کی عادت ڈالتا ہے ۔ یوں مراقبہ کرنے والا شخص زندگی کے مختلف شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کامیاب زندگی گزارتا ہے ۔ شعبہ ہائے زندگی میں ایک معلّم ، طالب علم ، ملازمت پیشہ ، کاروباری اشخاص اور دیگر حضرات وخواتین مراقبہ کی ٹیکنیک سے کس طرح استفادہ کریں ؟ اس بارے میں رہنمائی کے لئے ’’ مراقبہ سب کے لئے ‘‘ مفید ، معلوماتی اور رہنما تحریر کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے ۔ آپ کے تاثرات کے ہم منتظر ہیں ۔
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی




مراقبہ برائے اساتذہ ۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی مراقبہ برائے اساتذہ ۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی مراقبہ برائے اساتذہ ۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی مراقبہ برائے اساتذہ ۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی مراقبہ برائے اساتذہ ۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی مراقبہ برائے اساتذہ ۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
=====================================

کیا آپ کی یہ خواہش ہے کہ لوگ آپ کی شخصیت سے متاثر ہوں  ۔ آپ سے مشورہ طلب کریں  ۔ آپ کی رائے پر چلیں  ۔ آپ کے انداز کی تقلید کریں  ۔
بہت سے لوگ زندگی میں  آئیڈیل کے قائل ہیں  ۔ کیا آپ کی خواہش ہے کہ دوسرے لوگ آپ کی ذات کو اپنا آئیڈیل قرار دیں ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات اس وقت آپ کو ناممکن معلوم ہورہی ہو لیکن یہ کوئی ناممکن بات نہیں  ہے ۔ ایسا ہوسکتا ہے اور خاص طورپر ان لوگوں  کے لئے یہ مقام حاصل کرنا اور بھی آسان ہے جو اسکول ، کالج ، یونیورسٹی میں  استاد کے منصب پر فائز ہیں  ۔ گو کہ استاد صرف تعلیمی اداروں  میں  ہی نہیں  ہوتے ، زندگی کے مختلف شعبوں  میں  مختلف لوگ استاد یا معلم کا درجہ حاصل کرتے ہیں  ۔ ٹیچر کا کام صرف تدریس ہو تو یہ محض ایک پیشہ ہے جیسے انجینئر ، اکاؤنٹنٹ وغیرہ ۔ تاہم اگر کتاب اللہ کے ارشادات اور  رسول اللہ ﷺکے طرز عمل کی پیروی میں  معلم کے فرائض انجام دیئے جائیں  تو معلمی ایک عظیم اورقابل صد افتخار منصب اور مرتبہ ہے ۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو معلم کا کام اپنے شاگردوں  کوصرف علوم کی منتقلی نہیں  بلکہ ان کے اخلاق کی درستگی اور ان کے کردار کی تشکیل بھی ہے ۔ انفرادی طورپر شخصیت کی تعمیر یا کردار سازی کامعاملہ ہو یا معاشرہ کو منظم بنانے اور ان کی اصلاح کے کام ہوں  ، ان کاموں  کی ذمہ داری تنہا کسی فرد یا محض کسی ایک طبقہ کی نہیں  ہوتی ۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے معاشرے کے مختلف عناصر باہم مل کر نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ اپنی صلاحیتیں  بروئے کار لاتے ہیں  ۔ معاشرے کے ان عناصر یا طبقات میں  سے ہر ایک کی اپنی اپنی اہمیت ہے ۔ ایک فرد پر والدین، اساتذہ اور معاشرہ زیادہ اثرانداز ہوتا ہے ۔ شخصیت پراثر ڈالنے والے تمام عوامل کا جائزہ لینے پر یہ بات مشاہدے میں  آتی ہے کہ سب سے مؤثر کردار ’’ استاد ‘‘ کی ذات ہے ۔

استاد کے کردار کو نظرانداز کرکے یا اس سے درست سمت میں  بھرپور فائدہ نہ اٹھاکر بے شمار  کامیابیوں  سے محرومی کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ استاد یا معلم کے مقام ومرتبہ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کامل اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے خود اپنے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ :


انما بعثت معلما 

’’ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ‘‘ ۔
انسان کامل ﷺ کسی ایک قوم یا خطہ کے لئے نہیں  بلکہ پوری  بنی نوع انسانی کے معلم تھے ۔
حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت کو مؤرخین نوید مسیحا ( علیہ السلام ) اور دعائے خلیل ( علیہ ا لسلام ) بھی کہتے ہیں  ۔ حضور ﷺ کے جدامجد ، اللہ کے نبی حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کی دعا کے الفاظ سورۂ  بقرہ میں  اس طرح آئے ہیں  :

ربنا وابعث فیہم رسولاً منھم یتلوعلیہم ایتک ویعلمھم الکتاب والحکمۃ  ویزکیھم  انک انت العزیز الحکیم O 

ترجمہ : ’’ اے ہمارے رب  ان میں  انہی میں  سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیات تلاوت کرکے سنائے ۔ اور انہیں  کتاب سکھائے  ( کتاب کی تعلیم دے )  اور حکمت ودانائی عطا فرمائے اور ان کا تزکیہ کرے ۔ بلاشبہ آپ ہی ہیں  زبردست غالب اور حکمت والے ‘‘ ۔
حضرت ابراہیم ؑخلیل اللہ نے یہ دعا اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی عمارت تعمیر کرتے وقت مانگی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں  کئی مقامات پر اپنے رسول محمد مصطفی ﷺ کی بعثت کا ذکر فرمایا ۔ آپ کے اوصاف بیان فرمائے ہیں  اور آپ کے مشن یعنی فرائض نبوت اور کاررسالت کے بارے میں  نشاندہی فرمائی ہے ۔ قرآن پاک کی ایسی ہی آیات میں  سے ایک آیت سورۂ آل عمران اورایک سورۂ جمعہ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوع انسانی کے لئے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مشن کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ کی بعثت سے سینکڑوں  برس قبل مانگی گئی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا کا جواب بھی معلوم ہوتی ہے ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کا تذکرہ ہم نے گذشتہ سطور میں کیا ہے ۔ آئیے ایک بار پھر اس دعا کے الفاظ کا مطالعہ کرتے ہیں  اور پھر ان آیات کی تلاوت کرتے ہیں  جو اس دعاکا جواب معلوم ہوتی ہیں  ۔
سورۂ  بقرہ کی آیت 129 میں  ہے :
’’ اے ہمارے رب اور بھیج ان میں  ایک رسول انہی میں  سے جو ان پر تیری آیات تلاوت کرے ، انہیں  کتاب وحکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ فرمائے ۔ بے شک آپ ہی ہیں  زبردست اورحکمت والے ‘‘ ۔
اب پوری توجہ اور مکمل یکسوئی کے ساتھ سورۂ آل عمران آیت ۱۶۴ اور سورۂ جمعہ کی آیت ۲ کی تلاوت کرکے انہیں  سمجھنے کی کوشش کریں  ۔

لقدمن اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلو علیہم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانو من قبل لفی ضلل مبین  O

’’ بے شک ایمان لانے والوں  پر اللہ کا بڑا  احسان ہوا کہ ان میں  انہی میں  سے ایک رسول کو بھیجا جو ان پر اس کی آیات تلاوت کرتے ہیں  اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں  اور انہیں  کتاب وحکمت سکھاتے ہیں  ۔ اور  بالیقین یہ لوگ پہلے سے کھلی گمراہی میں  ( مبتلا ) تھے ۔( سورۂ آل عمران )

ھوالذی بعث فی الاُمین رسولا منھم یتلو علیہم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانو من قبل  لفی ضلل مبین O

’’ وہی ہے جس نے اُمی لوگوں  میں  ان ہی ( کی قوم ) میں  سے ایک پیغمبر کو بھیجا جو انپر اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں  اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں  اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں  ۔ اور  بالیقین یہ لوگ پہلے سے کھلی گمراہی میں  ( مبتلا ) تھے ۔( سورۂ جمعہ )
حضرت ابراہیم ؑنے مکہ المکرمہ میں  حضرت اسمٰعیل ؑ کے ساتھ مل کر دعا کی تھی کہ اے ہمارے رب ان میں  انہی میں  سے ایک رسول بھیج ۔
یہ دعا اس طرح پوری ہوتی ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ حضرت ابراہیم ؑکے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑکی اولاد میں  سے ہیں  ۔ حضرت ابراہیم ؑکے دو بیٹے تھے ۔ حضرت اسمٰعیل ؑ اور حضرت اسحق  ؑ۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں  کو نبوت عطا فرمائی ۔ حضرت اسحق  ؑکے دو بیٹے ہوئے ، عیص اور حضرت یعقوب ؑ ۔ حضرت یعقوب ؑکو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا ۔ حضرت یعقوب ؑکے بارہ بیٹے ہوئے ۔ جن میں  یہودہ ، لاوی ، حضرت یوسف ؑاور بن یامین بہت مشہور ہوئے ۔ ان بارہ بیٹوں  میں  اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا ۔ یہودہ کی اولاد میں  حضرت کالب ؑکو نبوت ملی ، حضرت یوسف ؑکی اولاد میں  حضرت یوشع  ؑکو نبوت ملی ، لاوی کی اولاد میں  حضرت موسیٰ  ؑ اور حضرت ہارون ؑکو نبوت ملی ۔ حضرت ہارون ؑکی اولاد میں  کئی نبی گزرے جن میں  حضرت طالوت ؑ، حضرت داؤد ؑ، حضرت سلیمان ؑ، حضرت الیاس ؑ، حضرت ذوالکفل ؑ، حضرت یونس ؑاور حضرت عزیر ؑشامل ہیں  ۔ حضرت ہارون ؑ کی اولاد میں  سے بنی اسرائیل کی نیک خاتون حنّہ پیدا ہوئیں  ۔ حنّہ کی بیٹی حضرت مریم تھیں  ۔ حضرت مریم ؑ کے خالو حضرت ذکریا ؑاور خالہ زاد بھائی حضرت یحییٰ  ؑکو بھی اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز کیا ۔ کنواری حضرت مریم ؑ کے بطن سے حضرت عیسی علیہ السلا م نے جنم لیا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت ابراہیم ؑکے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد کو ملنے والا سلسلہ نبوت تمام ہوا ۔ حضرت ابراہیم ؑکے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد میں  ڈھائی ہزار سال تک کسی کو نبوت عطا نہیں  ہوئی ۔ حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد میں  سے صرف عبدالمطلب کے پوتے اور عبداللہ کے بیٹے حضرت محمد ﷺ کو حضرت ابراہیم ؑکی وفات کے تقریباً ڈھائی ہزار برس بعد نبوت ملی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکی خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ مکرمہ میں  مانگی ہوئی دعا کو پورا کیا ۔ حضرت محمد ﷺ مکہ میں  پیدا ہوئے ۔ مکہ ہی میں  اپنی رسالت کا اعلان فرمایا اور مکہ ہی سے دعوت وتبلیغ کے مقدس کام کا آغاز فرمایا ۔
حضرت ابراہیم ؑکی دعا میں  آیات تلاوت کرنے کے بعد کتاب وحکمت سکھانے اور پھر تزکیہ کرنے کے الفاظ ہیں  جبکہ سورۂ آل عمران اور سورۂ جمعہ میں  اس ترتیب میں  کچھ تبدیلی نظر آتی ہے ۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بارے میں  اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں  کہ آپ ( ﷺ ) مومنین کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں  ۔ تزکیہ فرماتے ہیں  اور انہیں  کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔

ان آیات پر غور کرنے سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں  کے لئے جو طریقہ تعلیم عطا فرمایا گیا اس میں  آیات کی تلاوت کے بعد انسانوں  کے تزکیہ کا مرحلہ پہلے آتا ہے اور ان کو کتاب سکھانے اورحکمت عطا فرمانے کا مرحلہ بعد میں ۔
ان آیات سے ہمیں  یہ رہنمائی ملتی ہے کہ قرآنی ہدایات واحکامات کی روشنی میں  انسانوں  کے تزکیہ کا مرحلہ پہلے آتا ہے ۔ یعنی فرد اور معاشرے کی اصلاح اس طریقے  پر کی جائے جوقرآن کو مطلوب ہے ۔ جب معاشرتی بگاڑ ، خرابیاں  اور بیماریاں  قرآنی ہدایات اور رہنمائی کے زیراثر اقدامات سے دور ہوجائیں  اور افراد اور معاشرہ ایک ڈسپلن کے عادی ہوجائیں  تب ان کی اعلیٰ تعلیم ( ویعلمھم الکتاب ) کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔ یہ تعلیم لوگوں  میں علم وآگہی کے فروغ کے ساتھ ساتھ ان میں  بصیرت اور دانش کی افزائش کا سبب بھی بنے گی ۔
قرآن مجید کی ان آیات کی روشنی میں  معلم انسانیت ﷺ کے طریقہ تدریس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺ نے ایثار وقربانی ، جذبہ اخوت وبھائی چارے پر مبنی ایک منصفانہ منظم، متوازن اور مستحکم معاشرے کے قیام  کے لئے فرد کی شخصیت کی تعمیر اورکردار سازی کے لئے کتاب کی تعلیم دینے اور حکمت عطا فرمانے سے قبل انسانوں  کے تزکیہ کا اہتمام فرمایا ۔

موجود ہ دور میں  معاشرے کی مختلف خرابیوں  اور ان کے سدباب کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے ماہرین قوم میں  تعلیم کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں  ۔ مسائل کے حل کے لئے اور معاشرے کو منظم خطوط پر چلانے کے لئے تعلیم کے فروغ پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں ۔ تعلیم کے فروغ کے مطالبہ سے ہم بھی متفق ہیں  لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یقین ہے کہ صرف تعلیم کا فروغ پاکستانی معاشرے کو درپیش مسائل کا حل نہیں  ہے ۔ پاکستان میں  کراچی ، لاہور ، راولپنڈی ، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں  میں  آبادی کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ لوگوں  پر مشتمل ہے اس کے باوجود معاشرتی انتشار ، بے ہنگم پن اور کئی دوسری طرح کی خرابیاں  ہمیں  ان شہروں  میں  بھی واضح طورپر دکھائی دیتی ہیں  ۔ سوال یہ ہے کہ ان شہروں  میں  تعلیم کی فراوانی کے باوجود یہاں  ایسے بہت سے مسائل اور معاشرتی بگاڑ کیوں  موجود ہیں  ؟ ہماری نظر میں  ان معاشرتی خرابیوں  کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ اور تعلیمی ادارے علم توفراہم کررہے ہیں  لیکن یہاں  تزکیہ یعنی کردار سازی کی طرف کماحقہ توجہ نہیں  دی جارہی ۔ اگر ہمارے معاشرے کا نظامِ تعلیم قرآنی تعلیمات اور احکامات کے زیراثر ترتیب دیا جائے توپھر جو نسل ہمارے تعلیمی اداروں  سے تیار ہوکر نکلے گی وہ اعلیٰ تربیت یافتہ اور منظم ہوگی ۔

علوم کی کسی بھی شاخ یا زندگی کے کسی بھی شعبہ سے وابستہ کوئی فرد اگر کامیاب استاد یا معلم بننا چاہتا ہے تو اس کے لئے اللہ کی کتاب قرآن اور اللہ کے رسول محمد ﷺ کی حیات طیبہ میں  بھرپور اور مکمل ہدایت ورہنمائی موجود ہے۔ مونٹیسوری یا پرائمری ٹیچرہوں  یا سیکنڈری کلاسز کے اساتذہ ، کالج یا یونیورسٹی کے لیکچرار ہوں  یا پروفیسر عموماً یہ سب اپنے شاگردوں  کو علوم کی بہتر طورپر منتقلی کے خواہاں  ہوتے ہیں  ۔ اس مقصد کے لئے ایک استاد کا اپنے متعلقہ سبجیکٹ  پر زیادہ سے زیادہ عبور اور اس سبجیکٹ  کے حوالے سے تازہ ترین پیشرفت سے آگاہ UPDATE رہنا ، اپنی بات سمجھانے کے لئے عام فہم ، پرکشش اور دلنشین طرزتعلیم ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کلاس روم کے تمام طلبہ وطالبات کے مختلف ذہنی معیار MENTAL LEVELکے باعث وجود میں آنے والے مجموعی ماحول کوسمجھنا اور اس مجموعی ماحول کے ساتھ ساتھ کلاس روم میں موجود تمام نہیں  تو بیشتر طلبہ وطالبات کے انفرادی مزاج وافتاد طبع کو ذہن میں  رکھنا بھی ضروری ہے ۔ موجودہ دور میں  بہت سے تعلیمی اداروں  میں  جن میں  پرائمری ، سیکنڈری ، ہائر سیکنڈری اور یونیورسٹی کی سطح کے تعلیمی ادارے شامل ہیں  فی کلاس طالبعلموں  کی محدود تعداد کا کوئی خاص خیال نہیں  رکھا جارہا ۔ چنانچہ ایسے اداروں  میں  فی کلاس روم طالبعلموں  کی تعداد کہیں  چالیس ، کہیں  پچاس اور کہیں  اس سے بھی تجاوز کررہی ہے ۔ ایسی صورتحال میں  ہرطالبعلم پر انفرادی توجہ دینے کے معاملے میں  اساتذہ وقت کی کمی اور کام کی زیادتی کے باعث شدید دباؤ اور مشکلات کا شکار ہیں  ۔ مجھے اپنے مطب میں  کئی ایسے اساتذہ سے ملاقات کا موقع ملا جو معلمی کے فرائض انجام دینے کے باعث شدید جسمانی وذہنی تکان کا شکار تھے ۔ ان میں  سے کئی لو یا ہائی بلڈپریشر کے مریض بھی ہوگئے تھے ۔ میرے محدود مشاہدے کے مطابق ذہنی دباؤ یا لو بلڈپریشر کی شکایات خواتین اساتذہ میں  عام ہیں  ۔ ان شکایات کے عمومی اسباب بھی زیادہ تر کلاس روم کے ماحول ، حالات کار اور کام کے شدید دباؤ سے وابستہ ہیں  ۔ ایک خاتون نے جنہیں  ٹیچنگ کے شعبے سے اپنی وابستگی پر توفخر تھا لیکن وہ کلاس روم میں  طالبعلموں  کی کثیر تعداد کے باعث انہیں  انفرادی توجہ نہ دینے پر عدم اطمینان اور ذہنی خلش محسوس کرتی تھیں  ، مطب میں  تشریف لاکر مجھے اپنی صحت کی خرابی سے آگاہ کیا اور کوئی مفید نسخہ اور مشورہ طلب کیا ۔ میں  نے انہیں  چند مقوی اعصاب ادویہ کے ساتھ ساتھ کلرتھراپی کے اصولوں  پر نیلی شعاعوں  میں  تیارکردہ پانی کی خوراکیں  ، چند اسمائے الہٰیہ کا ورد ، چند قرآنی آیات کی تلاوت اور اس کے ساتھ ساتھ رات سونے سے قبل ایک مخصوص مراقبہ تجویز کیا ۔ ان کی کلاس میں  طالبعلموں  کی تعداد 54تھی اور وہ ان تمام طالبعلموں  کو انفرادی توجہ نہ دینے کے باعث اپنی کارکردگی سے مطمئن نہ تھیں  ۔ میں  نے ان کی خدمت میں  عرض کیا کہ وہ اپنی کلاس روم کے تمام طالبعلموں  کو پانچ یا چھ  گروپوں  میں  تقسیم کردیں  ۔ ہر گروپ میں  اعلیٰ ذہانت ، اوسط ذہانت اور کم ذہانت والے طالبعلموں  کو ایک ساتھ شامل کریں  ۔ چونکہ وقت کی کمی کے باعث اتنی بڑی کلاس میں  ہر طالبعلم پر انفرادی توجہ دینا ممکن نہیں  چنانچہ اس کا ازالہ اس طرح کریں  کہ انفرادی طورپر ہر طالبعلم کے بجائے ہر گروپ پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کردیں  ۔

محترم خاتون نے اس طریقہ کار پر عمل کرنے پر آمادگی ظاہر کی ۔ وہ ہر آٹھویں  دن مطب تشریف لاتیں  اور اپنی صحت اور کارکردگی کے بارے میں  بتاتیں  ۔ نیلی شعاعوں  میں  تیار کردہ پانی ، قرآنی آیات اور اسمائے الہٰیہ کے ورد اور مراقبہ کی برکت سے انہوں  نے نہ صرف خوداعتمادی میں  کئی گنا اضافہ محسوس کیا بلکہ ان کی ذہنی وجسمانی تکان ختم ہوکر ان کی معلمانہ صلاحیتوں  میں  بھی اضافہ ہوا ۔ اس کے ساتھ کلاس روم میں  چھوٹے چھوٹے گروپ بنادینے سے زیادہ سے زیادہ طالبعلموں  کو ان کی توجہ بھی ملنا شروع ہوگئی ۔  ان کے بقول ایک اور خاص بات یہ ہوئی کہ ہرگروپ کے ذہین طلبہ نے کم ذہین طلبہ کی مدد شروع کردی ۔ اس طرح وہ بھی سبق کو پہلے کے مقابلے میں  بہتر طورپر سمجھنے کے قابل ہوگئے ۔ میں  نے مختلف اوقات میں  ایسے ایک نہیں  کئی تجربات کئے ہیں  ۔ زندگی کا وسیع وعریض میدان خود بھی ایک لیبارٹری یا تجربہ گاہ ہے ۔ انسانی ذہن ، ارادہ اور رویے اس لیبارٹری میں  کام آنے والے مختلف عناصر ہیں  ۔ ان عناصر کے مختلف انداز اور مقداروں  میں  باہم تعامل سے جنم لینے والے ردعمل ان تجربات کے نتائج ہیں  ۔
ان محترم خاتون کے مسائل تو بڑی حد تک حل ہوگئے ۔ ان کے زیادہ سے زیادہ شاگردوں  کے لئے سبق کی تفہیم بھی آسان ہوگئی ۔ تاہم یہاں  ایک اہم سوال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں  میں  استاد کا کام شاگردوں  کو محض سبق پڑھادینا یا صرف علوم کی منتقلی یا کسی خاص مضمون سے متعلقہ معلومات فراہم کردینا ہے ؟ ان لوگوں  کے نزدیک جو ٹیچنگ کو دوسرے عمومی پیشوں  کی طرح محض ایک پیشہ سمجھتے ہیں  اس سوال کا جواب شاید ہاں  میں  ہو لیکن جو لوگ ٹیچنگ کو ایک عظیم اور قابل صدافتخار منصب سمجھتے ہیں  ان کے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں  ہوگا ۔ کیونکہ صرف کتابی سبق پڑھادینے یا کتابی علم کی منتقلی کے ذریعے اخلاق کی درستگی ، شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی کے تقاضے پورے نہیں  ہوتے ۔ امت محمدیہ کے نونہالوں  اور نوجوانوں  کی کردار کی تشکیل میں  اساتذہ کا بہت اہم اور مؤثر رول ہے ۔ اس رول کی اہمیت کے پیش نظر اساتذہ سے قوم کی توقعات بہت زیادہ ہیں ۔ اس رول کی بحسن وخوبی ادائیگی اور قوم کی توقعات کی تکمیل کے لئے ’’ استاد ‘‘ کو ہمہ وقت ذاتی تربیت ، مزید علم کے حصول ، خوداحتسابی کے مراحل سے گزرتے رہنا ضروری ہے ۔ معلمی کے عظیم کام کو سنت رسول ﷺ کے پیروی کے طورپر قبول کیا جائے تو معلم کی شخصیت اور طرزعمل کو نورالہیٰ اور نور نبوت ﷺ کی روشن کرنوں  سے منور وتابناک نظر آناچاہئے ۔ بطور معلم حضور ﷺ کا طرزعمل مختلف اوصاف اور جہتوں  کا حامل ہے ۔ اس بات کی وضاحت کے لئے یہاں  میں  آپ کو ایک بار پھر سورۂ آل عمران اورسوۂ جمعہ میں  مذکور نکات کی متعلقہ آیات کی طرف  متوجہ کروں  گا ۔


  1. آیات کی تلاوت : اللہ کا پیغام انسانوں  تک پہنچانا
  2. لوگوں  کا تزکیہ : عوام وخواص کی اصلاح ، ان کے اخلاق کی درستگی ، کردار سازی ۔
  3. کتاب کی تعلیم : قرآن پاک میں  بیان کردہ علوم کی تعلیم اور دنیاوی علوم کے حصول کی ترغیب ۔
  4. حکمت : لوگوں  کو اللہ کا پیغام پہنچاکر ان کی اصلاح کرکے اور انہیں  زیورتعلیم سے آراستہ کرنے  کے بعد ان میں  بصیرت ودانش مندی کے اوصاف پیدا کرنا ۔


آج کے دور کا وہ استاد یا معلم جو دنیا کے سب سے بڑے انسان اور معلم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے معلمی کے فرائض انجام دینا چاہے ، اسے چاہئے کہ وہ اپنی شخصیت میں  مندرجہ بالا چار صفات پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرے ۔

  1. مبلغ
  2. مصلح
  3. معلم
  4. دانش وبصیرت عطا کرنے والا

ان خصوصیات کے حامل استاد کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں  اور فرائض کی انجام دہی کے لئے اپنی ذات کو تمام ضروری اوصاف سے مزین کرے ۔ چنانچہ

بطور مبلغ

بطور مبلغ اسے نوع انسانی کے شعوری ارتقاء اور موجودہ  ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کی تعلیم پر توجہ دینی ہوگی ۔ ایک مسلمان معلم کاقرآن کے ساتھ مسلسل تعلق استوار رکھنا ضروری ہے ۔

بطور مصلح 

بطور مصلح ماحول کی تبدیلی کے زیراثر اپنے شاگردوں  کے  ذہنی رویوں  ، مختلف معاملات پر ان کی سوچ اور ردعمل سے آگاہ رہنا چاہئے ۔

بطور معلم

ایک معلم کے لئے نسلی فاصلہ GENERATION GAP  بالکل بے معنی چیز ہونی چاہئے ۔ اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں  کہ استاد اپنی عمر کے فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والی لازمی اور فطری  ذہنی تبدیلیوں  کا راستہ روک دے ۔ یہ تو خود ایک خلاف فطرت بات ہوگی ۔ جنریشن گیپ پیدا نہ ہونے دینے سے مراد یہ ہے کہ پختہ عمر کا استاد بچوں  اور نوجوانوں  کی  ذہنی اپروچ کوسمجھنے کی کوشش کرے اور ان کے فطری تقاضوں  اور  ذہنی رویوں  کی بلاوجہ مخالفت اور مزاحمت نہ کرے ۔ عمر کے مطابق ان کے مسائل ، ترجیحات ، پسند وناپسند کو سمجھتے ہوئے اور دین کے ساتھ لگاؤ اور محبت ، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ تعلق وعشق ، صداقت ، امانت ، شجاعت کے اوصاف ، ملت ومعاشرہ کے ساتھ تعلق ،عملی جدوجہد ، تعمیر وترقی ، نظم وضبط اور وقت کی پابندی کے اوصاف پیدا کرنے کی کوششیں ، بہت محبت اپنائیت اور نرم روی کے ساتھ کی جائیں  ۔ آپ کی یہ تمام کوششیں  شاگرد کی ذات کی اصلاح اور ان کے اخلاق کی درستگی کے ضمن میں  آئیں  گی ۔ -3بطور معلم ، شاگرد کی اصلاح کے بعد یا اس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسے علم کی منتقلی کا مرحلہ ہے ۔ اس کے بارے میں  یہاں  تفصیلی اظہار خیال کی ضرورت نہیں  کیونکہ ہمارے ہاں  عموماً علم کی منتقلی پر ہی زیادہ زور دیا جاتا رہا ہے ۔ اس کی اہمیت پہلے ہی واضح کی جاتی رہی ہے ۔

بطور دانشور

بصیرت ودانش کیا ہے ؟ ایک نکتہ غور طلب ہے کہ علم وآگہی اور بصیرت ودانش ایک ہی چیز ہیں ؟
اس کا جواب نفی میں  ہے ۔ یہ ہرگز ضروری نہیں  کہ ایک میٹرک پاس یا ایک گریجویٹ عملی زندگی کے مختلف معاملات اور مسائل سے نمٹنے کے لئے خاطر خواہ بصیرت اور دانش کا حامل بھی ہو ۔ ہم نے اپنے معاشرے میں  بہت سے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں  جنہوں  نے واجبی سی تعلیم حاصل کی لیکن عملی زندگی میں  ان کا طرزعمل بصیرت ودانش سے بھرپور رہا ۔ سیدنا غوث الاعظم دستگیرؒ کی والدہ ، خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی والدہ ، سرسید احمد کی والدہ ، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی اماں  بی ، قدرت اللہ شہاب کی ماں  جی ، خواجہ شمس الدین عظیمی کی آپا جی ، ؒ اس کی چندمثالیں  ہیں  ۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی چاہے اور کوشش کرے توعلم وآگہی یعنی تعلیم سے بصیرت ودانش کا حصول آسان ہوجاتا ہے ۔ استاد کی ذمہ داریاں  اپنے شاگرد کو علم کی بحسن وخوبی منتقلی پر ختم نہیں  ہوجاتیں  علم کی منتقلی کے بعد شاگرد میں  بصیرت و دانشمندی یعنی علم وتدبر پیدا کرنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔
سلسلہ عظیمیہ کے امام حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اسی طریقہ تعلیم کے تحت اپنے شاگرد خواجہ شمس الدین عظیمی کی تربیت اور تعلیم فرمائی ۔ عظیمی صاحب نے سنت نبویﷺ کے مطابق اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علوم کے وارث اولیائے کرام رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کی پیروی میں  اپنے شاگردوں  کے لئے یہی طریقہ تعلیم اختیار کیا ۔ موجودہ علمی اور سائنسی دور میں  نوع انسانی کو درپیش گوناگوں  مسائل کاسبب قرآن سے دوری کو قرار دیتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لئے حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے لوگوں کو قرآن پاک اور رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی حاصل کرنے اور قرآنی علوم میں  تفکر کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کے بتائے ہوئے طریقوں  سے لوگ انفرادی طورپر بھی استفادہ کرسکتے ہیں  اور طبقاتی و اجتماعی طورپر بھی ۔ زیرنظرمضمون میں  خواجہ شمس الدین عظیمی کی تعلیمات سے اکتساب فیض کرتے ہوئے قوم کے معمار طبقہ یعنی اساتذہ کرام کے لئے ذہنی صلاحیتوں  میں  اضافہ کے لئے چند مشقیں  تجویز کررہے ہیں  ۔ ان مشقوں  کے نتیجے میں  ذہنی صلاحیتوں  میں  ہونے والے اضافہ سے توقع ہے کہ اساتذہ میں  کام کے دباؤ کے باوجود ذہنی اور اعصابی تکان کی کیفیت پیدا نہیں  ہوگی ۔ اساتذہ کی ذہنی صلاحیتوں  میں  یہ اضافہ استاد و شاگرد  ریلیشن شپ کے بہتر قیام ، شاگردوں  کی اصلاح ، شاگردوں  کو علوم کی منتقلی اور ان میں  بصیرت ودانش کے اوصاف پیدا کرنے میں  ممد ومعاون ہوگا۔ بطور استاد مخلصانہ طورپر آپ اپنے شاگردوں  میں  یہ تاثر اور یقین پیدا کردیں  کہ آپ کو ان کی ذات سے بہت محبت ہے اور آپ ان کی ذات کو بہترین اوصاف سے بہرہ ور اور انہیں  زندگی میں  کامیاب وکامران دیکھنے کے خواہشمند ہیں  اور یہ کہ آپ کی تمام کوششوں  کا محور اپنے طالبعلموں  کا روشن مستقبل ہے ۔ اپنے شاگردوں  میں  یہ احساس پیدا ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ خود دیکھ لیں  گے کہ شاگرد کس طرح آپ کی محبت کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں ۔ آپ کی شخصیت سے کس قدر متاثر ہوتے ہیں  اور ان میں  سے کتنے ہی آپ کو اپنا آئیڈیل قرار دینے لگیں  گے ۔

ان مشقوں  میں  قرآنی آیات ، اسمائے الہٰیہ ، درودشریف کا ورد اورمراقبہ شامل ہیں  ۔

قرآنی آیت ( سورۂ قمر آہت 17)

ولقد یسرناالقرآن للذکر فھل من مدکر



درود خضری

صلی اللہ تعالیٰ علی حبیبہ محمد وسلم 


اسمائے الہٰیہ

یا علیمُ  یا فتّاحُ یا خبیر 

صبح فجر کی نماز کے بعد یا رات کو سونے سے پہلے ایسے کمرہ میں  جہاں  اندھیرا  ہو یا بہت کم روشنی ہو تخت پر یا فرش پر روئی کا گدا  اور چادر بچھاکر بیٹھ جائیں  ۔ کسی خاص انداز نشست کی کوئی پابندی نہیں  ہے ۔ دو زانو ہوکر ، آلتی پالتی مارکر دونوں  ہاتھ کی کلائیاں   گھٹنوں  پر رکھ کرجس طرح بھی آپ آرام دہ اور بہتر محسوس کریں  بیٹھ جائیں  ۔ دو تین منٹ تک گہرے گہرے سانس لیں  ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ناک سے ایک لمبا سانس لیں  اور پھیپھڑوں  کو زیادہ سے زیادہ ہوا سے بھرلیں  ۔ چند سیکنڈ تک سانس روکے رکھیں  پھر دونوں  ہونٹوں  کو گولائی میں  لاکر اس طرح جیسے سیٹی بجاتے ہیں  ، آہستہ آہستہ سانس باہر نکال دیں  ۔ جب پھیپھڑے ہوا سے کافی حد تک خالی ہوجائیں  تو ایک دوسیکنڈ تک توقف کریں  اور دوبارہ ناک سے سانس اندر لیں  اور پہلے کی طرح سارے عمل کو دہرائیں  ۔ اس طرح شروع کے چند دنوں  میں  تین سے پانچ بار کریں  پھر آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھاتے رہیں  اور چند دنوں  میں  زیادہ سے زیادہ تعداد  اکیس تک لے جائیں  ۔ سانس کی مشق کے بعد قرآنی آیت ولقد یسرناالقرآن للذکر فھل من مدکر اکتالیس بار پڑھیں  ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اسماء  یا علیم ُ یافتّاح ُ یاخبیر ایک سو ایک بار پڑھیں ۔ اس کے بعد اکیس بار دورد خضری ﷺ کا ورد کریں  ۔ درود شریف کے بعد نیلی روشنی کا مراقبہ شروع کریں  ۔
اندازاً  دس منٹ تک مراقبہ کریں  ۔ مراقبہ کے بعد چند منٹ تک گدے پر بیٹھے رہیں  اور پھر اٹھ جائیں  ۔ رات کا وقت ہو تو مراقبہ کے بعد سونے کے لئے بستر پر جاسکتے ہیں  ۔ سونے سے قبل بات چیت کرنے ، مطالعہ کرنے یا کوئی اور کام کرنے پر کوئی پابندی نہیں  ہے ۔ صبح کا وقت ہو تو مراقبہ کے بعد ہلکی جسمانی ورزش بھی کی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد دیگر کام کاج میں  مشغول ہوجائیں  ۔ اگر صبح کے وقت مراقبہ کریں  تو مراقبہ کے بعد سونے سے گریز  کریں  ۔ صبح مراقبہ ناشتہ سے قبل کریں  اور رات کو کھانا کھانے کے ڈھائی گھنٹے بعد مراقبہ کریں  ۔ مراقبہ میں  آنکھیں بند کرکے یہ تصور کریں  کہ آپ نیلے رنگ کے ماحول میں  بیٹھے ہوئے ہیں  جیسا کہ کمرے میں نیلے رنگ کا بلب یا نیلے رنگ کی ٹیوب لائٹ سے کمرے کے ماحول میں  نیلا رنگ غالب آجاتا ہے ۔

صبح شام اکیس بار اسمائے الہٰی یا علیمُ یا فتّاحُ یا خبیر پڑھ کر ایک ٹیبل اسٹون شہد پر دم کرکے پئیں  ۔



اس مضمون کے اسکین شدہ صفحات ملاحظہ فرمائیں


یہ تحریر روحانی ڈائجسٹ ستمبر 1999ء   کے شمارے میں شائع ہوچکی ہے .....
ان شمارے اسکین شدہ صفحات ملاحظہ فرمائیں






   

اس مضمون کے متعلق اپنے تاثرات سے آگاہ کریں

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے