شاہ است حسین
ہدیہ عقیدت بحضور سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہہ
شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
(خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ)
کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین
چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین
(جوش ملیح آبادی)
(جوش ملیح آبادی)
قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا
(مولانا محمد علی جوہر )
(مولانا محمد علی جوہر )
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ
(علامہ اقبال )
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے مِیری
میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبیری
(علامہ اقبال )
(علامہ اقبال )
گلشنِ دہر بھی ہے کوئی سرائے ماتم
شبنم اس باغ میں جب آئے تو گریاں آئے
غمِ شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگیں
(مرزا غالب )
(مرزا غالب )
یہ شہادت ہے اس انسان کی اب حشر تلک
آسمانوں سے صدا آئے گی انساں انساں
(احمد ندیم قاسمی )
(احمد ندیم قاسمی )