گڈانی اورلانڈھی حادثات۔ انتظامی ایمرجنسی

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

گڈانی اورلانڈھی حادثات۔ انتظامی ایمرجنسی


گزشتہ ہفتے بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں انسانی غفلت اور نااہلی کی وجہ سے پے درپے ایسے المناک حادثات پیش آئے جن میں غریب مزدور اوردیگر عام لوگ اپنی جانوں سے محروم ہوئے۔ کراچی میں لانڈھی کے مقام پر زکریا ایکسپریس اسٹیشن پر کھڑی ہوئی فرید ایکسپریس سے جاٹکرائی۔اس حادثے میں 22مسافر جاں بحق ہوئے اور60 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔لاہوروگردونواح میں انسانی صحت کے لیے مہلک زہریلی دھندکی وجہ سے معمولاتِ زندگی شدید متاثرہوئے، دھند کی وجہ سے  سڑکوں پر حادثات میں 20سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ دھند کی وجہ سے شدید بیمارپڑنے والے افرادکی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔اس دھند کوکوئی قدرتی آفت نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کے اسباب بھی انتظامی نااہلی میں تلاش کرنے چاہئیں۔

بلوچستان کے ساحلی شہرگڈانی میں غربت کے ستائے، معصوم لوگ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے آئے تھے لیکن 24  سے زائد غریب جانوں کی بے قدری، بدانتظامی، نااہلی اورہوس کا ایندھن بن گئے۔ لاپتہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔گڈانی کا دل دہلا دینے والا سانحہ کوئی نیا یا انوکھا دلخراش واقعہ نہیں ہے۔ وہاں تو آئے دن غریب مزدور حادثات کا شکار ہوکر موت یا زخموں اورمعذوری کا سامنا کرتے رہتے ہیں ۔
مقامی طور پر ہونے والے ایسے سانحات نہ قومی اخبارات میں کوئی نمایاں جگہ حاصل کرپاتے ہیں نہ ہی الیکٹرانک میڈیا میں۔کسی سانحے کی مقامی اخبارات میں کبھی کوئی چھوٹی سی خبر آجاتی ہے۔ اس کے بعد بس… اگلے سانحے کا انتظار۔ گڈانی میں غریب مزدوروں پر قیامت صغریٰ کا گزرجانا میڈیا کی بروقت مناسب توجہ بھی نہ پاسکا۔ وجہ یہ رہی کہ ناظرین کو اسلام آباد میں ہونے والے واقعات دکھانا زیادہ ضروری سمجھے گئے تھے۔ پاکستان میں غریبوں اور مزدوروں کی زندگی کتنے مسائل اورمصائب میں گزررہی ہے خوش حال طبقات کو شاید اس کے عشرعشیر کا اندازہ بھی نہیں ہے۔
حکومتوں کے دو بڑے فرائض ہیں۔(1) ملک بھر میں عوام کے تحفظ کے لیے امن و امان کا قیام۔ (2) عوام کے لیے روزگار اورخوش حالی کے اقدامات۔ پاکستان میں جمہوری حکومتیں یا فوجی ادوار ، ان دو بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے کیے گئے اقدامات سب کے سامنے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوام کی فلاح اورملکی ترقی کے وعدوں کے ساتھ عوام سے ووٹ کی طلبگار ہوتی ہیں۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے پاس اس کی وسعت کے مطابق موجود دوچار، آٹھ دس، پچیس تیس افراد اپنی جماعت کی ذرایع ابلاغ میں نمایندگی کرتے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے یہ نمایندگان سب سے زیادہ تو اپنی پارٹی کے قائد کے قصیدے پڑھتے اوران کی زیادہ سے زیادہ امیج بلڈنگ میں کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے بعد مختلف معاملات پر وقت کی ضرورت کے مطابق اپنی پارٹی کے موقف کی تائید میں مصروف رہتے ہیں۔
یعنی اگر وہ جماعت برسراقتدار ہے تو حکومتی ہراقدام کو درست اور جمہوریت کے حق میں قراردیا جائے گا۔ وہ جماعت حزبِ مخالف میں ہے تو اس کی نظر میں ہر حکومتی اقدام غلط اور جمہوریت کے لیے خطرہ یا تشویش کا باعث ہوگا۔ نہایت فکر مندی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ملک کو درپیش سیاسی، مالیاتی، دفاعی، سماجی، تعلیمی، صنعتی، زرعی، تجارتی اوردیگر مسائل کے ادراک کے لیے کوئی  نظام نہیں۔ قوم کو درپیش مسائل حل کرنے کی استعداد بڑھانے کے لیے اپنے لیڈروں اورکارکنوں کی تعلیم  اور تربیت کا کوئی نظام بھی برسر عمل نہیں ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت مزدوروں کے حقوق کے نعرے بلند کرتی ہے لیکن عملی طور پر مزدوروں کے حالات بہتر بنانے کے لیے کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی واضح پروگرام موجود نہیں۔
سستی لیبرکی وجہ سے پاکستان سرمایہ کاروں کے لیے ایک پرکشش ملک رہا ہے لیکن ہمارے پالیسی ساز اور ہماری سیاسی جماعتیں ملک میں لیبرکی باافراط موجودگی کو ملک کو تیز رفتار ترقی کا ذریعہ نہ بنا سکیں۔ حکومت کی جانب سے گاہے بگاہے غیر معقول ٹیکسز نے کئی صنعتوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ بجلی اورگیس کے بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے کئی صنعتوں میں پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی، کئی صنعتیں بند ہوگئیں یا پاکستان سے باہر منتقل ہوگئیں۔ ان سب کاموں کا حتمی نتیجہ مزدوروں کی بڑے پیمانے پر بے روزگاری کی شکل میں ظاہر ہوا۔

اس بے روزگاری نے پاکستان میں مزدورکی قدر اور اجرت میں مزید کمی کردی۔ انتہائی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں مزدورکئی لازمی حقوق سے محروم ہیں۔ مزدور انتہائی دشوار اور صحت اور جان کے لیے خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔کام کے مقامات پر ہر مزدور کے لیے حسب ضرورت ہیلمیٹ، دستانے، حفاظتی بیلٹس، مناسب لباس، جوتے، مناسب آلات کی فراہمی اور دیگر حفاظتی انتظامات  یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ مزدورکسی بڑے ادارے میں ملازم ہو یا پھر دیہاڑی لگاکر روزانہ کی بنیاد پر اپنے بچوں کے لیے روٹی کمانے والا ہو، تعمیراتی صنعت میں خدمات سرانجام دینے والے مزدور ہوں یا اینٹوں کے بھٹوں پرکام کرنے والے پتھیرے، بھرائی والے، مستری یا مزدور ہوں۔
سڑک پرکام کرنے والے ہوں ، زیر زمین پائپ لائنیں بچھانے والے ہوں، کپڑے، قالین، فٹ ویئر، خراد مشینوں اور دیگر شعبوں میں ہاتھ سے کام کرنے والے ہنر مند ہوں ، رکشہ ٹیکسی  بس کے ڈرائیور،کنڈیکٹر یا کلینر ہوں ۔گھروں میں کھانا پکانے برتن دھونے، صفائی کے کام کرنے والے مرد یا خواتین ہوں غرض کسی بھی جگہ دیہاڑی یا تنخواہ پرکام کرنے والے محنت کش ہوں ۔حکومت کو ہر محنت کش کی رجسٹریشن اوراس کے لیے کم ازکم چند بنیادی سہولتوں کا اہتمام لازمی اور فوری طور پر کرلینا چاہیے۔مزدوروں کی عزت نفس کا احترام اور مزدور کے تحفظ کے لیے اربوں روپے کے فنڈزدرکار نہیں ہیں۔ اس کام کے لیے جذبے اورعزم کی ضرورت ہے۔ انسانوں کے احترام کے جذبے اورحقوق العباد کی ادائیگی کے عزم کی ضرورت ہے۔
سرمایہ دار اپنا سرمایہ صنعت میں لگائے، تجارت میں یا خدمات کے شعبے میں،اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمائے۔ زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں کئی افراد اورادارے انسانی وسائل کی ترقی کو بھی نظر اندازکرنے لگتے ہیں۔کتنے ہی شعبے ایسے ہیں جہاں سرمایہ کارکروڑوں اربوں روپے کمارہے ہیں لیکن وہ اپنے لیے دولت کمانے والے غریب انسانوں کی محنت کا صحیح اجر انھیں ادا نہیں کر رہے۔  اس ناانصافی اور حق تلفی کا ازالہ حکومت کی ذمے داری ہے۔
ریلوے لائن اورسڑکوں پر حادثات بھی کوئی قدرتی آفت نہیں،ان حادثات کا سبب بھی انسانی غفلت اور مناسب حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں 300کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ رفتار سے روزانہ ہزاروں ٹرینیں ایک شہر سے دوسرے شہر باحفاظت آتی جاتی ہیں۔ سڑکوں پر بھی روزانہ لاکھوں وہیکلز باحفاظت محو سفر رہتی ہیں۔ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟

پاکستان میں تو ریلوے حادثات ایسا لگتا ہے کہ ایک معمول بن گئے ہیں۔ گزشتہ تین سال میں  سے زیادہ بڑے ٹرین حادثات  ہوئے جن میں سو سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ پاکستان میں ریلوے کے چھوٹے بڑے حادثات کا تناسب فی سال 175 ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ٹرین حادثے کے بعد آیندہ حادثہ نا ہونے کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے حادثے کی تحقیقات کا محض رسمی اعلان کردیا جاتا ہے یا سزا کے لیے کسی کمزورکو نشانہ بنالیا جاتا ہے۔
گڈانی کا سانحہ ہو، لانڈھی کا حادثہ ہو،لاہور کے گردو نواح میں زہریلی دھند کا پھیلنا ہو یا ملک میں ہونے والے دیگر حادثات یہ سب اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں اور انتظامی اداروں کو پبلک مینجمنٹ ، ایڈمنسٹریشن، سیفٹی پری کاشن، ڈزاسٹر مینجمنٹ، پبلک ہیلتھ،  ماحولیاتی آگہی  اور دیگر انتظامی امور میں جدید تقاضوں سے واقفیت اور اس کے مطابق اپنی استعداد بنانے کی ضرورت ہے۔ عوام کے تحفظ اورفلاح کے لیے ’’انتظامی ایمرجنسی ‘‘ نافذ کرکے مختلف شعبوں میں اصلاحی کام فوراً شروع کردینا چاہیے ۔



گڈانی اورلانڈھی حادثات۔ انتظامی ایمرجنسی
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
منگل 8 نومبر 2016
روزنامہ ایکسپریس 
Source Link
  1. Express. pk
  2. Express Epaper 

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے