پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ڈان میں 6 اکتوبرکو شایع ہونے والی ایک خبر سے ہر طرف گویا بھونچال سا آگیا۔ پرائم منسٹر ہاؤس سے اس خبرکی تردیدیں جاری کی گئیں تاہم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس خبر پر اور اس سے متعلقہ دیگر موضوعات پرتبصرے اور تجزیے شروع ہوگئے۔ 10اکتوبر کو حکومت پاکستان نے خبر دینے والے رپورٹر سرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا۔
حکومت کا یہ اقدام ناصرف پاکستان بلکہ عالمی میڈیا میں بھی نمایاں طور پر شایع اور نشر ہوا۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان(HRCP)، صحافتی تنظیموں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (APNS)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (CPNE)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (PFUJ) اور دیگر تنظیموں نے صحافی سرل المیڈا کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان میں صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر عالمی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ 14اکتوبر کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے اے پی این ایس اور سی پی این ای کے مشترکہ وفدکی ملاقات کے بعد سرل المیڈا کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا۔ اس وفد میں سید سرمد علی، عمر شامی، ضیاء شاہد، اعجازالحق، مجیب الرحمن شامی اور عارف نظامی شامل تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔
صحافی کا نام ای سی ایل میں کیوں اور کس طرح ڈالا گیا تھا؟ اور مذکورہ خبر کے حوالے سے اب تک کیا تحقیقات ہوئی ہیں؟ اس بحث میں پڑے بغیر ہم یہ کہیں گے کہ وزیر داخلہ نے اے پی این ایس، سی پی این ای اور دیگر تنظیموں ، اداروں اور افراد کی بات مان کر اچھا کیا۔
میڈیا اور حکومت کے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں، فیصلوں، طرز حکومت پر خود کو کتنا جواب دہ سمجھتی ہے اور حکومتی افراد اور اداروں میں تنقید سننے اور اصلاح احوال کے لیے کتنی برداشت اور صلاحیت ہے؟
پاکستان میں حکومت اور پریس کے تعلقات کئی مواقعے پر خوشگوار نہیں رہے۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے نقطہ ہائے نظر ہیں۔ جب ایک سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے اور اخبارات اس کے نقطہ نظر اوراس کے لیڈروں کی سرگرمیوں کی کوریج کر رہے ہوتے ہیںتو وہ جماعت خود کو آزادی صحافت کا علمبردار اور چیمپئن قرار دیتے نہیں تھکتی۔ یہی جماعت جب برسر اقتدار آجائے تو آزادی صحافت کے لیے اس کی تعبیروتشریح بدل جاتی ہے۔حکومت اپنے نقطہ نظر کی زیادہ سے زیادہ اشاعت اور زیادہ سے زیادہ حمایت چاہتی ہے۔
یہاں تک تو کوئی غلط بات نہیں ہے۔ مسائل زیادہ تر اس وقت سامنے آتے ہیں جب حکومت اپنے نقطہ نظرکی اشاعت کے لیے یا اپنے لیے ناگوار موقف کی اشاعت روکنے کے لیے حکومتی ذرایع یا طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ترغیب و تحریص سے بھی کام لیا جاتا ہے اورمختلف اقسام کے دباؤ سے بھی۔ فوجی حکومتیں ہوں یا منتخب حکومتیں خبر کے لیے جَبر یا شَکر دونوں سے ہی کام لینے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
پاکستان میں صحافت کو صرف حکومت کی طرف سے ہی دباؤ کا سامنا نہیں رہا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت، یا کوئی تنظیم کسی اخبار یا ٹی وی سے ناراض ہوئی تو اس اخبار یا ٹی وی کو یا اس کے کارکنان کو اپنے عتاب کا نشانہ بنا ڈالا۔
آزادی اظہار اورآزادی صحافت ایک نہایت محترم انسانی حق ہے۔ تاہم یہ حق عوام اور ریاست کے کئی دیگرحقوق سے منسلک بھی ہے۔ ایک جمہوری ملک کے استحکام، ترقی اورخوش حالی کے لیے اختیارات کے ساتھ ساتھ جواب دہی کا نظام ہونا ضروری ہے۔ آزاد اور ذمے دار میڈیا جواب دہی کے نظام کا حصہ ہے۔ پاکستان میں میڈیا بالخصوص اخبارات نے آزادی صحافت کے لیے طویل اور بہت مشکل جدوجہد کی ہے۔
اس جدوجہد میں صحافیوں نے بہت قربانیاں دیں، کئی صحافیوں نے کوڑے کھائے، قید کاٹی، کئی صحافیوں نے شدید معاشی پریشانیوں کا سامنا کیا۔ سچ لکھنے کی پاداش میں یا حکومت کی مرضی پر چلنے سے انکار پرکئی اخبارات کو اشاعت کی معطلی، سرکاری اشتہارات کی بندش یا اشتہارات میں بہت زیادہ کمی اور نیوز پرنٹ پر حکومتی کنٹرول کے ذریعے سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان میں پہلی فوجی حکومت کے سربراہ جنرل ایوب خان کے دور میں 1963ء میں پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس(PPO) نافذ کیا گیا۔ اس سے پہلے 1959ء میںایوب حکومت نے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت میاں افتخار الدین کے ادارے پروگریسیو پیپر لمیٹڈ کے زیر اہتمام شایع ہونے والے پاکستان کے اس وقت کے بہت مقبول و معتبر انگریزی اخبار ڈیلی پاکستان ٹائمز، اردو اخبار روزنامہ امروز اور رسالے لیل و نہارپر قبضہ کرلیا۔ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس ایوب خان کی فوجی حکومت نے نافذ کیا تھا۔ لیکن اس آرڈیننس کو جنرل یحیٰی خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں برقرار رکھا گیا۔
اس بدنام زمانہ آرڈیننس کی منسوخی کے لیے اور پاکستان میں اخبارات کی اشاعت میں آسانیوں کے لیے صحافیوں، مالکان اور مدیران اخبارات کی طویل جدوجہد بالآخر ستمبر 1988ء میں رنگ لائی۔ جب قائم مقام صدرغلام اسحاق خان کے دور میں حکومت نے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس منسوخ کردیا اور اخبارات کی اشاعت کے لیے ڈیکلیریشن کے اجرا اور اخبار سے متعلق دیگر معاملات کے لیے رجسٹریشن آف پرنٹنگ اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس(RPPO)نافذ کیا۔ غلام اسحاق خان نہ تو فوجی حکمران تھے اور نہ ووٹوں کے ذریعے صدر منتخب ہوئے تھے۔
صدر ضیاء الحق کے انتقال کے وقت وہ چیئرمین سینیٹ ہونے کی وجہ سے آئین کے مطابق پاکستان کے قائم مقام صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ دنیا بھر میں پرائیوٹ ٹی وی چینلز عام ہورہے تھے لیکن پاکستان میں کسی جمہوری حکومت نے پرائیوٹ نیوزچینلز کی اجازت نہیں دی۔ یہ بڑا قدم فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اٹھایا۔ اس طرح ملک میں آزادی اظہار کی راہیں کھولنے کا بڑا کریڈٹ ایک قائم مقام صدرغلام اسحاق خان اور ایک فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کو جاتا ہے۔
پاکستان میں حکمرانوں کو بالعموم پریس سے ناراض ہی دیکھا گیا ہے۔ پاکستانی میڈیا خصوصاً پرنٹ میڈیا مجموعی طور پر ایک ذمے دار میڈیا ہے۔ پریس کے رویوں کا جائزہ لینے والوں کو ملک کے مخصوص سیاسی اور سماجی ماحول کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ پاکستانی معاشرے پرفیوڈل ازم کے اثرات کتنے ہیں؟ ملک میں تعلیم کی شرح کیا ہے؟ سرکاری اداروں میں میرٹ کا کیا حال ہے؟ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے اپنے اندرکتنی جمہوریت ہے؟سیاستدان ملک کو درپیش بڑے بڑے مسائل پر کتنی توجہ دیتے ہیں اور نان ایشو پرکتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
ریاستی اداروں میں سیاسی مداخلت کتنی ہے اور اس کا خمیازہ کسے بھگتنا پڑ رہا ہے؟ دہشت گردوں کے خلاف جنگ، امن و امان کے قیام اور ملکی معیشت کے استحکام کے لیے مختلف ادارے اور سیاسی جماعتیں کس قدر یکسو ہیں۔؟ مذہبی اور لبرل انتہا پسندی سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات کی ذمے داری کن کن افراد اور اداروں پر ہوگی؟ آئین پاکستان پر اس کے الفاظ اور درج کے مطابق عمل درآمد کی صورت حال کیا ہے؟ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251کے مطابق اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی اور(1973ء سے ) پندرہ سال کے اندر اردوکوپاکستان کے سرکاری اداروں میں نافذ کرنے کے لیے اقدامات کر لیے جائیں گے۔ چالیس سال سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود آئین کے آرٹیکل 251 پر عملدرآمد نہ ہونے کے بارے میں سوال کس کس سے پوچھا جائے۔؟
پاکستان میں حکومت اور ذرایع ابلاغ کے درمیان نہایت اہم معاملات پر مسلسل رابطوں کا فقدان ہے۔ مسئلہ کشمیر ہو، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، حالیہ آپریشن ضرب عضب ہو یا کئی دیگر اہم معاملات، پاکستانی پریس نے اپنا کردار بہت ذمے داری کے ساتھ ادا کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے عوام کی معاشی اور سماجی حالت میں بہتری کے لیے پاکستانی صحافت کو حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ تعاون ملنا چاہیے۔ ان بڑے مقاصد کے لیے حکومت اور پریس کے درمیان ادارہ جاتی سطح پر مسلسل رابطے بہت مفید ہوں گے۔ اقتدار اوراختیارکی راہداریوں میں بھی شک اور سازش کے بجائے اعتماد اور انحصار کی فضا قائم کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
بھونچال
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روزنامہ ایکسپریس
منگل 18 اکتوبر 2016
حکومت کا یہ اقدام ناصرف پاکستان بلکہ عالمی میڈیا میں بھی نمایاں طور پر شایع اور نشر ہوا۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان(HRCP)، صحافتی تنظیموں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (APNS)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (CPNE)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (PFUJ) اور دیگر تنظیموں نے صحافی سرل المیڈا کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان میں صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر عالمی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ 14اکتوبر کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے اے پی این ایس اور سی پی این ای کے مشترکہ وفدکی ملاقات کے بعد سرل المیڈا کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا۔ اس وفد میں سید سرمد علی، عمر شامی، ضیاء شاہد، اعجازالحق، مجیب الرحمن شامی اور عارف نظامی شامل تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔
صحافی کا نام ای سی ایل میں کیوں اور کس طرح ڈالا گیا تھا؟ اور مذکورہ خبر کے حوالے سے اب تک کیا تحقیقات ہوئی ہیں؟ اس بحث میں پڑے بغیر ہم یہ کہیں گے کہ وزیر داخلہ نے اے پی این ایس، سی پی این ای اور دیگر تنظیموں ، اداروں اور افراد کی بات مان کر اچھا کیا۔
میڈیا اور حکومت کے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں، فیصلوں، طرز حکومت پر خود کو کتنا جواب دہ سمجھتی ہے اور حکومتی افراد اور اداروں میں تنقید سننے اور اصلاح احوال کے لیے کتنی برداشت اور صلاحیت ہے؟
پاکستان میں حکومت اور پریس کے تعلقات کئی مواقعے پر خوشگوار نہیں رہے۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے نقطہ ہائے نظر ہیں۔ جب ایک سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے اور اخبارات اس کے نقطہ نظر اوراس کے لیڈروں کی سرگرمیوں کی کوریج کر رہے ہوتے ہیںتو وہ جماعت خود کو آزادی صحافت کا علمبردار اور چیمپئن قرار دیتے نہیں تھکتی۔ یہی جماعت جب برسر اقتدار آجائے تو آزادی صحافت کے لیے اس کی تعبیروتشریح بدل جاتی ہے۔حکومت اپنے نقطہ نظر کی زیادہ سے زیادہ اشاعت اور زیادہ سے زیادہ حمایت چاہتی ہے۔
یہاں تک تو کوئی غلط بات نہیں ہے۔ مسائل زیادہ تر اس وقت سامنے آتے ہیں جب حکومت اپنے نقطہ نظرکی اشاعت کے لیے یا اپنے لیے ناگوار موقف کی اشاعت روکنے کے لیے حکومتی ذرایع یا طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ترغیب و تحریص سے بھی کام لیا جاتا ہے اورمختلف اقسام کے دباؤ سے بھی۔ فوجی حکومتیں ہوں یا منتخب حکومتیں خبر کے لیے جَبر یا شَکر دونوں سے ہی کام لینے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
پاکستان میں صحافت کو صرف حکومت کی طرف سے ہی دباؤ کا سامنا نہیں رہا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت، یا کوئی تنظیم کسی اخبار یا ٹی وی سے ناراض ہوئی تو اس اخبار یا ٹی وی کو یا اس کے کارکنان کو اپنے عتاب کا نشانہ بنا ڈالا۔
آزادی اظہار اورآزادی صحافت ایک نہایت محترم انسانی حق ہے۔ تاہم یہ حق عوام اور ریاست کے کئی دیگرحقوق سے منسلک بھی ہے۔ ایک جمہوری ملک کے استحکام، ترقی اورخوش حالی کے لیے اختیارات کے ساتھ ساتھ جواب دہی کا نظام ہونا ضروری ہے۔ آزاد اور ذمے دار میڈیا جواب دہی کے نظام کا حصہ ہے۔ پاکستان میں میڈیا بالخصوص اخبارات نے آزادی صحافت کے لیے طویل اور بہت مشکل جدوجہد کی ہے۔
اس جدوجہد میں صحافیوں نے بہت قربانیاں دیں، کئی صحافیوں نے کوڑے کھائے، قید کاٹی، کئی صحافیوں نے شدید معاشی پریشانیوں کا سامنا کیا۔ سچ لکھنے کی پاداش میں یا حکومت کی مرضی پر چلنے سے انکار پرکئی اخبارات کو اشاعت کی معطلی، سرکاری اشتہارات کی بندش یا اشتہارات میں بہت زیادہ کمی اور نیوز پرنٹ پر حکومتی کنٹرول کے ذریعے سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان میں پہلی فوجی حکومت کے سربراہ جنرل ایوب خان کے دور میں 1963ء میں پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس(PPO) نافذ کیا گیا۔ اس سے پہلے 1959ء میںایوب حکومت نے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت میاں افتخار الدین کے ادارے پروگریسیو پیپر لمیٹڈ کے زیر اہتمام شایع ہونے والے پاکستان کے اس وقت کے بہت مقبول و معتبر انگریزی اخبار ڈیلی پاکستان ٹائمز، اردو اخبار روزنامہ امروز اور رسالے لیل و نہارپر قبضہ کرلیا۔ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس ایوب خان کی فوجی حکومت نے نافذ کیا تھا۔ لیکن اس آرڈیننس کو جنرل یحیٰی خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں برقرار رکھا گیا۔
اس بدنام زمانہ آرڈیننس کی منسوخی کے لیے اور پاکستان میں اخبارات کی اشاعت میں آسانیوں کے لیے صحافیوں، مالکان اور مدیران اخبارات کی طویل جدوجہد بالآخر ستمبر 1988ء میں رنگ لائی۔ جب قائم مقام صدرغلام اسحاق خان کے دور میں حکومت نے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس منسوخ کردیا اور اخبارات کی اشاعت کے لیے ڈیکلیریشن کے اجرا اور اخبار سے متعلق دیگر معاملات کے لیے رجسٹریشن آف پرنٹنگ اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس(RPPO)نافذ کیا۔ غلام اسحاق خان نہ تو فوجی حکمران تھے اور نہ ووٹوں کے ذریعے صدر منتخب ہوئے تھے۔
صدر ضیاء الحق کے انتقال کے وقت وہ چیئرمین سینیٹ ہونے کی وجہ سے آئین کے مطابق پاکستان کے قائم مقام صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ دنیا بھر میں پرائیوٹ ٹی وی چینلز عام ہورہے تھے لیکن پاکستان میں کسی جمہوری حکومت نے پرائیوٹ نیوزچینلز کی اجازت نہیں دی۔ یہ بڑا قدم فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اٹھایا۔ اس طرح ملک میں آزادی اظہار کی راہیں کھولنے کا بڑا کریڈٹ ایک قائم مقام صدرغلام اسحاق خان اور ایک فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کو جاتا ہے۔
پاکستان میں حکمرانوں کو بالعموم پریس سے ناراض ہی دیکھا گیا ہے۔ پاکستانی میڈیا خصوصاً پرنٹ میڈیا مجموعی طور پر ایک ذمے دار میڈیا ہے۔ پریس کے رویوں کا جائزہ لینے والوں کو ملک کے مخصوص سیاسی اور سماجی ماحول کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ پاکستانی معاشرے پرفیوڈل ازم کے اثرات کتنے ہیں؟ ملک میں تعلیم کی شرح کیا ہے؟ سرکاری اداروں میں میرٹ کا کیا حال ہے؟ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے اپنے اندرکتنی جمہوریت ہے؟سیاستدان ملک کو درپیش بڑے بڑے مسائل پر کتنی توجہ دیتے ہیں اور نان ایشو پرکتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
ریاستی اداروں میں سیاسی مداخلت کتنی ہے اور اس کا خمیازہ کسے بھگتنا پڑ رہا ہے؟ دہشت گردوں کے خلاف جنگ، امن و امان کے قیام اور ملکی معیشت کے استحکام کے لیے مختلف ادارے اور سیاسی جماعتیں کس قدر یکسو ہیں۔؟ مذہبی اور لبرل انتہا پسندی سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات کی ذمے داری کن کن افراد اور اداروں پر ہوگی؟ آئین پاکستان پر اس کے الفاظ اور درج کے مطابق عمل درآمد کی صورت حال کیا ہے؟ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251کے مطابق اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی اور(1973ء سے ) پندرہ سال کے اندر اردوکوپاکستان کے سرکاری اداروں میں نافذ کرنے کے لیے اقدامات کر لیے جائیں گے۔ چالیس سال سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود آئین کے آرٹیکل 251 پر عملدرآمد نہ ہونے کے بارے میں سوال کس کس سے پوچھا جائے۔؟
پاکستان میں حکومت اور ذرایع ابلاغ کے درمیان نہایت اہم معاملات پر مسلسل رابطوں کا فقدان ہے۔ مسئلہ کشمیر ہو، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، حالیہ آپریشن ضرب عضب ہو یا کئی دیگر اہم معاملات، پاکستانی پریس نے اپنا کردار بہت ذمے داری کے ساتھ ادا کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے عوام کی معاشی اور سماجی حالت میں بہتری کے لیے پاکستانی صحافت کو حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ تعاون ملنا چاہیے۔ ان بڑے مقاصد کے لیے حکومت اور پریس کے درمیان ادارہ جاتی سطح پر مسلسل رابطے بہت مفید ہوں گے۔ اقتدار اوراختیارکی راہداریوں میں بھی شک اور سازش کے بجائے اعتماد اور انحصار کی فضا قائم کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روزنامہ ایکسپریس
منگل 18 اکتوبر 2016
Source Link