شاہ تراب الحق قادریؒ
ایک بہت بڑے عالم ، صوفی منش، اعلیٰ صفت انسان شاہ تراب الحق نے جمعرات 6اکتوبر مطابق4 محرم الحرام 1438ھ کو اس جہانِ فانی سے رحلت فرمائی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
عاشقانِ رسول کے محترم گروہ کے ایک ممتاز رکن، طریقت میں قادری نسبت کے حامل ، اپنے استادوں کے نہایت با ادب شاگرد اور اپنے شاگردوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ ۔ موت العالِم موت العالَم کے مصداق، شاہ تراب الحقؒ کی وفات کسی ایک مسلک ، کسی ایک طبقے کا نقصان نہیں بلکہ ساری امت کا نقصان ہے۔
شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ ایک بڑے عالم دین تھے۔ مقرر ایسے کہ بیان سنتے ہوئے سامعین کے ذہنوں میں علم کی کرنیں پھوٹیں اور قلب وجاں کو منور کرتی جائیں۔ شخصی وجاہت اور ایک خاص لہجہ اس پر مستزاد ۔ حضرت ؒ کا بیان کبھی کسی ندی کی دھیمی روانی محسوس ہوتا تو کبھی دریا کی شوریدہ سرلہروں کی طرح۔
رحلت کی خبر سن کر جمعرات کی دوپہر میں شاہ صاحبؒ کی رہائش گاہ پہنچا تو وہاں سوگواران بڑی تعداد میں موجود تھے۔ شاہ صاحب ؒکے فرزند اور جانشین شاہ عبدالحق اور دیگر صاحبزادگان سوگواروں سے مل رہے تھے۔ حضرت کے دیرینہ رفیق حاجی حنیف طیب نمازِ جنازہ اور تدفین کے انتظامات پر اپنے ساتھیوں سے بات چیت کررہے تھے ، تھوڑی دیر میں مفتی منیب الرحمن بھی تعزیت اور ایصالِ ثواب کے لیے وہاں تشریف لے آئے۔
کسی سعادت مند شخص کے بڑھاپے کی عمر میں بھی اس کے والد یا والدہ کا انتقال اُس کے لیے انتہائی دکھ اور صدمہ کا سبب ہوتا ہے۔ میں نے ساٹھ، ستر سالہ کئی افراد کو بھی اپنے والد یا والدہ کی وفات پر صدمے میں جاتے اور ذہنی طور پر بکھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ والدین کا ادب ، ان کی چاہت مشرقی معاشروں کی اعلیٰ روایات کا حصہ ہے۔ دین اسلام نے تو والدین کی عزت و احترام کو ہر مسلمان کے لیے لازم قرار دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ ، سورۂ النسا، سورہ ٔ انعام ، سورۂ بنی اسرائیل میں والدین کے حقوق خود اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔ ماں باپ سے محبت اور ان سے اظہارِ محبت ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت کے لیے سعادت اور نیکیوں کا ذریعہ ہے۔
ایک ایسے گھرانے میں جو دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے معروف ہو، والدین کے ادب و احترام ، محبت و عظمت کا کیا عالم ہوگا اور ایسے گھرانے کے افراد کے لیے والدین میں سے کسی کی جدائی کتنے شدید دکھ کا سبب ہوگی۔ دکھ اور مصیبت کی گھڑیوں میں تکلیف محسوس ہونا ایک فطری ردِعمل ہے۔ ایک بہت بڑے عالم، مصنف، مقرر، استاد اور مرشد کی وفات تو بے شمار لوگوں کے لیے ایک اجتماعی دکھ ہے۔ اس قسم کے دکھ دوسرے کئی دکھوں سے کچھ مختلف طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسے دکھ اپنے متاثرین کو طویل عرصے تک اپنے حصار میں لیے رہتے ہیں۔
مرشد اور مرید کا تعلق دنیا کا ایک منفرد ، بہت گہرا اور پختہ تعلق ہے۔ اس تعلق میں مرید کے قلب کی ڈور مرشد کے قلب سے بندھی ہوتی ہے۔ گویا یہ ایک منفرد قلبی تعلق ہے۔ یہ تعلق ترقی کرتا رہے تو روحانی تعلق میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں مرید اپنے مرشد کے ساتھ ناصرف ذہنی بلکہ قلبی اور روحانی طور پر بھی وابستہ ہوجاتا ہے۔ مادی لحاظ سے قربت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جسمانی لحاظ سے دوری بھی اس تعلق کی ترقی میں حائل نہیں ہوتی، مکانی فاصلے قلبی اور روحانی تعلق میں مزاحم نہیں ہوپاتے۔ تاہم اس دنیا میں آنے والا ہر انسان چونکہ جسم اور روح کا مجموعہ ہے اس لیے مادی تقاضے بھی اپنی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ مرشد کا دیدار، مرشد کی قربت، مرید کی تربیت اور تعلیم کے لیے ضروری ہے۔
ساتھ ہی مرید کی تسکینِ قلب کا سامان بھی ہے۔ مرشد کی رحلت تو مریدوں کے لیے مادی لحاظ سے ایک بہت بڑا پردہ اور بہت بڑا صدمہ ہے۔ اللہ پر ایمان رکھنے والے، حضرت محمد رسول اللہﷺ کی اطاعت و اتباع کرنے والے زندگی کے مختلف مراحل میں نشیب یا فراز میں، خوشی یا دکھ میں، کشادگی یا تنگی میں، آزمائش یا انعام میں، صحت یا بیماری میں، پیدائش یا موت پر ، غرض ہر حال اور ہر لمحے راضی بہ رضا رہتے ہیں۔ شاہ تراب الحق ؒ کی وفات اُن کے اہلِ خانہ، لاتعداد مریدوں اور عقیدت مندوں کے لیے شدید صدمے کا سبب بنی تاہم اس دکھ کا سامنا اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے احکامات کے تحت صبر کے ساتھ کیا گیا۔
حضرت شاہ تراب الحقؒ کی شخصیت میں وجاہت کے ساتھ ساتھ بہت اپنائیت بھی تھی۔ ان سے چند گھڑی کے لیے مل کر بھی بندہ ان کی محبت اپنے دل میں محسوس کر نے لگتا تھا۔ وہ اپنائیت اور اخلاص کا پیکر ، منکسر المزاج اور نفیس الطبع شخصیت کے مالک تھے۔ شاہ صاحبؒ سے میری پہلی ملاقات غالباً 1980ء یا 1981ء میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد بہت زیادہ تو نہیں لیکن بہرحال ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے ہر مرتبہ ان کی ذات میں مختلف صفات کا مشاہدہ کیا۔ کسی لمحے وہ مجھے بہت بے قرار و بے تاب نظر آتے تو اگلے لمحے بہت پرسکون اور مطمئن ۔ حصولِ علم کا مطلب شاہ صاحبؒ کے نزدیک علم کی جستجو، تلاش و تحقیق تھا۔
برسوں پرانی بات ہے ایک دن میں کراچی کے علاقے بہادرآباد میں واقع دارالعلوم امجدیہ میں شاہ صاحب سے ملنے گیا۔ اس وقت وہاں حاجی حنیف طیب صاحب بھی موجود تھے۔ اس ملاقات کے دوران مدرسے کے چند طلبہ بھی مختلف سوالات لیے شاہ صاحبؒ کے پاس آتے رہے۔ ان طالب علموں کو شاہ صاحبؒ نے اس وقت پوچھے گئے سوالات کے جواب تو دیے لیکن ساتھ ہی وہ دیگر کئی نکات بیان کرکے طلبہ کی ذہن سازی بھی کرتے جاتے تھے۔
شاہ صاحب طالب علموں کو کتاب سے تعلق کی اہمیت بھی سمجھا رہے تھے، ساتھ ہی یہ بھی بتارہے تھے کہ کسی مسئلے کی مبادیات سمجھنے کے لیے دیگر کئی متعلقہ نکات بھی نظر میں ہونے چاہئیں۔ شاہ صاحب ؒ بعض اوقات انتہائی کم الفاظ میں کوئی ایسی بات کہہ دیتے جو بہت بڑے معانی لیے ہوئے ہوتی۔ شاہ تراب الحق ؒ کی ایک نمایاں خوبی دینی و دنیاوی معاملات میں اعتدال و توازن تھی۔ آپ عالمِ دین بھی تھے اور مبلغ و مقرر بھی اور آپ قومی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی سینڈیکٹ کے رکن اور کراچی میں انسدادِ جرائم کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ کئی فلاحی اور علمی تنظیموں کے سرپرست، ناظم یا رکن بھی رہے۔ شاہ تراب الحقؒ نے تفسیر، حدیث ، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر کئی کتابیں تحریر کیں۔ شاہ تراب الحق ؒ گزشتہ پچیس سال سے زائد عرصہ سے ہر سال بارہ ربیع الاوّل کو کراچی میں میلاد النبیؐ کے مرکزی جلوس کی قیادت کررہے تھے۔
شاہ تراب الحق ؒ عالم بھی تھے اور صوفی بھی۔ احمد جاوید ہمارے عہد کے ایک بڑے مفکر، ماہرِ اقبالیات ، ادیب و شاعر ، اسرارِ تصوف کے شناسا ہیں۔ چند برس پرانی بات ہے ایک دن محترم احمد جاوید کو میں نے ایک مجلس میں کہتے سنا کہ حضرت شاہ تراب الحقؒ کے عالم ہونے کو تو ایک دنیا مانتی ہے، البتہ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ عالم زیادہ بڑے ہیں یا صوفی۔۔۔۔۔۔
شاہ تراب الحقؒ کی نمازِ جنازہ کے اجتماع کو پاکستان میں نماز ہائے جنازہ کے بڑے اجتماعات میں شمار کیا جائے گا۔اس نمازِ جنازہ کی امامت حضرتؒ کے صاحبزادے شاہ عبدالحق قادری نے کی۔ جماعت اہلسنت پاکستان کے مرکزی امیر علامہ مظہر سعید کاظمی اور مفتی منیب الرحمن نے دعا کروائی۔ تدفین آپ کے اُستاد حضرت قاری مصلح الدین ؒ صدیقی کی قبر کے پہلو میں کی گئی۔ حضرت شاہ تراب الحق قادریؒ نے اپنے مرشد حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خان ؒ اور اپنے استاد قاری مصلح الدین صدیقی ؒ کے مشن کو ساری زندگی نہایت دلجمعی اور استقلال کے ساتھ جاری رکھا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ شاہ تراب الحق قادریؒ کی مغفرت ہو، انھیں جنت میں اعلیٰ درجات عطا ہوں، حضرت محمد رسول اللہﷺ کی شفاعت اور قربت نصیب ہو۔ آپ کے صاحبزادگان،صاحبزادیوں،رشتہ داروں، مریدوں، احباب اور دیگر متعلقین کو صبرِ جمیل عطا ہو ۔آپ کے شروع کیے ہوئے سب اچھے کام جاری رہیں ۔ (آمین)
شاہ تراب الحق قادریؒ
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روزنامہ ایکسپریس
منگل 11 اکتوبر 2016
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
عاشقانِ رسول کے محترم گروہ کے ایک ممتاز رکن، طریقت میں قادری نسبت کے حامل ، اپنے استادوں کے نہایت با ادب شاگرد اور اپنے شاگردوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ ۔ موت العالِم موت العالَم کے مصداق، شاہ تراب الحقؒ کی وفات کسی ایک مسلک ، کسی ایک طبقے کا نقصان نہیں بلکہ ساری امت کا نقصان ہے۔
شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ ایک بڑے عالم دین تھے۔ مقرر ایسے کہ بیان سنتے ہوئے سامعین کے ذہنوں میں علم کی کرنیں پھوٹیں اور قلب وجاں کو منور کرتی جائیں۔ شخصی وجاہت اور ایک خاص لہجہ اس پر مستزاد ۔ حضرت ؒ کا بیان کبھی کسی ندی کی دھیمی روانی محسوس ہوتا تو کبھی دریا کی شوریدہ سرلہروں کی طرح۔
رحلت کی خبر سن کر جمعرات کی دوپہر میں شاہ صاحبؒ کی رہائش گاہ پہنچا تو وہاں سوگواران بڑی تعداد میں موجود تھے۔ شاہ صاحب ؒکے فرزند اور جانشین شاہ عبدالحق اور دیگر صاحبزادگان سوگواروں سے مل رہے تھے۔ حضرت کے دیرینہ رفیق حاجی حنیف طیب نمازِ جنازہ اور تدفین کے انتظامات پر اپنے ساتھیوں سے بات چیت کررہے تھے ، تھوڑی دیر میں مفتی منیب الرحمن بھی تعزیت اور ایصالِ ثواب کے لیے وہاں تشریف لے آئے۔
کسی سعادت مند شخص کے بڑھاپے کی عمر میں بھی اس کے والد یا والدہ کا انتقال اُس کے لیے انتہائی دکھ اور صدمہ کا سبب ہوتا ہے۔ میں نے ساٹھ، ستر سالہ کئی افراد کو بھی اپنے والد یا والدہ کی وفات پر صدمے میں جاتے اور ذہنی طور پر بکھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ والدین کا ادب ، ان کی چاہت مشرقی معاشروں کی اعلیٰ روایات کا حصہ ہے۔ دین اسلام نے تو والدین کی عزت و احترام کو ہر مسلمان کے لیے لازم قرار دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ ، سورۂ النسا، سورہ ٔ انعام ، سورۂ بنی اسرائیل میں والدین کے حقوق خود اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔ ماں باپ سے محبت اور ان سے اظہارِ محبت ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت کے لیے سعادت اور نیکیوں کا ذریعہ ہے۔
ایک ایسے گھرانے میں جو دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے معروف ہو، والدین کے ادب و احترام ، محبت و عظمت کا کیا عالم ہوگا اور ایسے گھرانے کے افراد کے لیے والدین میں سے کسی کی جدائی کتنے شدید دکھ کا سبب ہوگی۔ دکھ اور مصیبت کی گھڑیوں میں تکلیف محسوس ہونا ایک فطری ردِعمل ہے۔ ایک بہت بڑے عالم، مصنف، مقرر، استاد اور مرشد کی وفات تو بے شمار لوگوں کے لیے ایک اجتماعی دکھ ہے۔ اس قسم کے دکھ دوسرے کئی دکھوں سے کچھ مختلف طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسے دکھ اپنے متاثرین کو طویل عرصے تک اپنے حصار میں لیے رہتے ہیں۔
مرشد اور مرید کا تعلق دنیا کا ایک منفرد ، بہت گہرا اور پختہ تعلق ہے۔ اس تعلق میں مرید کے قلب کی ڈور مرشد کے قلب سے بندھی ہوتی ہے۔ گویا یہ ایک منفرد قلبی تعلق ہے۔ یہ تعلق ترقی کرتا رہے تو روحانی تعلق میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں مرید اپنے مرشد کے ساتھ ناصرف ذہنی بلکہ قلبی اور روحانی طور پر بھی وابستہ ہوجاتا ہے۔ مادی لحاظ سے قربت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جسمانی لحاظ سے دوری بھی اس تعلق کی ترقی میں حائل نہیں ہوتی، مکانی فاصلے قلبی اور روحانی تعلق میں مزاحم نہیں ہوپاتے۔ تاہم اس دنیا میں آنے والا ہر انسان چونکہ جسم اور روح کا مجموعہ ہے اس لیے مادی تقاضے بھی اپنی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ مرشد کا دیدار، مرشد کی قربت، مرید کی تربیت اور تعلیم کے لیے ضروری ہے۔
ساتھ ہی مرید کی تسکینِ قلب کا سامان بھی ہے۔ مرشد کی رحلت تو مریدوں کے لیے مادی لحاظ سے ایک بہت بڑا پردہ اور بہت بڑا صدمہ ہے۔ اللہ پر ایمان رکھنے والے، حضرت محمد رسول اللہﷺ کی اطاعت و اتباع کرنے والے زندگی کے مختلف مراحل میں نشیب یا فراز میں، خوشی یا دکھ میں، کشادگی یا تنگی میں، آزمائش یا انعام میں، صحت یا بیماری میں، پیدائش یا موت پر ، غرض ہر حال اور ہر لمحے راضی بہ رضا رہتے ہیں۔ شاہ تراب الحق ؒ کی وفات اُن کے اہلِ خانہ، لاتعداد مریدوں اور عقیدت مندوں کے لیے شدید صدمے کا سبب بنی تاہم اس دکھ کا سامنا اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے احکامات کے تحت صبر کے ساتھ کیا گیا۔
حضرت شاہ تراب الحقؒ کی شخصیت میں وجاہت کے ساتھ ساتھ بہت اپنائیت بھی تھی۔ ان سے چند گھڑی کے لیے مل کر بھی بندہ ان کی محبت اپنے دل میں محسوس کر نے لگتا تھا۔ وہ اپنائیت اور اخلاص کا پیکر ، منکسر المزاج اور نفیس الطبع شخصیت کے مالک تھے۔ شاہ صاحبؒ سے میری پہلی ملاقات غالباً 1980ء یا 1981ء میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد بہت زیادہ تو نہیں لیکن بہرحال ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے ہر مرتبہ ان کی ذات میں مختلف صفات کا مشاہدہ کیا۔ کسی لمحے وہ مجھے بہت بے قرار و بے تاب نظر آتے تو اگلے لمحے بہت پرسکون اور مطمئن ۔ حصولِ علم کا مطلب شاہ صاحبؒ کے نزدیک علم کی جستجو، تلاش و تحقیق تھا۔
برسوں پرانی بات ہے ایک دن میں کراچی کے علاقے بہادرآباد میں واقع دارالعلوم امجدیہ میں شاہ صاحب سے ملنے گیا۔ اس وقت وہاں حاجی حنیف طیب صاحب بھی موجود تھے۔ اس ملاقات کے دوران مدرسے کے چند طلبہ بھی مختلف سوالات لیے شاہ صاحبؒ کے پاس آتے رہے۔ ان طالب علموں کو شاہ صاحبؒ نے اس وقت پوچھے گئے سوالات کے جواب تو دیے لیکن ساتھ ہی وہ دیگر کئی نکات بیان کرکے طلبہ کی ذہن سازی بھی کرتے جاتے تھے۔
شاہ صاحب طالب علموں کو کتاب سے تعلق کی اہمیت بھی سمجھا رہے تھے، ساتھ ہی یہ بھی بتارہے تھے کہ کسی مسئلے کی مبادیات سمجھنے کے لیے دیگر کئی متعلقہ نکات بھی نظر میں ہونے چاہئیں۔ شاہ صاحب ؒ بعض اوقات انتہائی کم الفاظ میں کوئی ایسی بات کہہ دیتے جو بہت بڑے معانی لیے ہوئے ہوتی۔ شاہ تراب الحق ؒ کی ایک نمایاں خوبی دینی و دنیاوی معاملات میں اعتدال و توازن تھی۔ آپ عالمِ دین بھی تھے اور مبلغ و مقرر بھی اور آپ قومی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی سینڈیکٹ کے رکن اور کراچی میں انسدادِ جرائم کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ کئی فلاحی اور علمی تنظیموں کے سرپرست، ناظم یا رکن بھی رہے۔ شاہ تراب الحقؒ نے تفسیر، حدیث ، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر کئی کتابیں تحریر کیں۔ شاہ تراب الحق ؒ گزشتہ پچیس سال سے زائد عرصہ سے ہر سال بارہ ربیع الاوّل کو کراچی میں میلاد النبیؐ کے مرکزی جلوس کی قیادت کررہے تھے۔
شاہ تراب الحق ؒ عالم بھی تھے اور صوفی بھی۔ احمد جاوید ہمارے عہد کے ایک بڑے مفکر، ماہرِ اقبالیات ، ادیب و شاعر ، اسرارِ تصوف کے شناسا ہیں۔ چند برس پرانی بات ہے ایک دن محترم احمد جاوید کو میں نے ایک مجلس میں کہتے سنا کہ حضرت شاہ تراب الحقؒ کے عالم ہونے کو تو ایک دنیا مانتی ہے، البتہ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ عالم زیادہ بڑے ہیں یا صوفی۔۔۔۔۔۔
شاہ تراب الحقؒ کی نمازِ جنازہ کے اجتماع کو پاکستان میں نماز ہائے جنازہ کے بڑے اجتماعات میں شمار کیا جائے گا۔اس نمازِ جنازہ کی امامت حضرتؒ کے صاحبزادے شاہ عبدالحق قادری نے کی۔ جماعت اہلسنت پاکستان کے مرکزی امیر علامہ مظہر سعید کاظمی اور مفتی منیب الرحمن نے دعا کروائی۔ تدفین آپ کے اُستاد حضرت قاری مصلح الدین ؒ صدیقی کی قبر کے پہلو میں کی گئی۔ حضرت شاہ تراب الحق قادریؒ نے اپنے مرشد حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خان ؒ اور اپنے استاد قاری مصلح الدین صدیقی ؒ کے مشن کو ساری زندگی نہایت دلجمعی اور استقلال کے ساتھ جاری رکھا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ شاہ تراب الحق قادریؒ کی مغفرت ہو، انھیں جنت میں اعلیٰ درجات عطا ہوں، حضرت محمد رسول اللہﷺ کی شفاعت اور قربت نصیب ہو۔ آپ کے صاحبزادگان،صاحبزادیوں،رشتہ داروں، مریدوں، احباب اور دیگر متعلقین کو صبرِ جمیل عطا ہو ۔آپ کے شروع کیے ہوئے سب اچھے کام جاری رہیں ۔ (آمین)
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روزنامہ ایکسپریس
منگل 11 اکتوبر 2016
Source Link